مضحکہ خیز سیاست

اس مضحکہ خیز سیاست کے نتیجے میں اخلاقی پستی اور شائستگی و تہذیب سے عاری معاشرے کے علاوہ کچھ ہاتھ نہ آئے گا


احسن اقبال خان January 13, 2020
ایک عجیب قسم کی مضحکہ خیز سیاست ہمارے ملک میں پروان چڑھ رہی ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

اپنے ملک کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان لیتے ہوئے دل کو خوشی اور سکون محسوس ہوتا ہے۔ خدا تعالیٰ نے ہمیں کتنی عظیم ریاست سے نوازا ہے، لیکن ہم ہیں کہ اس کی ناقدری میں دن بدن اضافہ کررہے ہیں، کیا عوام اور کیا خواص۔ کسی ملک میں مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ اس ملک کی بقا کو سلامت رکھنے میں بڑا اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ان میں سے ایک شعبہ بھی اگر اپنی لائن سے ہٹ جائے تو ملک ترقی کے بجائے تنزلی کی گہری کھائیوں میں جاگرتا ہے۔ اسی طرح ان تینوں شعبوں کی ہم آہنگی بھی ملکی بقا کےلیے نہایت ضروری ہے۔

مقننہ کا کام قانون سازی کرنا، انتظامیہ کا کام اس پر عمل درآمد کرانا اور عدلیہ کا کام اس کی مخالفت کرنے والوں کو کیفر کردار تک پہنچانا ہے۔ اور تینوں شعبوں کا اپنی ذمے داری کو نبھانا نہایت ہی ضروری ہے۔ آج کل آرمی ایکٹ کی باتیں بڑے زور و شور سے چل رہی ہیں، اور دیکھتے ہی دیکھتے بل کمیٹی سے ہوتا ہوا پارلیمنٹ اور وہاں سے ہوتا ہوا سینیٹ جا پہنچا۔ اور بالآخر کامیابی کی چوٹیاں سر کرگیا۔ یہ کام مقننہ کا تھا۔ ہاں اختلاف رائے ہوجاتا ہے، کوئی حمایت میں مصلحت یا بعض اوقات مجبوری سمجھتا ہے، تو کوئی مخالفت کو کامیاب جمہوریت کا سبب قرار دیتا ہے۔ غرض یہ کہ اختلاف کا ہوجانا ایک فطری چیز ہے۔

لیکن کچھ باتیں ایسی ہیں جن کا تعلق سیاست سے ہے اور نہ ہی اختلاف سے، بلکہ ان کا تعلق اخلاقی اقدار سے ہے۔ اس سے اتنا پتہ چل جاتا ہے کہ ہمارے منتخب نمائندے کیا اخلاق کے اس درجے پر فائز بھی ہیں یا نہیں، جس درجے پر فائز ہونا اس مقدس پارلیمنٹ کا حصہ بننے کےلیے ضروری ہے۔ ہمارے منتخب نمائندوں کا کام ملک و قوم کے مستقبل کے فیصلے کرنا ہوتا ہے، جو کسی معمولی انسان کے ہاتھوں کروانا مناسب نہیں۔ اس عظیم کام کےلیے سنجیدہ اور مہذب نمائندوں کا ہونا ضروری ہے۔ اور کسی بھی قسم کے لوگوں کو ایوان زیریں و بالا تک پہنچانے کا حق صرف اور صرف عوام کو حاصل ہے۔ اس کے علاوہ کوئی شخص زبردستی کسی انسان کو پارلیمنٹ کا حصہ بنا ڈالے تو اسے حقیقی معنوں میں جمہوریت کہنا جمہوری ممالک کے منہ پر طمانچہ کی مثل ہے۔

ہمارے آج کل کے پارلیمنٹ میں براجمان نمائندے کس قدر اخلاقی اقدار سے گرے ہوئے ہیں اس کا اندازہ لگانے کےلیے کچھ چیزوں کی طرف توجہ دلانا چاہوں گا۔ سوشل میڈیا پر اکثر پارلیمنٹ فلور پر غیر سنجیدہ اور واہیات حرکتیں کرتے ہوئے سیاستدانوں کی ویڈیوز وائرل ہوتی رہتی ہیں۔ بحیثیت ایک پاکستانی ووٹر اتنا حق ہمارا ضرور بنتا ہے کہ ہم اتنی آواز بلند کریں کہ ایسی حرکات کیوں کی گئیں جس سے پارلیمنٹ کے تقدس کی پامالی ہوتی ہو۔ اسی طرح مختلف سیاستدانوں پارلیمنٹ فلور پر ہی مخالف سینیٹروں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے نامناسب الفاظ کا استعمال کرتے ہیں۔ اختلاف اپنی جگہ لیکن جب آپ پارلیمنٹ فلور پر کوئی بات یا حرکت کررہے ہوں تو اس وقت آپ کو پوری دنیا دیکھتی ہے۔ لہٰذا کم از کم انسانیت کا تقاضا یہ تھا اخلاقی حدود کا مکمل لحاظ کیا جائے۔

اسی طرح ہمارے سیاسی رہنماؤں کو چاہیے کہ اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ کا استعمال بڑی احتیاط سے کریں کہ پچھلے دنوں وزیراعظم کے اکاؤنٹ سے ایک ویڈیو شیئر کی گئی، جس میں تحقیقی پہلو بالکل نظر انداز کیا گیا، جسے ملکی اور بین الاقوامی طور پر کافی تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔

اس کے بعد اگر بات ہوجائے ٹک ٹاک کی تو اس نے بھی خوب اندھیر مچائی ہوئی ہے۔ کوئی پوچھنے والا نہیں کہ یہ کیا ماجرا ہے۔ ہم اس بات کی گہرائی میں نہیں جانا چاہتے جس کے پس منظر اور پیش منظر ہماری آنکھوں سے اوجھل ہوں، لیکن ظاہری منظرنامہ اس بات کا متقاضی ہے کہ اس معاملے کو سنجیدگی سے حل کیا جائے۔ اگر یہ کوئی سازش ہے تو اسے بے نقاب کرتے ہوئے اس کا سدباب ہونا چاہیے، اور اگر واقعی اخلاقی اقدار کی پامالی کی گئی تو اس کے مرتکبین کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔ کیونکہ یہ کسی کا ذاتی معاملہ نہیں بلکہ ایک پورے معاشرے کی بدنامی ہے جس پر سمجھوتہ نہیں ہونا چاہیے۔

اس طرح جب کبھی پارلیمنٹ میں کسی بات پر اختلاف ہوجائے تو اس وقت پارلیمنٹ میں عجیب و غریب قسم کی آوازیں گونجتی ہیں کہ بندہ حیران رہ جاتا ہے کہ ہمارے منتخب نمائندے کس حد تک عدم برداشت کے شکار ہوچکے ہیں کہ مخالف کے موقف کو سننے کا مادہ ہی نہیں۔ اور پھر جب پارلیمنٹ سے باہر کہیں میڈیا پر نظر آئیں تو ان کی بے ہودہ اور غیر مہذب گفتگو سن کر ماتم کرنے کو جی چاہتا ہے۔

ان تمام باتوں کو نظر انداز کیے بغیر اگر سوچا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ایک عجیب قسم کی مضحکہ خیز سیاست ہمارے ملک میں پروان چڑھ رہی ہے۔ جس میں اختلاف سے زیادہ نفرت اور کسی موقف کی تردید سے زیادہ تضحیک پائی جاتی ہے۔ اپنے مفادات میں سنجیدہ جبکہ عوامی مفادات میں غیر سنجیدہ رویہ ہمیں تشویش میں ڈالے ہوئے ہے۔ اور پھر ہمارے عوام بھی انصاف سے کام نہیں لیتے۔ جس سیاسی جماعت کا وہ چشمہ پہن لیں اس کی غلط بات کی بھی اچھی تاویل کر ڈالتے ہیں اور جس سیاسی جماعت سے نفرت ہو اس کی اچھی بات میں بھی تاویل کرکے اسے غلط قرار دیا جاتا ہے۔ اور بعض اوقات کسی خاص انسان سے ذاتی بغض وعناد کو سامنے رکھ کر رائے قائم کی جاتی ہے۔ اور نتیجہ یہ ہی نکلتا ہے کہ پھر گھما پھرا کر یہی لوگ جانے انجانے میں ہم پر مسلط ہوجاتے ہیں۔ جب تک بحیثیت مجموعی ہمارے معاشرے میں اخلاق کے دائرے میں رہ کر غلط کو غلط اور صحیح کو صحیح کہنے کی عادت پیدا نہ ہوگی، تب تک ایک حقیقی لیڈر شپ سے محرومی ہمارا مقدر رہے گی۔ اور ہم اپنی ترقی کے خواب صرف خواب کی حد تک محدود دیکھیں گے۔ اس مضحکہ خیز سیاست کے نتیجے میں اخلاقی پستی اور شائستگی و تہذیب سے عاری معاشرے کے علاوہ کچھ ہاتھ نہ آئے گا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں