پاک بنگلادیش سیریز کا فیصلہ بدستور ہوا میں معلق پی سی بی اور شائقین کا انتظار طویل ہوگیا
پی ایس ایل سے قبل بنگلادیش کا انکار انٹرنیشنل کرکٹ کی بحالی کے لیے دھچکا ہوگا
MULTAN:
بنگلادیش کی کرکٹ ٹیم پاکستان کا دورہ کرے گی یا نہیں، یہ ایسا سوال ہے جو ہر کرکٹ شائق کی زبان پر ہے۔
روٹین کی رپورٹنگ کے لئے جمعہ کو لاہور سٹی کرکٹ ایسوسی ایشن کے دفتر پہنچا تو وہاں پر ریجن عہدیداروں کے علاوہ شہر کی مختلف کلبوں کے عہدیدار بھی موجود تھے، موضوع وہی بنگلادیش کرکٹ ٹیم کا دورہ پاکستان تھا، کوئی اسے بنگلادیش کرکٹ بورڈ کی ہٹ دھرمی تو کوئی اسے بھارتی مخصوص لابی کی سازش قرار دے رہا تھا، کسی کا خیال تھا کہ مہمان ٹیم کو اب تک دورے کے لئے آمادہ نہ کرسکنا پاکستان کرکٹ بورڈ کے ذمہ داروں کی ناکامی ہے۔
اکثریت اس بات پر متفق تھی کہ پلیئرز کو یہاں آ کر کھیلنے میں کوئی مسئلہ نہیں ہے، لیکن مسئلہ سارے کے سارا بنگلادیش کرکٹ بورڈ کا ہے کہ جن کی لگام کسی اور کے ہاتھ میں ہے، بورڈ عہدیدار بس یہ چاہتے ہیں کہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے، اس لئے وہ پاکستان کرکٹ بورڈ سے وقت پر وقت مانگ رہے ہیں، ہاں یا ناں کی اس جنگ میں بنگلادیش کرکٹ بورڈ کے حربے کار گر ہوں گے یا پی سی بی حکام بنگال ٹائیگرز کو پاکستان لانے میں کامیاب رہیں گے، اس کا فیصلہ تو چند روز تک ہو جائے گا لیکن یہ بات طے ہے کہ پاکستان کے سونے گراؤنڈز آباد کرنے میں جو کلیدی کردار سابق چیئرمین پی سی بی شہریار خان اور نجم سیٹھی نے ادا کیا، ان کوششوں کو دھچکا ضرور لگے گا۔
پی سی بی کے موجودہ سربراہ احسان مانی انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کے سابق صدر رہ چکے ہیں، ان کے ماضی کے کرکٹ کارناموں کو ہی دیکھتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان نے انہیں چیئرمین پی سی بی کی اہم ذمہ داری سونپی، گو احسان مانی ابھی تک شائقین کرکٹ کے اعتماد پر تو پورا نہیں اتر سکے لیکن اس حقیقت سے بھی کسی صورت میں بھی انکار ممکن نہیں کہ احسان مانی پاکستان کرکٹ بورڈ کے شاید واحد سربراہ ہیں جنہوں نے بی سی سی آئی کے دباؤ میں آنے کی بجائے ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کی ہے،ان کا شروع ہی سے موقف رہا ہے کہ اگر بھارت پاکستان میں آ کر کھیلنے کے لئے تیار نہیں تو ہمیں بھی بلو شرٹس کے ساتھ کھیلنے کی کوئی ضرورت نہیں۔
