آپ اختلاف کرسکتے ہیں
’’ایک تو ہے، منظر نامہ جو سامنے ہے، جو نظر آرہا ہے، اسے دیکھ کر اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہیں...
''ایک تو ہے، منظر نامہ جو سامنے ہے، جو نظر آرہا ہے، اسے دیکھ کر اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہیں، غصہ کرتے ہیں، کڑھتے ہیں، جلتے ہیں، وغیرہ۔ لیکن اس کے پیچھے بھی کچھ ہورہا ہوتا ہے اور وہی اصل کہانی ہوتی ہے۔ اہم بات یہ نہیں کہ کیا ہورہا ہے، اہم سوال یہ ہے کہ جو ہورہا ہے یہ کون کر رہا ہے اور کیوں کررہا ہے؟ یہ جاننے کے بعد ہی ہم اصل مقصد تک پہنچ پاتے ہیں اور یہ سمجھنے کے لیے ہمیں چیزوں کا پوسٹ مارٹم کرنا پڑتا ہے، الجھی ہوئی گتھی کو سلجھانے کے لیے پس منظر میں جھانکنا پڑتا ہے...'' یہاں رک کر وہ اِدھر اُدھر دیکھنے لگے۔ کچھ دیر کے لیے ان کے تاثرات سے لگا کہ شاید وہ اپنی بات کی وضاحت کرنے کے لیے کچھ سوچ رہے ہیں۔ میں اور میرا دوست متجسس نگاہوں سے ان کی طرف دیکھتے رہے۔
ذرا سے توقف کے بعد وہ پھر گویا ہوئے ''جس دھرتی پر ہم رہتے ہیں، یہ اپنے ساحلی وسائل کے لحاظ سے دنیا کے امیر ترین خطوں میں شمار ہوتی ہے، اب تو اس کا اعتراف ساری دنیا کرچکی ہے اور اس پر جتنے عذاب پڑرہے ہیں اس کا سبب بھی اس کا یہی حسن ہے، اتنا طویل ساحل، ایسی شاندار مارکیٹ کے ذرائع آمدورفت اور اس قدر واضح و قیمتی معدنی وسائل شاید ہی دنیا میں کسی کے پاس ہوں جتنے اس خطے کے پاس ہیں لیکن اس کی دولت سے ہم اور آپ بے خبر ہیں اور جنہیں خبر ہے وہ اسے بیچتے رہتے ہیں ۔''
''وہ کیسے؟''
اس مختصر سوال کے جواب میں وہ کہنے لگے ''یہ جو وسائل آج ظاہر ہورہے ہیں، گورے انگریزوں کو سو سال پہلے ان کا علم تھا، اس لیے یہاں حکمرانی کے دوران انھوں نے ان وسائل کو زمین میںدبائے رکھا تاکہ آپ اس سے مستفید نہ ہوسکیں اور وقت آنے پر وہ ان وسائل کو اپنے استعمال میں لاسکیں، یہ ایک اتفاق کی بات ہے کہ دوسری عالمی جنگ کے نتیجے میں غیر متوقع طور پر انھیں یہاں سے جانا پڑگیا لیکن سونے کی اس چڑیا پر سے ان کی نظریں کبھی نہیں ہٹیں، اس لیے ان وسائل پر قبضے کے لیے وہ اپنے ایجنٹوں کے ذریعے یہاں سرگرم ہیں۔ یہ ایجنٹ جو بظاہر تو ہم میں سے ہی ہیں لیکن درحقیقت انگریز بہادر کے لیے ہی کام کر رہے ہیں۔ اس لیے جس حکومت یا حکمرانوں کو ہم برا کہہ رہیں ہوتے ہے وہ دراصل حکمران نہیں بلکہ ان کے ایجنٹ ہوتے ہیںجو ہمارے اصل دشمن ہیں۔''
'' لیکن اگر مار ہی کھانی ہے تومڈل مین کے ہاتھوں بندہ کیوں پٹے؟ پھر کم ازکم مڈل مین سے تو چھٹکارا حاصل کرلیا جائے!''
