رمشا مسیح کیس مناسب اقدامات کی ضرورت
دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے 29 لاکھ افراد بھی اسی ملک کے شہری ہیں اور حکومت ان کے حقوق کے تحفظ کی بھی ذمے دار ہے
مدرسہ کے نائب مہتمم زبیر چشتی کے بیان ریکارڈ کرانے کے بعد رمشا مسیح کیس نے ایک نیا رُخ اختیار کر لیا ہے اور رمشا پر الزام عائد کرنے والے امام مسجد خالد جدون کو گرفتار کر کے 14روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر اڈیالہ جیل بھیج دیا گیا ہے۔
امام مسجد کو کڑے پہرے میں اتوارکی صبح ڈیوٹی مجسٹریٹ نصر من اللہ بلوچ کی عدالت میں پیش کیا گیا۔ تھانہ رمنا کے تفتیشی افسر نے بتایا کہ ہفتہ کی رات مدرسہ کے نائب مہتمم زبیر چشتی کا بیان ریکارڈ کیا گیا جس میں اس نے انکشاف کیا کہ وہ اس موقع پر موجود تھا جب رمشا مسیح کے خلاف مقدمے کا مدعی ملک حماد، نورانی قاعدہ کے اوراق لے کر مسجد کے امام خالد جدون کے پاس آیا، امام مسجد نے نورانی قاعدہ کے اوراق میں بعض قرآنی آیات کے اوراق بھی ملا دیے، جب میں نے ان سے پوچھا کہ یہ کیا کر رہے ہو تو امام مسجد نے کہا کہ رمشا کے خلاف کیس کو مضبوط کر رہا ہوں۔
اس حوالے سے مزید تحقیقات کی جائے گی تو صورتحال زیادہ واضح ہو کر سامنے آ جائے گی کہ حقائق کیا ہیں' موجودہ تناظر فی الحال یہی محسوس ہوتا ہے کہ قانون توہین رسالت و قرآن مجید کا غلط استعمال کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اگر یہ بات درست ہے تو ظاہر ہے کہ یہ ایک تکلیف دہ معاملہ ہے جس پر سنجیدگی کے ساتھ توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے کیونکہ یہ قانون حرمت رسول ؐ کو یقینی بنانے کے لیے بنایا گیا تھا لیکن اس کو اقلیتوں اور ذاتی مخالفین کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے۔
ضروری ہے کہ آیندہ ایسی کوئی صورتحال پیدا نہ ہونے دینے کے لیے مناسب اقدامات عمل میں لائے جائیں۔ اس حوالے سے قانون توہین رسالت اور قرآن مجید کی بے حرمتی کے تناظر میں تمام مکاتب فکر کے جید علماء کرام پر مشتمل فورم تشکیل دینے کی جو باتیں کی جارہی ہیںہے اسے ایک صائب کوشش قرار دیا جا سکتا ہے۔ پاکستان میں بسنے والے دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے 29 لاکھ افراد بھی اسی ملک کے شہری ہیں اور حکومت ان کے حقوق کے تحفظ کی بھی ذمے دار ہے' یہ ذمے داری پوری کی جانی چاہیے۔
امام مسجد کو کڑے پہرے میں اتوارکی صبح ڈیوٹی مجسٹریٹ نصر من اللہ بلوچ کی عدالت میں پیش کیا گیا۔ تھانہ رمنا کے تفتیشی افسر نے بتایا کہ ہفتہ کی رات مدرسہ کے نائب مہتمم زبیر چشتی کا بیان ریکارڈ کیا گیا جس میں اس نے انکشاف کیا کہ وہ اس موقع پر موجود تھا جب رمشا مسیح کے خلاف مقدمے کا مدعی ملک حماد، نورانی قاعدہ کے اوراق لے کر مسجد کے امام خالد جدون کے پاس آیا، امام مسجد نے نورانی قاعدہ کے اوراق میں بعض قرآنی آیات کے اوراق بھی ملا دیے، جب میں نے ان سے پوچھا کہ یہ کیا کر رہے ہو تو امام مسجد نے کہا کہ رمشا کے خلاف کیس کو مضبوط کر رہا ہوں۔
اس حوالے سے مزید تحقیقات کی جائے گی تو صورتحال زیادہ واضح ہو کر سامنے آ جائے گی کہ حقائق کیا ہیں' موجودہ تناظر فی الحال یہی محسوس ہوتا ہے کہ قانون توہین رسالت و قرآن مجید کا غلط استعمال کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اگر یہ بات درست ہے تو ظاہر ہے کہ یہ ایک تکلیف دہ معاملہ ہے جس پر سنجیدگی کے ساتھ توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے کیونکہ یہ قانون حرمت رسول ؐ کو یقینی بنانے کے لیے بنایا گیا تھا لیکن اس کو اقلیتوں اور ذاتی مخالفین کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے۔
ضروری ہے کہ آیندہ ایسی کوئی صورتحال پیدا نہ ہونے دینے کے لیے مناسب اقدامات عمل میں لائے جائیں۔ اس حوالے سے قانون توہین رسالت اور قرآن مجید کی بے حرمتی کے تناظر میں تمام مکاتب فکر کے جید علماء کرام پر مشتمل فورم تشکیل دینے کی جو باتیں کی جارہی ہیںہے اسے ایک صائب کوشش قرار دیا جا سکتا ہے۔ پاکستان میں بسنے والے دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے 29 لاکھ افراد بھی اسی ملک کے شہری ہیں اور حکومت ان کے حقوق کے تحفظ کی بھی ذمے دار ہے' یہ ذمے داری پوری کی جانی چاہیے۔