احسان مانی کی اس پالیسی کو دیکھتے ہوئے شاید بی سی سی آئی حکام کھلم کھلا پاکستان کے خلاف کرکٹ دشمنی پر اتر آئے ہیں اوروہ پاکستانی کرکٹ کو نقصان پہنچانے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دے رہے۔ چیئرمین پی سی بی کا ایک اور کارنامہ سری لنکن کرکٹ بورڈ کو ٹوئنٹی20 کے بعد 2 ٹیسٹ میچوں کی سیریز کے لئے پاکستان آنے کے لئے آمادہ کرنا تھا۔ آئی لینڈرز کے خلاف ٹیسٹ سیریز کی وجہ سے پاکستان ٹیم کے کپتان اظہر علی سمیت تمام پلیئرز اپنی ملکی سرزمین پر پہلی بار ایکشن میں دکھائی دیئے۔ راولپنڈی اور کراچی میں شیڈول ان ٹیسٹ میچوں کے دوران شائقین کی بھی بڑی تعداد نے سٹیڈیمز کا رخ کر کے دنیا بھر کو یہ واضح پیغام دیا کہ وہ کرکٹ کے دلدادہ ہیں اور غیر ملکی ٹیموں کو اپنی ملکی سرزمین پر ایکشن میں دیکھنا چاہتے ہیں۔
پی سی بی کا سری لنکا کو پاکستان میں لانے سے بھی بڑا کارنامہ پاکستان سپر لیگ کے پانچویں ایڈیشن کے تمام میچز پاکستان کے چار شہروں لاہور، کراچی، راولپنڈی اور ملتان میں کروانے کا اعلان کرنا ہے، منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے پلیئرز کی ڈرافٹنگ کے بعد لیگ کے شیڈول کا اعلان بھی کرنا ہے ، اس لیگ کے دوران انگلینڈ، جنوبی افریقہ، ویسٹ انڈیز سمیت دنیا کے متعدد ملکوں کے کھلاڑی پاکستان میں کھیلنے کے لئے تیار ہیں، میڈیا پر ہر روز کسی نہ کسی ملکی پلیئر کی وڈیو منظر عام پر آتی ہے، ظاہری بات ہے کہ کرکٹ شائقین کی طرح مجھے بھی پاکستان کے بارے میں غیر ملکی پلیئرز کے مثبت بیانات سن کر خوشی ہوتی ہے۔
اب حال ہی میں ٹوئنٹی20کرکٹ کی دنیا کے بے تاج بادشاہ ویسٹ انڈیز کے کرس گیل کا بیان بھی سامنے آیا ہے جس میں ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اب دنیا کے محفوظ ترین ملکوں میں سے ایک ہے، اگر پاکستان یہ کہہ رہا ہے کہ بنگلادیش کو صدر مملکت کے برابر سکیورٹی فراہم کی جائے گی تو بنگال ٹائیگرز کو پاکستان میں کھیلنے کے لئے ضرور جانا چاہیے، وہاب ریاض بھی بنگلادیش پریمیئر لیگ کھیل کر وطن واپس لوٹے ہیں، ان کا بھی کہنا ہے کہ ان کی بنگلادیشی پلیئرز سے بات ہوئی ہے، وہ پاکستان میں کھیلنے کے لئے تیار ہیں، اسی طرح احمد شہزاد نے بنگلادیش میں پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ بحالی کی کوششوں اور مہمان نوازی کا مقدمہ جس انداز میں پیش کیا ہے، ان کی یہ کوشش بھی قابل تعریف ہے۔
راقم کا ہمیشہ سے ہی یہ نکتہ نظر رہا ہے کہ بھارت نے شروع ہی سے ہمیں کبھی دل سے تسلیم ہی نہیں کیا، اس لئے وہ 1947 سے لے کر اب تک پاکستان کے خلاف پراپیگنڈا کرنے میں پیش پیش ہے، وہ یہ کبھی بھی نہیں چاہے گا کہ پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ مکمل طور پر بحال ہو،بھارت نے تو سری لنکا کو بھی پاکستان میں نہ آنے کے لئے پورا زور لگایا تھا لیکن پاکستان کرکٹ بورڈ کی بہترین حکمت عملی اور سفارتی کوششوں کے باعث آئی لینڈرز ٹوئنٹی 20کے بعد دو ٹیسٹ میچز کی سیریز بھی کھیلنے کے لئے پاکستان آئے۔
