ایران امریکا تناؤ اور پاکستان
اس جنگ کوروکنے کیلیے واحدذریعہ سفارتی کوششیں ہیں جوکہ تمام ممالک کو بلاتاخیر شروع کرنے میں پاکستان کی پیروی کرنی چاہیے
یوں تو ایران امریکا تناؤ تقریباً 70سال پرانا ہے اور اُس وقت شروع ہوا جب 1953ء میں ایران کے منتخب وزیر اعظم محمد مصدق نے ایران کے تیل کی صنعت کونیشنلائیز کیا اوراُس نے امریکا کی خطے میںبڑھتی سرگرمیوں کی مخالفت کی ، تب امریکی سی آئی اے نے سازش کرکے ایران کی منتخب حکومت کا تختہ الٹ دیا اور ایران کے بادشاہ رضا شاہ پہلوی کی مسند کو طاقتور بنایا اور اُس کے ساتھ ملکر نہ صرف خطے بلکہ ایران کے اندرونی معاملات پر بھی اجارہ داری کی حد تک دخل دیتا رہا ۔
جس سے ایرانی عوام میں امریکا اور شاہ مخالف تحریک پروان چڑھی ، جسے امام خمینی کی قیادت نے ایک اسلامی انقلاب کے روپ میں پروان چڑھایا ۔ یوں 1979میں ایران میں ایک خونریزخانہ جنگی کے بعد پاسداران ِ انقلاب نے امام خمینی کی قیادت میں اقتدار پر قبضہ کیا اور ایران کو موجودہ روپ میں ڈھال دیا ۔ اُس وقت امریکا کا سفارتخانہ دنیا کا سب سے بڑا سفارتخانہ مانا جاتا تھا ۔ جس میں تقریباً 2ہزار سے زائد عملہ مقرر تھا جو کہ ایران کے ملکی اُمور میں شاہ کی معاونت کرتا تھا ۔
پاسداران ِ انقلاب نے اس عملے کو ملک بدر کیا جب کہ اُس میں سے 52اہم افراد کو حراست میں رکھا جو کہ کافی وقت تک ان کی قید میں رہے ۔ جب کہ اُنہی دنوں آبنائے ہرمز کی سمندری حدود کی خلاف ورزی کرتے ہوئے امریکی بحری جہاز نے ایران کے ایک مسافر طیارے کو مار گرایا ، جس میں کئی ممالک کے مسافر شامل تھے ۔ لیکن کسی بھی ملک نے اس حملے پر مناسب رد عمل نہیں دیا ، جس سے یہ صرف ایران امریکا معاملہ بن کر رہ گیا ۔ وہ وقت اوریہ وقت ایران امریکا تنازعہ کبھی سرد جنگ تو کبھی جارحیتی روپ میں قائم ودائم رہا ہے ۔
ایران پر امریکی و اقوام ِ متحدہ کی جانب سے عائد پابندیاں ،11سال تک جاری رہنے والی ایران عراق جنگ اور کئی موقعوں پر اسٹریٹجک حملوں کی تاریخ کے بعد گذشتہ 3برس کے دوران تنازعات کی برف اس وقت پگھلتی نظر آئی جب روس کی معرفت ایران امریکا مذاکرات کی بناء پر دونوں ممالک اپنے روایتی موقف میں لچک لائے ۔
یوں ایران پر عالمی پابندیوں میں کچھ نرمی آئی تو دوسری طرف ایران نے ایٹمی پروگرام کو رول بیک کرنے پر رضامندی تک ظاہر کی ۔ مگر تھوڑے ہی عرصے کے بعد یہ اُمور ایک بار پھر سرد جنگ میں اُس وقت تبدیل ہوئے جب شام اور یمن میں امریکا نے شیعہ مخالف اقدامات کیے۔جس میں شام میں بشارالاسد کی حکومت گرانے کی کوشش ہوئی جس کی وجہ سے شام میں خانہ جنگی کی صورتحال پیدا ہوئی تو دوسری طرف یمن میں سعودی عرب نے شیعہ علاقوں پر اس لیے حملے کیے کہ اُس کے مطابق یمن میں ایران نواز باغیوں کی سرگرمیاں تیز تر ہوگئی تھیں ۔ مگر پھر بھی یہ سب درپردہ تھا اور سرد جنگ کا پتہ دیتا تھا۔
