عنوان اپنا اپنا

اس روز جب دن اور رات آپس کی جدائی ختم کر کے ملنے کے لیے ایک دوسرے کی طرف سِرک...

h.sethi@hotmail.com

اس روز جب دن اور رات آپس کی جدائی ختم کر کے ملنے کے لیے ایک دوسرے کی طرف سِرک رہے تھے تو میرا بچپن کا دوست ملک داؤد اداس صورت لیے میرے گھر آن پہنچا۔ جب وہ اس انداز میں ڈوبتے سورج کے وقت میری طرف آتا ہے تو مجھے اندازہ ہو جاتا ہے کہ آج اس نے پیٹ بھر کر ٹی وی چینلز دیکھے ہیں اور دو تین اخباروں کی خبروں اور اشتہاروں سے لے کر اداریے اور کالم تک چاٹے ہیں اور اس کی حالت غیر ہونے کے آخری مراحل میں ہے ۔ اگرچہ میں نے اسے لطائف کی ایسی کئی کتابیں عطیہ کی ہیں جنھیں پڑھ کر بے حد خشک مزاج انسان بھی ہنسی سے لوٹ پوٹ ہو جائے لیکن وہ ان کی طرف متوجہ ہونے کی بجائے میری طرف چلا آتا ہے۔ اس روز بجائے ملتے ہی کوئی دُکھڑا پھولنے کے اس نے ایک شعر داغ کر مجھ سے پوچھا ''یہ شعر کیا ظاہر کرتا ہے''۔

دل تو میرا اداس ہے ناصرؔ

شہر کیوں سائیں سائیں کرتا ہے

چونکہ میں اس وقت گالف گراؤنڈ سے بہت اچھا کھیل کر اور مخالفوں کے چھکے چھڑا کر گھر پہنچا تھا اس لیے ہائی اسپرٹ میں اور خوش تھا اس لیے ملک داؤد سے کہا کہ دیکھو میں بھی اسی شہر کی سڑکوں سے گزر کر آیا ہوں کسی جگہ سائیں سائیں کی آواز نہیں سنی دراصل یہ ورزش' کھیل اور جیت نے مل کر مجھے خوشی دی جب کہ تم نے آج ہر جگہ افسردگی' ناامیدی اور شکست خوردگی میں دن گزارا، اسلیے اداسی نے تم پر ایسا حملہ کیا کہ تم نے سارے ماحول کو اپنے محسوسات جیسا پا کر سائیں سائیں کرتا پایا۔ یہ اکیلے تمہی نہیں آج ملک کے بے شمار افراد مایوسی کی دلدل میں دھنسے چلے جا رہے ہیں۔ اس لیے ہم سب کو کمر کس کر اپنی مثبت سوچ اور عمل کے ذریعے اپنی نفسیات کو درست کرنا اور نا امیدی کو شکست دینا ہو گی۔

میں نے اپنے دوست کے لیے چائے منگوائی اور کہا کہ تم نے تو ناصر کاظمی کا ایک شعر سنا کر اپنی دلی اور ذہنی کیفیت بتائی ہے میں اس شاعر بے بدل سے اپنی پہلی ملاقات کا ذکر کروں گا۔ میں لاء کالج میں تھا ایک روز اپنے انکل سے جو میو اسپتال کے ڈاکٹر اور AVH وارڈ میں تعینات تھے ملنے چلا گیا۔ شام کا وقت تھا انھوں نے وارڈ کے باہر پودوں کی کیاری کے پاس تین کرسیاں لگوائیں وارڈ بوائے کو چائے کے لیے کہا اور بتایا کہ ناصر کاظمی یہاں بوجہ علالت داخل ہیں ہم ہر شام اکٹھے چائے پیتے ہیں وہ ابھی آ کر شامل ہوں گے۔ اسی اثنا میں کاظمی صاحب آ گئے میں نے سلام کیا۔ پھر میری نظر سامنے آسمان پر ابھرتے چاند پر پڑی تو کاظمی صاحب کا شعر پڑھ دیا؎

چاند نکلا تو ہم نے وحشت میں

جس کو دیکھا اسی کو چوم لیا

ناصر کاظمی صاحب کو جیسے خوشی کا کرنٹ لگا اٹھے اور مجھے گلے لگا کر کہنے لگے میری آدھی بیماری تو آپ سے مل کر شعر سن کر اور چاند کو دیکھ کر دور ہو گئی ہے۔


آج کل ایمان افروز پیغامات اور فحش لطائف بذریعہ موبائیل فون ایک دوسرے کو بھیجنے کا شغل عام ہے۔ افسردہ دوست کے بیٹھنے کے دوران ہی مجھے ایک SMS آیا جو میں نے اسے پڑھ کر سنایا۔ ''یااللہ جب میں مایوس ہو جاؤں کہ میری دعائیں قبول نہیں ہوتیں تو یہ یاد کرنے میں میری مدد فرما کہ تیری رحمت میری مایوسیوں سے کہیں زیادہ ہے اور میری زندگی کے بارے میں تیرے فیصلے میری خواہشوں سے بہتر ہیں۔'' جب میں نے SMS پڑھ کر سنا دیا تو چائے بھی ختم ہو چکی تھی۔ اب میرا دوست ملک داؤد مسکراتا ہوا اٹھ کر کھڑا ہو گیا اور بولا۔ ''اجازت چاہتا ہوں تم ٹھیک کہہ رہے تھے اس وقت تو موسم بھی بڑا خوشگوار ہے اور مجھے کئی د ن سے لٹکے ہوئے کام بھی یاد آ رہے ہیں۔ آج انھیں نمٹاؤں گا اور سائیں سائیں کی آواز بھی کسی طرف سے نہیں آ رہی''۔

اس روز تو صرف میرے پاس ایک گھنٹہ تک بیٹھ کر چائے پی کر اور باتیں کرنے کے بعد خوشی خوشی میرا یہ دوست رخصت ہو گیا تھا لیکن دو ہی دن گزرے ہوں گے کہ اس کا ٹیلیفون آیا کہ وہ اتنا افسردہ ہے کہ خود گھر سے باہر بھی نہیں نکلے گا۔ اس لیے میں فوراً اس کے پاس پہنچ جاؤں۔

میں یہ سوچ کر گھر سے نکلا کہ ملک کے دیگر عوام کی طرح وہ بھی بڑھتی ہوئی لاقانونیت' گرانی' لوڈشیڈنگ' کرپشن' بری حکمرانی اور دہشت گردی ہی کا رونا روئے گا۔ جن کا تدارک نہ حکمرانوں کی priority ہے نہ میرے بس کی بات اس لیے میں نے معروف ماہر نفسیات مردولا اگر وال کی کتاب جس کا ترجمہ شکیل احمد نے بڑی خوبصورتی سے اور آسان اردو میں کیا ہے ساتھ لے لی کہ اس دوست کی دکھ بھری کہانیاں سن کر خود بھی رنجیدہ ہونے سے بہتر ہے کہ اسے کتاب عاریتہً دے کر ایک دن کے بعد اس کی واپسی کی شرط کے ساتھ پندرہ منٹ میں چائے کا پیالہ پی کر وہاں سے لوٹ آؤں گا تا کہ وہ یقینی طور پر کتاب کا مطالعہ کر لے۔ وہ مجھے مکان کے دروازے ہی پر منتظر ملا۔ اس کے پاس بیٹھ کر چائے کا پیال ختم کر کے میں نے اپنے پلان کے مطابق کتاب اس کے حوالے کی اس کا مطالعے پر اصرار کیا اور کہا کہ کل اس کتاب میں درج نسخوں پر گفتگو ہو گی۔ اس نے دریافت کیا کہ میں نے خود یہ کتاب پڑھی ہے میں نے اثبات میں سر ہلایا تو اس نے مجھے پکڑ کر بٹھا لیا اور کہا کہ ''جس جس نسخے نے تمہیں فائدہ پنچایا ہے وہ ابھی سے مجھے بھی بتا اور سمجھا دو تا کہ میں پوری کتاب پڑھنے کے تردد سے بچ کر خود کو شافی نسخوں تک محدود رکھوں اور بقول تمہارے جینے اور خوش رہنے کی عادت اپنا سکوں۔''

جب ذمے داری مجھی پر آن پڑی تو میں نے ملک داؤد کو بتایا کہ خوشی اور اطمینان دراصل ایک احساس کا نام ہے اور دل اور روح کی راحت ایک ایسا اندرونی احساس ہے جو غلط ذرائع سے حاصل نہیں ہو سکتا۔ ہر کسی کا خوش رہنے کا اپنا اور الگ طریقہ ہے۔ حقیقی طور پر خوش انسان صرف قہقہے نہیں لگاتا صرف مسکرا دینا بھی کافی ہوتا ہے اور وہ دکھاوا نہیں ہوتا اور کیونکہ خوش رہنے والے بے حس نہیں ہوتے رو کر بھی ذہنی تناؤ ختم کر لیتے ہیں۔ سچی خوشی کے لیے ہمیں ایماندار بننا پڑے گا اور جو بھی عمل کریں دل کی گہرائیوں سے کریں جب کہ خوشی صرف نیکی پر تعمیر ہو سکتی ہے اور سچ اس کی بنیاد ہوتا ہے۔ میں نے اسے بتایا کہ خوشی میں خود غرضی شامل نہیں ہو سکتی اور خوشی پھیلانے سے بڑھتی ہے اور خوشی دینے والے کے پاس ہمیشہ لوٹ کر آتی ہے۔ دوسرے الفاظ میں یہ ایسا احساس ہے جو بانٹنے سے بڑھتا ہے۔

ایک چیز ذہن میں رہے کہ اپنی رحمتوں کی گنتی ہمیشہ پیش نظر رکھیں کیونکہ پریشان آدمی صرف مصیبتوں کا ذکر کرتا ہے خدا کے فضلوں کو بھول جاتا ہے۔ زیادہ اور مزید حاصل کرنے کی دوڑ میں حاصل کو مت بھولیں کیونکہ اس طرح آپ جو کچھ موجود ہے اس کے حوالے سے ناشکرے کہلا سکتے ہیں کیونکہ شکر اور قناعت خوشیاں حاصل کرنے کے دو دروازے ہیں۔ میں نے داؤد سے کہا کہ جو آپ تبدیل کر سکتے ہو وہ ضرور کریں اور اس کو قبول کریں جو آپ تبدیل نہیں کر سکتے۔ بہتری کا عمل جاری رکھیں لیکن ناگزیر کے ساتھ مقابلہ وقت اور توانائی کا ضیاع ہے۔ چھوٹی چھوٹی باتوں یا تنقید سے پریشان نہ ہوں کیونکہ فکر اور خوشی ساتھ ساتھ نہیں رہ سکتے۔

ابھی اتنی ہی باتیں ہوئی تھیں کہ ملک داؤد نے ہاتھ اٹھا دیے اور کہا مجھے اتنا کچھ ہضم کرنے میں وقت لگے گا۔ میں خوش ہوں کہ تم نے میرے لیے فی الفور وقت نکالا۔ میں نے بھی اجازت لینے سے پہلے شعر پڑھا۔

دوست آں باشد کہ گیرد دستِ دوست

در پریشاں حالی و درماندگی
Load Next Story