پاکستان کرکٹ بورڈ کے سابق چیئرمین ذکاء اشرف نے جذبہ خیرسگالی کے تحت 2011/12 میں پاکستانی ٹیم یکطرفہ دورہ پر بھارت بھجوانے پر آمادگی ظاہر کی تو راقم نے اس وقت بھی پی سی بی کی اس پالیسی کی سخت مخالفت کی تھی اور چیئرمین سے براہ راست اس خدشے کا اظہار کیا تھا کہ پی سی بی کے اس جذبہ خیرسگالی کا پاکستان کو فائدے کی بجائے الٹا نقصان ہی ہوگا اور بھارتی اس دورے کوبھی ہماری کمزوری ہی سمجھیں گے، اس وقت ذکاء اشرف کاخیال تھا کہ پی سی بی کے اس غیر مشروط ٹور کے دور رس نتائج مرتب ہوں گے اور مستقبل میں بھارت بھی پاکستان میں کھیلنے کے لئے ضرور آئے گا، بلو شرٹس نے 2015 سے 2023 تک دونوں ملکوں کی ٹیموں کے درمیان ہوم اینڈ اوے کی بنیاد پر شیڈول8 سیریز بھی نہیں کھیلا جس کی وجہ سے پی سی بی کو اربوں روپے کا نقصان اٹھانا پڑا۔
اس وقت تازہ ترین صورت حال یہ ہے کہ ٹی ٹوئنٹی اور ٹیسٹ سیریز کے لئے بنگلادیشی کرکٹ ٹیم کا دورہ غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہے، بنگلادیش ٹیسٹ میچز نہ کھیلنے جبکہ پاکستان پاکستان ہر صورت کھیلنے کے فیصلے پر قائم ہے، ذرائع کے مطابق بنگلادیش ٹیم کے تاحال دورہ کے انکار کی وجہ پاکستان میں سیکیورٹی صورتحال نہیں بلکہ بنگلادیش میں کچھ حلقے پاکستان کے دورے کے حق میں نہیں ہیں اور انہوں نے بورڈ اراکین پر دورے کی مخالفت کے لئے دباؤ ڈال رکھا ہے۔
پی سی بی کا موقف ہے کہ بنگلادیش کی دو ٹیمیں حال ہی میں پاکستان میں کھیل چکی ہیں، پاکستان اور سری لنکا کی سیریز بھی ہوچکی ہے تو پھر اب ایسی کیا وجہ ہے کہ بنگلادیش ٹیسٹ میچز نہیں کھیل سکتا؟ پاکستان کرکٹ بورڈ نے انکار کے بعد معاملہ آئی سی سی ڈسپیوٹ کمیٹی میں بھیجنے کی دھمکی بھی دے رکھی ہے، لیکن بنگلادیشی بورڈ اراکین اس پر بھی پریشان نہیں ہوئے اور اپنی ضدر پر اڑے ہوئے ہیں۔پی سی بی کا کہنا ہے کہ صدارتی لیول کی سکیورٹی کی یقین دہانی اور سری لنکا کرکٹ ٹیم کے کامیاب دورے کے بعد بنگلادیش کے پاس انکار کی کوئی وجہ نہیں ہے، پی سی بی نے ٹیسٹ سیریز جبکہ بنگلادیش نے پہلے ٹی ٹوئنٹی سیریز کھیلنے کا کہا ہے۔
اگر بنگال ٹائیگرز حقیقی معنوں میں پاکستان کا دورہ نہیں کرتے تواس سے نہ صرف پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ کی بحالی کی کوششوں کو شدید دھچکا لگے گا بلکہ اس کا نقصان پاکستان سپر لیگ کے پانچویں ایڈیشن کا بھی ہوگا، لیگ میں شریک غیر ملکی کھلاڑی بنگلادیشی ٹیم کے انکار کو جواز بنا کر پاکستان آنے سے انکار کر سکتے ہیں، اگر ہمیں ایسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو پی سی بی کے پاس دو آپشنز رہ جائیں گے، پہلی یہ کہ ماضی کی طرح وہ ایک بار پھر لیگ کے مقابلے نیوٹرل مقام پر کروائے، یا وہ اپنے موقف پر ڈٹا رہے اور پہلے سے کئے گئے اعلان کے مطابق لیگ کے مقابلے پاکستان میں ہی کروائے، دوسری آپشن کے استعمال کئے جانے کی صورت میں پی ایس ایل کے مقابلے پاکستان میں ہو تو جائیں گے لیکن رنگ پھیکا پڑسکتا ہے۔
