وزیراعظم کا کراچی آپریشن جاری رکھنے کا اعلان
وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے جمعہ کو سندھ رینجرز ہیڈکوارٹرز کراچی میں امن و امان سے متعلق اعلیٰ ...
وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے جمعہ کو سندھ رینجرز ہیڈکوارٹرز کراچی میں امن و امان سے متعلق اعلیٰ سطح کے اجلاس کی صدارت اور گورنر ہاؤس میں تاجروں' سینئر صحافیوں اور ایم کیو ایم کے وفود سے ملاقات کے دوران کہا ہے کہ کراچی میں اہداف کے حصول اور مکمل قیام امن تک ٹارگٹڈ آپریشن بلا امتیاز جاری رکھا جائے گا۔ ٹارگٹڈ آپریشن پر کوئی سیاسی دبائو قبول کیا جائے گا نہ کسی سیاسی بلیک میلنگ میں آئیں گے۔ انھوں نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ کراچی میں جرائم پیشہ افراد اور دہشت گرد اس خوش فہمی میں نہ رہیں کہ آپریشن دو چار یا چھ ماہ میں ختم ہو جائے گا۔ یہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک ایک ایک مجرم پکڑ نہیں لیا جائے گا۔ انھوں نے کہا کہ آپریشن کے باعث کراچی میں امن قائم ہو رہا ہے اورآپریشن کے نتائج حوصلہ افزاء ہیں۔ قیام امن کے لیے وفاقی حکومت سندھ حکومت کو ہر ممکن تعاون اور لاجسٹک سپورٹ فراہم کر رہی ہے اور کرتی رہے گی۔
ادھر اخبارات میں یہ خبر بھی ہے کہ ایم کیو ایم کے ذرائع کے مطابق وفد نے وزیر اعظم سے شکوہ کیا کہ آپریشن میں متحدہ کے بے گناہ کارکنوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔ ڈاکٹر فاروق ستار نے مطالبہ کیا کہ آپریشن کی نگرانی کے لیے فوری طور پر مانیٹرنگ کمیٹی قائم کی جائے۔ وزیر اعظم نے مطالبہ منظور کر لیا اور یقین دہانی کرائی کہ ایم کیو ایم کے تمام تحفظات کو دور کیا جائے گا۔ برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کے مطابق کراچی میں سنیئر صحافیوں سے گفتگو میں وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں40 ہزار پاکستانی جاں بحق ہو چکے ہیں۔ میری کوشش اور خواہش ہے کہ طالبان سے مذاکرات کیے جائیں تا کہ پاکستان میں امن قائم ہو۔ انھوں نے مزید کہا میں پرامید ہوں کہ طالبان مذاکرات کی اس پیشکش کا مثبت جواب دیں گے۔ قبل ازیں بلوچستان کے زلزلہ سے متاثرہ ضلع آواران میں زلزلہ متاثرین کے لیے امدادی سرگرمیوں کا جائزہ لینے کے بعد متاثرین اور عمائدین سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے ناراض بلوچوں کو قومی دھارے میں شامل ہونے کی دعوت دی اور کہا میں بھٹکے ہوئے لوگوں سے کہتا ہوں کہ حکومت کا کسی سے بھی انتقام لینے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ ناراض بلوچ ہتھیار پھینک کر قومی دھارے میں شامل ہو جائیں اور ہمارے ساتھ مل کر امدادی کاموں میں حصہ لیں۔
وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے جمعہ کو مختلف مواقع پر جو باتیں کیں ہیں، ان سے ان کی حکومت کی ترجیحات واضح ہو جاتی ہیں۔ وزیر اعظم نے یہ واضح کر دیا ہے کہ کراچی میں آپریشن اس وقت تک جاری رہے گا جب تک اس شہر میں امن قائم نہیں ہو جاتا۔ کراچی میں اس وقت جو آپریشن ہو رہا ہے اس کے نتائج خاصے حوصلہ افزا ہیں اور وزیر اعظم نے بھی اس پر اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ ماضی میں جو آپریشن ناکام ہوئے، اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ انھیں ادھورا چھوڑ دیا گیا یا پھر وہ آپریشن متنازعہ ہو گئے۔ اس وقت کراچی میں رینجرز جو آپریشن کر رہے ہیں، اسے خاصی حد تک سیاسی اور عوامی حمایت حاصل ہے۔ گو ایم کیو ایم کو اس آپریشن پر کچھ تحفظات ہیںتاہم وہ آپریشن کے خلاف نہیں ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ ایم کیو ایم کے تحفظات دور کرے۔ ایم کیو ایم ملک کی ایک بڑی سیاسی جماعت ہے اور وہ کراچی شہر میں امن کی خواہاں ہے تاہم اگر آپریشن کی آڑ میں کسی سیاسی تنظیم یا کسی بے گناہ کو نشانہ بنایا گیا ہے تو اس کا ازالہ ہونا چاہیے۔ کراچی میں آپریشن اس وقت ہی کامیاب ہو سکتا ہے کہ جب یہ بلاامتیاز ہو اور تمام اسٹیک ہولڈرز کو اس پر پورا ارعتماد ہو۔ وزیر اعظم پاکستان نے اگر ایم کیو ایم کے وفد کو یقین دہانی کرائی ہے تو یہ مثبت قدم ہے اور اس کے اچھے نتائج نکلیں گے اور مسلم لیگ ن اور ایم کیو ایم کے درمیان اعتماد کے رشتے مزید گہرے ہوں گے۔ کراچی پاکستان کا معاشی کیپٹل ہے۔ پاکستان کی معیشت کی بحالی کے لیے کراچی میں امن کا قیام ضروری ہے۔ پاکستان کے دشمن تو چاہیں گے کہ اس شہر میں لاقانونیت طاری رہے اور ملک کا یہ معاشی حب تباہی و بربادی سے دوچار ہو جائے۔
وزیر اعظم نے طالبان کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے جو کچھ کہا ہے، اس سے یہی محسوس ہوتا ہے کہ وہ اب بھی پرامید ہیں کہ کالعدم تحریک طالبان کے ساتھ مذاکرات ممکن ہو سکتے ہیں اور یہ کہ طالبان بھی مذاکرات کے لیے آمادہ ہو جائیں گے لیکن حکیم اللہ محسود کی موت اور طالبان کی سربراہی مولوی فضل اللہ کے پاس آنے سے مذاکرات کا مستقبل مخدوش نظر آتا ہے۔ طالبان حکومت کے ساتھ مذاکرات سے انکار بھی کر چکے ہیں تاہم سیاست میں بعض اوقات انہونیاں بھی ہو جاتی ہیں۔ موجودہ حالات میں بھی اگر حکومت طالبان سے مذاکرات کی خواہش کا اظہار کر رہی ہے تو اس کے پس پردہ بھی یقیناً کچھ نہ کچھ ہو گا۔ ہو سکتا ہے کہ طالبان اور حکومت کے درمیان بیک چینل رابطے اب بھی جاری ہوں، بہرحال طالبان کے ساتھ مذاکرات کا معاملہ کس انجام سے دوچار ہوتا ہے، اس کا آنے والے دنوں میں پتہ چل جائے گا۔ جہاں تک ناراض بلوچوں کو قومی دھارے میں لانے کی بات ہے تو اس سے ہر پاکستانی متفق ہے۔ وزیر اعظم نواز شریف بلوچستان کو بہت زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ اگر کسی وفاقی اکائی کے لوگ ناراض ہیں تو ان کی ناراضی دور کی جانی چاہیے۔ ادھر وہ ناراض بلوچ جنھوں نے ہتھیار اٹھا رکھے ہیں، انھیں بھی حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے اپنے طرزعمل پر غور کرنا چاہیے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ لڑائی کسی مسئلے کا حل نہیں ہے۔ جب حکومت ہتھیار اٹھانے والوں کو امن کا پیغام دیتی ہے تو اس پر ضرور غور کیا جانا چاہیے۔ یہی ان کی بھلائی ہے۔
ادھر اخبارات میں یہ خبر بھی ہے کہ ایم کیو ایم کے ذرائع کے مطابق وفد نے وزیر اعظم سے شکوہ کیا کہ آپریشن میں متحدہ کے بے گناہ کارکنوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔ ڈاکٹر فاروق ستار نے مطالبہ کیا کہ آپریشن کی نگرانی کے لیے فوری طور پر مانیٹرنگ کمیٹی قائم کی جائے۔ وزیر اعظم نے مطالبہ منظور کر لیا اور یقین دہانی کرائی کہ ایم کیو ایم کے تمام تحفظات کو دور کیا جائے گا۔ برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کے مطابق کراچی میں سنیئر صحافیوں سے گفتگو میں وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں40 ہزار پاکستانی جاں بحق ہو چکے ہیں۔ میری کوشش اور خواہش ہے کہ طالبان سے مذاکرات کیے جائیں تا کہ پاکستان میں امن قائم ہو۔ انھوں نے مزید کہا میں پرامید ہوں کہ طالبان مذاکرات کی اس پیشکش کا مثبت جواب دیں گے۔ قبل ازیں بلوچستان کے زلزلہ سے متاثرہ ضلع آواران میں زلزلہ متاثرین کے لیے امدادی سرگرمیوں کا جائزہ لینے کے بعد متاثرین اور عمائدین سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے ناراض بلوچوں کو قومی دھارے میں شامل ہونے کی دعوت دی اور کہا میں بھٹکے ہوئے لوگوں سے کہتا ہوں کہ حکومت کا کسی سے بھی انتقام لینے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ ناراض بلوچ ہتھیار پھینک کر قومی دھارے میں شامل ہو جائیں اور ہمارے ساتھ مل کر امدادی کاموں میں حصہ لیں۔
وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے جمعہ کو مختلف مواقع پر جو باتیں کیں ہیں، ان سے ان کی حکومت کی ترجیحات واضح ہو جاتی ہیں۔ وزیر اعظم نے یہ واضح کر دیا ہے کہ کراچی میں آپریشن اس وقت تک جاری رہے گا جب تک اس شہر میں امن قائم نہیں ہو جاتا۔ کراچی میں اس وقت جو آپریشن ہو رہا ہے اس کے نتائج خاصے حوصلہ افزا ہیں اور وزیر اعظم نے بھی اس پر اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ ماضی میں جو آپریشن ناکام ہوئے، اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ انھیں ادھورا چھوڑ دیا گیا یا پھر وہ آپریشن متنازعہ ہو گئے۔ اس وقت کراچی میں رینجرز جو آپریشن کر رہے ہیں، اسے خاصی حد تک سیاسی اور عوامی حمایت حاصل ہے۔ گو ایم کیو ایم کو اس آپریشن پر کچھ تحفظات ہیںتاہم وہ آپریشن کے خلاف نہیں ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ ایم کیو ایم کے تحفظات دور کرے۔ ایم کیو ایم ملک کی ایک بڑی سیاسی جماعت ہے اور وہ کراچی شہر میں امن کی خواہاں ہے تاہم اگر آپریشن کی آڑ میں کسی سیاسی تنظیم یا کسی بے گناہ کو نشانہ بنایا گیا ہے تو اس کا ازالہ ہونا چاہیے۔ کراچی میں آپریشن اس وقت ہی کامیاب ہو سکتا ہے کہ جب یہ بلاامتیاز ہو اور تمام اسٹیک ہولڈرز کو اس پر پورا ارعتماد ہو۔ وزیر اعظم پاکستان نے اگر ایم کیو ایم کے وفد کو یقین دہانی کرائی ہے تو یہ مثبت قدم ہے اور اس کے اچھے نتائج نکلیں گے اور مسلم لیگ ن اور ایم کیو ایم کے درمیان اعتماد کے رشتے مزید گہرے ہوں گے۔ کراچی پاکستان کا معاشی کیپٹل ہے۔ پاکستان کی معیشت کی بحالی کے لیے کراچی میں امن کا قیام ضروری ہے۔ پاکستان کے دشمن تو چاہیں گے کہ اس شہر میں لاقانونیت طاری رہے اور ملک کا یہ معاشی حب تباہی و بربادی سے دوچار ہو جائے۔
وزیر اعظم نے طالبان کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے جو کچھ کہا ہے، اس سے یہی محسوس ہوتا ہے کہ وہ اب بھی پرامید ہیں کہ کالعدم تحریک طالبان کے ساتھ مذاکرات ممکن ہو سکتے ہیں اور یہ کہ طالبان بھی مذاکرات کے لیے آمادہ ہو جائیں گے لیکن حکیم اللہ محسود کی موت اور طالبان کی سربراہی مولوی فضل اللہ کے پاس آنے سے مذاکرات کا مستقبل مخدوش نظر آتا ہے۔ طالبان حکومت کے ساتھ مذاکرات سے انکار بھی کر چکے ہیں تاہم سیاست میں بعض اوقات انہونیاں بھی ہو جاتی ہیں۔ موجودہ حالات میں بھی اگر حکومت طالبان سے مذاکرات کی خواہش کا اظہار کر رہی ہے تو اس کے پس پردہ بھی یقیناً کچھ نہ کچھ ہو گا۔ ہو سکتا ہے کہ طالبان اور حکومت کے درمیان بیک چینل رابطے اب بھی جاری ہوں، بہرحال طالبان کے ساتھ مذاکرات کا معاملہ کس انجام سے دوچار ہوتا ہے، اس کا آنے والے دنوں میں پتہ چل جائے گا۔ جہاں تک ناراض بلوچوں کو قومی دھارے میں لانے کی بات ہے تو اس سے ہر پاکستانی متفق ہے۔ وزیر اعظم نواز شریف بلوچستان کو بہت زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ اگر کسی وفاقی اکائی کے لوگ ناراض ہیں تو ان کی ناراضی دور کی جانی چاہیے۔ ادھر وہ ناراض بلوچ جنھوں نے ہتھیار اٹھا رکھے ہیں، انھیں بھی حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے اپنے طرزعمل پر غور کرنا چاہیے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ لڑائی کسی مسئلے کا حل نہیں ہے۔ جب حکومت ہتھیار اٹھانے والوں کو امن کا پیغام دیتی ہے تو اس پر ضرور غور کیا جانا چاہیے۔ یہی ان کی بھلائی ہے۔