لیکن گذشتہ برس 2019 ء میںایرانی فوج کی پاسداران ِ انقلاب فورس کے آبنائے ہرمز میں غیرملکی پرچم بردار آئل ٹینکرز سے محاذ آرائی اس سرد جنگ کو ایک مرتبہ پھر جارحیت کی پٹڑی پر لے آئی جوکہ 2020کے ابتدائی دنوں میں امریکا کی جانب سے عراق کے ہوائی اڈے پر ایرانی فوج کے سب سے طاقتور ترین جتھے پاسداران ِ انقلاب فورس کی ایک ونگ قدس بسیج کے جنرل قاسم سلیمانی کی میزائل حملے میں ہلاکت ایک مرتبہ پھر دونوں ملکوں کو کھلی جنگ کے لیے ایک دوسرے کے سامنے لے آئی ۔
امریکی حملے کے جواب میں ایران نے عراق میں موجود امریکی فوجی بیس پر حملہ کیا اور اُس میں 80امریکیوں کو مارنے کا دعویٰ کیا جسے امریکا نے رد کیا ہے۔ دوسری جانب عراق نے بھی ایرانی حملے میں کسی بھی عراقی کے نہ مرنے کا اعلان کیا ہے ۔ جب کہ اس صورتحال پر اقوام ِ متحدہ کا ظاہری موقف آیا ہے کہ ''دنیا خلیج میں ایک اور جنگ برداشت نہیں کرسکتی''۔
لیکن اس کے اس موقف کی کسی کوبھی شاید ہی کوئی پرواہ ہو۔یوں تو چین ، روس ، عراق ، شام اور لبنان سمیت مختلف ممالک نے امریکی حملے کی مذمت کی ہے لیکن دنیا کے اکثر ممالک اس پرخاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں ۔ جب کہ دنیا کو امن کا گہوارہ بننے کے خواب دیکھنے والے لوگ عالمی سطح پر پیدا ہونے والی اس صورتحال کوتیسری جنگ ِ عظیم کا شاخسانہ بن جانے کی تشویش کا اظہار کررہے ہیں ۔اس صورتحال پر نہ صرف امریکا اور ایران کے عوام میں بے چینی پیدا ہوگئی ہے بلکہ دنیا بھر کے ممالک بھی اس پر تشویش کا اظہار کررہے ہیں ۔
قاسم سلیمانی دراصل قدس فورس کی جانب سے خطے میں اسلامی اتحاد کے لیے کام کرنے والی قوتوں کے سب سے اہم اور طاقتور رہنما تھے۔ اس قدس فورس کی کمانڈ میں 5000اہلکار شامل ہیں ، جس کا ایک یونٹ شام میں صدر بشارالاسد کی حامی فورسز اور شیعہ ملیشیا کا ایڈوائیزر تھا جب کہ عراق میں اس نے شیعہ اکثریتی پیراملٹری فورس کی حمایت کی ، جس نے انتہا پسند عالمی دہشت گرد تنظیم داعش کو شکست دینے میں اُن کا ساتھ دیا ۔
اس تازہ صورتحال میں ایران امریکا تو دنیا کی توجہ کا باعث رہے ہی ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ پاکستان بھی خبروں کا مرکز بن گیا ہے ۔پاکستان کی ڈیمو گرافیکل و جیو اسٹریٹجک لوکیشن کی اہمیت کا امریکا کو واضح اندازہ ہے ، اسی لیے امریکا نے پاکستان سے مائیک پومپیو کے ذریعے فوری رابطہ کیا ہے ۔جب کہ سیاسی و مذہبی طور پر ایران پاکستان کا ایک دیرینہ دوست پڑوسی ملک رہا ہے ۔جس کے بعد یہ سوال گردش میں ہے کہ پاکستان کس طرف کھڑا ہوگا ؟
اس نئی صورتحال میںپاکستان پر زیادہ اثرات پڑنے کے امکانات ہیں کیونکہ پاکستان کی حدود بری و بحری طور پر ایران سے ملتی ہیں اور پاکستان کی بھارت اور افغانستان سے ملنے والی سرحدوں پر پہلے ہی تناؤ کی صورتحال ہے ۔ ایسے میں ایک اور ہمسایہ ملک میں جنگی صورتحال پاکستان کو شدید متاثر کرسکتی ہے ۔ خاص طور پر ایسی صورتحال میں جب یہ ملک ایران اسلامی ملک ہے اور اُس کے مذہبی عقائد کے حامی پاکستانی عوام میں کروڑوں کی تعداد میں موجودہ ہیں ۔