ہماری یہ بات انھیں خاصی نا گوار گزری اور وہ ناک بھوں چڑھاتے ہوئے کہنے لگے ''یہی تو نوجوان نسل کی خامی ہے کہ ایک دم جذباتی ہوجاتی ہے۔ تمہارے نزدیک حاکمیت کا مطلب کیا ہے؟ میرے نزدیک اس کا اصل مقصد ہے اپنے نفع و نقصان کا فیصلہ کرنے کا اختیار اور اپنے وسائل پر حقِ ملکیت! آسمان سے گر کرکھجور میں اٹکا جاتا ہے، کھجور سے نکل کر آسمان پر جاکر اٹکنے کا بھلا کیا فائدہ؟ ایک فیڈریشن سے علیحدہ ہو کر سامراج کی گود میں بیٹھنا ایک اور ذلت آمیز غلامی ہے جس کا خمیازہ آج عراقی عوام بھگت رہے ہیں۔''
غصہ کچھ کم ہوا توذرا سے توقف کے بعدبولے ''ہمیں جنگیں لڑنے کے بجائے ایک ہی جنگ لڑنا ہوگی، دشمن کے ایجنٹ سے لڑنے کے بجائے اصل دشمن کے خلاف اپنی قوت استعمال کرنا ہوگی، اس خطے کی قسمت کا فیصلہ تین عالمی طاقتوں چین، یورپ اور امریکا نے کرنا ہے، یہ سونے کی چڑیا کس کے حصے میں جائے گی، وہ ایسا فیصلہ کر نے کی جانب پیش رفت کا آغاز کر چلے ہیں، باقی سب اس کھیل کے مہرے ہیں۔''
''تو پھر ادارے اعلیٰ سطح کی ڈسٹربنس پیدا کرکے آخر کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں؟'' میرے دوست نے سوال پوچھا۔
وہ زیر لب مسکرائے اور بولے ''یہ بیچارے کیا چاہیں گے کہ بندوق کسی اور کے ہاتھ میں ہے۔ یہ تو وہ کندھے ہیں جن پر رکھ کر بندوق چلائی جارہی ہے، یہ کچھ نہیں کرسکتے۔ ان سے سب کچھ کروایا جاتا ہے اور یہ ایسے اشتعال کے ذریعے آپ کے اندر کے سارے غصے کو مارنا چاہتے ہیں۔ یہ آپ کو اس قدر اشتعال دلائیں گے کہ آپ چیخ چیخ کر لڑ کر اور توڑ پھوڑ کر نڈھال ہو جائیں تاکہ وہ جو بڑی مار آپ کو پڑنے والی ہے، اس کے خلاف مزاحمت کی ساری قوت آپ کے اندر سے نکال لی جائے اور ایسا ہورہا ہے۔''
ماما صوفی، ماضی قریب میں لیفٹ کی سیاست کے نہایت سرگرم رہنما رہے ہیں۔ ان کا آبائی گائوں گنداخہ کے گردونواح میں واقع ہے۔ ہمارے ایک دوست بتاتے ہیں کہ ایک بار ان کے گائوں سے گزرے تو سوچا کہ کیوں نہ ماما صوفی سے مل لیا جائے۔ انھوں نے گائوں کے قریب ایک چرواہے کو روکا اور اس سے ماماصوفی کے گھر کا پتہ پوچھا۔ ماما صوفی کا نام سنتے ہی چرواہے نے ایک لمبی سرد آہ بھری اور نوجوانوں کی طرف دیکھ کر کہنے لگا ''آہ! آج تم نوجوان ماما صوفی کا پتہ پوچھتے پھر رہے ہو، ایک دور تھا کہ ماما صوفی سے ملنے ملک کے بڑے بڑے سیاسی رہنما آیا کرتے تھے اور ان کے گھر کے باہر ہمیشہ ایک بھیڑ لگی رہتی تھی۔'' فوجی آمروں کو للکارنے والوں میں پیش پیش رہنے والے صوفی عبدالخالق بلوچ المعرف ماما صوفی اب ایک طرح سے گوشہ نشین ہوچکے ہیں لیکن حالات حاضرہ سے نہ صرف باخبر رہتے ہیں بلکہ بڑا واضح اور صاف نقطہ نظر رکھتے ہیں۔
سوویت یونین کے انہدام کے بعد این جی اوز اور سرکاری و پارٹی عہدوں میں پناہ لینے والوں کے گروہ میں سے بچ جانے والوں کی قلیل تعداد میں ماما صوفی بھی شامل ہیں۔ جو آج بھی نظریے سے وابستگی پر فخر محسوس کرتے ہیں، جن کو دیکھیں تو سوشلزم پر ایمان تازہ ہوتا ہے۔ طویل گوشہ نشینی کے بعد اب وہ ایک بار پھر لیفٹ کے نئے اتحاد عوامی ورکرز پارٹی میں سرگرم ہیں۔ آج سے کئی برس بلوچستان کے حالات پہ ان سے ہونے والی گفت گو مجھے حالاتِ حاضرہ سے متعلق برمحل محسوس ہوئی، اس لیے آج اسے دہرانے کا خیال آیا۔ جمہوری سیاست پر ایمان کامل رکھنے والے ماما صوفی اس سہ رکنی اجلاس کے مقرر تھے جب کہ میں اور میرا دوست سامع۔ موضوع تھا بلوچستان کے حالات اور ہم۔ بلوچستان کے حالات کے متعلق تو ان کی گفتگو آپ نے سن لی ۔اب سنیے کہ اس میں ہم کہاں کھڑے ہیں؟
