پاکستان کا فیصلہ
ہمیں پرائے پھڈوں سے بچنے کے لیے معاشی خود مختاری کی جانب قدم بڑھانے کی اشد ضرورت ہے
برصغیر پاک و ہند میں جس امن اور دوستی کی خواہش برصغیر کی تقسیم کے وقت سے کی جا رہی ہے، اس میں کئی دہائیاں گزر جانے کے بعد بھی کوئی خاص پیش رفت نہیں ہو سکی بلکہ اگر یہ کہا جائے تو بھی بیجا نہ ہو گا کہ دوستی اور امن کی خواہش کو دشمنی اور بد امنی میں بدلا گیا ہے۔
دوستی اور امن کی خواہش کی منزل کہیں بہت دور رہ گئی اور جس دو قومی نظریہ کی بنیاد پر برصغیر کی تقسیم ہوئی تھی اسی نظریہ کو بنیاد بناتے ہوئے بھارت کی ہندو قیادت نے بھارت میں بسنے والے مسلمانوں کا جینا حرام کر رکھا ہے۔
گزشتہ کئی ماہ سے کشمیر کی صورتحال دنیا دیکھ رہی ہے۔ بھارت نے ظلم و جارحیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے کشمیریوں کو ان کے گھروں میں قید کر رکھا ہے اور انسانی حقوق کی علمبردار حکومتیں اس پر مجرمانہ خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں ۔ ہم پاکستانی اگر بھارت کے ساتھ تمام اختلافات بھلا کر اپنی ستر برسوں کی دشمنی کو بھولنا بھی چاہئیں لیکن بھارت ہمیں اس دشمنی کو بھولنے نہیں دیتا اور کسی نہ کسی بہانے ہمیں اس کی یاد دلاتا رہتا ہے، کبھی بھارت میں بسنے والے مسلمانوں کی نسل کشی کے اقدامات کر کے اور کشمیر میں تو اس نے مسلسل مسلمانوں کو اپنی سفاکیت کا نشانہ بنا رکھا ہے ۔
ہمارے پاکستانی حکمران کبھی کبھار امریکا کی خواہش پر اپنے دشمن پڑوسی بھارت پر صدقے واری بھی جاتے رہتے ہیں لیکن ہماری اس محبت کا جواب کبھی محبت سے نہیں ملا بلکہ ہماری یہ محبت یک طرفہ ہی رہی ہے ۔ ہم نے بھارت کی خوشامد میں جو بھی کام کیا ہے کسی کی خواہش پر عجلت میں ہی کیا ہے ۔ کبھی ہم نے بھارتی وزیر اعظم واجپائی کا والہانہ استقبال کیا تو کبھی بھارتی صنعتکاروں کو اپنے پر فضاء مقامات کی سیر کراتے رہے، اپنے قدیمی دشمن کے ساتھ دوستی کے ترانے بھی گاتے رہے جس پر دونوں ملکوں کے روشن خیال شادیانے بجاتے رہے ۔
ستر برسوں سے ہم ایک سوال لیے دنیا میں بھٹک رہے ہیں کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان کشمیر کا تنارع کوئی حل کرا دے ،کبھی ہم اقوام متحدہ کی قراردادوں کا ذکر کرتے ہیں تو کبھی کشمیر پر امریکا کی منافقانہ ثالثی کے جھانسے میں آ جاتے ہیں ۔ ماضی میں پاکستان کی سیاسی جماعتوں کو بھارت کے ساتھ دوستی پر کوئی اعتراض نہیں تھا لیکن یہ سوال اپنی جگہ موجود رہا، کیا پاکستان اور ہندوستان کے درمیان دوستی ہو سکتی ہے اور کیا مسئلہ کشمیر حل ہو سکتا ہے۔