جب کہ عالمی سطح پر پاکستان تاریخی طور پر امریکی اتحادی ہونے کی وجہ سے ماضی میں روس امریکا اور افغانستان امریکا جنگ میں بھی اس نے امریکا کو معاونت فراہم کی تھی ، اور اسی لیے اس وقت بھی امریکا کی طرف سے Directاور سعودی عرب کی طرف سے Indirectدباؤ بڑھنے کا خدشہ ہے کہ وہ ایران کی مخالفت میں اُن کا ساتھ دے ۔ کیونکہ خلیجی ممالک میں امریکا کے مضبوط اتحادی کے طور پر سعودی عرب ہے ، جس کے مسلک کے حامی بھی اکثریتی تعداد میں ہمارے ملک میں موجود ہیں اورپاکستان بذات خود بھی امریکا کا دیرینہ اتحادی رہا ہے ۔
یوں یہ پاکستان کے لیے سہ ملکی دباؤ کا باعث ہونے کے ساتھ ساتھ سرحدی طور پر اس جنگ کی لپیٹ میں بھی آسکتا ہے اور اندرونی طور پر بھی مسلکی تناؤ بڑھنے کے خطے سے بھی دوچار ہوسکتا ہے ۔ امریکا اپنی دھرتی سے دور ایشیا کے اس خطے میں اگر کسی جنگ کی طرف جاتا ہے تو ماضی کی طرح وہ پاکستان کو ایران کے قریبی ملک کی حیثیت سے جنگ میں اتحادی بنانے اور استعمال کرنے کی بھرپور کوشش کرے گا۔
جس کے لیے بری اور بحری و فضائی راستے استعمال کرنے سمیت دیگر معاونتی آپشنز کے لیے دباؤ بڑھاتا رہے گا لیکن خطے کی صورتحال کا جائزہ لینے سے پتہ چلتا ہے کہ ایران سے ملحقہ تقریباً اُن تمام ممالک جیسے عراق ،بحرین، قطر، کویت، یو اے ای اور افغانستان میں امریکا کے فوجی بیس موجود ہیں ،جن ممالک کی یاتوسرحدیں ایران سے ملتی ہیں یا پھر وہ جغرافیائی طور پر اُس سے قریب ہیں ۔ ایسے میں فوجی بیس و ہوائی اڈوں اور زمینی معاونت کی شاید اتنی ضرورت نہ پڑے لیکن خطے میں پہلے سے موجود امریکی افواج اور اس تنازعے کے باعث نئی تعیناتیوں کے بعد امریکا کو سب سے بڑا مسئلہ غذائی و دیگر ضروریات ِ زندگی کی رسد کا ہوگا ۔ جس کے لیے وہ افغان جنگ کی طرح پاکستان پر دباؤ ڈال سکتا ہے۔
جہاں تک بات ہے رسد کی تو ملک اس وقت خود غذائی قلت کا شکار ہے ۔ ملک میں یومیہ کئی لوگ غربت اور بھوک کی وجہ سے خود کشیاں کررہے ہیں ۔ سندھ بلوچستان میں یومیہ کئی بچے غذائی قلت کی وجہ سے جاں ہمارا پاکستان پہلے ہی 1985سے روس امریکا و افغان جنگ کے باعث بڑے پیمانے پر افغان مہاجرین اور نائین الیون کے بعد افغان امریکا جنگ کے اثرات کے باعث ایک طویل ہنگامی صورتحال سے اس قدر دوچار رہا ہے کہ ان معاملات کی وجہ سے ملک میں داخلی طور پر مذہبی ،فرقہ وارانہ و لسانی انتہا پسندی عروج پر پہنچ چکی ہے ۔ جس سے نبرد آزما ہونے کے لیے نہایت گمبھیر صورتحال و اقدامات کا سامنا کرنا پڑا ہے ۔
ہزاروں فوجی جوانوں اور لاکھوں شہریوں کی قربانیاں دینی پڑی ہیں ، ملکی بجٹ کا نصف حصہ اپنی داخلی وسرحدی سلامتی کو برقرار رکھنے پر صرف کرنا پڑ رہا ہے ۔ یہاں تک کہ ملکی معیشت تباہ ہوکر رہ گئی ۔ ان تمام مسائل پر بڑی مشکل سے کچھ قابو پانے کے بعد اب کہیں جاکر ملک میں سیاسی ، معاشی و انتظامی استحکام کی فضا پیدا ہوئی ہے ۔ جسے دوسروں کی کسی مزید جنگ کے باعث دوبارہ کھونے کا متحمل نہیں ہوسکتا ۔ اس تمام صورتحال کا ادراک پاکستان کی اعلیٰ کمانڈ و قیادت کو بجا طور پر ہے ، جس کے پیش نظر ہی ان کا موقف ایک پیچ پر رہتے ہوئے واضح نظر آیا ، جس میں کسی بھی جنگی صورتحال کا حصہ نہ رہنے اور ہر طرح کی امن کوششوں کا حصہ بننے کا موقف اختیار کیا گیا ہے ۔
