ناک وہ ناک ’’شرمناک‘‘ جسے کہتے ہیں
ایک تو پاکستان میں یہ ’’منفی تنقیدیے‘‘ بہت ہیں۔ نہ کام نہ کاج، جب بھی دیکھو منفی تنقید کا شغل کرتے رہتے ہیں۔
KARACHI:
ایک تو پاکستان میں یہ ''منفی تنقیدیے'' بہت ہیں۔ نہ کام نہ کاج، جب بھی دیکھو منفی تنقید کا شغل کرتے رہتے ہیں۔ ارے خدا کے بندو، دنیا میں اور بھی ہزاروں کام ہیں۔
ہر کہ خواہد گوبیا و ہر کہ خواہد گو بہ گو
کبر و ناز و حاجب و درباں دریں درگاہ نیست
ویسے بھی حکومت نے حالات کو حوالات میں ڈال کر ہر کسی کی گردن سے رسی اتاری ہوئی ہے کہ تُو مشق ناز کر خونِ دو عالم ان (حالات) کی گردن پر۔
درد مندی من سوختہ زار نزار
ظاہرا حاجت تحریر و بیاں ایں ھمہ نیست
مطلب یہ کہ اور بھی بہت سارے کام کرنے کو موجود ہیں لیکن یہ ''منفی تنقیدیے'' کچھ اور کرنا چاہتے ہی نہیں، سچ ہے بقول رحمن بابا:
علت لاڑ شی دسڑی نہ عادت نہ زی
خدائے دے نہ کاندی پہ بدہ چار عادت سوک
یعنی ممکن ہے کہ کوئی انسان لت چھوڑ دے لیکن عادت ایک مرتبہ کسی کو پڑ گئی تو چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی، ٹھیک ہے بات نکلتی ہے تو پھر دور تلک جاتی ہے ۔
ذکر جب چھڑ گیا قیامت کا
بات پہنچی تری جوانی تک
جوانی تک رہتی تو بھی ٹھیک تھا لیکن یہاں تو بات جوانی کی دادی نانی تک پہنچ رہی ہے۔ یہ کوئی بات ہوئی کہ ڈرون حملوں کو لے کر ہماری ''آزادی'' پر سوالیہ نشان کھڑا کر دیا جائے۔ کسی حد تک یہ بات درست ہے کہ جس ملک میں سب سے زیادہ ملی ترانے اور آزادی کے نغمے گائے جاتے ہیں، اس کے ایک حصے پر یوں چیلوں کا آزادی سے جھپٹنا اور ایک ہی ہلے میں ''آزاد'' ملک کے آزاد چوزوں کو تکہ تکہ کر دیتے ہیں لیکن اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں۔۔۔ بلکہ ''ڈالروں'' میں
ظلمت کدے میں میرے شب غم کا جوش ہے
ایک شمع رہ گئی ہے سو وہ بھی خموش ہے
لیکن اس قسم کی تمام فضولیات صرف منفی تنقید میں آتی ہیں اور یہ ''منفی تنقیدیے'' ایسا لگتا ہے کہ کچھ بھی نہیں جانتے۔ تو بچوں کو معلوم ہے کہ جب ماں ہاتھ پھیلا کر آ آ کرتی ہے تو لپک کر آ جاتے ہیں، لوگ کبوتروں کو بھی آ ۔۔ آ۔۔ کر کے بلاتے ہیں اور وہ آ جاتے ہیں، اب کتوبروں کے ساتھ کچھ ڈرون بھی اس آواز پر آتے ہیں تو آنے والوں کو کہاں روک سکا ہے کوئی، بے چارے کبوتر اور ڈرون تو بے زبان ہوتے ہیں آ ۔۔ آ ۔۔ کے بلاوے پر آ جاتے ہیں تو کوئی کیا کر سکتا ہے، مطلب یہ کہ یہ سارا چکر آ ۔۔ آ ۔۔ ہی کا چلایا ہوا ہے
