امریکی پولیس میں پاکستانی آفیسر ہیرو پہلا حصہ
پاکستان سے تعلق رکھنے والے مظفر صدیقی ہیوسٹن پولیس ڈپارٹمنٹ میں اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں
جیساکہ میں نے اپنے گزشتہ کالم میں لکھا تھا کہ امریکا میں تعینات پاکستانی سفیر سے ایک تفصیلی نشست رہی جس میں ان کی کہی ہوئی یہ بات دل میں نقش کرگئی کہ امریکا میں مقیم ایسے پاکستانی ہیں جو اپنے اصلی وطن کے ساتھ ساتھ امریکا کے لیے بھی مخلص اور خیرخواہ ہیں اور پھر غالب کا یہ شعر یاد آیا کہ:
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے میرے ارماں لیکن پھر بھی کم نکلے
یعنی اس نشست کے بعد ایک اور نشست ایسے امریکی پاکستانی سے ملا جائے جس نے صحیح معنوں میں اپنے کردار ، اخلاق ، کام درحقیقت اپنے ہر عمل سے یہاں پاکستان کا نام روشن کیا ہو۔
اس آرزوکی طلب مجھے امریکی ریاست ٹیکساس کے شہر ہیوسٹن لے گئی جہاں میں نے اپنی خواہش کا اظہار اپنے میزبان ریاض قریشی صاحب سے کیا تو انھوں نے نہ صرف میری رہنمائی کی بلکہ مجھے ملوانے پاکستانی نژاد امریکی سینئر پولیس آفیسر مظفرصدیقی کے پاس لے گئے جو ان دنوں اعلیٰ ترین امریکی اعزاز ٹاپ کوپ حاصل کرنے کے لیے ریپبلکن پارٹی کی جانب سے شیرف کے لیے نامزد کر دیے گئے تھے۔
پاکستان سے تعلق رکھنے والے مظفر صدیقی ہیوسٹن پولیس ڈپارٹمنٹ میں اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں اورکمیونٹی میں اچھی شہرت رکھتے ہیں۔ اپنی انتہائی گونا گوں مصروفیات کے باوجود انھوں نے اپنا قیمتی وقت نکالا۔ میرا ان سے پہلا سوال تھا کہ آپ اپنا تعارف کروائیں، فیملی بیک گرائونڈ بتائیں اور پولیس میں شمولیت کا فیصلہ کیسے اورکیوں کیا؟
انھوں نے میرے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ میرا تعلق کراچی سے ہے، جب کہ میرے والدکا تعلق سویلین پاک فوج سے تھا، میری والدہ خاتون خانہ تھیں۔ ہم دس بہن بھائی ہیں، جو زیادہ تر بزنس سے وابستہ ہے۔ مجھے بچپن سے ہی شوق تھا کہ پاک آرمی جوائن کرو، لیکن میری یہ خواہش پوری نہ ہوسکی تو میں نے کراچی میں محکمہ پولیس میں شمولیت اختیارکی۔ میں ایگل اسکواڈ میں اپنے فرائض سر انجام دیتا تھا، کراچی میں ذیشان کاظمی اور چوہدری اسلم دونوں میرے ساتھ پولیس آفیسر تھے۔
پھر1990 میں امریکا آگیا ، امریکا آمدکا بندوست میری بہن نے کیا تھا۔ یہاں پر ایک دلچسپ واقعہ بھی آپ کے گوش گزارکرناچاہتا ہوںکہ میرا ایک جاب فیئر میں جانے کا اتفاق ہوا، یہ 96 19کی بات ہے۔ پولیس کا ایک تعارفی اسٹال تھا میں ذرا سے وہاں رکا تو وہاں پولیس ٹویٹر نے مجھ سے پوچھا کہ کیا آپ بھی پولیس میں شامل ہونا چاہتے ہیں۔ میں نے فورا کہا '' نہیں'' تو وہ میری ''ناں'' سن کر حیران رہ گیا ، میں نے جس لہجے میں یہ لفظ کہا تھا ، وہ اس کے لیے انتہائی حیران کن تھا ۔
لیکن دیکھیے پھر میں نے امریکن پولیس کو جوائن کیا اور اکیس بائیس سال سے اس سے وابستہ ہوں۔ پہلے پہل تو میں امریکن پولیس میں اجنبی تھا ، کیونکہ میرا تعلق پاکستان سے تھا اور ٹیکساس کی تاریخ میں پہلا مسلمان تھا۔ یوں سمجھیں پولیس کے دیگر افراد مجھ سے اس وقت تک ریزو رہتے تھے، اس وقت میں اکیڈمی میں ٹریننگ بھی لے رہا تھا ، جب انھوں نے مجھے سمجھا تو وہ میرے دوست بن گئے۔
پولیس میں اعلیٰ کارکردگی دکھانے پر مجھے ان گنت ایوارڈز مل چکے ہیں جو کہ نہ صرف میرے لیے اعزازکی بات ہے بلکہ میرے پیارے وطن پاکستان کے لیے بھی ۔ میں ان کی باتیں توجہ سے سن رہی تھی ، ان سے اگلا سوال کیا کہ امریکا میں مقیم پاکستانیوں کا پولیس سے تعاون کیسا ہے اور وہ قوانین پرکتنا عملد درآمدکرتے ہیں؟
انھوں نے جوابا کہا کہ دو دہائی قبل جب میں نے پولیس کا محکمہ جوائن کیا تو امریکا میں مقیم پاکستانیوں کو پولیس پر اعتماد نہیں تھا، وہ انجانے خوف کے باعث پولیس اسٹیشن آنا ہی نہیں چاہتے تھے یعنی کنی کتراتے تھے اور اگر ان کے ساتھ کوئی ایسا انہونا واقعہ پیش آجاتا تو وہ اسے چھپانے کی پوری کوشش کرتے تھے لیکن اب صورتحال یکسر تبدیل ہوچکی ہے۔
پولیس کمیونٹی کے پروگرام کے تحت میں مساجد میں گیا ، ایشینزکی سماجی تقریبات میں گیا ، انھیں پولیس قوانین سے آگاہ کیا اور اس بات کا بطورآفیسر یقین دلایا کہ ان کے ساتھ مکمل تعاون اور انصاف کیا جائے گا میری اس مسلسل کاوش کا نتیجہ یہ نکلا کہ گھریلو تشددکے واقعات کے حوالے سے تمام ایشیائی باشندے اب پولیس سے رابطہ کرتے ہیں، تاکہ ان کے مسائل حل ہو ،گھریلو تشدد میں ملوث شخص کو فورا گرفتارکرلیا جاتا ہے۔ میں نے ان سے پوچھا کہ یہاں پولیس کا نظام کیسے کام کرتا ہے؟
انھوں نے میرے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ اس بات کو سمجھنے کے لیے تین چار نکات کو ذہن میں رکھیں۔ قوانین اور ان پر عملدرآمدکا ایک ترتیب والا سلسلہ ہے۔ وفاقی ، صوبائی، مقامی اور شہری قوانین کا ایک مربوط نظام یہاں موجود ہے۔ یہاں پولیس میں کرپشن نہیں ہے، اگرکسی پولیس آفیسرکی شکایت موصول ہو توکرمنل انٹیلیجنس والے اس آفیسرکیخلاف تحقیقات کرتے ہیں اور اگر وہ کسی بھی قسم کی کرپشن میں ملوث پایا جاتا ہے تو اس کو فورا نوکری سے برخاست کردیا جاتا ہے۔
میں ایک ذاتی واقعہ سناتا ہوں کہ میرا کار چلاتے ہوئے ایکسیڈنٹ ہوگیا ، مجھے جائے حادثہ پر آنیوالی پولیس نے فورا گرفتارکرلیا کہ کہیں میں نشے کی حالت میں توکار نہیں چلا رہا تھا جب تحقیقات مکمل ہوئیں تو انتظامی سطح پر فورا تردید بھی آئی اور مجھے رہا بھی کر دیا گیا، یعنی یہاں پر پیٹی بھائی والی اصطلاح اور طریقہ کار بالکل نہیں چلتا سب کچھ انتہائی شفاف اور ایماندارانہ طریقے پر ہوتا ہے، کیونکہ پولیس یہاں کے عوام کے لیے ایک رول ماڈل کی حیثیت رکھتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ یہاں کے عوام پولیس پر مکمل اعتماد کرتے ہیں اور انھیں اپنا محافظ اور دوست سمجھتے ہیں، اگر کسی کارروائی کے دوران پولیس مین مارا جاتا ہے، تو اس کے جنازے میں شرکت کے لیے ہزارہا لوگ امریکا کے کونے کونے سے پہنچ جاتے ہیں۔ یہاںپر مقامی پولیس کی یہ وہ مقبولیت ہے جو ان کو اپنے عوام کے قریب کرتی ہے اور دونوں ایک دوسرے کا اپنا ہمدرد اور غم خوارسمجھتے ہیں۔ یہ سب پولیس کے نظام کی اچھائی ہے جوکمیونٹی بیس پروگرامزکا ثمر ہے۔
