صدر کی جانب سے بلدیاتی انتخابات کرانے کا عندیہ

ترقیاتی کام کرانا محلوں کی سطح پر منتخب ہونے والے بلدیاتی نمایندوں کی ذمے داری ہے

صدر نے ہدایت کی ہے کہ سندھ میں نئے بلدیاتی نظام کے بل کا مسودہ تیار کر کے دو ماہ میں اسمبلی سے منظور کرایا جائے . فوٹو: اے پی پی

صدر آصف زرداری نے کراچی میں صدارتی کیمپ آفس بلاول ہائوس میں پیپلز پارٹی سندھ کی کور کمیٹی کے اجلاس اور دیگر رہنمائوں سے ملاقات کے دوران گفتگو کرتے ہوئے کئی ایشوز پر صورتحال واضح کی جب کہ متعدد معاملات پر حکومتی لائحہ عمل پیش کیا۔

اجلاس میں وزیر اعلیٰ سندھ قائم علی شاہ، وفاقی وزیر قانون فاروق نائیک، صوبائی وزراء سراج درانی، پیر مظہرالحق، مراد علی شاہ، ایاز سومرو، قادر پٹیل اور دیگر نے شرکت کی۔ سربراہ مملکت کی جانب سے یہ واضح کیا جانا کہ عام انتخابات مقررہ وقت پر ہوں گے اس امر کا ثبوت ہے کہ وہ نہ صرف موجودہ حکومتی سیٹ اپ کے اپنی آئینی میعاد پوری کرنے کے حوالے سے یقین کی حد تک پُرامید ہیں بلکہ اپنے اس وعدے پر بھی قائم ہیں کہ آیندہ عام انتخابات موجودہ اسمبلیوں کے اپنی مدت پوری ہونے پر کرا دیے جائیں گے' دوسرے لفظوں میں انھوں نے یہ واضح کیا ہے کہ برسراقتدار پارٹی کا حکومت کی میعاد بڑھانے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔

اس سے بھی زیادہ خوش آیند خبر صدر کا یہ کہنا ہے کہ عام انتخابات سے قبل بلدیاتی الیکشن کرائے جائیں گے۔ بلدیاتی انتخابات کا معاملہ فروری 2008 کے انتخابات کے نتیجے میں وجود میں آنے والے وفاقی اور صوبائی سیٹ اپ کے ابتدائی دنوں سے ہی متنازعہ بنا دیا گیا تھا۔ اس حوالے سے بعض صوبائی حکومتوں کی جانب سے یہ بہانہ گھڑا گیا کہ چونکہ مقامی حکومتوں کا نظام ایک آمر یعنی پرویز مشرف کے دور میں وضع کیا گیا تھا اس لیے اس پر عمل نہیں کیا جا سکتا۔ یہ بہانہ تراشتے ہوئے یہ تجزیہ کرنے کی زحمت تک گوارا نہیں کی گئی کہ اس میں کیا خرابی ہے اور آیا یہ خرابی دور کر کے اس نظام کو نافذ کرنا مناسب رہے گا یا نہیں۔

یہی وجہ ہے کہ گزشتہ بلدیاتی انتخابات نہیں کرائے جا سکے۔ ملک کے سیاسی ایشوز پر گہری نظر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ صوبائی حکومتوں کی جانب سے گزشتہ بلدیاتی انتخابات نہ کرانے میں مقامی حکومتوں کے پرویز مشرف کے وضع کردہ نظام کی خرابی کا کوئی عمل دخل نہ تھا بلکہ صوبائی عوامی نمایندوں کی یہ سوچ کارفرما تھی کہ اگر یہ انتخابات ہو گئے تو ترقیاتی فنڈز ان کے بجائے بلدیاتی نمایندوں کے ہاتھوں میں چلے جائیں کیونکہ آئینی پیرامیٹرز کے تحت قومی و صوبائی اسمبلیوں کے نمایندوں کا کام قانون سازی ہے جب کہ ترقیاتی کام کرانا محلوں کی سطح پر منتخب ہونے والے بلدیاتی نمایندوں کی ذمے داری ہے چنانچہ اگر بلدیاتی انتخابات ہو جاتے تو ضیاء دور سے قائم صوبائی عوامی نمایندوں کی یہ چودھراہٹ ختم ہو جانا تھی۔