یہ موقف نہ صرف پاکستان کے عوام کی اُمنگوں کے عین مطابق ہے بلکہ ملکی سلامتی و استحکام کی ضروریات سے بھی ہم آہنگ نظر آتا ہے ۔ پھر دیکھا جائے تو پاکستان ماضی میں بھی ایران -سعودی اختلافات ختم کرانے کی کوششوں میں مصروف رہا ہے اور اس مرتبہ بھی اپنی اسلامک اسٹریٹجک وڈیمو گرافیکل صورتحال کے باعث نہ صرف ایران سعودی بلکہ امریکی اتحادی کے طور پر ایران امریکا تناؤ کم کرنے میں بھی وسیع جہتی اور اہم کردار ادا کرسکتا ہے ۔
اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ نہ صرف پاکستان کے اس موقف پر توجہ دینی چاہیے بلکہ دنیا میں دیرپا امن کے قیام کے لیے کسی ملک کے سپر پاور اوراقوام متحدہ میں ویٹو کے اختیارات کے خاتمے سمیت کسی بھی ملک کے تھانیداری والے اختیارات کا بھی سدباب کرکے اقوام متحدہ کو تمام رکن ممالک کے برابر فنڈز سے انتخابی ذریعہ سے لائی جانے والی قیادت کی فراہمی سے مکمل و فیصلہ کن اختیارات کی سپردگی کے حوالے سے کام ہونا چاہیے ۔ ورنہ دنیا میں یہی ہوتا رہے گا کہ برطانیہ کے بعد جرمنی ، روس کی سپر پاور بننے کی کوشش اور امریکا کے موجودہ سپر پاور بن جانے تک اور اب آنیوالے دنوں میں معاشی طور پر چین دنیا کا سپر پاور بننے کے چکر میں دوسرے ممالک کے معاملات میں دخل اندازی ہوتی ہی رہے گی ۔ جس سے دنیا کا امن ہمیشہ داؤ پر لگا رہے گا ۔
پھر یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ایرانی انقلاب ایک نظریاتی انقلاب تھا ، جس کی بنیاد مسلکی قوانین پر رکھی گئی تھی جسے کامیابی کے باوجود اسلام کے دیگر مسالک کے حامل ممالک بالخصوص سعودی عرب نے قبول نہیں کیا ۔ جس کا فائدہ بھی مغربی ممالک خصوصاً امریکا نے خوب اُٹھایا ہے۔ اس لیے ایران کواس بات کو سمجھ لینا چاہیے کہ ایران کے اکثر فعال اتحادی جیسے یمن ، عراق ، شام جنگ زدہ ہونے کی وجہ سے کوئی کردار ادا کرنے سے قاصر ہیں ، جب کہ خاموش اتحادی روس ، چین وغیرہ بھی امریکا سے تنازعے کی صورت میں شاید خاموش رہنے کو ترجیح دیں ۔
پھر یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ امریکا ایران جنگ کوئی روایتی جنگ نہیں ہے کیونکہ روایتی جنگ اکثر طور پر دو پڑوسی ممالک کے درمیان سرحدی تنازعات کی صورت میں ایٹمی ہتھیاروں کے بغیر روایتی ہتھیاروں سے لڑی جاتی ہے ۔ لیکن ایران امریکا جنگ ایک غیر روایتی جنگ اس لیے بھی ہے کہ یہ ہزاروں میل دور بیٹھے ایٹمی سپر پاور امریکا کی ایشیا کے ایک پابندی زدہ غریب و غیر ایٹمی ملک سے ہے ۔جس کی مثال قاسم سلیمانی پر حملے میں امریکا کی جانب سے قطر کی سرزمین سے لیزرٹیکنالوجی کے حامل میزائل کا استعمال ہے ۔ پھر ہیروشیما اور ناگاساکی کی تاریخ بتاتی ہے کہ امریکا غیر روایتی ہتھیاروں کے استعمال سے بھی دریغ نہیں کرتا ۔