ہر کہ ہست از قامت ناساز کوتاہ من است
ورنہ تشریفے تو بر بالائے کس کوتاہ نیست
یعنی جو کچھ بھی ہے میری اپنی کم قامتی اور کوتاہی قد کی وجہ سے ہے ورنہ آپ کی ذات شریف تو کسی سے کم نہیں ہے، آ ۔۔۔ آ ۔۔۔ کے سلسلے میں علماء و فضلا نے کہا ہے کہ ڈرون تو ڈرون اگر ''بیل'' کو بھی کہا جائے کہ آ بیل مجھے مار ۔۔۔ تو وہ بھی انکار کرنے کی جرات نہیں کرتا، دراصل ''آ ۔۔ آ'' کی دعوت ہے ہی ایسی کہ جس کو بھی دی جاتی ہے وہ فوراً ''آ ۔۔ آ'' جاتا ہے اور تو اور شعراء اور بلبل یعنی عندلیب کے رابطے کا بھی یہی ذریعہ ہے کہ
آ ڈالریب مل کے کریں آہ و زاریاں
تو ہائے ''ڈرون'' پکار، پکاروں میں اے ''ڈالر''
یہ تو لفظ آزادی کے پہلے جز کی دعوت عام کا مفہوم تھا۔۔۔ اور دوسرے حصے کا مطلب بھی واضح ہے، زادی یا زادیوں کو کون نہیں جانتا جسے شہزادی، امیر زادی، وزیر زادی، لیڈر زادی وغیرہ ۔۔۔ یوں سمجھئے کہ ''زاد'' ہی وہی چیز ہے جو پیدا ہوئی زاد کا مطلب پیدا ہونا ہی تو ہے اس لیے دنیا میں جو بھی جس طرح جیسا ہے جہاں ہے کوئی زاد یا زادی ہے اسے ''آ'' کے الفاظ میں دعوت دی جاتی ہے کہ۔۔۔ آ ۔۔۔ زادی۔۔۔ جناب فیض نے بھی کہا ہے کہ
آئے کچھ ابر کچھ ''ڈالراب'' آئے
اس کے بعد آئے جو عذاب آئے
چونکہ پاکستان ایک مکمل طور پر آزاد ملک ہے اور اس نے بڑی جاں جوکھم سے آزادی حاصل کی ہے اور اس ملک میں گائے جانے والے ترانوں اور ملی نغموں کی تعداد سے پتہ چلتا ہے کہ پاکستان میں آزادی کی نعمت نہایت ہی وافر مقدار میں موجود ہے، اس لیے یہ کتنا برا لگے گا کہ کسی کو کسی بھی چیز سے منع کیا جائے، یہ تو ایک طرح سے آزادی کا خون ہوا، اگر آپ کسی کو یہاں کچھ بھی کرنے سے منع کریں خاص طور پر لفظ آزادی میں حرف ''آ'' کی تو سراسر توہین ہے چاہے وہ ڈرون ہوں یا ڈالر ہوں کسی کو بھی منع نہیں کیا جا سکتا، اور پھر جہاں ڈرون حملے بتائے جاتے ہیں، وہ علاقے تو ڈبل آزاد ہیں نہ ایک تو پاکستان جیسے آزاد ملک کا حصہ ہیں اور پھر پاکستان کے اندر اور بھی آزاد یعنی آزاد قبائلی علاقے ہیں، اس لیے وہاں پر کسی کو آنے اور کچھ بھی کرنے سے منع کرنا ،گویا آزادی کی ڈبل توہین ہے اور آزاد پاکستان کی آزاد حکومتیں یہ جانتی ہیں، اس لیے وہاں کسی کو بھی کسی کام سے منع نہیں کرتیں، تا کہ ''آزادی'' پر کوئی حرف نہ آئے اور پھر جس چیز کا تعلق امریکا سے ہو تو اس میں تو ڈالر کا تقدس بھی شامل ہو جاتا ہے
استادِ شہ سے ہو مجھے پُرخاش کا خیال
یہ تاب یہ مجال یہ طاقت نہیں مجھے