تاریخ اس سوال کا جواب دے یا نہ دے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن بھارت نے کشمیر میں لاکھوں کشمیریوں کو قید کر کے اس کا جواب دے دیا ہے اور ان روشن خیال اور بھارت نواز پاکستانیوں کا موقف ایک بار پھرغلط ثابت کر دیا ہے کہ بھارت ہمارا کبھی دوست بھی ہو سکتا ہے اور ان محب وطن پاکستانیوں کا موقف درست ہو گیا ہے جو یہ کہتے ہیں کہ ہندو اور مسلمان دو متحارب قومیں ہیں، کسی کی غلام بن کر تو ایک ساتھ جوں توں کر کے وقت گزار سکتی ہیں مگرآزاد ملکوں کی صورت میں یک جان دو قالب نہیں بن سکتیں۔ وہ مسلمان برصغیر کی تاریخ اور ہندو قوم کے مزاج سے بالکل بے خبر ہے جو کسی اس طرح کی دوستی کی امید رکھتا ہے ۔ مشرقی پاکستان پر بھارتی فوج کی یلغار اور مسلمان فوج کی اسیری ہمیں یاد ہے ۔
اندرا گاندھی کے وہ الفاظ ہمیں کبھی نہیں بھولنے چاہئیں۔ اس نے کہا تھا کہ انھوں نے دو قومی نظریہ خلیج بنگال میں ڈبو دیا ہے ۔ ایوب خان نے اقتدار سے علیحدہ ہونے کے بعد ایک ملاقاتی سے پاک و ہند تعلقات پر گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہندوستان کو ا س کے اندرونی حالات میں الجھائے رکھو ورنہ وہ تمہیں کھا جائے گا ۔ کشمیر میں بھارت کی سات لاکھ سے زائد کی باقاعدہ فوج الجھی ہوئی ہے۔
بھارت کے دوسرے کئی حصوں میں علیحدگی کی تحریکیں سرگرم ہیں اور اب متعصب ہندو سرکارکی جانب سے شہریت کا متنارعہ قانون لاگو کرنے کے بعد بھارتی کے طول و عرض میں ہنگامے پھوٹ پڑے ہیں جس نے اس کے سیکولر ہونے کا بھانڈا پھوڑ دیا ہے، اس کی نام نہاد جمہوریت کا تماشہ کشمیر میں دیکھا جا رہا ہے ۔
عمران خان نے دنیا میں کشمیریوں کے سفیر کی بات اور ایک طویل مدت کے بعد عالمی سطح پر کشمیر کا مقدمہ اجاگر کر کے کشمیریوں اور پاکستانیوں کی خوب داد سمیٹی ہے لیکن ہماری بد قسمتی یہ ہے کہ ہم مسائل کے انبار میں گھرا ہوا ایک ایسا ملک ہیں جس میں ہر وقت گرم ہوا ہی چلتی رہتی ہے، ابھی کشمیر کا مسئلہ دنیا کو ایک بار پھر سمجھا رہے تھے کہ مولانا فضل الرحمٰن نے ملک میں یکا یک سیاسی ہلچل پیدا کر کے کشمیر کے مسئلے سے دنیا کی توجہ ہٹا دی اور ہماری حکومت کو اندرونی سیات میں الجھا دیا ۔ پاکستان کے دروازے پر دستک دیتے امریکا ایران تنارع میں پاکستان نے اپنا موقف واضح کیا ہے۔
ہمارے وزیر اعظم عمران خان نے کسی اور ملک کی جنگ میں فریق نہ بننے کا دوٹوک الفاظ میں اعلان کر دیا ہے ۔ حکومت کایہ نہایت صائب اور درست فیصلہ اور وقت کی ضرورت ہے۔ پاکستان جو کہ پہلے ہی اپنے قدیمی دشمن بھارت کے ساتھ کشمیر جیسے اہم مسئلے پر الجھا ہوا ہے اور امریکا اس کی ایک سرحد پر افغانستان میں موجود ہے، اس لیے پاکستان اپنی دوسری سرحدوں کو غیر محفوظ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے اور مزید تنارعات برداشت کرنے کی سکت نہیں رکھتا ۔
دراصل ہمیں پرائے پھڈوں سے بچنے کے لیے معاشی خود مختاری کی جانب قدم بڑھانے کی اشد ضرورت ہے تا کہ ہم معاشی طور پر اتنے مضبوط ہو جائیں کہ ہمیں کسی غیر اور ناپسندیدہ ملک کی آشیر باد کی ضرورت ہی نہ رہے اور باج گزاری سے نجات مل جائے اور یہ صرف اسی صورت میں ممکن ہے کہ ہم کسی کے آلہ کار نہ بنیں، اپنی معاشی جنگ بھی لڑیں اور کوئی ملک ہمیں بھارتی بالادستی تسلیم کرنے پر مجبور نہ کر سکے ۔ میں سمجھتا ہوں کہ عمران خان کا کسی طاقت کا آلہ کار نہ بننے کا فیصلہ پاکستان کی ترقی اور خود مختاری کی جانب بڑھتا ایک قدم ہے اور ہمارے حکمران اگر اس فیصلے پر قائم رہے تو یہ پاکستان کے روشن مستقبل کا فیصلہ کہلائے گا۔