اس لیے اس جنگ کو روکنے کے لیے واحد ذریعہ سفارتی کوششیں ہیں جوکہ تمام ممالک کو بلا تاخیر شروع کرنے میں پاکستان کی پیروی کرنی چاہیے ، کیونکہ پاکستان نے جس واضح غیرجانبدارانہ پالیسی کا اعلان کیا ہے اور وزیر اعظم نے وزیر خارجہ اور عسکری قیادت کو امن کوششوں کے لیے فریقین و دیگر بااثر ممالک سے رابطوں کی ہدایات جاری کی ہیں وہ نہ صرف تاریخی قدم ہے بلکہ دنیا بالخصوص خطے کے ممالک کے لیے اس تنازعے اور عالمی صورتحال میں رہنما اُصول بن سکتا ہے ۔
جس سے ایرانی عوام میں امریکا اور شاہ مخالف تحریک پروان چڑھی ، جسے امام خمینی کی قیادت نے ایک اسلامی انقلاب کے روپ میں پروان چڑھایا ۔ یوں 1979میں ایران میں ایک خونریزخانہ جنگی کے بعد پاسداران ِ انقلاب نے امام خمینی کی قیادت میں اقتدار پر قبضہ کیا اور ایران کو موجودہ روپ میں ڈھال دیا ۔ اُس وقت امریکا کا سفارتخانہ دنیا کا سب سے بڑا سفارتخانہ مانا جاتا تھا ۔ جس میں تقریباً 2ہزار سے زائد عملہ مقرر تھا جو کہ ایران کے ملکی اُمور میں شاہ کی معاونت کرتا تھا ۔
پاسداران ِ انقلاب نے اس عملے کو ملک بدر کیا جب کہ اُس میں سے 52اہم افراد کو حراست میں رکھا جو کہ کافی وقت تک ان کی قید میں رہے ۔ جب کہ اُنہی دنوں آبنائے ہرمز کی سمندری حدود کی خلاف ورزی کرتے ہوئے امریکی بحری جہاز نے ایران کے ایک مسافر طیارے کو مار گرایا ، جس میں کئی ممالک کے مسافر شامل تھے ۔ لیکن کسی بھی ملک نے اس حملے پر مناسب رد عمل نہیں دیا ، جس سے یہ صرف ایران امریکا معاملہ بن کر رہ گیا ۔ وہ وقت اوریہ وقت ایران امریکا تنازعہ کبھی سرد جنگ تو کبھی جارحیتی روپ میں قائم ودائم رہا ہے ۔
ایران پر امریکی و اقوام ِ متحدہ کی جانب سے عائد پابندیاں ،11سال تک جاری رہنے والی ایران عراق جنگ اور کئی موقعوں پر اسٹریٹجک حملوں کی تاریخ کے بعد گذشتہ 3برس کے دوران تنازعات کی برف اس وقت پگھلتی نظر آئی جب روس کی معرفت ایران امریکا مذاکرات کی بناء پر دونوں ممالک اپنے روایتی موقف میں لچک لائے ۔
یوں ایران پر عالمی پابندیوں میں کچھ نرمی آئی تو دوسری طرف ایران نے ایٹمی پروگرام کو رول بیک کرنے پر رضامندی تک ظاہر کی ۔ مگر تھوڑے ہی عرصے کے بعد یہ اُمور ایک بار پھر سرد جنگ میں اُس وقت تبدیل ہوئے جب شام اور یمن میں امریکا نے شیعہ مخالف اقدامات کیے۔جس میں شام میں بشارالاسد کی حکومت گرانے کی کوشش ہوئی جس کی وجہ سے شام میں خانہ جنگی کی صورتحال پیدا ہوئی تو دوسری طرف یمن میں سعودی عرب نے شیعہ علاقوں پر اس لیے حملے کیے کہ اُس کے مطابق یمن میں ایران نواز باغیوں کی سرگرمیاں تیز تر ہوگئی تھیں ۔ مگر پھر بھی یہ سب درپردہ تھا اور سرد جنگ کا پتہ دیتا تھا۔
لیکن گذشتہ برس 2019 ء میںایرانی فوج کی پاسداران ِ انقلاب فورس کے آبنائے ہرمز میں غیرملکی پرچم بردار آئل ٹینکرز سے محاذ آرائی اس سرد جنگ کو ایک مرتبہ پھر جارحیت کی پٹڑی پر لے آئی جوکہ 2020کے ابتدائی دنوں میں امریکا کی جانب سے عراق کے ہوائی اڈے پر ایرانی فوج کے سب سے طاقتور ترین جتھے پاسداران ِ انقلاب فورس کی ایک ونگ قدس بسیج کے جنرل قاسم سلیمانی کی میزائل حملے میں ہلاکت ایک مرتبہ پھر دونوں ملکوں کو کھلی جنگ کے لیے ایک دوسرے کے سامنے لے آئی ۔