ایک زمانے میں آزادی سے متعلق پاکستان کے سقراطوں، بقراطوں اور بزرجمہروں نے ایک لطیفہ یا مثالیہ لانچ کیا ہوا تھا کہ ایک شخص نے ہاتھ پھیلایا تو وہ کسی دوسرے کی ناک کو پکوڑا کر گیا، متاثرہ ناک والے نے برا مانا تو ہاتھ پھیلانے والے نے کہا کہ یہ آزاد ملک ہے اور میں ایک آزاد ملک کا آزاد شہری ہوں اور میرا ہاتھ ایک آزاد ملک کے آزاد شہری کا آزاد ہاتھ ہے اس لیے جیسا چاہو اسے پھیلا سکتا ہوں اس پر دوسرے شخص نے کہا کہ بے شک تم آزاد ہو اور تمہارا ہاتھ بھی آزاد ہے لیکن تیرے ہاتھ کی آزادی کی حد وہاں ختم ہو جاتی ہے جہاں سے میری ناک کی سرحد شروع ہوتی ہے، کسی زمانے میں یہ بڑا ہی بیسٹ سیلر مثالیہ یا لطیفہ تھا لیکن بعد میں کسی نے سوچا کہ آخر اس ''ناک'' کو ڈاکٹر نے لکھا تھا کہ تم کسی بازو کے قرب و جوار میں رہا کرو تھوڑا سا ہٹ کر بھی قیام کر سکتی ہو تب سے وہ ناک وہاں سے ہٹ کر نہ جانے کہاں چلی گئی اور بازوؤں کو پھیلنے کی آزادی مل گئی، اور یہاں تو معاملہ تھوڑا اور بھی بدلا ہوا ہے جہاں جہاں ڈرون حملوں کے ہاتھ اپنا کام کرتے ہیں وہاں آس پاس بلکہ دور دور تک کسی کی ''ناک'' ہے ہی نہیں شاید بہت پہلے کسی نامعلوم زمانے میں کسی نامعلوم حالات نے اسے کاٹ کر پھینک دیا ہو گا۔
ناک وہ ناک شرم ناک جسے کہتے ہیں
ایک تو پاکستان میں یہ ''منفی تنقیدیے'' بہت ہیں۔ نہ کام نہ کاج، جب بھی دیکھو منفی تنقید کا شغل کرتے رہتے ہیں۔ ارے خدا کے بندو، دنیا میں اور بھی ہزاروں کام ہیں۔
ہر کہ خواہد گوبیا و ہر کہ خواہد گو بہ گو
کبر و ناز و حاجب و درباں دریں درگاہ نیست
ویسے بھی حکومت نے حالات کو حوالات میں ڈال کر ہر کسی کی گردن سے رسی اتاری ہوئی ہے کہ تُو مشق ناز کر خونِ دو عالم ان (حالات) کی گردن پر۔
درد مندی من سوختہ زار نزار
ظاہرا حاجت تحریر و بیاں ایں ھمہ نیست
مطلب یہ کہ اور بھی بہت سارے کام کرنے کو موجود ہیں لیکن یہ ''منفی تنقیدیے'' کچھ اور کرنا چاہتے ہی نہیں، سچ ہے بقول رحمن بابا:
علت لاڑ شی دسڑی نہ عادت نہ زی
خدائے دے نہ کاندی پہ بدہ چار عادت سوک
یعنی ممکن ہے کہ کوئی انسان لت چھوڑ دے لیکن عادت ایک مرتبہ کسی کو پڑ گئی تو چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی، ٹھیک ہے بات نکلتی ہے تو پھر دور تلک جاتی ہے ۔
ذکر جب چھڑ گیا قیامت کا
بات پہنچی تری جوانی تک
