پرابلم کیا ہے
سوال یہ ہے کہ علوم شرعیہ ان کا موضوع نہیں ہے، پھر اس پر بیان کیوں داغتے ہیں؟
ISLAMABAD:
اس بات میں کوئی دورائے نہیں کہ پاکستان کا معجزانہ قیام حضرت قائداعظم محمد علی جناح کی غیر معمولی قیادت، علماء کرام و مشائخ عظام، اساتذہ ، طلبا، مفکرین اور مسلمانان برصغیر کی قربانیوں کا نتیجہ تھا۔ پاکستان کی بقا، سالمیت، حفاظت و صیانت کی صرف ایک توجیہہ ممکن ہے اور وہ یہ کہ پاکستان اسلام کے عالمی غلبے کی خدائی تدبیر کے سلسلے کی اہم کڑی ہے۔ اِس تھیوری کے دو اہم ترین اجزاء ہیں، ایک یہ کہ بالآخر اسلام پوری دنیا پر غالب آ کر رہے گا اور پورے کرۂ ارض پر سبز انقلاب کی ہریالی دیکھی جائے گی، اس کا ڈنکا بجے گا اوردوسرا یہ کہ اسلام کے اس سبز انقلاب میں ایک اہم اور فیصلہ کن کردار پاکستان کو ہی ادا کرنا ہے اور یہ گویا پاکستان کی تقدیر ہے۔
یہ کوئی ہوائی بات نہیں ہے ، حقیقت پر مبنی ہے کیونکہ اِن میں سے اول الذکر جزو بالکل حقیقی، یقینی اور اٹل ہے، اِس لیے کہ وہ قرآنِ حکیم سے بھی دلالتہً ثابت ہے اور متعدد احادیث صحیحہ میں تو صراحتہً مذکور ہے اور اِس کے ضمن میں گمان اور قیاس کا معاملہ صرف اِس مسئلے تک محدود ہے کہ ایسا کب ہو گا؟ جہاں تک دوسرے جزو کا تعلق ہے تو وہ قیاس و گمان کا معاملہ ہے یا ذوق و وجدان کا لہٰذا ثانی الذکر جزو پر اختلاف کی گنجائش موجود ہے۔کوئی مانے یا نہ مانے، کسی پر کوئی زور نہیں لیکن حقیقت یہی ہے کہ اسلام کے عالمی غلبے کا نکتہ آغاز یہی سر زمین بنے گی۔
پاکستان کے قیام سے لے کر آج تک علماء و مشائخ اور دینی قوتوں کی جدوجہد کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اور ان کا یہ کردار مستقبل میں بھی رہے گا۔ جس دن سے دنیا کے نقشہ پر یہ مملکت خدا داد ابھر کر سامنے آئی ہے اس دن سے اس کے خلاف مختلف محاذوں پر حملے ہو رہے ہیں۔ سب سے زیادہ حملے وطن عزیز کے اسلامی تشخص پر کیے گئے اور کیے جا رہے ہیں۔ پاکستان کے متفقہ آئین میں یہ بات واضح طور پر درج ہے کہ اس ملک میں کوئی بھی قانون قرآن و سنت سے متصادم نہیں بنے گا اور جب یہ آئین بنایا گیا تھا۔
اس وقت اس میں یہ بات بھی اتفاق رائے سے شامل کی گئی تھی کہ اس سے پہلے جتنے بھی قوانین موجود ہیں انھیں اسلامی سانچے میں ڈھالا جائے گا یعنی انگریز کے بنائے ہوئے قوانین سے نجات حاصل کر کے ان کی جگہ نئے قوانین بنائے جائیں گے جو قرآن و سنت کے مطابق ہوں۔ یہ مینڈیٹ اسلامی نظریاتی کونسل کو سونپا گیا کہ وہ پہلے سے موجود قوانین کا بھی جائزہ لے اور نئی قانون سازی کے بارے میں بھی اپنی رائے دے، ہمیں یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ اسلامی نظریاتی کونسل ایڈوائزری باڈی ہے ، عمل درآمد کرانے والا ادارہ نہیں، اسی لیے اس کونسل کا کام صرف سفارش کرنا ہے۔ اتنے اہم آئینی ادارے کا سربراہ صاحب علم شخصیت کو چن کر لگایا جاتا ہے جس کا احترام مسلمانوں کے تمام مکاتب فکر میں موجود ہو۔ لمحہ موجود میں بھی ملک کی ممتاز علمی شخصیت ڈاکٹر قبلہ ایاز اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین کی حیثیت سے خدمات سرانجام دے رہے ہیں، انھوں نے 1975میں پشاور یونیورسٹی سے ایم اے اسلامیات کا امتحان پاس کیا اور اگلے ہی سال اسی یونیورسٹی میں لیکچرار تعینات ہو گئے۔
1980میں ایڈنبرا یونیوسٹی برطانیہ چلے گئے، جہاں سے آپ ''وسطی دور کے مشرق وسطیٰ کی تاریخ و سیاست'' میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کر کے 1985میں واپس وطن لوٹے اور دوبارہ پشاور یونیورسٹی سے منسلک ہو گئے۔ 2013تک پشاور یونیورسٹی میں شعبہ علوم اسلامیہ کے چیئرمین رہے اور پھر یونیورسٹی کے وائس چانسلر کی حیثیت سے خدمات سرانجام دیتے رہے۔ ان کے علاوہ مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے جتنے بھی علماء اس کونسل کے ممبران ہیں وہ صاحب علم اور اپنے اپنے مکاتب فکر میں مقبول و معروف شخصیات ہوتی ہیں۔
اسلامی نظریاتی کونسل کا اجلاس چیئرمین ڈاکٹر قبلہ ایازکی سربراہی میںدو روزہ خصوصی اجلاس بدھ اور جمعرات کو ہوا جس میں نیب آرڈیننس کا جائزہ لیا گیا اور اس کی متعدد دفعات کو غیر شرعی اور غیر اسلامی قرار دے دیا گیا، کونسل کے مطابق نیب آرڈیننس کی دفعات 14 ڈی ، 15 اے اور 26 غیر شرعی ہیں۔ چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل قبلہ ایاز نے میڈیا بریفنگ کے دوران کہا کہ بے گناہ کو ملزم ثابت کرنا، وعدہ معاف گواہ بننا اور پلی بارگین کی دفعات غیر اسلامی ہیں، نیب کے احتساب کا عمومی تصور اسلامی تصور احتساب کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتا۔ نیب کے قانون میں سقم ہیں، نیب قوانین کو اسلامی قوانین سے ہم آہنگ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اسلامی نظریاتی کونسل کے مطابق نیب کی جانب سے ملزمان کو ہتھکڑی لگانا، میڈیا پر تشہیر کرنا اور حراست میں رکھنا بھی غیر شرعی ہے۔ نیب تب حرکت میں آتا ہے جب کروڑوں اربوں کی کرپشن کے شواہد جمع ہوتے ہیں جب کہ اسلامی اصولوں میں مالی اختیارات کے غلط استعمال کا ابتدا ہی سے سد باب ضروری ہے۔
اسلامی نظریاتی کونسل کی مجوزہ سفارشات کو ملک بھر کے علماء کرام اور دیگر طبقات کی جانب سے درست قرار دینے اور اس اقدام پر ڈاکٹر قبلہ ایاز اور ان کی ٹیم کو داد و تحسین پیش کرنے کا سلسلہ جاری تھا کہ مبینہ ریاست مدینہ کے وفاقی وزیر فواد چوہدری نے آؤ دیکھا نہ تاؤ اور فٹ سے ایک ٹوئٹ داغ دیا ، جس میں موصوف کا کہنا تھا کہ ''اسلامی نظریاتی کونسل کی تشکیل نو کی ضرورت ہے۔
کونسل کی کارکردگی پر سنجیدہ سوالات ہیں، مذہبی طبقات کی سوچ کو نظریاتی کو نسل سے کو ئی رہنمائی نہیں ملی، ایسے ادارے پر کروڑوں روپے خرچ کرنے کا جواز میری سمجھ سے بالاتر ہے، جدید تقاضوں سے ہم آہنگ، انتہائی جید لوگ اس ادارے کو سنبھالیں''۔ اصولاً یہ موصوف کا شعبہ نہیں ہے لیکن یہاں بھی وہ بات کرنے سے باز نہ آئے۔ یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے، اس سے پہلے رویت ہلال کے معاملے پر بھی وہ قمری کیلنڈر بنانے نکلے تھے موصوف کی اپنی ہی حکومت نے اس معاملے کو وزارت مذہبی امور کے سپرد کر دیا ۔ دینی مدارس کا نظام بھی موصوف کو درست نہیں لگتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ علوم شرعیہ ان کا موضوع نہیں ہے، پھر اس پر بیان کیوں داغتے ہیں؟ بعض دوستوں کا خیال ہے کہ معاملہ سستی شہرت حاصل کرنے کا ہے، میری نظر میں اصل معاملہ کچھ اور ہے، معاملہ وہی ہے جس کا ذکر ابتدائی سطور میں کر گزرا ہوں، کہ کسی نہ کسی طرح اس ملک کو سیکولر بنایا جائے ۔ بلاشبہ یہ بہت مشکل ٹاسک ہے اور ایک آدھ بندے کے بس کی بات نہیں، اس کے لیے ایک پورا طبقہ موجود ہے۔
ایک کوشش یہ بھی ہو چکی ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان سے لفظ اسلامی نکال دیا جائے، وہ تو بھلا ہو مولانا فضل الرحمٰن کا، جو ڈٹ کر کھڑے ہو گئے۔ نام نہاد روشن خیالی کی دلدل میں دھنساہوا یہ طبقہ جانے انجانے میں کسی اور کے ایجنڈے کی تکمیل کے لیے سرگرداں ہے ۔ اگر ایسا نہیں ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ اس ملک کے مسلمان اپنے آقا کریمﷺ کی حدیث مبارکہ پر عمل کرتے ہوئے کھلی آنکھ سے چاند دیکھ کر روزہ رکھنے اور افطار کرنے پر ایمان رکھتے ہیںلیکن سیکولر طبقہ آقا کریم ﷺ کی حدیث مبارکہ سے زیادہ سائنس اور ٹیکنالوجی کو ماننے پر زور دیتاہے، اسلامی نظریاتی کونسل قرآن و سنت کی روشنی میں کسی قانون کی شرعی حیثیت بیان کرتی ہے لہذا ایک آئینی ادارے پر الزام تراشیاں درست طرز عمل نہیں ہے ۔
فواد چوہدری کو ایک برادرانہ مشورہ دیتا چلوں۔ موصوف نے صحافیوں کے خلاف ایک محاذ گرم کر رکھا اور اس محاذ پر تھپڑ کھلانے اور کھانے کا سلسلہ تو ابھی جاری و ساری ہے، بہتر ہے کہ وہ اپنی توانائیاں اسی محاذ پر صرف کریں اگر وقت ملے تو تھوڑی بہت توجہ اپنی وزارت سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کی طرف بھی دے لیں ۔ وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی کے ٹویٹ پر چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل ڈاکٹر قبلہ ایاز نے نہایت خوبصورت انداز میں جواب دیا، ان کا کہنا تھا کہ اگر وفاقی وزیرٹویٹ کرنے سے پہلے انھیں کال کر لیتے تو وہ قطعی طور پر ایسی بات نہ کرتے۔ ڈاکٹر صاحب دھیمے مزاج کے سلجھے ہوئے انسان ہیں، انھیں الجھے ہوئے سیاستدانوں کی خبر کہاں؟