امریکی حملے کے جواب میں ایران نے عراق میں موجود امریکی فوجی بیس پر حملہ کیا اور اُس میں 80امریکیوں کو مارنے کا دعویٰ کیا جسے امریکا نے رد کیا ہے۔ دوسری جانب عراق نے بھی ایرانی حملے میں کسی بھی عراقی کے نہ مرنے کا اعلان کیا ہے ۔ جب کہ اس صورتحال پر اقوام ِ متحدہ کا ظاہری موقف آیا ہے کہ ''دنیا خلیج میں ایک اور جنگ برداشت نہیں کرسکتی''۔
لیکن اس کے اس موقف کی کسی کوبھی شاید ہی کوئی پرواہ ہو۔یوں تو چین ، روس ، عراق ، شام اور لبنان سمیت مختلف ممالک نے امریکی حملے کی مذمت کی ہے لیکن دنیا کے اکثر ممالک اس پرخاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں ۔ جب کہ دنیا کو امن کا گہوارہ بننے کے خواب دیکھنے والے لوگ عالمی سطح پر پیدا ہونے والی اس صورتحال کوتیسری جنگ ِ عظیم کا شاخسانہ بن جانے کی تشویش کا اظہار کررہے ہیں ۔اس صورتحال پر نہ صرف امریکا اور ایران کے عوام میں بے چینی پیدا ہوگئی ہے بلکہ دنیا بھر کے ممالک بھی اس پر تشویش کا اظہار کررہے ہیں ۔
قاسم سلیمانی دراصل قدس فورس کی جانب سے خطے میں اسلامی اتحاد کے لیے کام کرنے والی قوتوں کے سب سے اہم اور طاقتور رہنما تھے۔ اس قدس فورس کی کمانڈ میں 5000اہلکار شامل ہیں ، جس کا ایک یونٹ شام میں صدر بشارالاسد کی حامی فورسز اور شیعہ ملیشیا کا ایڈوائیزر تھا جب کہ عراق میں اس نے شیعہ اکثریتی پیراملٹری فورس کی حمایت کی ، جس نے انتہا پسند عالمی دہشت گرد تنظیم داعش کو شکست دینے میں اُن کا ساتھ دیا ۔
اس تازہ صورتحال میں ایران امریکا تو دنیا کی توجہ کا باعث رہے ہی ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ پاکستان بھی خبروں کا مرکز بن گیا ہے ۔پاکستان کی ڈیمو گرافیکل و جیو اسٹریٹجک لوکیشن کی اہمیت کا امریکا کو واضح اندازہ ہے ، اسی لیے امریکا نے پاکستان سے مائیک پومپیو کے ذریعے فوری رابطہ کیا ہے ۔جب کہ سیاسی و مذہبی طور پر ایران پاکستان کا ایک دیرینہ دوست پڑوسی ملک رہا ہے ۔جس کے بعد یہ سوال گردش میں ہے کہ پاکستان کس طرف کھڑا ہوگا ؟
اس نئی صورتحال میںپاکستان پر زیادہ اثرات پڑنے کے امکانات ہیں کیونکہ پاکستان کی حدود بری و بحری طور پر ایران سے ملتی ہیں اور پاکستان کی بھارت اور افغانستان سے ملنے والی سرحدوں پر پہلے ہی تناؤ کی صورتحال ہے ۔ ایسے میں ایک اور ہمسایہ ملک میں جنگی صورتحال پاکستان کو شدید متاثر کرسکتی ہے ۔ خاص طور پر ایسی صورتحال میں جب یہ ملک ایران اسلامی ملک ہے اور اُس کے مذہبی عقائد کے حامی پاکستانی عوام میں کروڑوں کی تعداد میں موجودہ ہیں ۔
جب کہ عالمی سطح پر پاکستان تاریخی طور پر امریکی اتحادی ہونے کی وجہ سے ماضی میں روس امریکا اور افغانستان امریکا جنگ میں بھی اس نے امریکا کو معاونت فراہم کی تھی ، اور اسی لیے اس وقت بھی امریکا کی طرف سے Directاور سعودی عرب کی طرف سے Indirectدباؤ بڑھنے کا خدشہ ہے کہ وہ ایران کی مخالفت میں اُن کا ساتھ دے ۔ کیونکہ خلیجی ممالک میں امریکا کے مضبوط اتحادی کے طور پر سعودی عرب ہے ، جس کے مسلک کے حامی بھی اکثریتی تعداد میں ہمارے ملک میں موجود ہیں اورپاکستان بذات خود بھی امریکا کا دیرینہ اتحادی رہا ہے ۔
یوں یہ پاکستان کے لیے سہ ملکی دباؤ کا باعث ہونے کے ساتھ ساتھ سرحدی طور پر اس جنگ کی لپیٹ میں بھی آسکتا ہے اور اندرونی طور پر بھی مسلکی تناؤ بڑھنے کے خطے سے بھی دوچار ہوسکتا ہے ۔ امریکا اپنی دھرتی سے دور ایشیا کے اس خطے میں اگر کسی جنگ کی طرف جاتا ہے تو ماضی کی طرح وہ پاکستان کو ایران کے قریبی ملک کی حیثیت سے جنگ میں اتحادی بنانے اور استعمال کرنے کی بھرپور کوشش کرے گا۔
جس کے لیے بری اور بحری و فضائی راستے استعمال کرنے سمیت دیگر معاونتی آپشنز کے لیے دباؤ بڑھاتا رہے گا لیکن خطے کی صورتحال کا جائزہ لینے سے پتہ چلتا ہے کہ ایران سے ملحقہ تقریباً اُن تمام ممالک جیسے عراق ،بحرین، قطر، کویت، یو اے ای اور افغانستان میں امریکا کے فوجی بیس موجود ہیں ،جن ممالک کی یاتوسرحدیں ایران سے ملتی ہیں یا پھر وہ جغرافیائی طور پر اُس سے قریب ہیں ۔ ایسے میں فوجی بیس و ہوائی اڈوں اور زمینی معاونت کی شاید اتنی ضرورت نہ پڑے لیکن خطے میں پہلے سے موجود امریکی افواج اور اس تنازعے کے باعث نئی تعیناتیوں کے بعد امریکا کو سب سے بڑا مسئلہ غذائی و دیگر ضروریات ِ زندگی کی رسد کا ہوگا ۔ جس کے لیے وہ افغان جنگ کی طرح پاکستان پر دباؤ ڈال سکتا ہے۔
جہاں تک بات ہے رسد کی تو ملک اس وقت خود غذائی قلت کا شکار ہے ۔ ملک میں یومیہ کئی لوگ غربت اور بھوک کی وجہ سے خود کشیاں کررہے ہیں ۔ سندھ بلوچستان میں یومیہ کئی بچے غذائی قلت کی وجہ سے جاں ہمارا پاکستان پہلے ہی 1985سے روس امریکا و افغان جنگ کے باعث بڑے پیمانے پر افغان مہاجرین اور نائین الیون کے بعد افغان امریکا جنگ کے اثرات کے باعث ایک طویل ہنگامی صورتحال سے اس قدر دوچار رہا ہے کہ ان معاملات کی وجہ سے ملک میں داخلی طور پر مذہبی ،فرقہ وارانہ و لسانی انتہا پسندی عروج پر پہنچ چکی ہے ۔ جس سے نبرد آزما ہونے کے لیے نہایت گمبھیر صورتحال و اقدامات کا سامنا کرنا پڑا ہے ۔
ہزاروں فوجی جوانوں اور لاکھوں شہریوں کی قربانیاں دینی پڑی ہیں ، ملکی بجٹ کا نصف حصہ اپنی داخلی وسرحدی سلامتی کو برقرار رکھنے پر صرف کرنا پڑ رہا ہے ۔ یہاں تک کہ ملکی معیشت تباہ ہوکر رہ گئی ۔ ان تمام مسائل پر بڑی مشکل سے کچھ قابو پانے کے بعد اب کہیں جاکر ملک میں سیاسی ، معاشی و انتظامی استحکام کی فضا پیدا ہوئی ہے ۔ جسے دوسروں کی کسی مزید جنگ کے باعث دوبارہ کھونے کا متحمل نہیں ہوسکتا ۔ اس تمام صورتحال کا ادراک پاکستان کی اعلیٰ کمانڈ و قیادت کو بجا طور پر ہے ، جس کے پیش نظر ہی ان کا موقف ایک پیچ پر رہتے ہوئے واضح نظر آیا ، جس میں کسی بھی جنگی صورتحال کا حصہ نہ رہنے اور ہر طرح کی امن کوششوں کا حصہ بننے کا موقف اختیار کیا گیا ہے ۔
یہ موقف نہ صرف پاکستان کے عوام کی اُمنگوں کے عین مطابق ہے بلکہ ملکی سلامتی و استحکام کی ضروریات سے بھی ہم آہنگ نظر آتا ہے ۔ پھر دیکھا جائے تو پاکستان ماضی میں بھی ایران -سعودی اختلافات ختم کرانے کی کوششوں میں مصروف رہا ہے اور اس مرتبہ بھی اپنی اسلامک اسٹریٹجک وڈیمو گرافیکل صورتحال کے باعث نہ صرف ایران سعودی بلکہ امریکی اتحادی کے طور پر ایران امریکا تناؤ کم کرنے میں بھی وسیع جہتی اور اہم کردار ادا کرسکتا ہے ۔
اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ نہ صرف پاکستان کے اس موقف پر توجہ دینی چاہیے بلکہ دنیا میں دیرپا امن کے قیام کے لیے کسی ملک کے سپر پاور اوراقوام متحدہ میں ویٹو کے اختیارات کے خاتمے سمیت کسی بھی ملک کے تھانیداری والے اختیارات کا بھی سدباب کرکے اقوام متحدہ کو تمام رکن ممالک کے برابر فنڈز سے انتخابی ذریعہ سے لائی جانے والی قیادت کی فراہمی سے مکمل و فیصلہ کن اختیارات کی سپردگی کے حوالے سے کام ہونا چاہیے ۔ ورنہ دنیا میں یہی ہوتا رہے گا کہ برطانیہ کے بعد جرمنی ، روس کی سپر پاور بننے کی کوشش اور امریکا کے موجودہ سپر پاور بن جانے تک اور اب آنیوالے دنوں میں معاشی طور پر چین دنیا کا سپر پاور بننے کے چکر میں دوسرے ممالک کے معاملات میں دخل اندازی ہوتی ہی رہے گی ۔ جس سے دنیا کا امن ہمیشہ داؤ پر لگا رہے گا ۔
پھر یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ایرانی انقلاب ایک نظریاتی انقلاب تھا ، جس کی بنیاد مسلکی قوانین پر رکھی گئی تھی جسے کامیابی کے باوجود اسلام کے دیگر مسالک کے حامل ممالک بالخصوص سعودی عرب نے قبول نہیں کیا ۔ جس کا فائدہ بھی مغربی ممالک خصوصاً امریکا نے خوب اُٹھایا ہے۔ اس لیے ایران کواس بات کو سمجھ لینا چاہیے کہ ایران کے اکثر فعال اتحادی جیسے یمن ، عراق ، شام جنگ زدہ ہونے کی وجہ سے کوئی کردار ادا کرنے سے قاصر ہیں ، جب کہ خاموش اتحادی روس ، چین وغیرہ بھی امریکا سے تنازعے کی صورت میں شاید خاموش رہنے کو ترجیح دیں ۔
پھر یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ امریکا ایران جنگ کوئی روایتی جنگ نہیں ہے کیونکہ روایتی جنگ اکثر طور پر دو پڑوسی ممالک کے درمیان سرحدی تنازعات کی صورت میں ایٹمی ہتھیاروں کے بغیر روایتی ہتھیاروں سے لڑی جاتی ہے ۔ لیکن ایران امریکا جنگ ایک غیر روایتی جنگ اس لیے بھی ہے کہ یہ ہزاروں میل دور بیٹھے ایٹمی سپر پاور امریکا کی ایشیا کے ایک پابندی زدہ غریب و غیر ایٹمی ملک سے ہے ۔جس کی مثال قاسم سلیمانی پر حملے میں امریکا کی جانب سے قطر کی سرزمین سے لیزرٹیکنالوجی کے حامل میزائل کا استعمال ہے ۔ پھر ہیروشیما اور ناگاساکی کی تاریخ بتاتی ہے کہ امریکا غیر روایتی ہتھیاروں کے استعمال سے بھی دریغ نہیں کرتا ۔
اس لیے اس جنگ کو روکنے کے لیے واحد ذریعہ سفارتی کوششیں ہیں جوکہ تمام ممالک کو بلا تاخیر شروع کرنے میں پاکستان کی پیروی کرنی چاہیے ، کیونکہ پاکستان نے جس واضح غیرجانبدارانہ پالیسی کا اعلان کیا ہے اور وزیر اعظم نے وزیر خارجہ اور عسکری قیادت کو امن کوششوں کے لیے فریقین و دیگر بااثر ممالک سے رابطوں کی ہدایات جاری کی ہیں وہ نہ صرف تاریخی قدم ہے بلکہ دنیا بالخصوص خطے کے ممالک کے لیے اس تنازعے اور عالمی صورتحال میں رہنما اُصول بن سکتا ہے ۔