لاڑکانہ میں نصرت بھٹو وومن لائبریری کا قیام
لاڑکانہ میں اہم لوگ رہتے ہیں وہ بھی اس طرف توجہ نہیں دے رہے ہیں جبکہ صرف سرشاہنوازبھٹومیموریل لائبریری پہنچ جاتے ہیں۔
دنیا میں لائبریریوں کا کردار علم وادب کو فروغ دینے میں بڑا اہم رہا ہے مگر افسوس یہ ہے کہ لائبریریاں صرف بڑے شہروں تک محدود رہی ہیں یا تو پھر بڑے امیر لوگوں نے صرف اپنے گھر کی سجاوٹ یا پھر اپنے مطالعے کے لیے ذاتی لائبریریاں بنائی ہیں جس میں خاص طور پر بڑی اچھی ذاتی لائبریریاں ہیں۔
سرکاری لائبریریوں کا قیام لاڑکانہ میں انگریزوں کے زمانے سے ہے جس میں لاڑکانہ تجر باغ میں ایک تجر عمارت ہے اس میں جائلس کے نام سے ایک لائبریری تھی جہاں پر سر شاہ نواز بھٹو، محمد ایوب کھوڑو کے علاوہ بڑے سیاسی، علمی اور ادبی شخصیات آکر کتابیں پڑھتی تھیں۔ جب پاکستان بنا تو تجر بلڈنگ کے سامنے لاڑکانہ میونسپل کمیٹی کے صدر عبدالغفور بھرگڑی نے قاضی فضل کے نام سے ایک ٹائون ہال بنوایا جس کے اوپر والے حصے میں ایک لائبریری بھی قائم کی جس کو مزید بڑھانے کے لیے بھٹو نے جب ٹاؤن ہال میں پاکستان نیشنل سینٹر قائم کیا تو لائبریری میں بہت ساری کتابیں شامل کیں۔
ٹاؤن ہال میں میونسپل کمیٹی کا اجلاس جب چلتا تھا تو اس وقت لائبریری کا کام کم ہو جاتا تھا جس کے لیے وہاں سے اجلاس کو زیادہ ترکمیٹی کے اجلاس ہال میں اجلاس منعقد ہونے لگے، مگر نیشنل سینٹرکے پروگرام بھی جاری رہے۔ اس لائبریری کے ممبروں میں بھٹو خود بھی شامل تھے۔ قاضی فضل اللہ اور محمد ایوب کھوڑو دور کے اختتام کے بعد اس ٹائون ہال کو صرف میونسپل کمیٹی ٹائون ہال اور پھر پاکستان نیشنل سینٹر کہہ کر بلایا جانے لگا۔ نیشنل سینٹر ختم ہونے کے بعد پھر دوبارہ ضلعی نظام کی بحالی کے بعد یہاں پر ضلع کونسل اور میونسپل کارپوریشن کے اجلاس ہونے لگے۔
اچانک ٹائون ہال کی خوبصورت اور مضبوط عمارت گرا کر وہاں پر نئے طرز کے حوالے سے عمارت بنانے کا اعلان کیا گیا جس میں معلوم ہوا کہ ایم پی اے نثار احمد کھوڑو نے اپنے ترقیاتی فنڈ میں سے نصرت بھٹو وومن لائبریری بنانے کا اعلان کیا۔ جب عمارت بن کر پوری ہوئی تو اس میں زیادہ تر حصہ لاڑکانہ میونسپل کارپوریشن کے اجلاس اور ضلع کونسل لاڑکانہ کے اجلاس کے لیے اوپر اور نیچے ہال بنائے گئے جب کہ نصرت بھٹو لائبریری کو ایک چھوٹا سا حصہ اوپر والے حصے میں دیا گیا ہے۔ اس لائبریری کا افتتاح چیئرمین پی پی پی بلاول بھٹو زرداری نے 3 جنوری 2017 کو کیا تھا اور افتتاحی تقریر کے دوران بڑے وعدے بھی کیے تھے کہ اس لائبریری کو عورتوں کے لیے ایک بڑی سہولت حاصل ہوگی۔ افتتاح کے بعد پھر کبھی پلٹ کے اس کا حال تک نہیں پوچھا جب کہ میونسپل کارپوریشن نے اس لائبریری کو سنبھالنے کی ذمے داری لی ہے۔
اس لائبریری میں ابھی تک بجلی کا کنکشن نہیں ہے جس کی وجہ گرمی کے موسم میں ایئر کنڈیشن کی سہولت دستیاب نہیں ہوتی۔ لاڑکانہ جیسے گرم علاقے میں لائبریری میں کتابیں پڑھنا بڑا مشکل ہوتا ہے کیونکہ گرمی کی وجہ سے دماغ صحیح پڑھنے کا کام نہیں کرتا۔ اس کے لیے لائبریری کو اپنا الگ ٹرانسفارمر ہونا چاہیے۔ اس کے علاوہ اس صورتحال میں کوئی جنریٹر بھی نہیں چلا سکتے کیونکہ لائبریری کے لیے کوئی الگ بجٹ نہیں ہے جس کی وجہ سے اسٹیشنری کے لیے بھی پیسے نہیں ہیں۔
لائبریری کو سنبھالنے کے لیے میونسپل کارپوریشن کی ایک ملازمہ خدیجہ لغاری کو لائبریرین بنایا گیا ہے ۔ لائبریری میں 100 لڑکیوں کے بیٹھنے کی گنجائش ہے مگر ان کے لیے وہ ماحول نظر نہیں آیا۔ وہاں پر 5 لاکھ کی کتابیں نثارکھوڑو نے اپنے فنڈ سے دی تھیں جب کہ سر شاہنواز میموریل لائبریری لاڑکانہ جو سندھ کلچر ڈپارٹمنٹ کی طرف سے بڑی کامیابی کے ساتھ چل رہی ہے۔ وہاں کے انچارج شمس کلہوڑو نے کافی کتابیں دی ہیں ۔
لائبریری کی انچارج کے پاس کوئی چپڑاسی بھی نہیں ہے اور نہ ہی اس کے پاس اتنی کرسیاں ہیں کہ اگر کوئی مہمان آئے تو انھیں بٹھایا جائے گرمیوں کے موسم میں واٹرکولر بھی نہیں ہے، جب رات ہوتی ہے تو ان کے لیے کوئی سیکیورٹی سسٹم نہیں ہے اور رات کے وقت باہر کوئی روشنی بھی نہیں ہوتی۔ شہر میں اکثر بجلی غائب ہونے کی وجہ سے لوڈ شیڈنگ رہتی ہے جس کے لیے سولر نظام بھی ہونا چاہیے ورنہ گرمی اور روشنی کے بغیر لائبریری کا استعمال بے سود ہو جاتا ہے۔ اس کے علاوہ لائبریری میں اندر ایک بک شاپ بھی ہونی چاہیے۔ لائبریری میں سی ایس ایس کرنے، وکیل، ڈاکٹرز اور دوسرے امتحانات میں شریک ہونے والی لڑکیاں اور عورتیں آتی ہیں۔ لائبریری کی ضروریات کے مطابق فرنیچر بہت کم ہے کیونکہ دن بہ دن آنے والوں کی تعداد سردی کے موسم کی وجہ سے بڑھ رہی ہے۔
لائبریری کی جگہ بہت کم ہے اور اس میں رکھی ہوئی لمبی ٹیبلیں اور کرسیاں ناکافی ہیں جب کہ دیوار کے ساتھ لگے ہوئے کچھ کتابیں رکھنے والے شیلف بھی ہیں جن میں ابھی کتابیں بہت کم ہیں کیونکہ لائبریری میں تو ہر مضمون اور ہر زبان کی کتابیں ہونی چاہئیں۔ اس کے علاوہ دوسری طرف ڈیسک نما ٹیبلیں ہیں جنھیں دیکھ کر لگتا ہے کہ یہ لائبریری ہے۔ یہاں پر الگ سے شعبے بنے ہوئے نہیں ہیں اور سارے پڑھنے والے ایک ساتھ ہی بیٹھے ہیں۔ یہ لائبریری اس معیار کی نہیں ہے جیسی ہونی چاہیے۔ اس کو لائبریری کا نام دیا گیا ہے مگر اصل میں وہ میونسپل کارپوریشن اور ضلع کونسل کے اجلاس کی جگہ ہے جہاں پر اجلاس کے وقت ایک بڑا رش اور شور رہتا ہے جس سے لائبریری کا تصور ختم ہو جاتا ہے۔ اجلاس ہال میں ہر ضرورت کی چیزیں دی گئی ہیں جب کہ لائبریری جہاں سے علم اور ادب کا شعور بڑھتا ہے وہ مسائل اور کم سہولیات کا شکار ہے۔
اس کے علاوہ لائبریری میں کوئی Reception اور Catalogue نہیں تھے اور صرف چند اخبارات دیکھنے کو ملیں جن میں ایک انگریزی اخبار پڑھنے والوں کا بڑا انتظار رہتا ہے۔ ایک خدیجہ کے علاوہ دوسری لڑکیاں اس کی مدد کے لیے نہیں ہیں۔ امتحانوں کی تیاری کے لیے بڑے اہم میگزین پڑھنے کی ضرورت پڑتی ہے وہ بھی نظر نہیں آئے۔ اس جدید دور میں کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کی سہولت نہیں ہے۔ سی ایس ایس اور دوسرے امتحان کی تیاری کے لیے کوئی الگ کمرے نہیں ہیں اور نہ ہی الگ اہم کتابیں دستیاب ہیں۔
میرے خیال میں بہتر یہی ہے کہ اس لائبریری کو سندھ کلچر محکمے کے سپرد کیا جائے تاکہ ان کی طرف سے اس لائبریری کی ضروریات پوری ہوسکیں ورنہ ہمارے ایم این اے، ایم پی اے اور دوسری انتظامیہ تو اس طرف کوئی توجہ دے ہی نہیں رہے ہیں۔ پریس کلب لائبریری کے برابر ہے وہ بھی اس کے لیے کوئی آواز نہیں اٹھا رہا ہے جب کہ صحافیوں کا کام ہے اس اہم ادارے کی ترقی میں اپنا کردار ادا کریں۔ لاڑکانہ میں بڑے اہم لوگ رہتے ہیں وہ بھی اس طرف توجہ نہیں دے رہے ہیں جب کہ صرف سرشاہنواز بھٹو میموریل لائبریری پہنچ جاتے ہیں۔ نصرت بھٹو لائبریری کو صحیح سمت چلانے کے لیے شمس کلہوڑو بڑی مدد کر رہا ہے اور اسے جب بھی وقت ملتا ہے نصرت بھٹو لائبریری جاکر ان کی مدد کرتا رہتا ہے۔
میں وزیر اعلیٰ سندھ، کمشنر لاڑکانہ، ڈی سی لاڑکانہ اور چیف سیکریٹری سندھ سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ نصرت بھٹو لائبریری کا ایریا بڑھائیں اور وہاں پر ضروری سہولیات جتنا جلدی ہوسکے پہنچائیں کیونکہ معاشرے میں لائبریریوں کو ترقی دینی چاہیے اور خاص طور پر اس عورتوں کی لائبریری کو کیونکہ لڑکیوں کا پڑھنا اور معاشرے میں صحت مند کردار بہت ضروری ہے۔
سرکاری لائبریریوں کا قیام لاڑکانہ میں انگریزوں کے زمانے سے ہے جس میں لاڑکانہ تجر باغ میں ایک تجر عمارت ہے اس میں جائلس کے نام سے ایک لائبریری تھی جہاں پر سر شاہ نواز بھٹو، محمد ایوب کھوڑو کے علاوہ بڑے سیاسی، علمی اور ادبی شخصیات آکر کتابیں پڑھتی تھیں۔ جب پاکستان بنا تو تجر بلڈنگ کے سامنے لاڑکانہ میونسپل کمیٹی کے صدر عبدالغفور بھرگڑی نے قاضی فضل کے نام سے ایک ٹائون ہال بنوایا جس کے اوپر والے حصے میں ایک لائبریری بھی قائم کی جس کو مزید بڑھانے کے لیے بھٹو نے جب ٹاؤن ہال میں پاکستان نیشنل سینٹر قائم کیا تو لائبریری میں بہت ساری کتابیں شامل کیں۔
ٹاؤن ہال میں میونسپل کمیٹی کا اجلاس جب چلتا تھا تو اس وقت لائبریری کا کام کم ہو جاتا تھا جس کے لیے وہاں سے اجلاس کو زیادہ ترکمیٹی کے اجلاس ہال میں اجلاس منعقد ہونے لگے، مگر نیشنل سینٹرکے پروگرام بھی جاری رہے۔ اس لائبریری کے ممبروں میں بھٹو خود بھی شامل تھے۔ قاضی فضل اللہ اور محمد ایوب کھوڑو دور کے اختتام کے بعد اس ٹائون ہال کو صرف میونسپل کمیٹی ٹائون ہال اور پھر پاکستان نیشنل سینٹر کہہ کر بلایا جانے لگا۔ نیشنل سینٹر ختم ہونے کے بعد پھر دوبارہ ضلعی نظام کی بحالی کے بعد یہاں پر ضلع کونسل اور میونسپل کارپوریشن کے اجلاس ہونے لگے۔
اچانک ٹائون ہال کی خوبصورت اور مضبوط عمارت گرا کر وہاں پر نئے طرز کے حوالے سے عمارت بنانے کا اعلان کیا گیا جس میں معلوم ہوا کہ ایم پی اے نثار احمد کھوڑو نے اپنے ترقیاتی فنڈ میں سے نصرت بھٹو وومن لائبریری بنانے کا اعلان کیا۔ جب عمارت بن کر پوری ہوئی تو اس میں زیادہ تر حصہ لاڑکانہ میونسپل کارپوریشن کے اجلاس اور ضلع کونسل لاڑکانہ کے اجلاس کے لیے اوپر اور نیچے ہال بنائے گئے جب کہ نصرت بھٹو لائبریری کو ایک چھوٹا سا حصہ اوپر والے حصے میں دیا گیا ہے۔ اس لائبریری کا افتتاح چیئرمین پی پی پی بلاول بھٹو زرداری نے 3 جنوری 2017 کو کیا تھا اور افتتاحی تقریر کے دوران بڑے وعدے بھی کیے تھے کہ اس لائبریری کو عورتوں کے لیے ایک بڑی سہولت حاصل ہوگی۔ افتتاح کے بعد پھر کبھی پلٹ کے اس کا حال تک نہیں پوچھا جب کہ میونسپل کارپوریشن نے اس لائبریری کو سنبھالنے کی ذمے داری لی ہے۔
اس لائبریری میں ابھی تک بجلی کا کنکشن نہیں ہے جس کی وجہ گرمی کے موسم میں ایئر کنڈیشن کی سہولت دستیاب نہیں ہوتی۔ لاڑکانہ جیسے گرم علاقے میں لائبریری میں کتابیں پڑھنا بڑا مشکل ہوتا ہے کیونکہ گرمی کی وجہ سے دماغ صحیح پڑھنے کا کام نہیں کرتا۔ اس کے لیے لائبریری کو اپنا الگ ٹرانسفارمر ہونا چاہیے۔ اس کے علاوہ اس صورتحال میں کوئی جنریٹر بھی نہیں چلا سکتے کیونکہ لائبریری کے لیے کوئی الگ بجٹ نہیں ہے جس کی وجہ سے اسٹیشنری کے لیے بھی پیسے نہیں ہیں۔
لائبریری کو سنبھالنے کے لیے میونسپل کارپوریشن کی ایک ملازمہ خدیجہ لغاری کو لائبریرین بنایا گیا ہے ۔ لائبریری میں 100 لڑکیوں کے بیٹھنے کی گنجائش ہے مگر ان کے لیے وہ ماحول نظر نہیں آیا۔ وہاں پر 5 لاکھ کی کتابیں نثارکھوڑو نے اپنے فنڈ سے دی تھیں جب کہ سر شاہنواز میموریل لائبریری لاڑکانہ جو سندھ کلچر ڈپارٹمنٹ کی طرف سے بڑی کامیابی کے ساتھ چل رہی ہے۔ وہاں کے انچارج شمس کلہوڑو نے کافی کتابیں دی ہیں ۔
لائبریری کی انچارج کے پاس کوئی چپڑاسی بھی نہیں ہے اور نہ ہی اس کے پاس اتنی کرسیاں ہیں کہ اگر کوئی مہمان آئے تو انھیں بٹھایا جائے گرمیوں کے موسم میں واٹرکولر بھی نہیں ہے، جب رات ہوتی ہے تو ان کے لیے کوئی سیکیورٹی سسٹم نہیں ہے اور رات کے وقت باہر کوئی روشنی بھی نہیں ہوتی۔ شہر میں اکثر بجلی غائب ہونے کی وجہ سے لوڈ شیڈنگ رہتی ہے جس کے لیے سولر نظام بھی ہونا چاہیے ورنہ گرمی اور روشنی کے بغیر لائبریری کا استعمال بے سود ہو جاتا ہے۔ اس کے علاوہ لائبریری میں اندر ایک بک شاپ بھی ہونی چاہیے۔ لائبریری میں سی ایس ایس کرنے، وکیل، ڈاکٹرز اور دوسرے امتحانات میں شریک ہونے والی لڑکیاں اور عورتیں آتی ہیں۔ لائبریری کی ضروریات کے مطابق فرنیچر بہت کم ہے کیونکہ دن بہ دن آنے والوں کی تعداد سردی کے موسم کی وجہ سے بڑھ رہی ہے۔