دوستی اور امن کی خواہش کی منزل کہیں بہت دور رہ گئی اور جس دو قومی نظریہ کی بنیاد پر برصغیر کی تقسیم ہوئی تھی اسی نظریہ کو بنیاد بناتے ہوئے بھارت کی ہندو قیادت نے بھارت میں بسنے والے مسلمانوں کا جینا حرام کر رکھا ہے۔
گزشتہ کئی ماہ سے کشمیر کی صورتحال دنیا دیکھ رہی ہے۔ بھارت نے ظلم و جارحیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے کشمیریوں کو ان کے گھروں میں قید کر رکھا ہے اور انسانی حقوق کی علمبردار حکومتیں اس پر مجرمانہ خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں ۔ ہم پاکستانی اگر بھارت کے ساتھ تمام اختلافات بھلا کر اپنی ستر برسوں کی دشمنی کو بھولنا بھی چاہئیں لیکن بھارت ہمیں اس دشمنی کو بھولنے نہیں دیتا اور کسی نہ کسی بہانے ہمیں اس کی یاد دلاتا رہتا ہے، کبھی بھارت میں بسنے والے مسلمانوں کی نسل کشی کے اقدامات کر کے اور کشمیر میں تو اس نے مسلسل مسلمانوں کو اپنی سفاکیت کا نشانہ بنا رکھا ہے ۔
ہمارے پاکستانی حکمران کبھی کبھار امریکا کی خواہش پر اپنے دشمن پڑوسی بھارت پر صدقے واری بھی جاتے رہتے ہیں لیکن ہماری اس محبت کا جواب کبھی محبت سے نہیں ملا بلکہ ہماری یہ محبت یک طرفہ ہی رہی ہے ۔ ہم نے بھارت کی خوشامد میں جو بھی کام کیا ہے کسی کی خواہش پر عجلت میں ہی کیا ہے ۔ کبھی ہم نے بھارتی وزیر اعظم واجپائی کا والہانہ استقبال کیا تو کبھی بھارتی صنعتکاروں کو اپنے پر فضاء مقامات کی سیر کراتے رہے، اپنے قدیمی دشمن کے ساتھ دوستی کے ترانے بھی گاتے رہے جس پر دونوں ملکوں کے روشن خیال شادیانے بجاتے رہے ۔
ستر برسوں سے ہم ایک سوال لیے دنیا میں بھٹک رہے ہیں کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان کشمیر کا تنارع کوئی حل کرا دے ،کبھی ہم اقوام متحدہ کی قراردادوں کا ذکر کرتے ہیں تو کبھی کشمیر پر امریکا کی منافقانہ ثالثی کے جھانسے میں آ جاتے ہیں ۔ ماضی میں پاکستان کی سیاسی جماعتوں کو بھارت کے ساتھ دوستی پر کوئی اعتراض نہیں تھا لیکن یہ سوال اپنی جگہ موجود رہا، کیا پاکستان اور ہندوستان کے درمیان دوستی ہو سکتی ہے اور کیا مسئلہ کشمیر حل ہو سکتا ہے۔
تاریخ اس سوال کا جواب دے یا نہ دے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن بھارت نے کشمیر میں لاکھوں کشمیریوں کو قید کر کے اس کا جواب دے دیا ہے اور ان روشن خیال اور بھارت نواز پاکستانیوں کا موقف ایک بار پھرغلط ثابت کر دیا ہے کہ بھارت ہمارا کبھی دوست بھی ہو سکتا ہے اور ان محب وطن پاکستانیوں کا موقف درست ہو گیا ہے جو یہ کہتے ہیں کہ ہندو اور مسلمان دو متحارب قومیں ہیں، کسی کی غلام بن کر تو ایک ساتھ جوں توں کر کے وقت گزار سکتی ہیں مگرآزاد ملکوں کی صورت میں یک جان دو قالب نہیں بن سکتیں۔ وہ مسلمان برصغیر کی تاریخ اور ہندو قوم کے مزاج سے بالکل بے خبر ہے جو کسی اس طرح کی دوستی کی امید رکھتا ہے ۔ مشرقی پاکستان پر بھارتی فوج کی یلغار اور مسلمان فوج کی اسیری ہمیں یاد ہے ۔
