امریکا ڈرون حملوں کی حکومتی وعوامی نگرانی کرنیکی منظوری

خفیہ ایجنسیاں ہلاکتوں کو منظر عوام پر لائیں گی، سینیٹ کمیٹی کے بند کمرہ اجلاس میں فیصلہ

کمیٹی کی جانب سے منظور شدہ بل اب سینٹ کے پاس جائیگا۔ امریکی ایوان نمائندگان نے بھی اس کی منظوری دینی ہے۔ فوٹو: اے ایف پی/ فائل

امریکی سینیٹ کی انٹیلی جنس کمیٹی نے بیرون ملک دہشتگردوں کیخلاف ڈرون طیاروں کے استعمال کی خاموشی سے حکومتی اور عوامی سطح پر نگرانی کی منظوری دیدی۔

رواں ہفتے کمیٹی کا بند کمرے میں اجلاس ہوا جس میں قانونی مسودے کی منظوری دی گئی جس کے تحت امریکی خفیہ ایجنسیاں پابند ہوں گی کہ وہ ان اعداد وشمار کو سامنے لائیں کہ امریکی ڈرون طیاروں سے میزائل حملوں میں کتنے لوگ ہلاک اور زخمی ہوئے،اس وقت اوباما انتظامیہ کو مختلف ممالک، اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے شدید دبائو کا سامنا ہے کہ سویلین ہلاکتوں سے بچنے کیلیے ڈرون طیاروں کے استعمال کو زیادہ شفاف اور سخت بنایا جائے ۔ اگرچہ کمیٹی نے اس حوالے سے اپنی مشاورت کی مکمل تفصیلات جاری نہیں کیں تاہم اس مشاورت سے واقف کچھ ذرائع نے بتایا کہ کمیٹی کے کچھ ری پبلکن ارکان نے بل میں ڈرون سے متعلق شقوں کی مخالفت کی۔


کمیٹی کی چیئرپرسن ڈیموکریٹ سینیٹر ڈیانا فینسٹین کی جانب سے جاری کردہ پریس ریلیز میں بتایا گیا ہے کہ بل کی 2 کے مقابلے میں 13 ووٹوں سے منظوری دی گئی۔ کانگریس کے ذرائع کے مطابق جن 2 سینیٹرز نے بل کی مخالفت میں ووٹ دیا ، وہ ری پبلکن تھے۔ پریس ریلیز میں ڈرون حملوں کے حوالے سے مسودے کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا ہے۔ اس معاملے سے واقف ایک اہلکار نے بتایا کہ یہ اس لئے ہے کہ کچھ ری پبلکن ارکان نے اس بات پر زور دیا کہ چونکہ امریکی حکومت نے ڈرون حملوں کو خفیہ رکھا ہے اس لئے اس کیلئے قانونی ضوابط بنانا مناسب نہیں ہوگا۔ کمیٹی کی جانب سے منظور شدہ بل اب سینٹ کے پاس جائیگا۔ امریکی ایوان نمائندگان نے بھی اس کی منظوری دینی ہے۔



اس کے بعد صدر کے دستخط کے بعد یہ باقاعدہ قانون بن جائیگا۔ اگر کمیٹی کی جانب سے منظور کردہ مسودہ بل قانون بن جاتا ہے ۔ توامریکی صدر پر یہ لازم ہوگا کہ وہ سال میں ایک بار ڈرونز کے ذریعے بیرون ممالک میں ہلاک یا زخمی ہونیوالے جنگجوئوں اور عام شہریوں کی تعداد کے بارے میں رپورٹ جاری کرے تاہم افغانستان میں امریکی جنگی آپریشن کے خاتمے تک وہاں ہونیوالا ڈرون حملہ یا وہ حملہ جس کی منظوری کانگریس نے دی ہو ،مستثنیٰ ہوگا۔ اس معاملے سے واقف ایک اہلکار نے بتایا کہ فینسٹین اوبامہ انتظامیہ کو اس قسم کے اعداد وشمار رضاکارانہ طور پر جاری کرنے پر آمادہ کرنے پر اپنی کوششوں میں ناکام رہیں۔ امریکی انتظامی اہلکار ذاتی طور پر اپنے اس موقف پر قائم ہیں کہ جنگجوئوں کیخلاف ڈرون حملوں میں عام شہریوں کی ہلاکتوں کی تعداد انسانی حقوق کی تنظیموں کے اعداد وشمار کے برعکس بہت کم ہے۔
Load Next Story