ریاست مدینہ میں مجبور باپ کی خودکشی
میر حسن کی موت کی ذمے دار ریاست ہے اور اس کے خلاف مقدمہ درج ہونا چاہیے
''بابا مجھے سردی لگ رہی ہے۔ مجھے بھی گرم کپڑے لے کر دو ناں۔ مجھے سردی لگتی ہے ان کپڑوں میں۔'' ایک بیٹی اپنے تین ماہ سے بے روزگار باپ سے فرمائش کررہی ہے اور باپ بے بسی کا مجسمہ بن کر صرف سن رہا ہے۔ اس کے اندر اتنی ہمت نہیں کہ وہ اپنی بیٹی کو جھوٹا دلاسہ ہی دے سکے کہ ہاں میری شہزادی! میں تمہیں آج ضرور گرم کپڑے لے کردوں گا۔ لیکن بے کس و مجبور باپ اتنی ہمت بھی نہ کرپایا اور اس نے اپنی شہزادی کی خواہش کے آگے موت کو گلے لگانا بہتر سمجھا اور خود کو آگ لگادی۔
کراچی کے علاقے ابراہیم حیدری کا تنگ دست و مجبور خاندان اپنے پیارے کو اسپتال لے کرگیا لیکن میر حسن کے اندر جینے کی تمام خواہشیں ختم ہوچکی تھیں۔ وہ اس جعلی ریاست مدینہ میں جینا ہی نہیں چاہتا تھا، وہ ایسی ڈھونگی سرکار کے آسرے پر مزید اپنے بچوں کے سامنے خود کو شرمندہ اور بے بس نہیں ہونے دینا چاہتا تھا۔ یہ وجہ موت کا بہانہ بن گئی جہاں ڈاکٹروں نے یہ کہہ کر میرحسن کی لاش اس کے پیاروں کے حوالے کردی کہ میرحسن زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسا ہے۔
میر حسن تو چلا گیا لیکن جاتے جاتے اپنے پیچھے کئی سوالات چھوڑ گیا۔ اس کا پہلا سوال یہ تھا کہ کیا یہ وہی ریاست مدینہ ہے جس کا عمران خان نیازی نے ہمیں خواب دکھایا تھا؟ کیا روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ لگانے والے مجھے روزگار نہیں دے سکتے تھے؟ کیا پاکستان کے عالیشان وزیراعظم ہاﺅس، قومی و صوبائی اسمبلیو ں میں بیٹھے امیر ترین لوگ مجھ جیسوں کےلیے آواز نہیں اٹھا سکتے؟ کیا اس ڈھونگی اور بوگس ریاست پر میری کوئی ذمے داری نہیں؟ میں نے تو سنا ہے کہ پاکستان زرخیز خطہ ہے، لیکن کیا میرے ملک میں اتنے وسائل بھی نہیں کہ وہ مجھ تک پہنچ سکتے؟ کیا ریاست آج اتنی تنگ دست ہوچکی ہے کہ اس کے پاس میرے جیسے لوگوں کےلیے خزانے میں کچھ نہیں بچا؟ کیا آج اسمبلی میں بیٹھے ڈھونگی حکمرانوں کے خزانے خالی ہوچکے ہیں؟ کیا میرے بچوں کی ایک ادنیٰ سی خواہش بھی کبھی پوری ہوگی؟ کیا میری شہزادی کبھی گرم کپڑے پہن پائے گی، جسے سردی بہت لگتی ہے؟ کیا میرے آنگن کے یہ ننھے پھول کبھی تناور درخت بن پائیں گے؟ کیا کبھی اس ملک میں انہیں ایک بہتر زندگی میسر ہوگی؟ اس طرح کے انگنت سوالات، جس کا جواب دینا یقیناً ریاست کی ذمے داری ہے۔ لیکن افسوس کہ وفاق کے ساتھ ساتھ صوبائی ڈرامے باز حکومتیں بھی اس معاملے پر خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں۔
