یکطرفہ ٹکٹ

ایک دم دماغ میں ایک بجلی سی کوندی۔ بڑھیا کی آواز آنے لگی

raomanzar@hotmail.com

تمہاری چٹھی بن چکی ہے۔ بس کچھ دن میں دستخط ہو جائیںگے۔ جاؤ سفرکی تیاری شروع کرو۔ یہ الفاظ ایک بوڑھی خاتون کے ہیں جو شادمان چوک پرکھڑی لوگوں کی گاڑیوں کے شیشے کھٹکھٹا کر پیسے مانگ رہی تھی۔ وہ میری گاڑی کے پاس آئی اور چار ایسے جملے کہے جو میرے اوپر سے گزر گئے۔ میں نے جیب سے دس روپے نکالے اور اس کے ہاتھ پر رکھ دیے۔ وہ ضعیف عورت غصے سے بولی میں گداگر نہیں ہوں۔ فقیر تو تو ہے۔ میں تو صرف تیری مددکرنے آئی تھی۔ پتہ نہیں کیا ہوا۔ گاڑی ایک طرف کھڑی کی۔ باہر نکل کر عورت سے معافی مانگنے کی کوشش کی تو وہ نظر ہی نہیں آئی۔ پتہ نہیں کہاں گم ہوگئی۔ ایسے لگا کہ ہجوم کا ہجوم مجھے کہہ رہا ہے کہ تمہاری چٹھی بن چکی ہے۔ بس دستخط ہونے کا انتظار ہے۔

عجیب سی کیفیت میں گھر کی طرف چل پڑا۔ ذہن میں بوڑھی عورت کے کہے ہوئے لفظ گونج رہے تھے۔ مگر میں نے تو کسی بھی جگہ، کسی بھی دفتر میں کوئی درخواست نہیں دی۔ ریٹائرمنٹ کے بعدکئی دوستوں نے مختلف جگہ پر سرکاری ملازمت کے لیے کہا۔ مگر چونتیس برس مسلسل سرکاری غلامی کر کر کے روح پر زخم ہی زخم ہیں۔ سوچتا ہوں تو ناقابل بیان تکلیف ہوتی ہے۔ پھر اپنے والدکی پنتیس برس پہلے کی نصیحت یاد آتی ہے۔ جج صاحب نے میرا کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج کا اچھا نتیجہ دیکھ کر کہا تھا کہ بیٹا اعلیٰ تعلیم امریکا سے حاصل کرو اور واپس آکر مریضوں کے لیے زندگی وقف کردو۔

اس میں عزت بھی ہے اور وسیع روزگار بھی۔ مگر ہر نافرمان بیٹے کی طرح میں نے جج صاحب کی نصیحت کو نظرانداز کر کے سی ایس ایس کر لیا۔ ڈی ایم جی میں آگیا۔ پھر سرکاری ڈھب سے زندگی گزرنا شروع ہوگئی۔ ویسے ایک دن کے لیے بھی سرکار کی اعلیٰ ترین نوکری کو ''آج کل کے ڈھنگ'' سے نہیں گزارا۔ اپنی فکری جدوجہد کی بدولت معتوب قرار دیا گیا اور شائد آج بھی ہوں۔ ویسے عرض کرونگا کہ کسی بھی ذہین آدمی کا سی ایس ایس کرنا زندگی کو برباد کرنے کے برابر ہے۔ مگر یہ بات مکمل بربادی کے بعد سمجھ آتی ہے بلکہ کئی لوگوں کو تو بالکل سمجھ نہیں آتی۔ میرا دھیان دوبارہ اس بڑھیا کی طرف چلا گیا۔ ذہن میں آیا، شائد پاگل عورت ہو۔

بہرحال ملی جلی کیفیت میں گھر آیا۔ دو تین دن گزر گئے۔ خط والی بات ذہن سے نکل گئی۔ تین دن بعد، میری اہلیہ سارہ نے کہا کہ آپ سے پوچھے بغیر ٹکٹیں بُک کروا دی ہیں۔ ہم اگلے ماہ عمرہ پر جا رہے ہیں۔ عمرہ پر جا رہے ہیں؟ مگر میں نے تو کبھی بھی عمرہ کا نہیں کہا۔ نہ ہی میں نے بات کی ہے ۔ اہلیہ نے کہا کہ آپ کا پاسپورٹ تو میرے پاس تھا۔ ٹریول ایجنٹ سے بات کی اور جہاز کی نشستیں مختص کرا لیں۔ میرے پوچھے بغیر! میرا جواب بیوی نے سنا اَن سنا کر دیا۔ ویسے شادی کے تیس سال بعد نہ کوئی سوال ہی رہتا ہے اور نہ ہی کوئی جواب۔ انسان حد درجہ تبدیل ہو جاتا ہے۔ ویسے میں نے اب کسی سے بھی کوئی بھی سوال کرنا چھوڑ دیا ہے۔

