شہر میں بد امنی کے باعث چائے کے ہوٹل بند ہونے لگے

شہر کے 80 فیصد ہوٹلز بلوچستان سے تعلق رکھنے والے پشتون چلارہے ہیں۔


عامر خان November 10, 2013
شہربھر میں 80 فیصد ہوٹل بلوچستان سے تعلق رکھنے والے پشتون چلاتے ہیں،اپنا کراچی ہوٹل کے مالک وزیر خان کی گفتگو ۔ فوٹو : ایکسپریس

لاہور: کراچی میں چائے کے ریسٹورانٹ،کیفے اور ہوٹلوں کی تاریخ بھی بدلتے ہوئے حالات کے باعث عروج و زوال کا شکار رہی ہے۔

ایک دور تھا کہ جب کراچی کے قدیم علاقوں میں چائے کے مشہورہوٹل ہوا کرتے تھے، یہ ہوٹل سیاسی،ادبی سرگرمیوں کے علاوہ علم وتہذیب کاگہوارہ تھے، ان ہوٹلوں پر تمام مکاتب فکر کے لوگ جمع ہو کر راتوں کو بیٹھک لگایا کرتے تھے ،ان افراد میں سیاست دان ، صحافی ، فنکار ، ادیب وشاعر اور زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے نامور لوگ شامل تھے ،یہ نامور افراد ان ہوٹلوں پر بیٹھ کرآزادانہ سیاسی اور ادبی موضوعات پر گفتگو کیا کرتے تھے لیکن نہ جانے روشنیوں کے اس شہر کو کس کی نظر لگ گئی اور بدامنی کے واقعات میں اضافے سے جہاں زندگی کے تمام شعبے متاثر ہوئے وہاں اس کاروبار پر بھی منفی اثرات مرتب ہوئے اور رفتہ رفتہ رات کے اوقات میں ان ہوٹلوں کی رونق ختم ہوتی گئی ۔

اب حالت یہ ہے کہ رات کے 11 بجتے ہی بیشتر علاقوں میں چائے کے ہوٹل بند ہو جاتے ہیں اور شہری خوف کے باعث گھروں کو چلے جاتے ہیں ،کراچی میں 2000ء سے قبل چائے کے 3800سے زائدریسٹورانٹس، کیفے اور ہوٹل ہوا کرتے تھے ، ان میں سے کئی ہوٹل امن وامان کی خراب صورت حال اور دیگر وجوہات پر بند ہوگئے اور اب ان ہوٹلوں کی تعداد گھٹ کر 2500 رہ گئی ہے،ایکسپریس نے چائے کے ہوٹلوں کے حوالے سے تفصیلی سروے کیا ،اس حوالے سے لیاقت آباد میں قائم اپنا کراچی ہوٹل کے مالک وزیر خان نے بتایا کہ میرا آبائی تعلق بلوچستان کے ضلع پشین سے ہے اور میں کراچی میں 30 برس سے مقیم ہوں،تقریباً شہر کے 70 فیصد علاقوں میں واقع چائے کے ہوٹلوں پر میں نے مختلف کام کیے ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ کراچی میں 1980ء سے قبل اور اس کے بعد امن وامان کی صورت حال 1990ء تک بہتر رہی اور پھر حالات تبدیل ہوتے گئے،کبھی کراچی کے حالات اچھے رہے اور کبھی بدامنی کے سائے اس شہر پر مسلط رہے،شہرکی رونقوں نے مجھے واپس جانے پر مجبور نہیں کیا اور میں دل جمعی سے اپنا کام کرتا رہا،انھوں نے بتایا کہ کراچی میں چائے کے ہوٹلوں کی تاریخ تو بہت پرانی ہے تاہم قیام پاکستان سے 1999 ء تک شہر میں ایرانی اور ملباری کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے لوگ چائے کے ہوٹل چلایا کرتے تھے لیکن وقت نے کروٹ بدلی اور پھر ان ہوٹلوں کی تعداد محدود ہوتی گئی اور پھر ایرانی اور ملباری کمیونٹی کی جگہ بلوچستان کے مختلف اضلاع سے تعلق رکھنے والی پٹھان کمیونٹی نے لے لی ۔