اندرا گاندھی کے وہ الفاظ ہمیں کبھی نہیں بھولنے چاہئیں۔ اس نے کہا تھا کہ انھوں نے دو قومی نظریہ خلیج بنگال میں ڈبو دیا ہے ۔ ایوب خان نے اقتدار سے علیحدہ ہونے کے بعد ایک ملاقاتی سے پاک و ہند تعلقات پر گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہندوستان کو ا س کے اندرونی حالات میں الجھائے رکھو ورنہ وہ تمہیں کھا جائے گا ۔ کشمیر میں بھارت کی سات لاکھ سے زائد کی باقاعدہ فوج الجھی ہوئی ہے۔
بھارت کے دوسرے کئی حصوں میں علیحدگی کی تحریکیں سرگرم ہیں اور اب متعصب ہندو سرکارکی جانب سے شہریت کا متنارعہ قانون لاگو کرنے کے بعد بھارتی کے طول و عرض میں ہنگامے پھوٹ پڑے ہیں جس نے اس کے سیکولر ہونے کا بھانڈا پھوڑ دیا ہے، اس کی نام نہاد جمہوریت کا تماشہ کشمیر میں دیکھا جا رہا ہے ۔
عمران خان نے دنیا میں کشمیریوں کے سفیر کی بات اور ایک طویل مدت کے بعد عالمی سطح پر کشمیر کا مقدمہ اجاگر کر کے کشمیریوں اور پاکستانیوں کی خوب داد سمیٹی ہے لیکن ہماری بد قسمتی یہ ہے کہ ہم مسائل کے انبار میں گھرا ہوا ایک ایسا ملک ہیں جس میں ہر وقت گرم ہوا ہی چلتی رہتی ہے، ابھی کشمیر کا مسئلہ دنیا کو ایک بار پھر سمجھا رہے تھے کہ مولانا فضل الرحمٰن نے ملک میں یکا یک سیاسی ہلچل پیدا کر کے کشمیر کے مسئلے سے دنیا کی توجہ ہٹا دی اور ہماری حکومت کو اندرونی سیات میں الجھا دیا ۔ پاکستان کے دروازے پر دستک دیتے امریکا ایران تنارع میں پاکستان نے اپنا موقف واضح کیا ہے۔
ہمارے وزیر اعظم عمران خان نے کسی اور ملک کی جنگ میں فریق نہ بننے کا دوٹوک الفاظ میں اعلان کر دیا ہے ۔ حکومت کایہ نہایت صائب اور درست فیصلہ اور وقت کی ضرورت ہے۔ پاکستان جو کہ پہلے ہی اپنے قدیمی دشمن بھارت کے ساتھ کشمیر جیسے اہم مسئلے پر الجھا ہوا ہے اور امریکا اس کی ایک سرحد پر افغانستان میں موجود ہے، اس لیے پاکستان اپنی دوسری سرحدوں کو غیر محفوظ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے اور مزید تنارعات برداشت کرنے کی سکت نہیں رکھتا ۔
دراصل ہمیں پرائے پھڈوں سے بچنے کے لیے معاشی خود مختاری کی جانب قدم بڑھانے کی اشد ضرورت ہے تا کہ ہم معاشی طور پر اتنے مضبوط ہو جائیں کہ ہمیں کسی غیر اور ناپسندیدہ ملک کی آشیر باد کی ضرورت ہی نہ رہے اور باج گزاری سے نجات مل جائے اور یہ صرف اسی صورت میں ممکن ہے کہ ہم کسی کے آلہ کار نہ بنیں، اپنی معاشی جنگ بھی لڑیں اور کوئی ملک ہمیں بھارتی بالادستی تسلیم کرنے پر مجبور نہ کر سکے ۔ میں سمجھتا ہوں کہ عمران خان کا کسی طاقت کا آلہ کار نہ بننے کا فیصلہ پاکستان کی ترقی اور خود مختاری کی جانب بڑھتا ایک قدم ہے اور ہمارے حکمران اگر اس فیصلے پر قائم رہے تو یہ پاکستان کے روشن مستقبل کا فیصلہ کہلائے گا۔