اس لیے کہ نہ سوال ہی اہم ہوتا ہے اور نہ جواب کی کسی قسم کی کوئی اہمیت۔ وقعت صرف وقت اورحالات کی ہوتی ہے۔ ان میں سے اکثریت ہمارے بس سے باہر ہیں۔ کسی وقت قدرت، آپ کو کس موڑ پر کسی ناخوشگوار حادثہ سے دوچار کر دے، کم ازکم انسان کو تو اس کا بالکل علم نہیں ہوتا۔ ویسے ہو بھی جائے تو وہ کچھ نہیں کر سکتا۔ مشیتِ الٰہی کے سامنے سر جھکانا پڑتا ہے۔ مشیتِ الٰہی کو سمجھنا ناممکنات میں سے ہے۔ زندگی میں بہت سے حادثے دیکھے اور ہر رنج نے ایک نیا سبق سکھایا۔ دو چار ہفتے پہلے کا حادثہ تو خیر خدا کی طرف سے ایک جھٹکا تھا۔ پیغام تھا۔ جب میں لوگوں کو بتاتا ہوں تو وہ حیرت سے میرا مونہہ دیکھنا شروع کردیتے ہیں۔ بعد میں تفصیل عرض کروںگا۔ مگر دو تین ماہ میں میری شوگر نارمل ہو گئی اور بلڈپریشر ہر طریقے سے درست ہوگیا۔ بہرحال بات عمرے کی ہو رہی تھی۔


ایک دم دماغ میں ایک بجلی سی کوندی۔ بڑھیا کی آواز آنے لگی۔ تیری درخواست مکمل ہو چکی ہے۔ بس دستخط ہونے باقی ہیں۔ گہری سوچ میں چلا گیا۔ گھر کے نزدیک پارک میں اکیلا بیٹھ گیا۔ سوال تھا کہ یہ بوڑھی عورت کون تھی۔ اسے کیسے پتہ کہ میں عمرہ پر جا رہا ہوں۔ اس بات کا تو مجھے بھی علم نہیں تھا۔ بلکہ تصور بھی نہیں کیا تھا۔ سوچتے سوچتے شام ہوگئی۔ ایک مالی نزدیک سے گزرا۔ پنجابی میں کہنے لگا، کیا حال ہے۔ میرا جواب وہی ہے جو عام سا ہوتا ہے۔ بس ٹھیک ہے۔ ایسے لگا کہ مالی کو میرا جواب پسند نہیں آیا۔ وہ شائد جانتا تھا کہ میرے اندر کیا توڑپھوڑ ہو رہی ہے۔ مگر مالی کو کیسے پتہ کہ میں کسی ذہنی کشمکش میں ہوں۔

مالی کو آواز دی۔ ہم دونوں بینچ پر بیٹھ گئے۔ شائستگی سے پوچھا کہ آپ کبھی روضہ رسول ؐ اور حرم میں گئے ہیں۔ سوال سے ایسا ہوا کہ کسی نے بجلی کا بٹن دبا دیا ہو۔ ایسا بٹن جس سے عقیدت، احترام اور آنسوؤں کا فوارہ پھوٹ پڑا ہو۔ مالی نے زار و قطار رونا شروع کر دیا۔ میری کیا اوقات ہے کہ اس جگہ جا سکوں۔ مرنے سے پہلے شدید خواہش ہے کہ حرم پاک میں کعبہ کی دیواروں سے لپٹ لپٹ کر روؤں۔ مگر میرے ایسے نصیب کہاں۔ میرے پاس پیسے نہیں ہیں۔ میرے دل میں خیال آیا کہ میں اس شخص کو بتائے بغیر عمرہ یا حج پر ضرور بھجواؤنگا۔ میرے جی پی فنڈ میں اتنے پیسے ہیں کہ اسکو یہ سب کچھ کرا سکتا ہوں۔ شائد میری زندگی کی تکمیل بھی ہو جائے۔ مالی نے گریہ کے بعد عجیب سی بات کی۔ صاحب جی۔ میں نے وہاں سے واپس نہیں آنا۔ وہیں دم دے دینا ہے۔ میرا دماغ بھک سے اُڑ گیا۔ لگا کہ کسی نے مجھے آپریشن تھیٹرکی میز پر لٹا دیا ہو۔ میرے اوپر ہزاروں واٹ کے لاتعداد بلب روشن ہو گئے۔ ذہن میں تمام خواہشات، تمام کدورتیں، سب کچھ ایک دم باہر آگیا۔ مالی نے سو فیصد میرے ذہن کی بات کر دی۔ دراصل میں عمرے اور حج پر اس لیے نہیں جاتا کہ میرے پاس واپسی کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ ون وے ٹکٹ کا مسافر بننا چاہتا ہوں بلکہ ہوں۔ میری نظر میں مالی نے میرا ذہن پڑھ کر سب کچھ بتا دیا۔ مڑ کر دیکھا تو مالی پودوں کو پانی لگا رہا تھا۔