اس بات میں کوئی دورائے نہیں کہ پاکستان کا معجزانہ قیام حضرت قائداعظم محمد علی جناح کی غیر معمولی قیادت، علماء کرام و مشائخ عظام، اساتذہ ، طلبا، مفکرین اور مسلمانان برصغیر کی قربانیوں کا نتیجہ تھا۔ پاکستان کی بقا، سالمیت، حفاظت و صیانت کی صرف ایک توجیہہ ممکن ہے اور وہ یہ کہ پاکستان اسلام کے عالمی غلبے کی خدائی تدبیر کے سلسلے کی اہم کڑی ہے۔ اِس تھیوری کے دو اہم ترین اجزاء ہیں، ایک یہ کہ بالآخر اسلام پوری دنیا پر غالب آ کر رہے گا اور پورے کرۂ ارض پر سبز انقلاب کی ہریالی دیکھی جائے گی، اس کا ڈنکا بجے گا اوردوسرا یہ کہ اسلام کے اس سبز انقلاب میں ایک اہم اور فیصلہ کن کردار پاکستان کو ہی ادا کرنا ہے اور یہ گویا پاکستان کی تقدیر ہے۔
یہ کوئی ہوائی بات نہیں ہے ، حقیقت پر مبنی ہے کیونکہ اِن میں سے اول الذکر جزو بالکل حقیقی، یقینی اور اٹل ہے، اِس لیے کہ وہ قرآنِ حکیم سے بھی دلالتہً ثابت ہے اور متعدد احادیث صحیحہ میں تو صراحتہً مذکور ہے اور اِس کے ضمن میں گمان اور قیاس کا معاملہ صرف اِس مسئلے تک محدود ہے کہ ایسا کب ہو گا؟ جہاں تک دوسرے جزو کا تعلق ہے تو وہ قیاس و گمان کا معاملہ ہے یا ذوق و وجدان کا لہٰذا ثانی الذکر جزو پر اختلاف کی گنجائش موجود ہے۔کوئی مانے یا نہ مانے، کسی پر کوئی زور نہیں لیکن حقیقت یہی ہے کہ اسلام کے عالمی غلبے کا نکتہ آغاز یہی سر زمین بنے گی۔
پاکستان کے قیام سے لے کر آج تک علماء و مشائخ اور دینی قوتوں کی جدوجہد کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اور ان کا یہ کردار مستقبل میں بھی رہے گا۔ جس دن سے دنیا کے نقشہ پر یہ مملکت خدا داد ابھر کر سامنے آئی ہے اس دن سے اس کے خلاف مختلف محاذوں پر حملے ہو رہے ہیں۔ سب سے زیادہ حملے وطن عزیز کے اسلامی تشخص پر کیے گئے اور کیے جا رہے ہیں۔ پاکستان کے متفقہ آئین میں یہ بات واضح طور پر درج ہے کہ اس ملک میں کوئی بھی قانون قرآن و سنت سے متصادم نہیں بنے گا اور جب یہ آئین بنایا گیا تھا۔
اس وقت اس میں یہ بات بھی اتفاق رائے سے شامل کی گئی تھی کہ اس سے پہلے جتنے بھی قوانین موجود ہیں انھیں اسلامی سانچے میں ڈھالا جائے گا یعنی انگریز کے بنائے ہوئے قوانین سے نجات حاصل کر کے ان کی جگہ نئے قوانین بنائے جائیں گے جو قرآن و سنت کے مطابق ہوں۔ یہ مینڈیٹ اسلامی نظریاتی کونسل کو سونپا گیا کہ وہ پہلے سے موجود قوانین کا بھی جائزہ لے اور نئی قانون سازی کے بارے میں بھی اپنی رائے دے، ہمیں یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ اسلامی نظریاتی کونسل ایڈوائزری باڈی ہے ، عمل درآمد کرانے والا ادارہ نہیں، اسی لیے اس کونسل کا کام صرف سفارش کرنا ہے۔ اتنے اہم آئینی ادارے کا سربراہ صاحب علم شخصیت کو چن کر لگایا جاتا ہے جس کا احترام مسلمانوں کے تمام مکاتب فکر میں موجود ہو۔ لمحہ موجود میں بھی ملک کی ممتاز علمی شخصیت ڈاکٹر قبلہ ایاز اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین کی حیثیت سے خدمات سرانجام دے رہے ہیں، انھوں نے 1975میں پشاور یونیورسٹی سے ایم اے اسلامیات کا امتحان پاس کیا اور اگلے ہی سال اسی یونیورسٹی میں لیکچرار تعینات ہو گئے۔
1980میں ایڈنبرا یونیوسٹی برطانیہ چلے گئے، جہاں سے آپ ''وسطی دور کے مشرق وسطیٰ کی تاریخ و سیاست'' میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کر کے 1985میں واپس وطن لوٹے اور دوبارہ پشاور یونیورسٹی سے منسلک ہو گئے۔ 2013تک پشاور یونیورسٹی میں شعبہ علوم اسلامیہ کے چیئرمین رہے اور پھر یونیورسٹی کے وائس چانسلر کی حیثیت سے خدمات سرانجام دیتے رہے۔ ان کے علاوہ مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے جتنے بھی علماء اس کونسل کے ممبران ہیں وہ صاحب علم اور اپنے اپنے مکاتب فکر میں مقبول و معروف شخصیات ہوتی ہیں۔
اسلامی نظریاتی کونسل کا اجلاس چیئرمین ڈاکٹر قبلہ ایازکی سربراہی میںدو روزہ خصوصی اجلاس بدھ اور جمعرات کو ہوا جس میں نیب آرڈیننس کا جائزہ لیا گیا اور اس کی متعدد دفعات کو غیر شرعی اور غیر اسلامی قرار دے دیا گیا، کونسل کے مطابق نیب آرڈیننس کی دفعات 14 ڈی ، 15 اے اور 26 غیر شرعی ہیں۔ چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل قبلہ ایاز نے میڈیا بریفنگ کے دوران کہا کہ بے گناہ کو ملزم ثابت کرنا، وعدہ معاف گواہ بننا اور پلی بارگین کی دفعات غیر اسلامی ہیں، نیب کے احتساب کا عمومی تصور اسلامی تصور احتساب کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتا۔ نیب کے قانون میں سقم ہیں، نیب قوانین کو اسلامی قوانین سے ہم آہنگ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اسلامی نظریاتی کونسل کے مطابق نیب کی جانب سے ملزمان کو ہتھکڑی لگانا، میڈیا پر تشہیر کرنا اور حراست میں رکھنا بھی غیر شرعی ہے۔ نیب تب حرکت میں آتا ہے جب کروڑوں اربوں کی کرپشن کے شواہد جمع ہوتے ہیں جب کہ اسلامی اصولوں میں مالی اختیارات کے غلط استعمال کا ابتدا ہی سے سد باب ضروری ہے۔
اسلامی نظریاتی کونسل کی مجوزہ سفارشات کو ملک بھر کے علماء کرام اور دیگر طبقات کی جانب سے درست قرار دینے اور اس اقدام پر ڈاکٹر قبلہ ایاز اور ان کی ٹیم کو داد و تحسین پیش کرنے کا سلسلہ جاری تھا کہ مبینہ ریاست مدینہ کے وفاقی وزیر فواد چوہدری نے آؤ دیکھا نہ تاؤ اور فٹ سے ایک ٹوئٹ داغ دیا ، جس میں موصوف کا کہنا تھا کہ ''اسلامی نظریاتی کونسل کی تشکیل نو کی ضرورت ہے۔
کونسل کی کارکردگی پر سنجیدہ سوالات ہیں، مذہبی طبقات کی سوچ کو نظریاتی کو نسل سے کو ئی رہنمائی نہیں ملی، ایسے ادارے پر کروڑوں روپے خرچ کرنے کا جواز میری سمجھ سے بالاتر ہے، جدید تقاضوں سے ہم آہنگ، انتہائی جید لوگ اس ادارے کو سنبھالیں''۔ اصولاً یہ موصوف کا شعبہ نہیں ہے لیکن یہاں بھی وہ بات کرنے سے باز نہ آئے۔ یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے، اس سے پہلے رویت ہلال کے معاملے پر بھی وہ قمری کیلنڈر بنانے نکلے تھے موصوف کی اپنی ہی حکومت نے اس معاملے کو وزارت مذہبی امور کے سپرد کر دیا ۔ دینی مدارس کا نظام بھی موصوف کو درست نہیں لگتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ علوم شرعیہ ان کا موضوع نہیں ہے، پھر اس پر بیان کیوں داغتے ہیں؟ بعض دوستوں کا خیال ہے کہ معاملہ سستی شہرت حاصل کرنے کا ہے، میری نظر میں اصل معاملہ کچھ اور ہے، معاملہ وہی ہے جس کا ذکر ابتدائی سطور میں کر گزرا ہوں، کہ کسی نہ کسی طرح اس ملک کو سیکولر بنایا جائے ۔ بلاشبہ یہ بہت مشکل ٹاسک ہے اور ایک آدھ بندے کے بس کی بات نہیں، اس کے لیے ایک پورا طبقہ موجود ہے۔
ایک کوشش یہ بھی ہو چکی ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان سے لفظ اسلامی نکال دیا جائے، وہ تو بھلا ہو مولانا فضل الرحمٰن کا، جو ڈٹ کر کھڑے ہو گئے۔ نام نہاد روشن خیالی کی دلدل میں دھنساہوا یہ طبقہ جانے انجانے میں کسی اور کے ایجنڈے کی تکمیل کے لیے سرگرداں ہے ۔ اگر ایسا نہیں ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ اس ملک کے مسلمان اپنے آقا کریمﷺ کی حدیث مبارکہ پر عمل کرتے ہوئے کھلی آنکھ سے چاند دیکھ کر روزہ رکھنے اور افطار کرنے پر ایمان رکھتے ہیںلیکن سیکولر طبقہ آقا کریم ﷺ کی حدیث مبارکہ سے زیادہ سائنس اور ٹیکنالوجی کو ماننے پر زور دیتاہے، اسلامی نظریاتی کونسل قرآن و سنت کی روشنی میں کسی قانون کی شرعی حیثیت بیان کرتی ہے لہذا ایک آئینی ادارے پر الزام تراشیاں درست طرز عمل نہیں ہے ۔
فواد چوہدری کو ایک برادرانہ مشورہ دیتا چلوں۔ موصوف نے صحافیوں کے خلاف ایک محاذ گرم کر رکھا اور اس محاذ پر تھپڑ کھلانے اور کھانے کا سلسلہ تو ابھی جاری و ساری ہے، بہتر ہے کہ وہ اپنی توانائیاں اسی محاذ پر صرف کریں اگر وقت ملے تو تھوڑی بہت توجہ اپنی وزارت سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کی طرف بھی دے لیں ۔ وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی کے ٹویٹ پر چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل ڈاکٹر قبلہ ایاز نے نہایت خوبصورت انداز میں جواب دیا، ان کا کہنا تھا کہ اگر وفاقی وزیرٹویٹ کرنے سے پہلے انھیں کال کر لیتے تو وہ قطعی طور پر ایسی بات نہ کرتے۔ ڈاکٹر صاحب دھیمے مزاج کے سلجھے ہوئے انسان ہیں، انھیں الجھے ہوئے سیاستدانوں کی خبر کہاں؟