ماما صوفی کہتے ہیں کہ ''ہم ان حالات میں تب تک اپنا کر دار ادا نہیں کرسکتے جب تک عوامی سطح کی تحریک جنم نہیں لیتی۔ بلوچستان میں آج بھی سیاسی تحریکیں مقاصد کے گرد نہیں بلکہ شخصیات کے گرد گھومتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عام آدمی نے حالات سے بیگانگی اختیار کرلی ہے۔ کیونکہ اسے پتہ ہی نہیں کہ اس کے گھر میں کتنی قیمتی دولت موجود ہے اور یہ ساری لڑائی اسی کے لیے لڑی جارہی ہے۔ اس لیے ہمیں اپنے دوست بڑھانے کی ضرورت ہے کیونکہ اصل دشمن ہم سے کئی گنا زیادہ طاقتور ہے۔ اس سے مقابلے کے لیے دوسروں سے جڑے رہنا ہماری مجبوری ہے۔ دوست جتنے زیادہ ہوں گے، تحریک کا دائرہ اتنا وسیع ہوگا اور یاد رکھنا کہ تحریکیں ادھار پر لیے گئے اسلحے سے نہیں بلکہ سیاسی شعو ر سے لیس ہو کر عوام کی قوت سے لڑی جاتی ہیں۔''
''یہ سیاسی شعور ہے کہاں؟''
اس سوال کے جواب میں وہ فوراًبولے ''سیاسی کارکن کے پاس... جو تھوڑ پھوڑ نہیں کرتا، لوٹ مار نہیں مچاتا، فوراً اشتعال میں آکر غصے کا اظہار نہیں کرتا، بلکہ وہ تحریک بناتا ہے، عوام میں جاتا ہے، عوام کو قومی جمہوری مقاصد سے آگاہ کرتا ہے، انھیں اپنے ساتھ ملاتا ہے اور پھر جدوجہد کا آغاز کرتا ہے، بلوچستان میں بھی جس روز اس سطح پر جدوجہد کا آغاز ہوا وہی دراصل جدوجہد کا نقطہ آغاز ہوگا، آپ چاہیں تو میری اس بات سے اختلاف کرسکتے ہیں!''
ذرا سے توقف کے بعد وہ پھر گویا ہوئے ''جس دھرتی پر ہم رہتے ہیں، یہ اپنے ساحلی وسائل کے لحاظ سے دنیا کے امیر ترین خطوں میں شمار ہوتی ہے، اب تو اس کا اعتراف ساری دنیا کرچکی ہے اور اس پر جتنے عذاب پڑرہے ہیں اس کا سبب بھی اس کا یہی حسن ہے، اتنا طویل ساحل، ایسی شاندار مارکیٹ کے ذرائع آمدورفت اور اس قدر واضح و قیمتی معدنی وسائل شاید ہی دنیا میں کسی کے پاس ہوں جتنے اس خطے کے پاس ہیں لیکن اس کی دولت سے ہم اور آپ بے خبر ہیں اور جنہیں خبر ہے وہ اسے بیچتے رہتے ہیں ۔''
''وہ کیسے؟''
اس مختصر سوال کے جواب میں وہ کہنے لگے ''یہ جو وسائل آج ظاہر ہورہے ہیں، گورے انگریزوں کو سو سال پہلے ان کا علم تھا، اس لیے یہاں حکمرانی کے دوران انھوں نے ان وسائل کو زمین میںدبائے رکھا تاکہ آپ اس سے مستفید نہ ہوسکیں اور وقت آنے پر وہ ان وسائل کو اپنے استعمال میں لاسکیں، یہ ایک اتفاق کی بات ہے کہ دوسری عالمی جنگ کے نتیجے میں غیر متوقع طور پر انھیں یہاں سے جانا پڑگیا لیکن سونے کی اس چڑیا پر سے ان کی نظریں کبھی نہیں ہٹیں، اس لیے ان وسائل پر قبضے کے لیے وہ اپنے ایجنٹوں کے ذریعے یہاں سرگرم ہیں۔ یہ ایجنٹ جو بظاہر تو ہم میں سے ہی ہیں لیکن درحقیقت انگریز بہادر کے لیے ہی کام کر رہے ہیں۔ اس لیے جس حکومت یا حکمرانوں کو ہم برا کہہ رہیں ہوتے ہے وہ دراصل حکمران نہیں بلکہ ان کے ایجنٹ ہوتے ہیںجو ہمارے اصل دشمن ہیں۔''
'' لیکن اگر مار ہی کھانی ہے تومڈل مین کے ہاتھوں بندہ کیوں پٹے؟ پھر کم ازکم مڈل مین سے تو چھٹکارا حاصل کرلیا جائے!''
ہماری یہ بات انھیں خاصی نا گوار گزری اور وہ ناک بھوں چڑھاتے ہوئے کہنے لگے ''یہی تو نوجوان نسل کی خامی ہے کہ ایک دم جذباتی ہوجاتی ہے۔ تمہارے نزدیک حاکمیت کا مطلب کیا ہے؟ میرے نزدیک اس کا اصل مقصد ہے اپنے نفع و نقصان کا فیصلہ کرنے کا اختیار اور اپنے وسائل پر حقِ ملکیت! آسمان سے گر کرکھجور میں اٹکا جاتا ہے، کھجور سے نکل کر آسمان پر جاکر اٹکنے کا بھلا کیا فائدہ؟ ایک فیڈریشن سے علیحدہ ہو کر سامراج کی گود میں بیٹھنا ایک اور ذلت آمیز غلامی ہے جس کا خمیازہ آج عراقی عوام بھگت رہے ہیں۔''
غصہ کچھ کم ہوا توذرا سے توقف کے بعدبولے ''ہمیں جنگیں لڑنے کے بجائے ایک ہی جنگ لڑنا ہوگی، دشمن کے ایجنٹ سے لڑنے کے بجائے اصل دشمن کے خلاف اپنی قوت استعمال کرنا ہوگی، اس خطے کی قسمت کا فیصلہ تین عالمی طاقتوں چین، یورپ اور امریکا نے کرنا ہے، یہ سونے کی چڑیا کس کے حصے میں جائے گی، وہ ایسا فیصلہ کر نے کی جانب پیش رفت کا آغاز کر چلے ہیں، باقی سب اس کھیل کے مہرے ہیں۔''
''تو پھر ادارے اعلیٰ سطح کی ڈسٹربنس پیدا کرکے آخر کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں؟'' میرے دوست نے سوال پوچھا۔
وہ زیر لب مسکرائے اور بولے ''یہ بیچارے کیا چاہیں گے کہ بندوق کسی اور کے ہاتھ میں ہے۔ یہ تو وہ کندھے ہیں جن پر رکھ کر بندوق چلائی جارہی ہے، یہ کچھ نہیں کرسکتے۔ ان سے سب کچھ کروایا جاتا ہے اور یہ ایسے اشتعال کے ذریعے آپ کے اندر کے سارے غصے کو مارنا چاہتے ہیں۔ یہ آپ کو اس قدر اشتعال دلائیں گے کہ آپ چیخ چیخ کر لڑ کر اور توڑ پھوڑ کر نڈھال ہو جائیں تاکہ وہ جو بڑی مار آپ کو پڑنے والی ہے، اس کے خلاف مزاحمت کی ساری قوت آپ کے اندر سے نکال لی جائے اور ایسا ہورہا ہے۔''
ماما صوفی، ماضی قریب میں لیفٹ کی سیاست کے نہایت سرگرم رہنما رہے ہیں۔ ان کا آبائی گائوں گنداخہ کے گردونواح میں واقع ہے۔ ہمارے ایک دوست بتاتے ہیں کہ ایک بار ان کے گائوں سے گزرے تو سوچا کہ کیوں نہ ماما صوفی سے مل لیا جائے۔ انھوں نے گائوں کے قریب ایک چرواہے کو روکا اور اس سے ماماصوفی کے گھر کا پتہ پوچھا۔ ماما صوفی کا نام سنتے ہی چرواہے نے ایک لمبی سرد آہ بھری اور نوجوانوں کی طرف دیکھ کر کہنے لگا ''آہ! آج تم نوجوان ماما صوفی کا پتہ پوچھتے پھر رہے ہو، ایک دور تھا کہ ماما صوفی سے ملنے ملک کے بڑے بڑے سیاسی رہنما آیا کرتے تھے اور ان کے گھر کے باہر ہمیشہ ایک بھیڑ لگی رہتی تھی۔'' فوجی آمروں کو للکارنے والوں میں پیش پیش رہنے والے صوفی عبدالخالق بلوچ المعرف ماما صوفی اب ایک طرح سے گوشہ نشین ہوچکے ہیں لیکن حالات حاضرہ سے نہ صرف باخبر رہتے ہیں بلکہ بڑا واضح اور صاف نقطہ نظر رکھتے ہیں۔
سوویت یونین کے انہدام کے بعد این جی اوز اور سرکاری و پارٹی عہدوں میں پناہ لینے والوں کے گروہ میں سے بچ جانے والوں کی قلیل تعداد میں ماما صوفی بھی شامل ہیں۔ جو آج بھی نظریے سے وابستگی پر فخر محسوس کرتے ہیں، جن کو دیکھیں تو سوشلزم پر ایمان تازہ ہوتا ہے۔ طویل گوشہ نشینی کے بعد اب وہ ایک بار پھر لیفٹ کے نئے اتحاد عوامی ورکرز پارٹی میں سرگرم ہیں۔ آج سے کئی برس بلوچستان کے حالات پہ ان سے ہونے والی گفت گو مجھے حالاتِ حاضرہ سے متعلق برمحل محسوس ہوئی، اس لیے آج اسے دہرانے کا خیال آیا۔ جمہوری سیاست پر ایمان کامل رکھنے والے ماما صوفی اس سہ رکنی اجلاس کے مقرر تھے جب کہ میں اور میرا دوست سامع۔ موضوع تھا بلوچستان کے حالات اور ہم۔ بلوچستان کے حالات کے متعلق تو ان کی گفتگو آپ نے سن لی ۔اب سنیے کہ اس میں ہم کہاں کھڑے ہیں؟
ماما صوفی کہتے ہیں کہ ''ہم ان حالات میں تب تک اپنا کر دار ادا نہیں کرسکتے جب تک عوامی سطح کی تحریک جنم نہیں لیتی۔ بلوچستان میں آج بھی سیاسی تحریکیں مقاصد کے گرد نہیں بلکہ شخصیات کے گرد گھومتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عام آدمی نے حالات سے بیگانگی اختیار کرلی ہے۔ کیونکہ اسے پتہ ہی نہیں کہ اس کے گھر میں کتنی قیمتی دولت موجود ہے اور یہ ساری لڑائی اسی کے لیے لڑی جارہی ہے۔ اس لیے ہمیں اپنے دوست بڑھانے کی ضرورت ہے کیونکہ اصل دشمن ہم سے کئی گنا زیادہ طاقتور ہے۔ اس سے مقابلے کے لیے دوسروں سے جڑے رہنا ہماری مجبوری ہے۔ دوست جتنے زیادہ ہوں گے، تحریک کا دائرہ اتنا وسیع ہوگا اور یاد رکھنا کہ تحریکیں ادھار پر لیے گئے اسلحے سے نہیں بلکہ سیاسی شعو ر سے لیس ہو کر عوام کی قوت سے لڑی جاتی ہیں۔''
''یہ سیاسی شعور ہے کہاں؟''
اس سوال کے جواب میں وہ فوراًبولے ''سیاسی کارکن کے پاس... جو تھوڑ پھوڑ نہیں کرتا، لوٹ مار نہیں مچاتا، فوراً اشتعال میں آکر غصے کا اظہار نہیں کرتا، بلکہ وہ تحریک بناتا ہے، عوام میں جاتا ہے، عوام کو قومی جمہوری مقاصد سے آگاہ کرتا ہے، انھیں اپنے ساتھ ملاتا ہے اور پھر جدوجہد کا آغاز کرتا ہے، بلوچستان میں بھی جس روز اس سطح پر جدوجہد کا آغاز ہوا وہی دراصل جدوجہد کا نقطہ آغاز ہوگا، آپ چاہیں تو میری اس بات سے اختلاف کرسکتے ہیں!''