یہ اَمر حددرجہ اہم ہے۔ میں آج تک حج اور عمرہ پر نہیں جا سکا۔ بات مالی استطاعت کی نہیں ہے، مسئلہ صرف اور صرف ذہنی استطاعت کا ہے۔ مجھے شک ہے بلکہ یقین ہے کہ میں حد درجہ گنہگار انسان ہوں۔ میں کس طرح خدا کے حضور کھڑا ہوںگا۔ رسول کریمؐ کے سامنے کس طرح جاؤںگا۔ اگر خدا نے کوئی فرمان جاری کر دیا تو میرا کیا بنے گا۔ میں تو نافرمانی اور حددرجہ عقیدت کے درمیان پنڈولم بن چکا ہوں۔ ایک ایسی الماری میں تبدیل ہو چکا ہوں، جس کے چند خانوں میں عقیدت کا چورن پڑا ہوا ہے۔ دوسرے خانوں میں ایک عاشق رسولؐکی بند پوٹلی پڑی ہوئی ہے۔ ساتھ والے خانوں کو کھولیے توگناہوں کے بدبودارگٹھری پڑی ہے۔ ایک خانے میں سیکولر سوچ کا پاندان پڑا ہے۔ ساتھ والے خانے میں صوفیوں کی جماعت ہے۔ دوسرے خانے میں رند بلانوش مصروفِ شغل ہیں۔

الماری، اس طرح کی ہے کہ کسی کو بتانے کی جرات نہیں کر سکتا۔ مسئلہ یہی ہے کہ خوف میرے سامنے کھڑا ہو جاتا ہے۔ میں واپس کیسے آؤںگا۔ مدینے میں راکھ بن کر بکھرنا چاہتا ہوں۔ حرم پاک میں حتیم کے مقام پر سجدہ ریز ہونا چاہتا ہوں۔ میں شعوری اور غیرشعوری طور پر یکطرفہ ٹکٹ لینے والوں میں سے ہوں۔ جو جائیں اور پھر کبھی واپس نہ آئیں۔ سنا ہے حرم پاک اور روضہ رسولؐ کے باہر لوگ چپلیں اُتار دیتے ہیں۔ میں وہاں لوگوں کی چپلیں سیدھی کرنا چاہتا ہوں۔ باہر بیٹھ کر ان کبوتروں سے باتیں کرنا چاہتا ہوں جو وہاں کے مستقل مکین ہیں۔ چپلیں سیدھی کرنا میرے لیے دنیا کا سب سے بڑا اور معتبر کام ہے۔ وہاں کے کبوتروں کی دیکھ بھال اپنی زندگی کا مقصد نظر آتا ہے۔

یہ معاملہ کسی کو سمجھا نہیں پاتا۔ بتا نہیں سکتا۔ جب لوگ حج یا عمرہ سے واپس آتے ہیں تو انھیں مبارکباد دیکر تنہا سا ہو جاتا ہوں۔ یہ لوگ کتنے کم ہمت ہیں کہ واپس آگئے۔ میں تو واپسی کے نام سے بھی گھبراتا ہوں۔ یہی وہ رکاوٹ ہے جسے عبورکرنے کی جسارت نہیں کر پاتا۔ واپسی کیسے ہو گی۔ کوئی پتہ نہیں۔ شادمان چوک میں وہ بڑھیا پھرکبھی نظر نہیں آئی۔ یہ مالی بھی عجیب سا آدمی ہے۔ اب مجھ سے کوئی بات نہیں کرتا۔ ویسے کم ہی نظر آتا ہے۔ مجھ میں اس سے بات کرنے کی ہمت بھی نہیں ہے۔ اس خواہش جو اب خواب سی ہے۔ اس کی تعبیر کیا ہو گی۔ یہ قادرِ مطلق کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ ویسے نہ جاننا، جاننے سے بہت زیادہ اہم ہے۔ پتہ نہیں کیوں، اب تک یقین نہیں آرہا!
Load Next Story