لائبریری کی جگہ بہت کم ہے اور اس میں رکھی ہوئی لمبی ٹیبلیں اور کرسیاں ناکافی ہیں جب کہ دیوار کے ساتھ لگے ہوئے کچھ کتابیں رکھنے والے شیلف بھی ہیں جن میں ابھی کتابیں بہت کم ہیں کیونکہ لائبریری میں تو ہر مضمون اور ہر زبان کی کتابیں ہونی چاہئیں۔ اس کے علاوہ دوسری طرف ڈیسک نما ٹیبلیں ہیں جنھیں دیکھ کر لگتا ہے کہ یہ لائبریری ہے۔ یہاں پر الگ سے شعبے بنے ہوئے نہیں ہیں اور سارے پڑھنے والے ایک ساتھ ہی بیٹھے ہیں۔ یہ لائبریری اس معیار کی نہیں ہے جیسی ہونی چاہیے۔ اس کو لائبریری کا نام دیا گیا ہے مگر اصل میں وہ میونسپل کارپوریشن اور ضلع کونسل کے اجلاس کی جگہ ہے جہاں پر اجلاس کے وقت ایک بڑا رش اور شور رہتا ہے جس سے لائبریری کا تصور ختم ہو جاتا ہے۔ اجلاس ہال میں ہر ضرورت کی چیزیں دی گئی ہیں جب کہ لائبریری جہاں سے علم اور ادب کا شعور بڑھتا ہے وہ مسائل اور کم سہولیات کا شکار ہے۔
اس کے علاوہ لائبریری میں کوئی Reception اور Catalogue نہیں تھے اور صرف چند اخبارات دیکھنے کو ملیں جن میں ایک انگریزی اخبار پڑھنے والوں کا بڑا انتظار رہتا ہے۔ ایک خدیجہ کے علاوہ دوسری لڑکیاں اس کی مدد کے لیے نہیں ہیں۔ امتحانوں کی تیاری کے لیے بڑے اہم میگزین پڑھنے کی ضرورت پڑتی ہے وہ بھی نظر نہیں آئے۔ اس جدید دور میں کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کی سہولت نہیں ہے۔ سی ایس ایس اور دوسرے امتحان کی تیاری کے لیے کوئی الگ کمرے نہیں ہیں اور نہ ہی الگ اہم کتابیں دستیاب ہیں۔
میرے خیال میں بہتر یہی ہے کہ اس لائبریری کو سندھ کلچر محکمے کے سپرد کیا جائے تاکہ ان کی طرف سے اس لائبریری کی ضروریات پوری ہوسکیں ورنہ ہمارے ایم این اے، ایم پی اے اور دوسری انتظامیہ تو اس طرف کوئی توجہ دے ہی نہیں رہے ہیں۔ پریس کلب لائبریری کے برابر ہے وہ بھی اس کے لیے کوئی آواز نہیں اٹھا رہا ہے جب کہ صحافیوں کا کام ہے اس اہم ادارے کی ترقی میں اپنا کردار ادا کریں۔ لاڑکانہ میں بڑے اہم لوگ رہتے ہیں وہ بھی اس طرف توجہ نہیں دے رہے ہیں جب کہ صرف سرشاہنواز بھٹو میموریل لائبریری پہنچ جاتے ہیں۔ نصرت بھٹو لائبریری کو صحیح سمت چلانے کے لیے شمس کلہوڑو بڑی مدد کر رہا ہے اور اسے جب بھی وقت ملتا ہے نصرت بھٹو لائبریری جاکر ان کی مدد کرتا رہتا ہے۔
میں وزیر اعلیٰ سندھ، کمشنر لاڑکانہ، ڈی سی لاڑکانہ اور چیف سیکریٹری سندھ سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ نصرت بھٹو لائبریری کا ایریا بڑھائیں اور وہاں پر ضروری سہولیات جتنا جلدی ہوسکے پہنچائیں کیونکہ معاشرے میں لائبریریوں کو ترقی دینی چاہیے اور خاص طور پر اس عورتوں کی لائبریری کو کیونکہ لڑکیوں کا پڑھنا اور معاشرے میں صحت مند کردار بہت ضروری ہے۔