جوانی تک رہتی تو بھی ٹھیک تھا لیکن یہاں تو بات جوانی کی دادی نانی تک پہنچ رہی ہے۔ یہ کوئی بات ہوئی کہ ڈرون حملوں کو لے کر ہماری ''آزادی'' پر سوالیہ نشان کھڑا کر دیا جائے۔ کسی حد تک یہ بات درست ہے کہ جس ملک میں سب سے زیادہ ملی ترانے اور آزادی کے نغمے گائے جاتے ہیں، اس کے ایک حصے پر یوں چیلوں کا آزادی سے جھپٹنا اور ایک ہی ہلے میں ''آزاد'' ملک کے آزاد چوزوں کو تکہ تکہ کر دیتے ہیں لیکن اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں۔۔۔ بلکہ ''ڈالروں'' میں
ظلمت کدے میں میرے شب غم کا جوش ہے
ایک شمع رہ گئی ہے سو وہ بھی خموش ہے
لیکن اس قسم کی تمام فضولیات صرف منفی تنقید میں آتی ہیں اور یہ ''منفی تنقیدیے'' ایسا لگتا ہے کہ کچھ بھی نہیں جانتے۔ تو بچوں کو معلوم ہے کہ جب ماں ہاتھ پھیلا کر آ آ کرتی ہے تو لپک کر آ جاتے ہیں، لوگ کبوتروں کو بھی آ ۔۔ آ۔۔ کر کے بلاتے ہیں اور وہ آ جاتے ہیں، اب کتوبروں کے ساتھ کچھ ڈرون بھی اس آواز پر آتے ہیں تو آنے والوں کو کہاں روک سکا ہے کوئی، بے چارے کبوتر اور ڈرون تو بے زبان ہوتے ہیں آ ۔۔ آ ۔۔ کے بلاوے پر آ جاتے ہیں تو کوئی کیا کر سکتا ہے، مطلب یہ کہ یہ سارا چکر آ ۔۔ آ ۔۔ ہی کا چلایا ہوا ہے
ہر کہ ہست از قامت ناساز کوتاہ من است
ورنہ تشریفے تو بر بالائے کس کوتاہ نیست
یعنی جو کچھ بھی ہے میری اپنی کم قامتی اور کوتاہی قد کی وجہ سے ہے ورنہ آپ کی ذات شریف تو کسی سے کم نہیں ہے، آ ۔۔۔ آ ۔۔۔ کے سلسلے میں علماء و فضلا نے کہا ہے کہ ڈرون تو ڈرون اگر ''بیل'' کو بھی کہا جائے کہ آ بیل مجھے مار ۔۔۔ تو وہ بھی انکار کرنے کی جرات نہیں کرتا، دراصل ''آ ۔۔ آ'' کی دعوت ہے ہی ایسی کہ جس کو بھی دی جاتی ہے وہ فوراً ''آ ۔۔ آ'' جاتا ہے اور تو اور شعراء اور بلبل یعنی عندلیب کے رابطے کا بھی یہی ذریعہ ہے کہ
آ ڈالریب مل کے کریں آہ و زاریاں
تو ہائے ''ڈرون'' پکار، پکاروں میں اے ''ڈالر''
یہ تو لفظ آزادی کے پہلے جز کی دعوت عام کا مفہوم تھا۔۔۔ اور دوسرے حصے کا مطلب بھی واضح ہے، زادی یا زادیوں کو کون نہیں جانتا جسے شہزادی، امیر زادی، وزیر زادی، لیڈر زادی وغیرہ ۔۔۔ یوں سمجھئے کہ ''زاد'' ہی وہی چیز ہے جو پیدا ہوئی زاد کا مطلب پیدا ہونا ہی تو ہے اس لیے دنیا میں جو بھی جس طرح جیسا ہے جہاں ہے کوئی زاد یا زادی ہے اسے ''آ'' کے الفاظ میں دعوت دی جاتی ہے کہ۔۔۔ آ ۔۔۔ زادی۔۔۔ جناب فیض نے بھی کہا ہے کہ
آئے کچھ ابر کچھ ''ڈالراب'' آئے
اس کے بعد آئے جو عذاب آئے
