امریکا اور ایران کے درمیان کشیدگی پوری دنیا کے لیے خطرناک ہے پاکستان کو مکمل غیر جانبدارانہ کردار ادا کر?

شرکاء کا حالیہ ایران ، امریکا کشیدگی کے حوالے سے منعقدہ ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں اظہار خیال


شرکاء کا حالیہ ایران ، امریکا کشیدگی کے حوالے سے منعقدہ ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں اظہار خیال

کیا دنیا کسی اور عالمگیر جنگ کی جانب بڑھ رہی ہے اور امریکا اس کا محرک بننے جارہا ہے یہ وہ سوال ہے جو ہر کوئی پوچھ رہا ہے اور ایسا اس لیے ہے کیونکہ اس وقت ایران ، امریکا کشیدگی اپنی حدؤں کو چھو رہی ہے، امریکا کی جانب سے3 جنوری2020 ء کو یہ اطلاع سامنے آئی کہ عراق کے دارالحکومت بغداد میں ایئرپورٹ کے نزدیک امریکی فضائی حملے میں ایران کے پاسداران انقلاب کی قدس فورس کے سربراہ میجر جنرل قاسم سلیمانی کو ہلاک کردیا گیا ہے۔

جس پر پورا ایران سڑکوں پر نکل آیا اور ان کی تدفین سے قبل ہی ایران کی جانب سے عراق میں امریکی فوجی اڈوں پرمیزائلوں کے حملے اور ان میں80 ہلاکتوں کے دعوے کے بعد خلیجی ممالک سخت تشویش میں مبتلا ہیں، ایران اور امریکا کے درمیان غیرعلانیہ جنگ تو انقلاب ایران کے بعد ہی شروع ہوگئی تھی تاہم کئی دہائیوں کے باوجود دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی بحالی کا کوئی دروازہ نہیں کھلا، دنیاکے طاقتور ممالک کے ساتھ ساتھ پاکستان کی یہ کوشش ہے کہ امریکا اور ایران کے درمیان جنگ نہ ہو۔

اس کشیدگی کو روکنے کے لیے وزیر اعظم عمران خان نے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو فوری طور پر امریکا، ایران اور سعودی عرب سمیت دیگر ممالک کے وزرائے خارجہ سے رابطوں اور دوروں کی ہدایت کی ہے۔ وزیر اعظم نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کوبھی کہا ہے کہ وہ اس معاملے پر متعلقہ ممالک کی فوجی قیادت سے رابطے کریں، اس حوالے سے کوششوں کا آغاز ہوگیا ہے۔ پاکستان نے اس معاملہ پر اپنی پالیسی واضح کر دی ہے کہ وہ کسی جنگ کا حصہ نہیں بنے گا اور نہ ہی اپنی سرزمین کو کسی کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت دے گا۔ امریکا ایران کشیدگی کے حوالے سے مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں اور ممتاز علمائے کرام نے ایکسپریس فورم میں ''امریکا اور ایران کشیدگی کے حوالے سے پاکستان کی پالیسی'' پر اپنا اظہار خیال کیا اور اپنی رائے پیش کی جو قارئین کی خدمت میں پیش کی جارہی ہے ۔

سعید غنی

( وزیر اطلاعات سندھ)

ایران، امریکا کشیدگی میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت خارجہ پالیسی میں ناکامی سے دوچار ہے، مقبوضہ کشمیر میں حالات خراب ہیں ناکام خارجہ پالیسی کے باعث مسئلہ کشمیر عالمی سطح پر صحیح طریقے سے اجاگر نہیں ہوسکا ہے۔ ایران اور امریکا تنازع پر وفاقی حکومت کو چاہیے کہ وہ پارلیمنٹ اور سیاسی قیادت کو اعتماد میں لے کر اس حوالے سے مربوط خارجہ پالیسی کا تعین کرے۔

ایران ہمارا پڑوسی ملک ہے جس کی خدانخواستہ امریکا سے جنگ ہوتی ہے تو اس کے سب زیادہ اثرات پاکستان پر پڑیں گے، ہمیں اس بارے میں بھی سوچنا ہوگا کہ ہم ایسی پالیسی اختیار کریں کہ اگرامریکا اور ایران کے درمیان جنگ ہوتی ہے تو ہم اس کے اثرات سے کس طرح محفوظ رہ سکتے ہیں، اس وقت امن کی کوششوں کے لیے پاکستان کاکردار اہمیت کا حامل ہے،بدقسمتی سے موجودہ حکومت میں اتنی اہلیت نہیں کہ وہ دونوں ممالک کے درمیان جاری تنازع کو حل کرانے میں بطور ثالثی کاکردار اداکرے ۔

ضیا عباس

(سینئر سیاستداں سابق وفاقی وزیر وماہر عالمی امور )

امریکا اور ایران کشیدگی پوری دنیا کے لیے خطرناک ہے، ان حالات میں ہمیں مکمل غیر جانبدارانہ کردار ادا کرنا چاہیے۔ پاکستان دنیا میں انتہائی اہمیت کا حامل ملک ہے اور وہ امریکا اور ایران تنازع کو ختم کرانے کے لیے بطور ثالث اہم کردار اداکر سکتا ہے۔ اطمینان کی بات یہ ہے کے وزیر اعظم عمران خان نے انتہائی ذمے دارانہ بیان دیتے ہوئے ملک کی خارجہ پالیسی واضح کر دی ہے کہ پاکستان کسی جارحیت کا حصہ نہیں بنے گا اور نہ ہی اپنی سرزمین کوکسی کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت دے گا۔ اگر ایران ، امریکا دونوں ممالک میں کشیدگی بڑھتی ہے تو اس کے منفی اثرات مشرق وسطی کے ساتھ ساتھ جنوبی ایشیا اور پھر پوری دنیا پر مرتب ہوں گے۔

خدانخواستہ ایران اور امریکا میں جنگ چھڑ جاتی ہے تو پھر روس، چین، برطانیہ، فرانس اور دیگر ممالک بھی ممکنہ طور پر اس کا حصہ بن سکتے ہیں اور یہ لڑائی تیسری عالمی جنگ میں تبدیل ہو سکتی ہے اور اگر جنگ ہوئی تو پھراس کی تباہ کاری کے اثرات پوری دنیا پر مرتب ہوں گے۔ اس لیے امریکا اور ایران کے درمیان جنگ کو روکنے کے لیے عالمی طاقتوں کے ساتھ ساتھ اقوام متحدہ کو فوری طور پر اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔

امریکا ،ایران تنازع کا واحد حل مذاکرات ہیں اور ان مذاکرات کے آغاز میں پاکستان کا کردارکلیدی اہمیت کا ہے کیونکہ دونوں ممالک پاکستان کی سویلین اور فوجی قیادت کی بات سنتے ہیں ۔ پاکستان نے17 برس دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑ کر دنیا کو امن دیا ہے۔ اگر پاکستان کا جھکاؤ اس تنازع میں کسی ایک ملک کے ساتھ ہوا تو اس کے اندرونی حالات خراب ہو سکتے ہیں ۔ پاکستان کی مشرقی اور مغربی سرحدوں پر اس وقت کشیدگی ہے۔ اس لیے میری تجویز ہے کہ پاکستان امریکا اور ایران تنازع کو ختم کرانے کے لیے اپنے سفارتی ذرائع کو تیزی سے استعمال کرے۔ امریکا اور ایران کو بھی چاہیے کہ اپنے جنگی جنون کوکم کریں اور مذاکرات کی میز پر آئیں ۔

وقار مہدی

(جنرل سیکریٹری پیپلزپارٹی سندھ)

امریکا اور ایران تنازع کے بعد پاکستان کی خارجہ پالیسی تاحال واضح نہیں ہے، پاکستان کو اس جنگ کا حصہ نہیں بننا چاہیے اور مکمل طور پر غیر جانبدارانہ رہنا چاہیے۔ پاکستان کو ظالم اور مظلوم میں فرق کرنا ہو گا۔ یہ بات بھی ذہن نیشن رکھنا ہوگی کہ امریکی حمایت سے پاکستان کے اندرونی حالات خراب ہو سکتے ہیں، پاکستان کو اس وقت چاہیے کہ وہ سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے دور کی خارجہ پالیسی پر عمل کرے۔

اس وقت ہمیں امریکا کے بجائے مسلم امہ کی یکجہتی کے لیے کام کرنا ہوگا۔ پی ٹی آئی کی حکومت کی خارجہ پالیسی ناکامی سے دوچار ہے۔ موجودہ کشیدگی کو روکنے کے لیے اقوام متحدہ کو آگے آنا ہو گا۔ پاکستانی حکومت کو سمجھنا چاہیے کہ وہ ایران امریکا تنازع کا حصہ بننا اس کے لیے کتنا نقصان دہ ہوگا۔

امین الحق

( مرکزی رہنما و رکن قومی اسمبلیمتحدہ قومی موومنٹ پاکستان)

دنیا کو تیسری عالمی جنگ سے بچانے کے لیے ایران اور امریکاکو اپنے جنگی جنون میں کمی کرنا ہوگی، پاکستان ایک ذمے دار ملک ہے۔ اسی لیے وزیر اعظم عمران خان نے اپنی پالیسی کو واضح کر دیا ہے کہ پاکستان اس تنازع کا حصہ نہیں بنے گا بلکہ امن کے لیے کام کرے گا۔ جیو پولیٹیکل صورتحال کی تناظر میں پاکستان، امریکا ایران اور سعودی عرب کے درمیان تنازع کو ختم کرانے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے اور یہ کردار ثالث کا ہو گا۔ پاکستان کو چاہیے کہ وہ بھرپور سفارت کاری کے ذریعے ایران اور امریکی قیادت سے رابطے کریں اور انھیں یہ باور کرانے کی کوشش کریں کہ جنگ کسی کے مفاد میں نہیں اور اگر جنگ ہوئی تو اس کی تباہ کاریاں پوری دنیا پر مرتب ہوں گی۔

ابھی کشیدگی کے باعث عالمی معیشت پر اس کے منفی اثرات مرتب ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ دنیا میں تیل اور سونے کی قیمتوں میں اضافہ ہو رہا ہے جس کی وجہ سے اشیاخورو نوش کی قیمتیں بھی بڑھیں گی اور جب قیمتیں بڑھیں گی اور ترقی پذیراورغریب ممالک اس سے متاثر ہوں گے، دنیا میں غربت مزید بڑھے گی۔ اس لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور طاقتور ممالک ایران، امریکا جنگ کو روکنے کے لیے فوری طور پر بھرپور سفارتی کوششوں کا آغاز کریں۔ اگر امریکا، ایران جنگ ہوئی تو پاکستان پر بھی اس کے اثرات مرتب ہوں گے۔ پاکستان امن اور اتحاد کے پیغام کو فروغ دے۔

اسد اللہ بھٹو

(جماعت اسلامی کے مرکزی نائب امیر)

جماعت اسلامی ایرانی فوجی کمانڈر قاسم سلیمانی کی امریکی حملے میں ہلاکت کی مذمت کرتی ۔ لیکن پاکستان کا اس حوالے سے کوئی واضح موقف سامنے نہیں آیا۔ ساری صورتحال پر اختلاف رائے ہو سکتا ہے لیکن پاکستان کو امریکی کیمپ کا حصہ نہیں بننا چاہیے۔ ایران نے مسئلہ کشمیر پر ہمارا ساتھ دیا ہے۔ وقت کی ضرورت ہے کہ ہم اپنے دوست ایران کا بھی ساتھ دیں۔

پاکستان کسی تنازع کا حصہ نہ بنے لیکن اسے حق کا ساتھ دینا ہو گا۔ اقوام متحدہ کو چاہیے کہ وہ ایران اور امریکی تنازع کو حل کرانے میں اپنا کردار ادا کرے۔ اگر پاکستان نے امریکاکا ساتھ دیا تواس کے اندرونی حالات خراب ہو سکتے ہیں۔ وقت کی ضرورت ہے کہ مسلم امہ اپنے اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو جائے۔ جنگ سے مسائل حل نہیں ہوتے۔ مذاکرات ہی وہ واحد راستہ ہے، جو بڑے بڑے تنازع حل کرا دیتا ہے۔

خرم شیر زمان

( پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اور رکن سندھ اسمبلی)

وز اعظم عمران خاننے پاکستان کی خارجہ پالیسی واضح کر دی ہے کہ پاکستان کسی بھی جارحیت کا حصہ نہیں بنے گا نہ ہی اپنی سرزمین کوکسی کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت دے گا۔ پاکستان کی پالسی بڑی واضح ہے کہ وہ امن کے فروغ کے لیے اپنا کردار ادا کرے گا۔ وزیر اعظم کی ہدایت پر وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے تمام ممالک سے سفارتی رابطے شروع کردیے ہیں۔

اس بات کی کوشش کی جارہی ہے کے ایران اور امریکا کے درمیان جاری کشیدگی کم ہو اور ان دونوں ممالک کے درمیان جنگ نہ ہو، کیونکہ جنگ کسی مسئلے کا حل ہے نہ ہی کسی کے مفاد میں ۔ اگر جنگ ہوئی تو اس کے اثرات پوری دنیا پر پڑیں گے۔ اقوام متحدہ کو چاہیے کہ وہ اس اہم معاملے میں فوری طور پر اپنا کردار اداکرے اور ایران و امریکا کے درمیان جاری کشیدگی کوکم کرائے۔ پاکستان امن کا داعی ہے۔ اور حکومت نے اس مسئلے کو حل کرنے کیلیے اپنی کوششیں شروع کردی ہیں ان شا اللہ خطے میں جنگ کے بادل جلد چھٹ جائیں گے۔

شاہ محمد شاہ

( صدر پاکستان مسلم لیگ (ن) سندھ )

پاکستان ایک آزاد ملک ہے، اس کی خارجہ پالیسی بھی آزاد ہونی چاہیے، آزاد خارجہ پالیسی میں پڑوسی ملک کا خیال رکھا جاتا ہے۔ امریکا اور ایران تنازع نے پوری دنیا کو ہلا دیا ہے۔ اگر دونوں ممالک کے درمیان جنگ ہوئی اس کے اثرات پوری دنیا پر مرتب ہوں گے۔

پاکستان کو اس لڑائی کا حصہ نہیں بننا چاہیے اور مکمل طور پر غیر جانبدار رہتے ہوئے دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کو کم کرانے کے لیے اپنا سفارتی کردار ادا کرنا چاہیے۔ اگر پاکستان نے امریکا کا ساتھ دیا تو اس کے اندرونی حالات خراب ہو جائیں گے۔ وزیر اعظم اور وزیر خارجہ کو چاہیے کہ وہ بیانات دینے کے بجائے عملی طور پر اس مسئلے کا حل نکالیں اور کوئی بھی فیصلہ کرنے سے قبل پارلیمنٹ اور قوم کو اعتماد میں لیں ۔ تمام اہم امور کے لیے پالیسی سازی پارلیمنٹ میں ہی ہونا چاہیے۔

نصرت سحر عباسی

(رکن سندھ اسمبلی و رہنما مسلم لیگ فنکشنل)

امریکا اور ایران تنازع پر وزیر اعظم عمران خان نے بہت ذمے دارانہ بیان دیا ہے کہ پاکستان کسی جنگ کا حصہ نہیں بنے گا، ماضی میں جب پاکستان افغان جنگ کا حصہ بنا تھا تو اس کے اثرات آج تک ہم بھگت رہے ہیں۔ وزیر اعظم نے واضح کیا ہے کہ ہم اس معاملے میں امن کے فروغ کے لیے کام کریں گے اور کشیدگی کو کم کرانے میں اپنا کردار ادا کریں گے۔

وزیراعظم کی ہدایت پر وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اس معاملے پر اپنی کوششوں کا آغاز کر دیا ہے، اس معاملے میں نیوٹرل پالیسی سب سے بہتر ہے۔ ایران امریکا کشیدگی دنیا کے مفاد میں نہیں۔ عالمی برادری کو چاہیے کہ اس معاملے میں اپنا کردار ادا کرے۔

مفتی منیب الرحمن

(ممتاز عالم دین و چیئرمین رویت ہلال کمیٹی پاکستان)

پاکستان اب کسی جنگ کا متحمل نہیں ہو سکتا ہے، پاکستان کو چاہیے کہ وہ امن کے فروغ کے لیے کام کرے، کسی ملک کے خلاف جنگ میں سہولت کار کا کردار ادا نہ کرے۔ ہم اب تک ماضی کے اثرات سے باہر نہیں نکل سکے ہیں، امریکا اور ایران تنازع کو کم کرانے میں اگر پاکستان اپنی سفارتی کوششیں کرتا ہے تو یہ بہتر عمل ہے۔

مفتی محمد نعیم

(ممتاز عالم دین مہتمم جامعہ بنوریہ سائٹ)

پاکستان کو چاہیے کہ وہ امریکا ایران تنازع سے دور رہے، مکمل غیر جانبدارانہ پالیسی اختیار کرنا ہی ملک کے مفاد میں ہے۔ اگر وزیر اعظم عمران خان نے دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کو کم کرانے کے لیے سفارتی کوششوں کا فیصلہ کیا ہے تو یہ بہت اقدام ہے۔ ایران اور امریکا یہ دو بڑی طاقتیں ہیں، خطے کے بہترین مفادمیں پاکستان کو امن کے لیے اپنی بھرپور کوششیں کرنا چاہیئں گو یہ ایک مشکل کام ہے مگر ناممکن نہیں کہ ہم اس میں کامیاب نہ ہوسکیں۔

مولانا باقر زیدی

( ممتاز شیعہ عالم دین جنرل سیکریٹریمجلس وحدت المسلمین سندھ)

ایران امریکا تنازع پر پاکستان کو حق کا ساتھ دینا چاہیے۔ باطل کے سامنے کھڑے ہو جانا چاہیے۔ دنیا جانتی ہے کہ حق پر کون ہے اور باطل کون ہے۔ ایران پاکستان کا برادر اسلامی ملک اور پڑوسی ہے اس لیے وہاں امریکی جارحیت کے اثرات براہ راست پاکستان کو متاثر کریں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں

رائے