بنگلادیش کی کرکٹ ٹیم پاکستان کا دورہ کرے گی یا نہیں، یہ ایسا سوال ہے جو ہر کرکٹ شائق کی زبان پر ہے۔
روٹین کی رپورٹنگ کے لئے جمعہ کو لاہور سٹی کرکٹ ایسوسی ایشن کے دفتر پہنچا تو وہاں پر ریجن عہدیداروں کے علاوہ شہر کی مختلف کلبوں کے عہدیدار بھی موجود تھے، موضوع وہی بنگلادیش کرکٹ ٹیم کا دورہ پاکستان تھا، کوئی اسے بنگلادیش کرکٹ بورڈ کی ہٹ دھرمی تو کوئی اسے بھارتی مخصوص لابی کی سازش قرار دے رہا تھا، کسی کا خیال تھا کہ مہمان ٹیم کو اب تک دورے کے لئے آمادہ نہ کرسکنا پاکستان کرکٹ بورڈ کے ذمہ داروں کی ناکامی ہے۔
اکثریت اس بات پر متفق تھی کہ پلیئرز کو یہاں آ کر کھیلنے میں کوئی مسئلہ نہیں ہے، لیکن مسئلہ سارے کے سارا بنگلادیش کرکٹ بورڈ کا ہے کہ جن کی لگام کسی اور کے ہاتھ میں ہے، بورڈ عہدیدار بس یہ چاہتے ہیں کہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے، اس لئے وہ پاکستان کرکٹ بورڈ سے وقت پر وقت مانگ رہے ہیں، ہاں یا ناں کی اس جنگ میں بنگلادیش کرکٹ بورڈ کے حربے کار گر ہوں گے یا پی سی بی حکام بنگال ٹائیگرز کو پاکستان لانے میں کامیاب رہیں گے، اس کا فیصلہ تو چند روز تک ہو جائے گا لیکن یہ بات طے ہے کہ پاکستان کے سونے گراؤنڈز آباد کرنے میں جو کلیدی کردار سابق چیئرمین پی سی بی شہریار خان اور نجم سیٹھی نے ادا کیا، ان کوششوں کو دھچکا ضرور لگے گا۔
پی سی بی کے موجودہ سربراہ احسان مانی انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کے سابق صدر رہ چکے ہیں، ان کے ماضی کے کرکٹ کارناموں کو ہی دیکھتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان نے انہیں چیئرمین پی سی بی کی اہم ذمہ داری سونپی، گو احسان مانی ابھی تک شائقین کرکٹ کے اعتماد پر تو پورا نہیں اتر سکے لیکن اس حقیقت سے بھی کسی صورت میں بھی انکار ممکن نہیں کہ احسان مانی پاکستان کرکٹ بورڈ کے شاید واحد سربراہ ہیں جنہوں نے بی سی سی آئی کے دباؤ میں آنے کی بجائے ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کی ہے،ان کا شروع ہی سے موقف رہا ہے کہ اگر بھارت پاکستان میں آ کر کھیلنے کے لئے تیار نہیں تو ہمیں بھی بلو شرٹس کے ساتھ کھیلنے کی کوئی ضرورت نہیں۔
احسان مانی کی اس پالیسی کو دیکھتے ہوئے شاید بی سی سی آئی حکام کھلم کھلا پاکستان کے خلاف کرکٹ دشمنی پر اتر آئے ہیں اوروہ پاکستانی کرکٹ کو نقصان پہنچانے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دے رہے۔ چیئرمین پی سی بی کا ایک اور کارنامہ سری لنکن کرکٹ بورڈ کو ٹوئنٹی20 کے بعد 2 ٹیسٹ میچوں کی سیریز کے لئے پاکستان آنے کے لئے آمادہ کرنا تھا۔ آئی لینڈرز کے خلاف ٹیسٹ سیریز کی وجہ سے پاکستان ٹیم کے کپتان اظہر علی سمیت تمام پلیئرز اپنی ملکی سرزمین پر پہلی بار ایکشن میں دکھائی دیئے۔ راولپنڈی اور کراچی میں شیڈول ان ٹیسٹ میچوں کے دوران شائقین کی بھی بڑی تعداد نے سٹیڈیمز کا رخ کر کے دنیا بھر کو یہ واضح پیغام دیا کہ وہ کرکٹ کے دلدادہ ہیں اور غیر ملکی ٹیموں کو اپنی ملکی سرزمین پر ایکشن میں دیکھنا چاہتے ہیں۔