پہلے انھوں نے کیماڑی سے 1997ء میں اپنے کاروبار کا آغاز کیا اور رفتہ رفتہ یہ ہوٹلز شہرکے مختلف علاقوں میں پھیلتے گئے اب شہر کے 80 فیصد ہوٹلز بلوچستان سے تعلق رکھنے والی پٹھان کمیونٹی کے افراد چلارہے ہیں اور ان کی چائے کا ذائقہ منفرد ہونے کے باعث ان پر لوگوں کا رش لگا رہتا ہے،انھوں نے بتایا کہ 2000ء سے 2007ء تک چائے کے ہوٹلوں کا کاروبار منافع بخش رہا تاہم بدامنی اور مہنگائی کے سبب ان ہوٹلوں کی رونق ماند پڑتی جارہی ہے اور اب تو یہ وقت آگیا ہے کہ شہر کے 60 فیصد سے زائد چائے کے ہوٹلز رات کو جلدی بند ہو جاتے ہیں ، انھوںنے بتایا کہ رات کے اوقات میں ہوٹلوں پر رش ہونے کی وجہ سے چائے زیادہ فروخت ہوتی تھی اب صورت حال بدلنے کے باعث کاروبار کی شرح گھٹ کر 40 فیصد تک محدود رہ گئی ہے۔



ایک چائے کے ہوٹل پر سب سے اہم کاریگر چائے بنانے والا ہوتا ہے ، جو اگر ذائقہ دار چائے بناتا ہے تو ہوٹل کا کاروبار اچھا چلتا ہے اور لوگ بھی زیادہ آتے ہیں ، ایک ہوٹل پر چائے بنانے کیلیے سب سے اہم برتن '' ساسوان '' ہوتا ہے ، جس میں چائے بنائی جاتی ہے ، یہ ساسوان پہلے 200روپے کا آیا کرتا تھا اب اس کی قیمت بڑھ کر 700 روپے تک پہنچ گئی ہے ، ساسوان میں بیک وقت 6 سے 10 چائے بنائی جا سکتی ہیں ، انھوں نے بتایا کہ دوسرا اہم برتن '' سما وار '' ہے ، یہ اسٹیل کی ٹنکی ہوتی ہے جس میں چائے کا پانی گرم کیا جاتا ہے جبکہ دودھ کو گرم رکھنے کے لیے اسٹیل کی بڑی دیگچی استعمال ہوتی ہے۔

سما وار کی قیمت بڑھ کر اب 12ہزار سے 16 ہزار روپے ہو گئی ہے جبکہ چائے کے کپ ، پیالوں اور چینکوں کی قیمتوں میں بھی ہوشربا اضافہ ہوا ہے ، کپ کی قیمت 20 روپے سے بڑھ کر 35 روپے ، پیالے کی قیمت 25 سے بڑھ کر 40 روپے ہوگئی ہے جبکہ چینک کی مختلف اقسام کی قیمتوں میں بھی 50 سے 70 روپے تک کا اضافہ ہوا ہے اور ایک چائے والی چینک اب 70 روپے اور 6 چائے والی چینک اب 500روپے تک ملتی ہے ، انھوں نے بتایا کہ ہوٹل پر کام کا آغاز صبح 5 بجے کیا جاتا ہے ، پہلے ہوٹل کی صفائی کی جاتی ہے پھر ٹیبل اور کرسیاں لگائی جاتی ہیں ، چائے کا پانی اور دودھ گرم کیا جاتا ہے جبکہ پراٹھوں کے لیے آٹا گوندھا جاتا ہے اور پھر ہمارے پہلے گاہک بزرگ افراد اور روز انہ کی اجرت پر کام کرنے والے مزدور ہو تے ہیں۔

بزرگ تو نماز کی ادائیگی کے بعد چائے پیتے ہیں جبکہ مزدور جو ملک کے مختلف شہروں سے روزی کمانے کراچی آتے ہیں وہ ناشتہ کرتے ہیں ، انھوں نے بتایا کہ دن بھر ہوٹل پر رش رہتا ہے تاہم وہ ہوٹل زیادہ کامیاب ہوتا ہے، جس کے قریب دفاتر، مارکیٹیں یا فیکٹریاں ہوتی ہیں ، انھوں نے بتایا کہ ایک ہوٹل پر روزانہ 19 گھنٹے کام کیا جاتا ہے اور دو شفٹوں میں ہوٹل پر کام کیا جاتا ہے ، اب حالات خراب ہونے کے باعث چا ئے کے ہوٹلوں کی رونق ختم ہو گئی ہے بس گزارہ کررہے ہیں، اس امید پر ہیں کہ کراچی کے حالات بہتر ہو جائیں گے اور رات کو ہوٹلوں کی رونق بحال ہو جائے گی، انھوں نے بتایا کہ پہلے تو ایک ہوٹل کا مالک ماہانہ 30سے 40ہزار روپے کی بچت کرلیتا تھا لیکن اب تمام اخراجات نکال کر بچت 15 سے 20ہزار روپے تک رہ گئی ہے، انھوں نے بتایا کہ کراچی میں 2000ء سے قبل چائے کے 3800 سے زائد ہوٹلز ہوا کرتے تھے ، ان میں سے کئی ہوٹلز امن وامان کی خراب صورت حال سمیت کئی وجوہات کی بنا پر بند ہوگئے اور اب ان ہوٹلزکی تعداد گھٹ کر 2500 رہ گئی ہے ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں