آئی ایم ایف قرضے عوام کے پرخچے

ملک کی معاشی صورتحال نہایت مخدوش ہے، جس کی وجہ سے عوام کے ہوش و حواس اڑگئے ہیں۔

ملک کی معاشی صورتحال نہایت مخدوش ہے، جس کی وجہ سے عوام کے ہوش و حواس اڑگئے ہیں۔ عوام کی حالت بھی ملکی معیشت کی مخدوشی سے کم نہیں بلکہ یوں کہیے کہ عوام کی حالت مردہ ہوگئی ہے۔ آئی ایم ایف کے قرضوں کا سلسلہ کیا شروع ہوا کہ ہر جمہوری حکومت نے یہ آسان نسخہ دریافت کرلیا ہے کہ ملک کی معاشی بدحالی کو سدھارنے کے لیے منصوبہ بندی کرنے اور اس کے اثرات کو زائل کرنے کی کوشش کرنے کے بجائے فوراً کشکول اٹھا کر آئی ایم ایف کے دروازے پر پہنچ جاتے ہیں۔ آئی ایم ایف کا مقصد و منشا یہی ہے کہ ان کو (حکومت) قرضے دے دے کر اتنا عادی کردو اور مجبور کردو کہ یہ ہمارے ہی محتاج ہوکر رہ جائیں اور ان کی توجہ اپنی معاشی بدحالی کو سدھارنے کی طرف نہ جائے۔ یہ ہمارے ملک کی بدقسمتی ہے کہ ہمیں ابتدا ہی سے ایسے وزرائے خزانہ میسر آتے رہے کہ جیسے وہ معاشی و مالی منصوبہ بندی سے ناواقف ہوں۔

حالانکہ ہمارے ملک میں اعلیٰ درجات کے ماہرین معاشیات و اقتصادیات ہیں کہ اگر حکومتیں ان کی صلاحیتوں کو بروئے کار لائیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہمارا ملک معاشی و مالی مشکلات کا سامنا کرے۔ مگر بات وہی ہے کہ ''بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے''۔اپنی نااہلی اور کاہلیت کو چھپانے کے لیے معاشی و مالی ماہرین کی خدمات حاصل کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ واہ کیا طرز حکمرانی ہے؟ کسی ترقی یافتہ ملک میں ایسی کارکردگی کی مثال نہیں ملتی۔ ہمارے پڑوسی ملک کی ہی مثال لے لیجیے، اس کی آبادی ہمارے ملک کی آبادی سے کہیں زیادہ گنا بڑی ہے، لیکن ان کی معاشی و مالی حالت اتنی بگڑی ہوئی نہیں ہے جیسے کہ ہماری حالت ہے۔ کیوں؟ اس لیے کہ ان کی حکومت اچھے اور قابل، ماہر معاشیات اور مالیات کی خدمات حاصل کرتی ہیں، بہترین منصوبہ کرتی ہے، ہماری طرح آئی ایم ایف کی دست نگر نہیں ہے۔ میں نے بذات خود ہندوستان کئی مرتبہ جانے کی وجہ سے مشاہدہ کیا ہے کہ وہاں غربت ضرور ہے مگر غریب و متوسط طبقے کے گھرانے واویلا نہیں کرتے بلکہ مطمئن نظر آتے ہیں۔ کیا وجہ ہے؟

اس کی وجہ یہ ہے کہ حکومت اور عوام دونوں میں NATIONAL SPIRIT زیادہ ہے۔ سب اپنے آپ کو صرف ''ہندوستانی'' تصور کرتے ہیں۔ حالانکہ وہاں صوبے اور فرقے ہمارے ہاں سے زیادہ ہیں۔ وہ اپنی حکومتوں کی کارکردگی سے مطمئن ہوتے ہیں اور اگر کہیں بے قاعدگی یا لاقانونیت دیکھتے ہیں، وہاں تنقید بھی کرتے ہیں، احتجاج بھی کرتے ہیں، حکومت کی بنیادیں ہلادیتے ہیں، کوئی بھی حکومت آئے اس پر عوام کی بالادستی قائم رہتی ہے۔ بلکہ یوں سمجھیے کہ عوام آگے ہوتی ہے اور حکومت اس کے پیچھے۔ یہاں ہمارے ہاں الٹا معاملہ ہے۔ حکومت آگے ہوتی ہے اور عوام پیچھے اور پھر سخت دبائو کا شکار ہوتی ہے کہ حکومت کے کسی غلط اقدام پر آواز نہیں اٹھاتی ہے بلکہ حکومت بزور طاقت عوام کی آواز دبادیتی ہے۔ کبھی آپ نے سنا ہے کہ عوام کی حمایت سے آئی ایم ایف کے قرضے لیے جاتے ہیں۔ یا عوام سے اس کی منظوری لی جاتی ہے یعنی اسمبلیوں یا سینیٹ سے ان قرضوں کے حصول کے لیے منظوری لی جاتی ہے۔


ہاں البتہ یہ ضرور ہوتاہے کہ قرضے حاصل کرلینے کے بعد عوام کے سامنے ''خزانہ خالی ہے'' کی صدائیں ضرور بلند ہوتی ہیں۔ عوام میں اتنا دم ہی نہیں ہے کہ وہ حکومت سے پوچھے کہ آئی ایم ایف دیگر اداروں سے قرضے کیوں لیے جاتے ہیں۔ کیا ہمارے ملکی وسائل سے استفادہ حاصل کرکے معاشی ومالی مشکلات دور نہیں کی جاسکتی؟ مگر اپنے وسائل کو تلاش کرنے اور ان کو قابل استعمال کرنے کی صلاحیتیں نہیں ہوتیں، بس آسان طریقہ یہی ہیں کہ ''قرضے'' حاصل کرلو، کام چلالو۔ ملک وقوم کو قرضوں کے بوجھ تلے دبادو اور اپنی مدت پوری کرکے چل دو۔ آنیوالی حکومت بھگتتی رہے گی یا عوام بھگتیںگے۔کیا خوب فلسفہ ہے کہ قرضے اتارنے کے لیے قرض لے رہے ہیں۔ ایسی صورت حال میں ملک وقوم کیا خاک ترقی کریں گے، کیا خوشحالی آئے گی۔ موجودہ آبادی ہی نہیں بلکہ آنیوالی نسلیں بھی ان ہی قرضوں تلے دب کر رہے گی اور بجائے ترقیاتی کام کرنے کے قرضے ہی اتارتی رہے گی۔ حکمرانوں کی بد اعمالیوں اور کالے کرتوتوں کی وجہ سے عوام مشکلات کا سامنا کررہے ہیں۔ مہنگائی، غربت، بے روزگاری، توانائی بحران، سیاسی بحران، قدرتی آفات سے کون نبرد آزما ہے۔ عوام ہی تو ہیں جو ان حادثات وخطرات کو برداشت کررہے ہیں ان سے مقابلہ کررہے ہیں۔

تمام انسانی حقوق سے محرومی کے باوجود صبر کا مظاہرہ کررہے ہیں۔ اپنے پچھلے دور حکومت میں ان ہی وزیراعظم نے مہم چلائی تھی کہ ''قرض اتارو، ملک سنوارو''۔ کیا حشر ہوا اس مہم کا؟ لوگوں نے تو ان کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے ساز و سامان، دولت، روپیہ پیسہ، زیورات اور ڈالروں کی بارش کردی تھی، مگر انھیں ملا کیا؟ وہی رسوائی، وہی غربت، وہی بیروزگاری اور وہی آئی ایم ایف کے قرضے۔ کہاں جائیں، کس سے مدد طلب کریں، کس سے انصاف طلب کریں؟ کیا اسی کو عوام و ملک کی خوشحالی کہتے ہیں، اسی کو ترقی کہتے ہیں؟ عوام کو تو صرف اپنی ذمے داریوں سے، وعدوں کو نبھانے اور یقین دہانیوں سے بہلایا گیا۔ عملی طور پر کیا صورت ہے؟ رفتار بے ڈھنگی جو پہلے تھی سو اب بھی ہے۔عوامی مسائل و مشکلات تو رہے ایک طرف، لیکن انتقامی سیاست کی طرف پیش قدمی ہورہی ہے۔ یہ اس لیے کیا جارہا ہے تاکہ عوام کی توجہ عوامی مسائل و مشکلات کی طرف سے ہٹادی جائے اور انھیں نان ایشوز میں الجھا دیا جائے۔ عوام تو پہلے ہی بے بس، لاچار، مجبور ہے۔

لہٰذا عوام کو ان ہی اوچھے ہتھکنڈوں ہی سے بہلایا جاسکتا ہے یا بے وقوف بنایا جاسکتا ہے۔بات چلی تھی آئی ایم ایف کے قرضوں سے لیکن جا پہنچی عوام کے پرخچوں تک۔ ساری حکومتی مشینری آئی ایم ایف کے قرضوں میں الجھی ہوئی ہے لیکن عوامی مسائل کی طرف کوئی توجہ نہیں دے رہا۔ کیسے دے سکتے ہیں، آئی ایم ایف کی شرائط اور اس کا ''ڈکٹیشن'' یہی تو کہتے ہیں۔ ''بجلی مہنگی کرو، پٹرولیم مصنوعات مہنگی کرو، ٹیکسز کا نظام سخت کرو''۔ ارے بھئی! یہ تو کرنا پڑے گا ورنہ آئی ایم ایف پرانے قرضوں کی بھی فوری واپسی کا مطالبہ کرے گا۔ وہی بات بنے گی کہ '' آدھی چھوڑ کر پوری کے پیچھے بھاگے تو آدھی بھی گئی پوری بھی گئی''۔ ہے نا مزے کی بات۔ ہاں بات تو مزے کی ہے مگر اسے یہیں چھوڑنا پڑے گا۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ آئی ایم ایف والوں کے کانوں تک یہ بات پہنچ جائے اور آئی ایم ایف ہمارا حقہ پانی بند کردے۔ خدا نہ کرے ایسا ہو۔
Load Next Story