آئی ایم ایف کا حکومتی پالیسیوں پر اعتماد
وسیع تناظر میں پاکستان کا بجٹ خسارہ بھی غیر تسلی بخش نہیں، آئی ایم ایف
انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) نے پاکستان کی اقتصادی صورتحال کو تسلی بخش قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ وسیع تناظر میں پاکستان کا بجٹ خسارہ بھی غیر تسلی بخش نہیں جب کہ حکومت کی قرضہ لینے کی پالیسی بھی اہداف کے اندر اندر ہے۔ اسلام آباد میں جمعہ کو وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے آئی ایم ایف کے جائزہ مشن کے سربراہ جیفری فرینکس نے حکومت پاکستان کی اقتصادی کارکردگی پر اطمینان کا اظہار کیا۔ اخباری اطلاعات کے مطابق پچپن کروڑ ڈالر کی دوسری قسط کے لیے پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان مذاکرات کامیاب ہو گئے ہیں جس کے بعد اب جائزہ مشن کی رپورٹ پر آئی ایم ایف کا بورڈ دسمبر کے دوسرے ہفتے پاکستان کو قسط جاری کرنے کی منظوری دیدے گا۔
آئی ایم ایف جائزہ مشن کے سربراہ جیفری فرینکس کا کہنا ہے کہ پاکستان کی اقتصادی کارکردگی کے لیے آئی ایم ایف کا پہلا جائزہ نہ صرف کامیاب رہا ہے بلکہ جی ڈی پی گروتھ، ٹیکس وصولیوں اور مینوفیکچرنگ گروتھ سمیت دیگر اہداف آئی ایم ایف کے ساتھ طے پانے والے اہداف سے بھی زیادہ رہے ہیں، تاہم بیرونی ذرائع سے وسائل کی بروقت وصولی نہ ہونے کی وجہ سے کرنٹ اکاونٹ اور زرمبادلہ کے ذخائر کا ہدف کم رہا تھا جسے وزارت خزانہ کے بر وقت اقدامات کے ذریعے پورا کر لیا گیا ہے۔ آئی ایم ایف کے جائزہ مشن کے سربراہ کی باتوں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ عالمی مالیاتی اداروں کو حکومت پاکستان کی مالیاتی واقتصادی پالیسیوں پر اعتماد ہے۔ اس اعتماد کا ملکی معیشت پر اچھا اثر پڑے گا۔ وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے وضاحت کی کہ مستقبل میں اگر گیس کی قیمتوں کی بھی ایڈجسٹمنٹ کی گئی تو بجلی کی طرح اس میں بھی کم آمدنی والے گھریلو صارفین پر اس کا بوجھ نہیں ڈالا جائے گا۔
قلیل المدت پلان کے تحت اگلے تین سے چار سال میں ملک میں بجلی کی پیداوار بڑھا کر 21 سے 22 ہزار میگاواٹ تک لے جائی جائے گی جب کہ وسط مدتی پلان کے تحت اگلے دس سے بارہ سال میں بجلی کی پیداوار بڑھا کر 40 ہزار میگاواٹ تک لے جائی جائے گی۔ وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے بتایا کہ آئی ایم ایف کے بعد عالمی بنک، ایشیائی ترقیاتی بنک، انٹرنیشنل فنانس کارپوریشن سمیت دیگر بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے ساتھ بھی پاکستان کے لیے قرضے اور امداد کے حصول کے لیے بات چیت جاری ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ عالمی بینک کے ساتھ 1.7 ارب ڈالر کے پروگرام کو حتمی شکل دی جا چکی ہے۔ اس پیکیج میں داسو ڈیم کے لیے 70 کروڑ ڈالر بھی شامل ہیں۔ مذکورہ منصوبے کی فنانسنگ کے لیے دیگر ڈونرز کے ساتھ بھی بات چیت جاری ہے اور توقع ہے کہ مارچ 2014ء تک اس منصوبے کا فنانشل کلوز اپ ہو جائے گا۔ موجودہ حکومت نے انتہائی مشکل معاشی حالات میں اقتدار سنبھالا ہے۔ بجلی کی لوڈشیڈنگ اور گردشی قرضوں نے معیشت کو بدحال کر رکھا تھا۔