(جاری ہے۔)
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے میرے ارماں لیکن پھر بھی کم نکلے
یعنی اس نشست کے بعد ایک اور نشست ایسے امریکی پاکستانی سے ملا جائے جس نے صحیح معنوں میں اپنے کردار ، اخلاق ، کام درحقیقت اپنے ہر عمل سے یہاں پاکستان کا نام روشن کیا ہو۔
اس آرزوکی طلب مجھے امریکی ریاست ٹیکساس کے شہر ہیوسٹن لے گئی جہاں میں نے اپنی خواہش کا اظہار اپنے میزبان ریاض قریشی صاحب سے کیا تو انھوں نے نہ صرف میری رہنمائی کی بلکہ مجھے ملوانے پاکستانی نژاد امریکی سینئر پولیس آفیسر مظفرصدیقی کے پاس لے گئے جو ان دنوں اعلیٰ ترین امریکی اعزاز ٹاپ کوپ حاصل کرنے کے لیے ریپبلکن پارٹی کی جانب سے شیرف کے لیے نامزد کر دیے گئے تھے۔
پاکستان سے تعلق رکھنے والے مظفر صدیقی ہیوسٹن پولیس ڈپارٹمنٹ میں اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں اورکمیونٹی میں اچھی شہرت رکھتے ہیں۔ اپنی انتہائی گونا گوں مصروفیات کے باوجود انھوں نے اپنا قیمتی وقت نکالا۔ میرا ان سے پہلا سوال تھا کہ آپ اپنا تعارف کروائیں، فیملی بیک گرائونڈ بتائیں اور پولیس میں شمولیت کا فیصلہ کیسے اورکیوں کیا؟
انھوں نے میرے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ میرا تعلق کراچی سے ہے، جب کہ میرے والدکا تعلق سویلین پاک فوج سے تھا، میری والدہ خاتون خانہ تھیں۔ ہم دس بہن بھائی ہیں، جو زیادہ تر بزنس سے وابستہ ہے۔ مجھے بچپن سے ہی شوق تھا کہ پاک آرمی جوائن کرو، لیکن میری یہ خواہش پوری نہ ہوسکی تو میں نے کراچی میں محکمہ پولیس میں شمولیت اختیارکی۔ میں ایگل اسکواڈ میں اپنے فرائض سر انجام دیتا تھا، کراچی میں ذیشان کاظمی اور چوہدری اسلم دونوں میرے ساتھ پولیس آفیسر تھے۔
پھر1990 میں امریکا آگیا ، امریکا آمدکا بندوست میری بہن نے کیا تھا۔ یہاں پر ایک دلچسپ واقعہ بھی آپ کے گوش گزارکرناچاہتا ہوںکہ میرا ایک جاب فیئر میں جانے کا اتفاق ہوا، یہ 96 19کی بات ہے۔ پولیس کا ایک تعارفی اسٹال تھا میں ذرا سے وہاں رکا تو وہاں پولیس ٹویٹر نے مجھ سے پوچھا کہ کیا آپ بھی پولیس میں شامل ہونا چاہتے ہیں۔ میں نے فورا کہا '' نہیں'' تو وہ میری ''ناں'' سن کر حیران رہ گیا ، میں نے جس لہجے میں یہ لفظ کہا تھا ، وہ اس کے لیے انتہائی حیران کن تھا ۔
لیکن دیکھیے پھر میں نے امریکن پولیس کو جوائن کیا اور اکیس بائیس سال سے اس سے وابستہ ہوں۔ پہلے پہل تو میں امریکن پولیس میں اجنبی تھا ، کیونکہ میرا تعلق پاکستان سے تھا اور ٹیکساس کی تاریخ میں پہلا مسلمان تھا۔ یوں سمجھیں پولیس کے دیگر افراد مجھ سے اس وقت تک ریزو رہتے تھے، اس وقت میں اکیڈمی میں ٹریننگ بھی لے رہا تھا ، جب انھوں نے مجھے سمجھا تو وہ میرے دوست بن گئے۔