چونکہ پاکستان ایک مکمل طور پر آزاد ملک ہے اور اس نے بڑی جاں جوکھم سے آزادی حاصل کی ہے اور اس ملک میں گائے جانے والے ترانوں اور ملی نغموں کی تعداد سے پتہ چلتا ہے کہ پاکستان میں آزادی کی نعمت نہایت ہی وافر مقدار میں موجود ہے، اس لیے یہ کتنا برا لگے گا کہ کسی کو کسی بھی چیز سے منع کیا جائے، یہ تو ایک طرح سے آزادی کا خون ہوا، اگر آپ کسی کو یہاں کچھ بھی کرنے سے منع کریں خاص طور پر لفظ آزادی میں حرف ''آ'' کی تو سراسر توہین ہے چاہے وہ ڈرون ہوں یا ڈالر ہوں کسی کو بھی منع نہیں کیا جا سکتا، اور پھر جہاں ڈرون حملے بتائے جاتے ہیں، وہ علاقے تو ڈبل آزاد ہیں نہ ایک تو پاکستان جیسے آزاد ملک کا حصہ ہیں اور پھر پاکستان کے اندر اور بھی آزاد یعنی آزاد قبائلی علاقے ہیں، اس لیے وہاں پر کسی کو آنے اور کچھ بھی کرنے سے منع کرنا ،گویا آزادی کی ڈبل توہین ہے اور آزاد پاکستان کی آزاد حکومتیں یہ جانتی ہیں، اس لیے وہاں کسی کو بھی کسی کام سے منع نہیں کرتیں، تا کہ ''آزادی'' پر کوئی حرف نہ آئے اور پھر جس چیز کا تعلق امریکا سے ہو تو اس میں تو ڈالر کا تقدس بھی شامل ہو جاتا ہے
استادِ شہ سے ہو مجھے پُرخاش کا خیال
یہ تاب یہ مجال یہ طاقت نہیں مجھے
ایک زمانے میں آزادی سے متعلق پاکستان کے سقراطوں، بقراطوں اور بزرجمہروں نے ایک لطیفہ یا مثالیہ لانچ کیا ہوا تھا کہ ایک شخص نے ہاتھ پھیلایا تو وہ کسی دوسرے کی ناک کو پکوڑا کر گیا، متاثرہ ناک والے نے برا مانا تو ہاتھ پھیلانے والے نے کہا کہ یہ آزاد ملک ہے اور میں ایک آزاد ملک کا آزاد شہری ہوں اور میرا ہاتھ ایک آزاد ملک کے آزاد شہری کا آزاد ہاتھ ہے اس لیے جیسا چاہو اسے پھیلا سکتا ہوں اس پر دوسرے شخص نے کہا کہ بے شک تم آزاد ہو اور تمہارا ہاتھ بھی آزاد ہے لیکن تیرے ہاتھ کی آزادی کی حد وہاں ختم ہو جاتی ہے جہاں سے میری ناک کی سرحد شروع ہوتی ہے، کسی زمانے میں یہ بڑا ہی بیسٹ سیلر مثالیہ یا لطیفہ تھا لیکن بعد میں کسی نے سوچا کہ آخر اس ''ناک'' کو ڈاکٹر نے لکھا تھا کہ تم کسی بازو کے قرب و جوار میں رہا کرو تھوڑا سا ہٹ کر بھی قیام کر سکتی ہو تب سے وہ ناک وہاں سے ہٹ کر نہ جانے کہاں چلی گئی اور بازوؤں کو پھیلنے کی آزادی مل گئی، اور یہاں تو معاملہ تھوڑا اور بھی بدلا ہوا ہے جہاں جہاں ڈرون حملوں کے ہاتھ اپنا کام کرتے ہیں وہاں آس پاس بلکہ دور دور تک کسی کی ''ناک'' ہے ہی نہیں شاید بہت پہلے کسی نامعلوم زمانے میں کسی نامعلوم حالات نے اسے کاٹ کر پھینک دیا ہو گا۔
ناک وہ ناک شرم ناک جسے کہتے ہیں