موجودہ حکومت کو 480 ارب روپے کے گردشی قرضے کی ادائیگی کے لیے آئی ایم ایف سے رجوع کرنا پڑا تھا۔ یہ اس کی مجبوری تھی۔ بہرحال وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے واضح کیا ہے کہ حکومت نے آئی ایم ایف سے 200 روپے کا قرضہ لیا اور گردشی قرضوں کی باقی رقم صرف مینجمنٹ سے ادا کی۔ یوں دیکھا جائے تو حکومت نے مالی نظم و ضبط کا مظاہرہ کیا ہے۔ آئی ایم ایف کے اعتماد کے بعد اب موجودہ حکومت کے لیے عالمی سطح پر دیگر مالیاتی اداروں سے لین دین کرنا خاصا آسان ہو جائے گا۔ جس سے پاکستان میں غیرملکی سرمایہ کاری کی راہ ہموار ہو گی اور ملکی معیشت میں خاصا استحکام آئے گاتاہم حکومت پاکستان کو سخت مالیاتی ڈسپلن برقرار رکھنا پڑے گا۔ عالمی مالیاتی ادارے اگر پاکستان کی حکومت پر اعتماد کا اظہار کرتے رہے تو پھر توانائی کے التوا کا شکار منصوبے بآسانی مکمل ہو جائیں گے اور ملک سے توانائی کا بحران ختم ہو جائے گا۔
آئی ایم ایف جائزہ مشن کے سربراہ جیفری فرینکس کا کہنا ہے کہ پاکستان کی اقتصادی کارکردگی کے لیے آئی ایم ایف کا پہلا جائزہ نہ صرف کامیاب رہا ہے بلکہ جی ڈی پی گروتھ، ٹیکس وصولیوں اور مینوفیکچرنگ گروتھ سمیت دیگر اہداف آئی ایم ایف کے ساتھ طے پانے والے اہداف سے بھی زیادہ رہے ہیں، تاہم بیرونی ذرائع سے وسائل کی بروقت وصولی نہ ہونے کی وجہ سے کرنٹ اکاونٹ اور زرمبادلہ کے ذخائر کا ہدف کم رہا تھا جسے وزارت خزانہ کے بر وقت اقدامات کے ذریعے پورا کر لیا گیا ہے۔ آئی ایم ایف کے جائزہ مشن کے سربراہ کی باتوں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ عالمی مالیاتی اداروں کو حکومت پاکستان کی مالیاتی واقتصادی پالیسیوں پر اعتماد ہے۔ اس اعتماد کا ملکی معیشت پر اچھا اثر پڑے گا۔ وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے وضاحت کی کہ مستقبل میں اگر گیس کی قیمتوں کی بھی ایڈجسٹمنٹ کی گئی تو بجلی کی طرح اس میں بھی کم آمدنی والے گھریلو صارفین پر اس کا بوجھ نہیں ڈالا جائے گا۔
قلیل المدت پلان کے تحت اگلے تین سے چار سال میں ملک میں بجلی کی پیداوار بڑھا کر 21 سے 22 ہزار میگاواٹ تک لے جائی جائے گی جب کہ وسط مدتی پلان کے تحت اگلے دس سے بارہ سال میں بجلی کی پیداوار بڑھا کر 40 ہزار میگاواٹ تک لے جائی جائے گی۔ وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے بتایا کہ آئی ایم ایف کے بعد عالمی بنک، ایشیائی ترقیاتی بنک، انٹرنیشنل فنانس کارپوریشن سمیت دیگر بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے ساتھ بھی پاکستان کے لیے قرضے اور امداد کے حصول کے لیے بات چیت جاری ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ عالمی بینک کے ساتھ 1.7 ارب ڈالر کے پروگرام کو حتمی شکل دی جا چکی ہے۔ اس پیکیج میں داسو ڈیم کے لیے 70 کروڑ ڈالر بھی شامل ہیں۔ مذکورہ منصوبے کی فنانسنگ کے لیے دیگر ڈونرز کے ساتھ بھی بات چیت جاری ہے اور توقع ہے کہ مارچ 2014ء تک اس منصوبے کا فنانشل کلوز اپ ہو جائے گا۔ موجودہ حکومت نے انتہائی مشکل معاشی حالات میں اقتدار سنبھالا ہے۔ بجلی کی لوڈشیڈنگ اور گردشی قرضوں نے معیشت کو بدحال کر رکھا تھا۔
موجودہ حکومت کو 480 ارب روپے کے گردشی قرضے کی ادائیگی کے لیے آئی ایم ایف سے رجوع کرنا پڑا تھا۔ یہ اس کی مجبوری تھی۔ بہرحال وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے واضح کیا ہے کہ حکومت نے آئی ایم ایف سے 200 روپے کا قرضہ لیا اور گردشی قرضوں کی باقی رقم صرف مینجمنٹ سے ادا کی۔ یوں دیکھا جائے تو حکومت نے مالی نظم و ضبط کا مظاہرہ کیا ہے۔ آئی ایم ایف کے اعتماد کے بعد اب موجودہ حکومت کے لیے عالمی سطح پر دیگر مالیاتی اداروں سے لین دین کرنا خاصا آسان ہو جائے گا۔ جس سے پاکستان میں غیرملکی سرمایہ کاری کی راہ ہموار ہو گی اور ملکی معیشت میں خاصا استحکام آئے گاتاہم حکومت پاکستان کو سخت مالیاتی ڈسپلن برقرار رکھنا پڑے گا۔ عالمی مالیاتی ادارے اگر پاکستان کی حکومت پر اعتماد کا اظہار کرتے رہے تو پھر توانائی کے التوا کا شکار منصوبے بآسانی مکمل ہو جائیں گے اور ملک سے توانائی کا بحران ختم ہو جائے گا۔