پولیس میں اعلیٰ کارکردگی دکھانے پر مجھے ان گنت ایوارڈز مل چکے ہیں جو کہ نہ صرف میرے لیے اعزازکی بات ہے بلکہ میرے پیارے وطن پاکستان کے لیے بھی ۔ میں ان کی باتیں توجہ سے سن رہی تھی ، ان سے اگلا سوال کیا کہ امریکا میں مقیم پاکستانیوں کا پولیس سے تعاون کیسا ہے اور وہ قوانین پرکتنا عملد درآمدکرتے ہیں؟
انھوں نے جوابا کہا کہ دو دہائی قبل جب میں نے پولیس کا محکمہ جوائن کیا تو امریکا میں مقیم پاکستانیوں کو پولیس پر اعتماد نہیں تھا، وہ انجانے خوف کے باعث پولیس اسٹیشن آنا ہی نہیں چاہتے تھے یعنی کنی کتراتے تھے اور اگر ان کے ساتھ کوئی ایسا انہونا واقعہ پیش آجاتا تو وہ اسے چھپانے کی پوری کوشش کرتے تھے لیکن اب صورتحال یکسر تبدیل ہوچکی ہے۔
پولیس کمیونٹی کے پروگرام کے تحت میں مساجد میں گیا ، ایشینزکی سماجی تقریبات میں گیا ، انھیں پولیس قوانین سے آگاہ کیا اور اس بات کا بطورآفیسر یقین دلایا کہ ان کے ساتھ مکمل تعاون اور انصاف کیا جائے گا میری اس مسلسل کاوش کا نتیجہ یہ نکلا کہ گھریلو تشددکے واقعات کے حوالے سے تمام ایشیائی باشندے اب پولیس سے رابطہ کرتے ہیں، تاکہ ان کے مسائل حل ہو ،گھریلو تشدد میں ملوث شخص کو فورا گرفتارکرلیا جاتا ہے۔ میں نے ان سے پوچھا کہ یہاں پولیس کا نظام کیسے کام کرتا ہے؟
انھوں نے میرے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ اس بات کو سمجھنے کے لیے تین چار نکات کو ذہن میں رکھیں۔ قوانین اور ان پر عملدرآمدکا ایک ترتیب والا سلسلہ ہے۔ وفاقی ، صوبائی، مقامی اور شہری قوانین کا ایک مربوط نظام یہاں موجود ہے۔ یہاں پولیس میں کرپشن نہیں ہے، اگرکسی پولیس آفیسرکی شکایت موصول ہو توکرمنل انٹیلیجنس والے اس آفیسرکیخلاف تحقیقات کرتے ہیں اور اگر وہ کسی بھی قسم کی کرپشن میں ملوث پایا جاتا ہے تو اس کو فورا نوکری سے برخاست کردیا جاتا ہے۔
میں ایک ذاتی واقعہ سناتا ہوں کہ میرا کار چلاتے ہوئے ایکسیڈنٹ ہوگیا ، مجھے جائے حادثہ پر آنیوالی پولیس نے فورا گرفتارکرلیا کہ کہیں میں نشے کی حالت میں توکار نہیں چلا رہا تھا جب تحقیقات مکمل ہوئیں تو انتظامی سطح پر فورا تردید بھی آئی اور مجھے رہا بھی کر دیا گیا، یعنی یہاں پر پیٹی بھائی والی اصطلاح اور طریقہ کار بالکل نہیں چلتا سب کچھ انتہائی شفاف اور ایماندارانہ طریقے پر ہوتا ہے، کیونکہ پولیس یہاں کے عوام کے لیے ایک رول ماڈل کی حیثیت رکھتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ یہاں کے عوام پولیس پر مکمل اعتماد کرتے ہیں اور انھیں اپنا محافظ اور دوست سمجھتے ہیں، اگر کسی کارروائی کے دوران پولیس مین مارا جاتا ہے، تو اس کے جنازے میں شرکت کے لیے ہزارہا لوگ امریکا کے کونے کونے سے پہنچ جاتے ہیں۔ یہاںپر مقامی پولیس کی یہ وہ مقبولیت ہے جو ان کو اپنے عوام کے قریب کرتی ہے اور دونوں ایک دوسرے کا اپنا ہمدرد اور غم خوارسمجھتے ہیں۔ یہ سب پولیس کے نظام کی اچھائی ہے جوکمیونٹی بیس پروگرامزکا ثمر ہے۔
(جاری ہے۔)