پی سی بی کا سری لنکا کو پاکستان میں لانے سے بھی بڑا کارنامہ پاکستان سپر لیگ کے پانچویں ایڈیشن کے تمام میچز پاکستان کے چار شہروں لاہور، کراچی، راولپنڈی اور ملتان میں کروانے کا اعلان کرنا ہے، منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے پلیئرز کی ڈرافٹنگ کے بعد لیگ کے شیڈول کا اعلان بھی کرنا ہے ، اس لیگ کے دوران انگلینڈ، جنوبی افریقہ، ویسٹ انڈیز سمیت دنیا کے متعدد ملکوں کے کھلاڑی پاکستان میں کھیلنے کے لئے تیار ہیں، میڈیا پر ہر روز کسی نہ کسی ملکی پلیئر کی وڈیو منظر عام پر آتی ہے، ظاہری بات ہے کہ کرکٹ شائقین کی طرح مجھے بھی پاکستان کے بارے میں غیر ملکی پلیئرز کے مثبت بیانات سن کر خوشی ہوتی ہے۔
اب حال ہی میں ٹوئنٹی20کرکٹ کی دنیا کے بے تاج بادشاہ ویسٹ انڈیز کے کرس گیل کا بیان بھی سامنے آیا ہے جس میں ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اب دنیا کے محفوظ ترین ملکوں میں سے ایک ہے، اگر پاکستان یہ کہہ رہا ہے کہ بنگلادیش کو صدر مملکت کے برابر سکیورٹی فراہم کی جائے گی تو بنگال ٹائیگرز کو پاکستان میں کھیلنے کے لئے ضرور جانا چاہیے، وہاب ریاض بھی بنگلادیش پریمیئر لیگ کھیل کر وطن واپس لوٹے ہیں، ان کا بھی کہنا ہے کہ ان کی بنگلادیشی پلیئرز سے بات ہوئی ہے، وہ پاکستان میں کھیلنے کے لئے تیار ہیں، اسی طرح احمد شہزاد نے بنگلادیش میں پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ بحالی کی کوششوں اور مہمان نوازی کا مقدمہ جس انداز میں پیش کیا ہے، ان کی یہ کوشش بھی قابل تعریف ہے۔
راقم کا ہمیشہ سے ہی یہ نکتہ نظر رہا ہے کہ بھارت نے شروع ہی سے ہمیں کبھی دل سے تسلیم ہی نہیں کیا، اس لئے وہ 1947 سے لے کر اب تک پاکستان کے خلاف پراپیگنڈا کرنے میں پیش پیش ہے، وہ یہ کبھی بھی نہیں چاہے گا کہ پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ مکمل طور پر بحال ہو،بھارت نے تو سری لنکا کو بھی پاکستان میں نہ آنے کے لئے پورا زور لگایا تھا لیکن پاکستان کرکٹ بورڈ کی بہترین حکمت عملی اور سفارتی کوششوں کے باعث آئی لینڈرز ٹوئنٹی 20کے بعد دو ٹیسٹ میچز کی سیریز بھی کھیلنے کے لئے پاکستان آئے۔
