اسلامی جمہوریہ ایرانفارس

ہمارے پڑوسی ملک کہاں پہنچ گئے، آج دنیا کی سپر پاور ان سے خوفزدہ ہے


ایم قادر خان January 12, 2020

شمع فروزاں، یادوں کے چراغ ، یادوں کے کنول یا پھر لہو کے چراغ ان سب کا اثر موجود ہے۔

کہتا ہے دل راستہ ہے مشکل ،معلوم نہیں کہاں ہے منزل

ہمارے پڑوسی ملک کہاں پہنچ گئے، آج دنیا کی سپر پاور ان سے خوفزدہ ہے۔ ایران نے عراق میں امریکا کے ہوائی اڈوں پرشدید حملہ کیا، دسیوں کو نہ صرف اپنے میزائلوں سے مار ڈالا بلکہ متعدد ڈرون و اسلحہ تباہ کیا جو بڑی واضح مثال ہے۔ کہانیاں روزگڑھی جاتی ہیں لیکن سچائی و حقائق منہ چڑھاتے ہیں۔ وقت تیزگھوڑوں کی طرح دوڑتا چلا جاتا ہے، ٹاپوں کی آواز باقی رہ جاتی ہے، عوام کے ساتھ ملکوں کی چاہت ختم نہیں ہوتی۔

مشرق وسطیٰ میں واقع پاکستان کا قریبی ہمسایہ ملک ایران جس کے مشرق کی جانب افغانستان اور پاکستان، مغرب کی جانب ترکی اور عراق، شمال میں بحیرہ کیسپین اور آرمین، آذربائیجان جب کہ جنوب کی جانب اس ملک کو خلیج فارس نے گھیرا ہوا ہے۔ ایران کی تاریخ قدیم تاریخوں میں سے ایک ہے یہاں آثار قدیمہ والوں کو قدیمی زندگی کے متعدد آثار ملے ہیں جن میں سے ایران کی قدیمی حیات کے وجود کا تعین ہوتا ہے۔ لفظ ایران سنسکرت کے لفظ آریا سے نکلا ، آریا قوم تقریباً ڈھائی ہزار سال قبل مسیح میں ایشیا سے چراگاہوں کی تلاش میں نکلی تھی جو ایران کی سرزمین کو پامال کرتی ہوئی اس وقت کے ہندوستان جو اب موجودہ پاکستان میں داخل ہوئی۔

یہاں کی قدیم مہذب قوم دراوڑ کو جنوب کی جانب دھکیل کر خود قابض ہوگئے تھے۔ آریا قوم سے آریان نکلا، یہ لوگ جب ایران میں داخل ہوئے تو انھوں نے مقامی چراگاہوں پر قبضہ کرلیا۔ یہاں کی حکمرانی بھی سنبھال لی، چھوٹی چھوٹی ریاستوں کا قیام عمل میں آیا ، آتش پرستی ان لوگوں کا مذہب تھا۔ آریا لوگ جب برصغیر اور ایران میں داخل ہوئے تو یہ جداگانہ قبائل میں منقسم ہوگئے۔ مختلف ناموں سے قبائل وجود میں آئے ان میں مارک قبائل زیادہ اہمیت کے حامل تھے کیونکہ اس قبیلے نے ایران کے بیشتر حصے میں اپنی حکومت قائم کی۔ 550 قبل مسیح میں اس سلطنت کے خاتمے کے بعد اقامتی سلطنت قائم رہی یہ وہ سلطنت تھی جس نے ایران کی قدیم بنیاد رکھی۔ پھر یہاں سکندر اعظم نے قدم رکھے جس نے مقدونیہ کی حدود کو وسیع کرتے ہوئے ترکمانستان ، ہندوستان کے بیشتر حصے جو آج پاکستان میں واقع ہیں ان پر اپنی حکومت قائم کی۔

1736 عیسوی میں نادر شاہ نے موجودہ 17 ممالک پر قبضہ کیا جن میں ترکمانستان ، ایران ، پاکستان، ازبکستان، عراق، ترکی، بحرین، چیچنیا کے کچھ حصوں کے علاوہ دیگر کئی ممالک تھے۔ اس خاندان کی حکومت میں کوئی بھی ایسا ملک نہ تھا جس کے مکمل حصوں پر دسترس نہیں تھی۔

1794 کو آبشار کی حکومت قائم ہوئی مگر 1747 میں ایران کے چند حصوں سمیت ہندوستان اور افغانستان کے بیشتر علاقوں پر احمد شاہ درانی نے درانی سلطنت کی بنیاد رکھی۔ 1750 میں ایران کے کچھ حصوں پر خاندان زمہ نے اپنے جھنڈے گاڑ دیے۔ 1785 میں ایک اور خاندان جسے خاندان کاجار کہا جاتا ہے دولت عالیہ ایران کی بنیاد رکھی۔ اس خاندان نے بہت جلد ایران کے بیشتر حصوں میں دسترس حاصل کرلی۔ ماضی بعید میں ایران کے کچھ حصوں پر روسی سلطنت بھی قائم ہوئی لیکن یہ چند سالوں کے بعد مسلمانوں کے قبضے میں آگئی۔ ایران میں پندرہ سال کی عمر کے ہر لڑکے کو کم ازکم پانچ سال سر باز (فوج) میں گزارنا لازم ہیں۔

1935 تک ایران کو دنیا فارس کے نام سے جانتی تھی۔ 1935 میں رضا شاہ پہلوی نے فارس کو ایران کا نام دیا۔ رضا شاہ پہلوی کے دور حکومت میں برطانیہ نے ایران کے قدرتی تیل کے ذخائر پر قابض ہونے کی سعی کی۔ رضا شاہ پہلوی نے اس کی سخت مخالفت کی، برطانیہ نے سوویت یونین کے ہمراہ ایران پر چڑھائی کردی۔ رضا شاہ پہلوی کو ملک بدر کر دیا، رضا شاہ کے ملک بدر ہونے کے بعد اس کے بیٹے نے حکومت سنبھالی تو کئی دشمنوں نے عوام کو بہکا کر ایران کے نام پر احتجاج کروایا تو رضا شاہ کے بیٹے نے ایران اور فارس دونوں نام رکھنے پر اتفاق کیا۔

1979 میں انقلاب ایران کے بعد امام خمینی سپریم لیڈر کے درجے پر فائز ہوئے۔ انقلاب ایران سے پہلے تعلیمی شرح 42 فیصد تھی جو اب 98 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ انقلاب ایران میں قائم ہونے والی حکومت نے عوام کو بے شمار فوائد دیے ۔ ایران کا نام اسلامی جمہوریہ ایران رکھ دیا گیا۔

2017 کی ایک رپورٹ کے مطابق ایران کی آبادی 8 کروڑ 10 لاکھ افراد تھی۔ 2016 میں ایران پارلیمنٹ نے کرنسی ریال کا لفظ ختم کرکے ریال تمن کا نام دیا لیکن بیرونی ممالک کے اکثر لوگ ایرانی کرنسی ریال کے نام سے ہی یاد کرتے ہیں۔

پاکستان کے مختلف شہروں سے ایران میں داخل ہوسکتے ہیں ویزہ حاصل کرنے کے بعد پورا ایران گھوم سکتے ہیں۔ ایران مکمل طور پر ایٹمی طاقت بن چکا ہے امریکا اور اس کے حواریوں کو اچھا نہیں لگتا ایران پر لگائی گئی پابندیوں کو دو دہائیاں گزر چکی ہیں لیکن یہ پابندیاں برقرار ہیں جب کہ ایک چھوٹا ملک اسرائیل ایٹمی طاقت ہے لیکن آج تک اس پر کوئی پابندی عائد نہیں کی گئی۔ ایران نے ان پابندیوں کے عرصے میں خود کفیل ہوگیا اب اسے کسی بھی ملک سے کوئی خیر درکار نہیں۔ عائد پابندیوں سے ایران کو زیادہ فائدہ پہنچا۔ آج یورپ امریکا ایران سے خائف ہے انھیں معلوم ہے ایران جو کہے گا اسے پورا کر دکھائے گا اور ایسا ہوا ہے۔ دنیا نے جان لیا دیکھ لیا ایران کتنی بڑی طاقت بن چکا ہے۔

1991 سے اب تک ایران میں سیکڑوں زلزلے آچکے18 ہزار کے قریب افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ فارسی اس ملک کی قومی و سرکاری زبان ہے اکثر آبادی فارسی زبان کا استعمال کرتی ہے۔ جب کہ دیگر تسلیم شدہ زبانوں میں آذربائیجانی، کردش، عربی، بلوچی، ترکی، ابشار اور آرمینی زیادہ اہم ہیں۔ اسلام ان کا قومی و سرکاری مذہب ہے۔ 2014 سے 2015 کے درمیان اس ملک میں آنے والے غیر ملکی سیاحوں کی تعداد 50 لاکھ سے زیادہ تھی۔ سیاحوں کی سب سے زیادہ تعداد شیراز، اصفہان، قم، زاہدان اور مشہد کا رخ کرتی ہے۔ ان شہروں میں بے شمار قدیمی مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں۔ ایران میں 22 آثار قدیمہ مقامات موجود ہیں جو آنے والے غیر ملکیوں یورپی یونین اور امریکا کے سیاحوں کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں۔ ایران میں یورپ امریکا کے علاوہ زیادہ آنے والوں میں پاکستان، بھارت، عراق، ترکمانستان، افغانستان، اہم ممالک ہیں۔ سب سے زیادہ پاکستان سے لوگ جاتے ہیں۔

میں بھی ایران جا چکا ہوں وہاں کے کئی بڑے شہروں میں سیاحت کا موقع ملا۔ خاص بات یہ دیکھی وہاں کے لوگ (ایرانی) جب سنتے ہیں یہ شخص پاکستان سے آیا ہے تو وہ کہتے ہیں ''برادر'' اورہنستے مسکراتے بغل گیر ہوتے ہیں۔ کام آتے ہیں ذرا بھی تکلیف نہیں ہونے دیتے۔ پاکستانیوں کا خاص خیال رکھتے ہیں۔ گرمیوں میں ایران کا اوسط درجہ حرارت 31 ڈگری سینٹی گریڈ ہوتا ہے ایران کی ایک معروف قانون داں انسانی حقوق کی ترجمان شیریں عبادی مسلم دنیا کی پہلی خاتون تھیں جن کو نوبل انعام سے نوازا گیا تھا۔ ایران میں دنیا کا دس فیصد قدرتی آئل پایا جاتا ہے اور دنیا کے سب سے زیادہ گیس کے ذخائر ایران میں موجود ہیں۔

ایران میں ووٹ ڈالنے کا حق سب کو 15 سال کی عمر سے ہوتا ہے جب کہ دنیا کے بقیہ ممالک میں 18 سال کی عمر مقرر ہے۔ ایران میں لڑکیوں کو 9 سال کی عمر سے سر ڈھاپننا لازم ہے، شراب نوشی پر 80 کوڑوں کی سزا ہے۔ ایران میں قانون پر سختی سے عمل کیا جاتا ہے، مجرم کو کوئی رعایت نہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں