کوئٹہ پھر دہشت گردوں کے ٹارگٹ پر
اس دلگداز واقعہ کی پیشگی روک تھام کے لیے اب ضرورت نئے عزم کے ساتھ دشتگردوں سے نمٹنے کی ہے
سال نو کے آغاز پر دہشت گردوں نے نئی صف بندی کا عندیہ دے دیا ہے جس سے ان کے مذموم عزائم اور گھناؤنے نیٹ ورکنگ کے فنکشنل ہونے پر کوئی دو رائے نہیں ہو سکتیں۔
بلوچستان میں جمعہ کو کوئٹہ کے علاقے سیٹلائٹ ٹاون میں واقع مسجد میں نماز مغرب کی ادائیگی کے دوران خودکش دھماکے میں ڈی ایس پی پولیس اور امام مسجد سمیت15 نمازی شہید اور 21 زخمی ہوگئے ۔ وزیراعلیٰ نے آئی جی پولیس سے رپورٹ طلب کر لی۔ دھماکے سے مسجد کو شدید نقصان پہنچا ۔
وزیراعلیٰ جام کمال خان نے دھماکے کی مذمت اور واقعہ کی رپورٹ طلب کرتے ہوئے کہا کہ بزدل دہشت گرد ایک مرتبہ پھر شہر اور صوبے کا امن خراب کرنا چاہتے ہیں، دیرپا امن کے قیام کو ہرصورت یقینی بنایا جائے گا ،ادھر پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے کوئٹہ دھماکے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ مسجد میں بے گناہ نمازیوں کو نشانہ بنانے والے مسلمان ہرگز نہیں ہوسکتے۔
حکومت کے لیے دہشتگردی کا یہ دوسرا واقعہ ہے جو نئے سال کے آغاز پر رونما ہوا ہے۔ تین روز قبل کوئٹہ کے میکانگی روڈ پر ہونے والے دھماکے میں 2 افراد شہید 20 زخمی ہوئے تھے۔ صوبائی حکومت نے اس کا سراغ لگانے کی فعال انداز میں کوشش نہیں جب کہ دوسرا سانحہ اس سے زیادہ الم ناک ثابت ہوا۔ دہشتگردی کی راکھ سے نئے دیومالائی کہانی کے ''ققنس'' پیدا ہونے کا اندیشے مزید بڑھ سکتے ہیں۔
ققنس یونانی کہانیوں کا ایک پرندہ ہے جو مرنے کے بعد اپنی راکھ سے دوبارہ پیدا ہوتا ہے۔ سیکیورٹی حکام کے لیے مسجد میں بم دھماکا انتہاپسندی کا درد انگیز واقعہ ہے جس کی جتنی مذمت کی جائے کم، اس جارحانہ اور بزدلانہ واردات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ حملہ آور ملک دشمنی میں انسانیت کے درجے سے کتنی پستی میں گر سکتے ہیں ۔
پولیس کے مطابق علاقے اسحاق آباد میں واقع مدرسہ دارلعلوم الشرعیہ سے ملحقہ مسجد میں نماز مغرب کی ادائیگی کے دورا ن دوسری صف میں کھڑے خودکش حملہ آور نے خود کو دھماکے سے اڑادیا جس سے ڈی ایس پی امان اللہ اور پیش امام سمیت 15 نمازی شہیدجب کہ21 زخمی ہو گئے ، دھماکے کے فوراً بعد پولیس، ایف سی اور دیگر قانون نافذکرنے والے اداروں نے جائے وقوعہ کو گھیر ے میں لے کر نعشوں اور زخمیوں کوسول اسپتال منتقل کیا جب کہ بم ڈسپوزل اسکواڈ نے موقع پر پہنچ کر شوائد جمع کیے، مسجد میں بھگدڑ مچ گئی۔
ترجمان سول اسپتال کے مطابق دھماکے کی اطلاع ملتے ہی اسپتال میں ایمرجنسی نافذ کردی گئی، ٹراما سینٹر میں شدید زخمیوں کے آپریشنز کیے گئے ۔ شہید ڈی ایس پی امان اللہ کا گھر بھی مسجد کے قریب واقع ہے اور وہ مسجد میں نماز مغرب کی نماز ادا کرنے آئے تھے، کوئٹہ کے پولیس ٹریننگ کالج سریاب روڈ میں تعینات تھے، واضح رہے کہ ان کے بیٹے نجیب اللہ کو ایک ماہ قبل نامعلوم افراد نے فائرنگ کرکے شہید کردیا تھا۔ بم ڈسپوزل اسکواڈ کے مطابق خود کش جیکٹ میں آٹھ کلو دھماکا خیز مواد اوربھاری مقدار میں بال بیرنگ استعمال کیے گئے ۔
صوبائی وزیر داخلہ میر ضیاء لانگو نے جائے وقوعہ کے دورے کے موقع پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کے حملوں سے ہمارے حوصلہ پست نہیں ہوںگے ۔
