سانحہ آسٹریلیا

اتنی پھیلی ہوئی آگ جوکروڑوں چورس میلوں پر تھی جس میں لگ بھگ 50کروڑ چھوٹے بڑے جانور مارے گئے۔

Jvqazi@gmail.com

ہم مہذب انسان تو بعد میں بنے مگر اس سے پہلے غاروں میں رہتے تھے، شکارکرتے اور زندگی بسرکرتے تھے۔ پھر ہم نے شہر بسائے ، فصلیں اگائیں ، قبیلوں اور ذات پات اور رنگوں سے لے کر مذاہب ، ثقافتوں میں بٹ گئے، ہم پھیلتے گئے، آج قریباً سات سے آٹھ ارب کے لگ بھگ ہوں گے۔ ہم اب خود اس دنیا کے لیے مسئلہ بن گئے ہیں۔

یہ دھرتی جو مٹی ، پانی، چٹانوں ،آہن اور طرح طرح کی معدنیات سے مالا مال ہے۔ طرح طرح کے جیوت ہیں اس دھرتی پر بستے ہیں، یہ سب جیوت بھی برابر کے شہری ہیں۔ انسان اور جانور دونوں۔ درخت ، ریگزار پھول پرندے سب۔ یہ دھرتی سب کو اپنے وجود پر پالتی ہے۔ ہر جاندارکے لیے خوراک کا بندوبست کرتی ہے۔

کیا کبھی ہم نے اس زاویے سے بھی چیزوں کو پر کھا ہے کہ ہم نے اس دھرتی کے ساتھ کیا کیا ہے۔ خود غرضی سے اس کا ماس کھاتے جا رہے ہیں۔ شاید غلام فریدکی زبان ہمیں اس دھرتی کا یہ درد سمجھ میں آئے۔

چوریاں کٹاں تے کھانداں ناہیں

اساں تن دا ماس کھلایا ہے

مائے نی اک شکرا یار بنایا ہے

اب یہ دھرتی خود ایک بہت بڑی ماحولیاتی بحران سے گزر رہی ہے۔ جب تک گندم دریافت نہیں ہوئی تھی، ہم فقط گوشت خور تھے ۔غاروں اورگوپھٓائوں میں رہتے تھے۔ پشکن کی زبان میں''انسان اورکچھ بھی نہیں فقط دو ٹانگوں والاجانور ہے۔''

قدیم انسان جو ایک ساتھ رہنے لگے،گھر بنائے پھر گلیاں بنائیں پھر محلے پھر بازار اور پھر شہرآباد کیے۔ ضرورت کے تحت مختلف روزمرہ کے استعمال کی چیزیں بنائیں۔ یہ کوئی دس ہزارسال پرانی بات ہوگی ورنہ آج کے ماڈرن انسان کی ڈی این اے تو دو لاکھ سال پرانی ہے۔ دس ہزار سال پہلے سماج میں رہنے والے انسانوں کی جو اہم دریافت تھی وہ گندم کی تھی کہ جس کو مہینوں اور سالوں حفاظت میں رکھا جاسکتا تھا۔ وہ کبھی گوشت کی طرح جلدی خراب نہیں ہوتی تھی ۔

یہ ارتقا کا وہ زینہ ہے جہاں سے آدمی بنتا بھی اور بگڑتا بھی ہے، وہ بنتا اس لیے ہے کہ اس کی سوچ جانوروں کی طرح صرف اس نکتے پر نہیں تھی کہ خوراک کا کیسے بندوبست ہو۔ اب اس کے پاس ذخیرہ تھا، خوراک کا اور اس کی سوچ وسیع ہونے لگی۔ وہ دوسری چیزوں پر ، ایجادات پر سوچ بچارکرنے لگا ۔ پھر ملکیت کا تصور انسان کے دماغ میں ابھرا، وہ تصور جوکسی اور جیوت میں نہیں کیونکہ ان میں اونچ نیچ کا تصور نہیں۔ نا کوئی طبقہ ہے، نہ ہی کسی ذات پات کا تفرق۔وہ تو جانور ہیں۔ صرف پیار ان کا لاشعور ہے اور جانتے ہیں اپنا دفاع کرنا اور اپنی بقا کی جنگ لڑنا۔


ہم جوں جوں وسیع ہوئے، ہم نے ان جنگلوں کا صفایا کرنا شروع کردیا۔ جہاں جانور رہتے تھے، ان کو ختم کردیا اورجوجانور ہماری غذا کا حصہ ہیں، ان کو پالنا شروع کر دیا۔ تزک بابری میں بابر لکھتے ہیں کہ جب وہ خیبر سے نیچے اپنے لشکرکے ساتھ اترا تو بہت سے گینڈے اس کی نظر سے گزرے اور جب سکندر اعظم گئے تو اس نے بھی اس سرزمین کے مالا مال اور جانوروں سے آباد جنگلات کو دیکھا تھا۔ ان کو ٹھاٹھیں مارتا ہوا دریائے سندھ ملا۔ یہ یونانی تھے جنھوں نے انڈس کے نام سے اس سر زمین کو رقم کیا۔

حال ہی میں جب آسٹریلیا کے جنگلوں کو لگی آگ، وہ اتنی پھیلی ہوئی آگ جوکروڑوں چورس میلوں پر تھی جس میں لگ بھگ 50کروڑ چھوٹے بڑے جانور مارے گئے، میرے لیے یہ میری زندگی کی سب سے بڑی خبر تھی ۔ 50 کروڑ سے بھی زیادہ دھڑکتے ہوئے دل ، آنکھیں رکھتی ہوئی سانسیں لیتی ہوئی، بے زبان زندگیاں، جو ان جنگلات میں رہتی تھیں، اس کا اوڑھنا بچھونا تھا یہ سب کچھ یہ الپائن کے درخت ، یہ ریگزار اور جھیلیں ، یہ چہچہاتے ہوئے مناظر، سورج کا طلوع ہونا، اس کا غروب ہونا، کتنے رنگ تھے، کتنی زبانیں تھیں جس میں صرف اور صرف جبلتوں کی باتیں تھیں، جوبن مانس اپنے بچوں کے ساتھ کرتا ہوگا، پانڈا، کینگرو ،کھولا ، کچھ رینگتے ہوئے اور بھاگتے ہوئے، بے تحاشا اس آگ کی لپیٹ میں آگئے، دنیا کی ماڈرن تاریخ میں کبھی اتنے جانور ایک ساتھ ایک دم ایک آگ کے شعلوں سے نہیں مرے ہونگے، یہ تاریخ کا ایک انوکھا واقعہ ہے۔ یہ آگ بھی انسانوں کی لگائی آگ تھی کسی اور نے کی نہیں ۔

قدیم تاریخ ہے،کروڑوں سال پر منحصر اس دھرتی کی۔ اس تاریخ میں کروڑوں سال پہلے یہاں ڈائنا سار بھی رہتے تھے۔ آج اس دھرتی کو انسان نے کالونیلائز کیا ہوا ہے۔ انسان اس وقت فطرت کے لیے بہتر تھا جب تک یہ غاروں میں رہتا تھا ، ہم اس وقت بھی بہتر تھے جب گندم دریافت ہوئی، پریوار اور قبیلوں میں رہتے تھے، ہم تھے تو جنگلی مگر فطرت کوکوئی پریشانی نہ تھی۔ ماحولیات کو خطرہ نہ تھا ۔ پتھروں کا دورگزرا ، آہن کا دورآیا ، قبائلی ، جاگیرداری کا دور آیا اور پھر جب کیپٹل ازم آیا۔

انسان کی لالچ پنپی، یہ لالچ ہی تھی جس نے آج کی ٹیکنالوجی کو جنم دیا۔ لالچ پیسے کی لالچ۔ پاور اور پانی کی لالچ، صنعتوں کا جال بچھایا گیا اور اس کا ایندھن تھا کاربن چھوڑنے والے یہ تیل ، پٹرول کہ دنیا کی گرمی بڑھی۔ بہت سی وجوہات ہیں کہ ان جنگلوں کو آگ لگی۔ آسٹریلیا میں آج کل شدید گرمیاں ہیں، کہتے ہیں آسٹریلیا کی تاریخ میں دس بدترین گرمیاں پڑیں۔ ان دس میں سے آٹھ تو 2005 کے بعد پڑی ہیں اور یہ سال بھی وہاں کی بدترین گرمیوں میں سے ایک ہے اور بہت سے عوامل ہیں ، انسانی ہاتھوں کی خود غرضی ہے کہ ایسے آگ بھڑک اٹھی۔ایسی ہی آگ برازیل کے امازون جنگلات میں پچھلے سال بھڑکی تھی۔

جہاں آج کل ان کی تاریخ کا بد ترین دائیں بازو کی سیاست کرنے والا بولسنارو حکومت کر رہا ہے اور وہ کہتا ہے کہ برازیل نے کوئی ٹھیکا نہیں لے رکھا کہ دنیا کے ان عظیم جنگلوں کو آباد رکھنے کا، اور وہ کہتا ہے کہ ہم لکڑیاں کاٹیں گے ان جنگلوں کو صاف کرکے میدان بنا کے معیشت کو بہتر بنائیں گے۔ میں جب 2018 کے آخری مہینوں میں برازیل گیا تھا اور ان امازون کے جنگلوں کے اگازو آبشاروں کو اپنی آنکھوں سے دیکھا اور ان جنگلوں کا ہوائی منظر بھی دیکھا۔

ایک مسلسل بارش ہے جو وہاں رہتی ہے۔ برازیل اور آسٹریلیا دو مختلف کونے تو ہیں مگر رہتے ایک ہی ایکسز پر آمنے سامنے ہیں۔ سائوتھ امریکا کا سائوتھ افریقہ اور آسٹریلیا جب ہمارے ہاں سردیاں پڑتی ہیں تو وہاں گرمیاں ہوتی ہیں۔ بے تحاشہ فوٹیجز اور فوٹوز آسٹریلیا کی اس آگ کے منظر کے ہوںگے ۔ میڈیا نے دیکھے۔ سوشل میڈیا پر بھی۔ پچاس کروڑ سے زائد چھوٹے بڑے جانور مارے گئے۔ پرندوں کے پر ان شعلوں سے محفوظ رہے۔ وہ تو اڑ سکتے تھے مگر جانور نہیں۔

فقط خود غرضی ہی ایک وجہ تھی ٹرمپ کا ایران پر حملے کرنا کانگریس سے اجازت لیے بغیر، کل اس نے اپنے اتحادی کردوں کو دھوکا دیا شام میں، اور آج عراق کو۔ مگر اس کی جنگی سامان پیدا کرنے والی صنعتیں اس ٹکرائو سے بہت خوش ہیں۔ یہ ہے آج کا مہذب انسان، جس کی جمہوریت کو دائیں بازوئوں کی سنڈی لگ گئی ہے۔ بڑے سے بڑا ہٹلر ہے جو آج دنیا میں مودی کی شکل میں موجود ہے کہ کسی بھی وقت تیسری عظیم جنگ لگنے کے خطرات ہیں ۔ یہ سب بیانیہ ہے جس نے دنیا کو ایسی تباہی کے دہانے پہنچایا ہے۔

ٹرمپ کی وجہ سے فرانس میں ماحولیات کے حوالے سے جو ٹریٹی تھی اس سے امریکا کو نکال دیا گیا۔ ٹرمپ نے ایران سے ایٹمی معاہدے کی ٹریٹی توڑ دی۔ ایران کی حکومت بھی ایک طرح کی آمریت ہے جو چالیس سال سے ایران کے لوگوں پر مسلط ہے۔ سعودی عرب کیا ہے؟شام اور ایران کا ، شاہ ایران کے زمانے میں بھی ایک بیانیہ تھا اور آج مذہبی انتہا پرست حکومت کا بیانیہ۔ جناح کا بھی ایک بیانیہ تھا، ضیاء الحق کا بھی ایک بیانیہ تھا۔

ہر ریاست کو اپنے وجود کے لیے ایک بیانیہ چاہیے اگر ان کے اندر اقتداری شرفا ، ووٹ لے کر جیت کے نہیں آتے تو وہ اپنی legitimacy بنانے کے لیے جنون کا بیوپارکرتے ہیں ، مگر ویلفیئر ریاستیں ایسا نہیں کرتیں اور ایسی بھی عظیم کا وجود ہے۔ اسکیویڈین سویڈن، فن لینڈ، ہالینڈ، وغیرہ، نیوزی لینڈ اور کینیڈا وغیرہ۔

اس پوری تباہی سے بچنے کے لیے اس دنیا کو ایک ہونا پڑے گا ، ایک فیڈریشن بنانی پڑے گی۔ جہاں کوئی مودی کی طرح ہندوستان کے سیکولر بیانیہ کو یرغمال نہ کرسکے ۔ ٹرمپ امریکا کو اور بوسلنارو برازیل کو۔
Load Next Story