کچھ علاج اس کا بھی

سیاست کا لفظ ہمارے معاشرے میں عمومی طورپر منفی تاثر رکھتا ہے اور ایسے میں اگر ہمارے ملک کے...

سیاست کا لفظ ہمارے معاشرے میں عمومی طورپر منفی تاثر رکھتا ہے اور ایسے میں اگر ہمارے ملک کے مستقبل کے معمار سیاست کا رخ کریں تو گویا والدین کے ذہنوں میں خطرے کی گھنٹیاں بجنا شروع ہوجاتی ہیں۔ والدین اپنے بچوں کو تعلیمی اداروں میں داخلے کے وقت ان منفی عوامل سے دور رکھنے کی خصوصی تاکید کرتے ہیں۔ پاکستان میں طلبہ پر سیاسی پابندیاں عائد کی گئیں جس کی وجہ سے ان میں قابل قدر تحریکیں دیکھنے کو نہیں ملیں جب کہ طلبہ نے اپنی سیاسی سرگرمیوں کی بدولت ماضی میں کئی کارہائے نمایاں سرانجام دیے۔ 66 برس قبل پاکستان کی آزادی کے لیے نوجوانوں کا کردار بہت اہم رہا اور انھوں نے تحریک آزادی میں سنہرے باب رقم کیے، طلبہ ہی تھے جن کی وجہ سے پاکستان بنانے کی تحریک کو دوام حاصل ہوا۔

طلبہ یونینز کا مقصد جمہوری ضابطوں کے مطابق اجتماعی فیصلہ سازی اور رائے دہی میں طلبہ کی تربیت کرنا ہوتی ہے، اس سے نہ صرف تعلیمی اداروں کے معاملات میں طلبہ کا نقطہ نظر پیش کیا جاتا ہے بلکہ یہ مستقبل میں سیاسی طور پر ایک باشعور شہری بننے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ طلبہ پر سیاسی سرگرمیوں کی پابندی کا مقصد ان میں سیاست، جمہوریت اور تنقیدی شعور کا دروازہ بند کرنے کے مترادف ہے۔

دنیا بھر میں طالب علموں کی چھپی ہوئی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے اور انھیں فہم و آگہی سے روشناس کروانے کے لیے یونینز کا پلیٹ فارم مہیا کیا جاتا ہے۔ یورپ سمیت دنیا بھر کے تعلیمی اداروں میں طلبہ کے مسائل اجاگر کرنے، غیر نصابی سرگرمیوں میں ان کی شرکت کو یقینی بنانے اور ان کی ذہنی پسماندگی کو دور کرکے ان میں فراست کی فراہمی میں طلبہ تنظیمیں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔

پاکستان میں طلبہ یونینز پر طویل عرصے تک پابندیاں رہیں۔ ان پابندیوں کا آغاز ایوب خان کے دور میں کیا گیا جب کہ مختلف ادوار میں یہ تنظیمیں حاکمان وقت کے زیر عتاب رہی ہیں اور پھر فیلڈ مارشل ضیاء الحق نے اپنے دور حکومت میں ان پر مکمل پابندی عائد کردی۔ دریں اثنا 1988 میں پیپلزپارٹی کے پہلے حکومت دور میں وزیراعظم بے نظیر نے یہ پابندی ہٹائی لیکن ان ہی دنوں مختلف اعلیٰ تعلیمی اداروں میں طلبہ تنظیموں کی چپقلش سیاست سے بڑھ کر تشدد کی راہ پر چل نکلی۔ پے در پے جھڑپوں اور قتل و غارت گری کے باعث کئی کیمپسز میں نیم فوجی دستے تعینات کردیے گئے بعد ازاں 1992 میں تشدد کی گمبھیر صورت حال کے پیش نظر ملک بھر کے تمام تعلیمی اداروں میں سیاسی سرگرمیوں پر مکمل طورپر پابندی عائد کرنے کے احکامات جاری کردیے گئے۔ طلبہ تنظیموں پر مسلسل پابندیوں کے باعث تعلیمی ادارے علیحدہ ریاستوں کے خواہش مند قوتوں کی آماجگاہ بن چکے ہیں۔


پاکستان میں سیاسی پارٹیوں کے گھنائونے کردار نے طلبہ کے ہاتھوں سے کتابیں چھین کر کلاشنکوف تھمادی۔ سیاست دان اپنے مکروہ عزائم کی تکمیل کے لیے طلبہ کو استعمال کررہے ہیں۔ سیاسی جماعتیں اپنی ذیلی تنظیموں کی سرپرستی کرتی ہیں۔ اس صورتحال نے ہزاروں معصوم نوجوانوں کو جرائم کی پرخطر راہ پر ڈال دیا ہے۔ پاکستان میں قائم اعلیٰ تعلیمی اداروں میں مختلف سیاسی جماعتوں کی ونگز متحرک ہیں جس کی وجہ سے نوجوان سیاسی عمل میں شرکت کے بجائے منفی سرگرمیوں میں ملوث ہورہے ہیں جب کہ یہ جماعتیں ان اداروں کے وسائل پر قابض ہونا چاہتی ہیں۔ صورت حال اس قدر پیچیدہ ہے کہ یہ تنظیمیں کسی دوسری تنظیم کو اپنے مقابل ان تعلیمی اداروں پر برداشت نہیں کرتیں، علاوہ ازیں ان طلبہ تنظیموں کے قائدین کی مرضی و منشا کے بغیر چڑیا بھی پر نہیں مار سکتی۔ جابرانہ اور غلامی کی زنجیروں سے جکڑا ہوا تعلیمی نظام تباہ و برباد ہے اور افسوس ناک صورت حال یہ ہے کہ ان اداروں میں تدریس کا مقدس فریضہ انجام دینے والے اساتذہ کرام بھی ان تخریبی کارروائیوں میں ملوث ہیں۔ اگر یہی صورت حال کسی قوم کی ہو تو اس کی ذہنی جہالت کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔

طلبہ یونینز پر پابندیوں کی وجہ سے سیاست کی نرسریاں دم توڑ چکی ہیں اور وطن عزیز کے نوجوانوں کا سیاسی عمل اور سیاسی اداروں سے اعتماد اٹھ گیا ہے۔ اس غریب اور ترقی پذیر ملک میں طلبہ کی سب سے بڑی تعداد متوسط اور غریب گھرانوں سے تعلق رکھتی ہے۔ سیاسی جماعتیں انھیں اپنے مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کررہی ہیں جب کہ نوجوان طالب علم اپنے بنیادی مقاصد کو فراموش کرکے زندگی کی دوڑ میں بہت پیچھے جاچکے ہیں۔ وطن عزیز میں طلبہ یونین کے منشور ونظریات پر عمل در آمد نہیں کیا جاتا۔ طلبہ کی نمائندوں، جماعتوں کو رام کرنے اور ان کی بحالی کے اعلانات کیے جاتے ہیں۔ یونینز کے سابقہ کردار و اعمال کو جانچنے اور پرکھنے کے باوجود عدم بحالی سنگین غلطی ہے۔ مدبرین کا کہناہے کہ غلطی کو غلطی جان کر اس کی پرواہ نہ کرنا کسی بڑے سانحے اور بھیانک نتائج کا پیش خیمہ ہوتاہے۔ وہ کہتے ہیں کہ طلبہ پر سیاسی پابندی سے کہیں ہم وارثان قوم کو تاریک راستوں کا سفیر تو نہیں بنا رہے۔

موجودہ ترقی یافتہ دور میں پاکستان جیسے آزاد اور جمہوری ملک کے طلبہ بے شمار مسائل سے دوچار ہیں۔ طلبہ پر سیاسی پابندی کے خاتمے کے محض اعلانات کیے گئے جب کہ باقاعدہ سوچی سمجھی سازش کے تحت کسی قسم کا عملی اقدام نہ کیا گیا جو طلبہ تحریکوں کی آب یاری کا باعث بنا ہوا ہے۔ سرکاری اداروں کو نجی ہاتھوں میں دینا اور تعلیم کو مہنگا ترین کرکے غریب عوام کو اس سے محروم کرنا ان عزائم میں شامل ہے۔ علاوہ ازیں سیلف فنانس اسکیم اور طبقاتی نظام بھی ایک سنگین جرم ہے جس کی وجہ سے طلبہ میں منفی اثرات ہورہے ہیں۔ نوجوانوں کی اکثریت منشیات اور دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ رہی ہے۔ آزادی اظہار حق رائے دہی اور مناسب نمائندگی ختم ہونے سے طلبہ کی اہلیت اور جذبات کو تعمیری اظہار سے روک رہی ہیں۔ گھٹن کے ماحول میں نفرت، تشدد اور غنڈہ گردی کا پھیلنا ایک فطری عمل ہے۔

طلبہ کو کسی بھی صورت سیاست سے دور نہیں رکھا جاسکتا۔ کیونکہ جب بھی کوئی قومی نوعیت کا مسئلہ درپیش آیا طلبہ اس کا حصہ بنے بغیر نہ رہ سکے۔ ججز کی بحالی کی تحریک میں وکلا برادری کے ساتھ ساتھ رہنا اور بالخصوص 11 مئی 2013 کے عام انتخابات میں ان کا کردار اہم مثالیں شمار کی جاتی ہیں۔

2008 میں سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے طلبہ یونینز پر ضیاء کے آمرانہ دور کی عائد پابندیاں ختم کرنے کا اعلان کیا لیکن تاحال حکومتی سطح پر کوئی واضح لائحہ عمل یا باضابطہ قانون ترتیب نہیں دیا گیا جس کی بنیاد پر یونین سازی اور انتخابات کے عمل کو باقاعدہ بنایا جاسکے۔ طلبہ سیاست پر آمرانہ ذہنیت کی پابندیوں کا نتیجہ ہے کہ ہمارے ملک میں رواداری اور با شعور جمہوری معاشرہ ناپید ہے۔ اگر ہمیں اپنے ملک کو بہترین جمہوری معاشرہ دینا ہے تو ضروری ہے کہ حکومت فوری طور پر طلبہ سیاست کے مسئلے کو سنجیدگی سے لے اور قانون سازی و ضابطہ اخلاق مرتب کرے، تاکہ طلبہ کی صلاحیتوں کو مناسب راستہ دستیاب ہو کیونکہ ایک جمہوری اور ترقی پسند معاشرے کے لیے نوجوان نسل کا غیر سیاسی ہونا نقصان دہ ہونے کے ساتھ ساتھ خطرناک بھی ہے۔
Load Next Story