ادھر پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے کوئٹہ دھماکے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ مسجد میں بے گناہ نمازیوں کو نشانہ بنانے والے مسلمان ہرگز نہیں ہو سکتے، ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور کے مطابق آرمی چیف نے ہدایات جاری کی ہیں کہ امدادی کاموں میں پولیس اور سول انتظامیہ کو بھرپور تعاون فراہم کیا جائے جب کہ پولیس کے ساتھ مل کرمشترکہ سرچ آپریشن کرتے ہوئے زخمیوں کواسپتال منتقل کیا گیا۔
صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے کوئٹہ مسجد میں دھماکے کی شدید مذمت کرتے ہوئے قیمتی جانوں کے ضیاع پر گہرے دکھ اور غم کا اظہار کیا ہے۔ وزیراعظم میڈیا آفس سے جاری بیان کے مطابق وزیراعظم نے زخمیوں کو بہترین طبی امداد کی فراہمی کی ہدایت کی ہے اور دھماکے کی رپورٹ طلب کر لی ہے، ڈی ایس پی امان اللہ کی نمازجنازہ رات گئے پولیس لائن کوئٹہ میں ادا کردی گئی، تدفین آج ہوگی ، نماز جنازہ میں وزیرداخلہ بلوچستان میر ضیاء اللہ لانگو، آئی جی پولیس محسن حسن بٹ سمیت پولیس اور ایف سی حکام نے شرکت کی۔
تاہم اس دلگداز واقعہ کی پیشگی روک تھام کے لیے اب ضرورت نئے عزم کے ساتھ دشتگردوں سے نمٹنے کی ہے، ملک دہشتگردی کے عفریت کا مقابلہ کرنے کا بہت سا سامان کرچکا لیکن انسانیت کے دشمنوں نے اگر نئے سال کا استقبال بے گناہ انسانوں کے خون ناحق سے کرنا ہے تو انھیں ویسا سبق سکھایا جائے کہ ان کی اگلی نسلیں بھی یاد رکھیں۔ یہ وقت اور لمحہ مذمتی بیانات سے نہیں ٹل سکتا ، اب دہشتگردوں کو کیفرکردار تک پہنچا کر ہی قوم نئے سال کاکھلی بانہوں سے خیر مقدم کریگی۔
بلوچستان حکومت کو سیکیورٹی کے لیے جدید ترین انٹیلی جنس سہولتیں دینے کے ساتھ ہی غیر ملکی خفیہ اداروں اور ان کے مقامی سہولت کاروںکا کھوج لگانے میں اپنی ساری توانائیاں خرچ کرنی چاہیے۔ دہشتگردوں کی سرکوبی اولین ٹاسک ہونا چاہیے۔
بلوچستان میں جمعہ کو کوئٹہ کے علاقے سیٹلائٹ ٹاون میں واقع مسجد میں نماز مغرب کی ادائیگی کے دوران خودکش دھماکے میں ڈی ایس پی پولیس اور امام مسجد سمیت15 نمازی شہید اور 21 زخمی ہوگئے ۔ وزیراعلیٰ نے آئی جی پولیس سے رپورٹ طلب کر لی۔ دھماکے سے مسجد کو شدید نقصان پہنچا ۔
وزیراعلیٰ جام کمال خان نے دھماکے کی مذمت اور واقعہ کی رپورٹ طلب کرتے ہوئے کہا کہ بزدل دہشت گرد ایک مرتبہ پھر شہر اور صوبے کا امن خراب کرنا چاہتے ہیں، دیرپا امن کے قیام کو ہرصورت یقینی بنایا جائے گا ،ادھر پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے کوئٹہ دھماکے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ مسجد میں بے گناہ نمازیوں کو نشانہ بنانے والے مسلمان ہرگز نہیں ہوسکتے۔
حکومت کے لیے دہشتگردی کا یہ دوسرا واقعہ ہے جو نئے سال کے آغاز پر رونما ہوا ہے۔ تین روز قبل کوئٹہ کے میکانگی روڈ پر ہونے والے دھماکے میں 2 افراد شہید 20 زخمی ہوئے تھے۔ صوبائی حکومت نے اس کا سراغ لگانے کی فعال انداز میں کوشش نہیں جب کہ دوسرا سانحہ اس سے زیادہ الم ناک ثابت ہوا۔ دہشتگردی کی راکھ سے نئے دیومالائی کہانی کے ''ققنس'' پیدا ہونے کا اندیشے مزید بڑھ سکتے ہیں۔
ققنس یونانی کہانیوں کا ایک پرندہ ہے جو مرنے کے بعد اپنی راکھ سے دوبارہ پیدا ہوتا ہے۔ سیکیورٹی حکام کے لیے مسجد میں بم دھماکا انتہاپسندی کا درد انگیز واقعہ ہے جس کی جتنی مذمت کی جائے کم، اس جارحانہ اور بزدلانہ واردات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ حملہ آور ملک دشمنی میں انسانیت کے درجے سے کتنی پستی میں گر سکتے ہیں ۔
پولیس کے مطابق علاقے اسحاق آباد میں واقع مدرسہ دارلعلوم الشرعیہ سے ملحقہ مسجد میں نماز مغرب کی ادائیگی کے دورا ن دوسری صف میں کھڑے خودکش حملہ آور نے خود کو دھماکے سے اڑادیا جس سے ڈی ایس پی امان اللہ اور پیش امام سمیت 15 نمازی شہیدجب کہ21 زخمی ہو گئے ، دھماکے کے فوراً بعد پولیس، ایف سی اور دیگر قانون نافذکرنے والے اداروں نے جائے وقوعہ کو گھیر ے میں لے کر نعشوں اور زخمیوں کوسول اسپتال منتقل کیا جب کہ بم ڈسپوزل اسکواڈ نے موقع پر پہنچ کر شوائد جمع کیے، مسجد میں بھگدڑ مچ گئی۔
ترجمان سول اسپتال کے مطابق دھماکے کی اطلاع ملتے ہی اسپتال میں ایمرجنسی نافذ کردی گئی، ٹراما سینٹر میں شدید زخمیوں کے آپریشنز کیے گئے ۔ شہید ڈی ایس پی امان اللہ کا گھر بھی مسجد کے قریب واقع ہے اور وہ مسجد میں نماز مغرب کی نماز ادا کرنے آئے تھے، کوئٹہ کے پولیس ٹریننگ کالج سریاب روڈ میں تعینات تھے، واضح رہے کہ ان کے بیٹے نجیب اللہ کو ایک ماہ قبل نامعلوم افراد نے فائرنگ کرکے شہید کردیا تھا۔ بم ڈسپوزل اسکواڈ کے مطابق خود کش جیکٹ میں آٹھ کلو دھماکا خیز مواد اوربھاری مقدار میں بال بیرنگ استعمال کیے گئے ۔
صوبائی وزیر داخلہ میر ضیاء لانگو نے جائے وقوعہ کے دورے کے موقع پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کے حملوں سے ہمارے حوصلہ پست نہیں ہوںگے ۔
ادھر پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے کوئٹہ دھماکے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ مسجد میں بے گناہ نمازیوں کو نشانہ بنانے والے مسلمان ہرگز نہیں ہو سکتے، ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور کے مطابق آرمی چیف نے ہدایات جاری کی ہیں کہ امدادی کاموں میں پولیس اور سول انتظامیہ کو بھرپور تعاون فراہم کیا جائے جب کہ پولیس کے ساتھ مل کرمشترکہ سرچ آپریشن کرتے ہوئے زخمیوں کواسپتال منتقل کیا گیا۔
صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے کوئٹہ مسجد میں دھماکے کی شدید مذمت کرتے ہوئے قیمتی جانوں کے ضیاع پر گہرے دکھ اور غم کا اظہار کیا ہے۔ وزیراعظم میڈیا آفس سے جاری بیان کے مطابق وزیراعظم نے زخمیوں کو بہترین طبی امداد کی فراہمی کی ہدایت کی ہے اور دھماکے کی رپورٹ طلب کر لی ہے، ڈی ایس پی امان اللہ کی نمازجنازہ رات گئے پولیس لائن کوئٹہ میں ادا کردی گئی، تدفین آج ہوگی ، نماز جنازہ میں وزیرداخلہ بلوچستان میر ضیاء اللہ لانگو، آئی جی پولیس محسن حسن بٹ سمیت پولیس اور ایف سی حکام نے شرکت کی۔
تاہم اس دلگداز واقعہ کی پیشگی روک تھام کے لیے اب ضرورت نئے عزم کے ساتھ دشتگردوں سے نمٹنے کی ہے، ملک دہشتگردی کے عفریت کا مقابلہ کرنے کا بہت سا سامان کرچکا لیکن انسانیت کے دشمنوں نے اگر نئے سال کا استقبال بے گناہ انسانوں کے خون ناحق سے کرنا ہے تو انھیں ویسا سبق سکھایا جائے کہ ان کی اگلی نسلیں بھی یاد رکھیں۔ یہ وقت اور لمحہ مذمتی بیانات سے نہیں ٹل سکتا ، اب دہشتگردوں کو کیفرکردار تک پہنچا کر ہی قوم نئے سال کاکھلی بانہوں سے خیر مقدم کریگی۔
بلوچستان حکومت کو سیکیورٹی کے لیے جدید ترین انٹیلی جنس سہولتیں دینے کے ساتھ ہی غیر ملکی خفیہ اداروں اور ان کے مقامی سہولت کاروںکا کھوج لگانے میں اپنی ساری توانائیاں خرچ کرنی چاہیے۔ دہشتگردوں کی سرکوبی اولین ٹاسک ہونا چاہیے۔