پاکستان کرکٹ بورڈ کے سابق چیئرمین ذکاء اشرف نے جذبہ خیرسگالی کے تحت 2011/12 میں پاکستانی ٹیم یکطرفہ دورہ پر بھارت بھجوانے پر آمادگی ظاہر کی تو راقم نے اس وقت بھی پی سی بی کی اس پالیسی کی سخت مخالفت کی تھی اور چیئرمین سے براہ راست اس خدشے کا اظہار کیا تھا کہ پی سی بی کے اس جذبہ خیرسگالی کا پاکستان کو فائدے کی بجائے الٹا نقصان ہی ہوگا اور بھارتی اس دورے کوبھی ہماری کمزوری ہی سمجھیں گے، اس وقت ذکاء اشرف کاخیال تھا کہ پی سی بی کے اس غیر مشروط ٹور کے دور رس نتائج مرتب ہوں گے اور مستقبل میں بھارت بھی پاکستان میں کھیلنے کے لئے ضرور آئے گا، بلو شرٹس نے 2015 سے 2023 تک دونوں ملکوں کی ٹیموں کے درمیان ہوم اینڈ اوے کی بنیاد پر شیڈول8 سیریز بھی نہیں کھیلا جس کی وجہ سے پی سی بی کو اربوں روپے کا نقصان اٹھانا پڑا۔
اس وقت تازہ ترین صورت حال یہ ہے کہ ٹی ٹوئنٹی اور ٹیسٹ سیریز کے لئے بنگلادیشی کرکٹ ٹیم کا دورہ غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہے، بنگلادیش ٹیسٹ میچز نہ کھیلنے جبکہ پاکستان پاکستان ہر صورت کھیلنے کے فیصلے پر قائم ہے، ذرائع کے مطابق بنگلادیش ٹیم کے تاحال دورہ کے انکار کی وجہ پاکستان میں سیکیورٹی صورتحال نہیں بلکہ بنگلادیش میں کچھ حلقے پاکستان کے دورے کے حق میں نہیں ہیں اور انہوں نے بورڈ اراکین پر دورے کی مخالفت کے لئے دباؤ ڈال رکھا ہے۔
پی سی بی کا موقف ہے کہ بنگلادیش کی دو ٹیمیں حال ہی میں پاکستان میں کھیل چکی ہیں، پاکستان اور سری لنکا کی سیریز بھی ہوچکی ہے تو پھر اب ایسی کیا وجہ ہے کہ بنگلادیش ٹیسٹ میچز نہیں کھیل سکتا؟ پاکستان کرکٹ بورڈ نے انکار کے بعد معاملہ آئی سی سی ڈسپیوٹ کمیٹی میں بھیجنے کی دھمکی بھی دے رکھی ہے، لیکن بنگلادیشی بورڈ اراکین اس پر بھی پریشان نہیں ہوئے اور اپنی ضدر پر اڑے ہوئے ہیں۔پی سی بی کا کہنا ہے کہ صدارتی لیول کی سکیورٹی کی یقین دہانی اور سری لنکا کرکٹ ٹیم کے کامیاب دورے کے بعد بنگلادیش کے پاس انکار کی کوئی وجہ نہیں ہے، پی سی بی نے ٹیسٹ سیریز جبکہ بنگلادیش نے پہلے ٹی ٹوئنٹی سیریز کھیلنے کا کہا ہے۔
اگر بنگال ٹائیگرز حقیقی معنوں میں پاکستان کا دورہ نہیں کرتے تواس سے نہ صرف پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ کی بحالی کی کوششوں کو شدید دھچکا لگے گا بلکہ اس کا نقصان پاکستان سپر لیگ کے پانچویں ایڈیشن کا بھی ہوگا، لیگ میں شریک غیر ملکی کھلاڑی بنگلادیشی ٹیم کے انکار کو جواز بنا کر پاکستان آنے سے انکار کر سکتے ہیں، اگر ہمیں ایسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو پی سی بی کے پاس دو آپشنز رہ جائیں گے، پہلی یہ کہ ماضی کی طرح وہ ایک بار پھر لیگ کے مقابلے نیوٹرل مقام پر کروائے، یا وہ اپنے موقف پر ڈٹا رہے اور پہلے سے کئے گئے اعلان کے مطابق لیگ کے مقابلے پاکستان میں ہی کروائے، دوسری آپشن کے استعمال کئے جانے کی صورت میں پی ایس ایل کے مقابلے پاکستان میں ہو تو جائیں گے لیکن رنگ پھیکا پڑسکتا ہے۔