اس تناظر میں دیکھا جائے تو سربراہ مملکت کی جانب سے اگلے برس عام انتخابات سے قبل بلدیاتی انتخابات کرانے کا اعلان اس امر کے ثبوت کے طور پر لیا جا سکتا ہے کہ وہ اس روش کو تبدیل کرنے اور بلدیاتی نظام بحال کرنے کی شدید خواہش رکھتے ہیں۔ اگرچہ ان کی جانب سے یہ فیصلہ نہایت تاخیر کے ساتھ اس وقت کیا گیا ہے جب ان کی پارٹی کی حکومت کی آئینی میعاد اب محض چند ماہ رہ گئی ہے' پھر بھی وہ اگر اپنے اس اعلان کو عملی شکل دے لیں تو 'دیر آید درست آید' کے مصداق اسے ایک خوش آیند پیش رفت قرار دیا جائے گا کہ ممکن ہے اسی طرح ملک میں بلدیاتی انتخابات کرانے کی رسم چل نکلے۔


اس سلسلے میں ایک بڑی رکاوٹ سندھ میں بلدیاتی انتخابات کرانے کا معاملہ ہے کیونکہ وہاں پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے مابین اس حوالے سے اختلافات ہیں تاہم اب ان اختلافات کے دور ہونے کی امید پیدا ہوئی ہے کیونکہ صدر نے ہدایت کی ہے کہ سندھ میں نئے بلدیاتی نظام کے بل کا مسودہ تیار کر کے دو ماہ میں اسمبلی سے منظور کرایا جائے اس ضمن میں اتحادیوں سے مشاورت کی جائے۔ صدر نے وزیر اعلیٰ سندھ کو ہدایت کی کہ صوبے میں نئے بلدیاتی نظام پر مشاورت کا سلسلہ تیز کیا جائے اور اگر ضرورت ہو تو نئے بلدیاتی نظام کو آرڈیننس کے ذریعے نافذ کر دیا جائے۔

انھوں نے یہ ہدایت بھی کی کہ صوبے میں جاری تمام ترقیاتی منصوبوں کو ستمبر تک ہر صورت میں مکمل کیا جائے۔ صدر کی جانب سے کراچی میں ٹارگٹ کلنگ کا شکار پی پی کارکنوں کے لواحقین کو پانچ پانچ لاکھ روپے ادا کرنے کی ہدایت مناسب ہے کہ اس سے غم کے مارے ان خاندانوں کی کسی قدر دلجوئی ہو سکے گی تاہم مناسب یہی ہے کہ حکومت دل بڑا کرے اور اس سہولت کو محض ٹارگٹ کلنگ کے شکار پی پی کارکنوں کے لواحقین تک محدود نہ رکھا جائے بلکہ ان سبھی افراد کے لواحقین کو اتنی رقوم فراہم کی جانی چاہیے جن کے بے گناہ عزیز اندھی گولیوں کا نشانہ بن گئے کیونکہ حکمران جماعت پر صرف اس کے کارکنوں کا ہی حق نہیں ہوتا بلکہ سبھی طبقات اور گروہ اور افراد کی اشک شوئی حکومت پر لازم آتی ہے کیونکہ سبھی حکومت کی رعایا ہیں۔

اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ کراچی اور ملک کے دیگر علاقوں میں ٹارگٹ کلنگ ختم کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات عمل میں لائے جائیں۔ صدر مملکت اس ضرورت سے پوری طرح آگاہ ہیں اسی لیے انھوں نے کہا ہے کہ کراچی میں امن کے لیے اقدامات کیے جائیں اور بدامنی پھیلانے والے عناصر کے خلاف بھرپور کارروائی عمل میں لائی جائے' کراچی میں مستقل قیام امن کے لیے جامع پالیسی تشکیل دی جائے۔ صدر زرداری کا یہ کہنا نہایت خوش آیند ہے کہ حکومت نے بڑی کامیابی سے چار سال مکمل کر لیے ہیں اور آخری سال میں عوام سے کیے وعدے پورے کیے جائیں گے۔

ایسا ہونا بھی چاہیے کیونکہ یہی وقت کا اہم ترین تقاضا ہے، صدر کا یہ کہنا درست ہے کہ انتخابات میں وہی جماعت کامیاب ہو گی جس نے عوام کی خدمت کی ہو گی اور یہ کہ عوام کے مسائل حل کرنا ان کی اولین ترجیح ہے اس لیے ضروری ہے کہ حکومت اب عوام کے مسائل حل کرنے پر توجہ دے اور بجلی کا بحران' جو پاور کمپنیوں کو تیل کی عدم فراہمی کی وجہ سے ایک بار پھر بڑھ گیا ہے' حل کرے کیونکہ اس بحران کے حل ہونے سے ہی معیشت کی بحالی کی امید پوری ہو سکتی ہے۔

توقع کی جاتی ہے کہ سربراہ مملکت نے جن خیالات کا اظہار کیا ہے وہ ان کو عملی شکل دیے جانے کی صورتحال پر نظر رکھیں گے تاکہ ان کی جانب سے ملک میں نچلی سطح تک جمہوریت قائم کرنے کی جس خواہش کا اظہار کیا گیا وہ پوری ہو سکے۔

Recommended Stories

Load Next Story