گل سبھی کے آنگن میں کھلتے ہیں، مگر پروان نصیبوں کے چڑھتے ہیں۔ عمران خان کی نگرانی میں قائم اس ریاست میں بھی یہی رواج قائم ہے کہ گل سبھی کے آنگن میں کھلیں گے مگر پروان صرف وہ گل ہوں گے جسے ریاست چاہے گی۔ ریاست اپنی منافقت سے بھری کفر کی حکومت قائم کرکے اسے ریاست مدینہ کا نام دے کر سمجھ رہی ہے کہ عوام بے وقوف ہیں۔ انہیں کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔ لیکن یہ بات ان کی سمجھ میں نہیں آرہی جو اپنی عیاشی میں خود کو خدا بنائے خدا کو ہی بھول بیٹھے ہیں۔
میر حسن کی خودکشی نہ پہلی تھی اور نہ ہی آخری ہوگی۔ یہ سلسلہ رکنے والا نہیں۔ اب بے کس و مجبوروں کو ایک آسرا مل چکا ہے کہ وہ ان تمام پریشانیوں سے چھٹکارے کےلیے خودکشی کا راستہ اپنائیں۔ لیکن یہ خودکشیاں کب تک ہوں گی؟ اس کا جواب کسی کے پاس نہیں۔
شاید وطن عزیز میں ابھی انقلاب کا آغاز نہیں ہوا۔ لیکن جب بھی ایسے عیاش پرست حکمرانوں کے خلاف کوئی تحریک شروع ہوئی وہ دن اس ملک میں انقلاب کی نوید لائے گا۔ اور اگر کوئی حکمران یہ سمجھ رہا ہے کہ میر حسن اور ان جیسوں کی خودکشی ایک معمولی واقعہ ہے تو وہ بھول رہے ہیں، جلد یا دیر ان کا وقت قریب آنے والا ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق 5 سال کے دوران کراچی میں 1300 سے زائد خودکشی کے واقعات رونما ہوچکے ہیں۔ یہ وہ ریکارڈ ہے جو سرکاری اسپتالوں اور تھانوں میں درج ہے۔ لیکن ایسے کئی واقعات ہیں جن کا کہیں اندراج نہیں، اور یہ ایک بہت بڑی تعداد ہے۔ عوام بہتر زندگی اور سہولیات کی فراہمی کےلیے ان کو اپنا مسیحا سمجھ کر ووٹ کے ذریعے انتخاب کرتے ہیں اور انہیں اپنے سر آنکھوں پر بٹھا کر اسمبلیوں تک پہنچاتے ہیں۔ لیکن یہ لوگ وہاں پہنچ کر اپنی اوقات بھول جاتے ہیں۔ اسمبلی تک آنے کےلیے جو اخراجات یہ لوگ ادا کرتے ہیں وہ سود سمیت واپس لیتے ہیں اور چلتے بنتے ہیں۔ اسمبلیوں میں اپنی مرضی کے قوانین بنانے اور عوام کو اپنی جوتی کی نوک پر بٹھانے کے سوا آج تک اس ملک میں کوئی کام ایمانداری سے نہیں کیا گیا۔
ہمارے حکمران سمجھتے ہیں آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع پوری قوم کا مسئلہ ہے، جسے حل کرکے وہ یہ سمجھتے ہیں کہ خیبر کا قلعہ فتح کرلیا ہے۔ لیکن درحقیقت یہ ان کا ذاتی مسئلہ ہے۔ آرمی چیف کی مدت ملازمت سے عوام کو کوئی لینا دینا نہیں۔ جب کوئی آمر حکومت کرتا ہے تو یہی لوگ کہتے ہیں فوج کا حکومت میں کیا کام؟ تو پھر ان کے ریٹائر ہونے اور نہ ہونے سے عوام کو کیا فرق پڑتا ہے۔ آرمی چیف نہ تو عوام کو بجٹ بناکر دیتا ہے اور نہ ہی عوام کو روزگار فراہم کرتا ہے۔ اس کا کام آئین نے متعین کیا ہوا ہے۔ یہ ڈرامے بازیاں صرف عوام کےلیے رکھی جاتی ہیں، جنہیں ان مسائل میں زبردستی جھونک کر اپنا الو سیدھا کیا جاتا ہے۔ یہ سب عوام کو ڈرانے اور نیچے دبانے کےلیے کیا جاتا ہے، تاکہ وہ سر نہ اٹھا سکیں۔
ریاست مدینہ کی بات کرنے اور اپنے ہر بیان میں کسی نہ کسی حدیث اور یورپ کا حوالہ دینے والے عمران خان نے بیان دیا ہے کہ ہماری سب سے بڑی کوشش ایران اور امریکا کے درمیان دوستی کرانا ہے۔ وزیراعظم کے اس بیان پر عوام جاننا چاہتے ہیں کہ اس سے پاکستان کے غریب عوام کو کیا فائدہ ہونے جارہا ہے؟ کیا اس سے مہنگائی کم ہوجائے گی؟ کیا ان کی دوستی سے بے روزگاروں کو روزگار ملنا شروع ہوجائے گا؟ کیا ان کی دوستی کے بعد عمران خان اس بات کی گارنٹی دیتے ہیں کہ ملک میں ہر طرف امن اور خوشحالی آجائے گی؟
ایسا ہرگز نہیں ہوگا۔ یہ سب اپنے اپنے مفادات کی جنگیں ہیں۔ کیا ان حکمرانوں کو یہ معلوم نہیں کہ امریکا اور ایران کسی وقت ایک دوسرے کے بہت بڑے اتحادی رہے ہیں۔ کیا یہ لوگ بھول گئے کہ ایران اور امریکا نے کن کن مراحل پر پاکستان کو دھوکا دیا؟ کیا انہیں یہ بات معلوم نہیں کہ کلبھوشن کہاں سے پکڑا گیا اور کس نے اس کی مدد کی؟ کیا ہمارے وزیراعظم کو یہ معلوم نہیں کہ ایران بھارت کا سب سے بڑا سپورٹر ہے؟
میر حسن کی موت کی ذمے دار ریاست ہے اور اس کے خلاف مقدمہ درج ہونا چاہیے۔ لیکن افسوس اسی بات کا ہے جس شخص کو ان ڈھونگیوں سے کچھ مل جاتا ہے وہ ان کے گن گانا شروع ہوجاتا ہے۔ ہر کوئی اپنے اپنے مفادات کی خاطر جی رہا ہے اور لڑ رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ہماری اس مفادات کی لڑائی کا فائدہ اٹھا کر ہم پر من پسند حکمرانی کررہے ہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کراچی کے علاقے ابراہیم حیدری کا تنگ دست و مجبور خاندان اپنے پیارے کو اسپتال لے کرگیا لیکن میر حسن کے اندر جینے کی تمام خواہشیں ختم ہوچکی تھیں۔ وہ اس جعلی ریاست مدینہ میں جینا ہی نہیں چاہتا تھا، وہ ایسی ڈھونگی سرکار کے آسرے پر مزید اپنے بچوں کے سامنے خود کو شرمندہ اور بے بس نہیں ہونے دینا چاہتا تھا۔ یہ وجہ موت کا بہانہ بن گئی جہاں ڈاکٹروں نے یہ کہہ کر میرحسن کی لاش اس کے پیاروں کے حوالے کردی کہ میرحسن زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسا ہے۔
میر حسن تو چلا گیا لیکن جاتے جاتے اپنے پیچھے کئی سوالات چھوڑ گیا۔ اس کا پہلا سوال یہ تھا کہ کیا یہ وہی ریاست مدینہ ہے جس کا عمران خان نیازی نے ہمیں خواب دکھایا تھا؟ کیا روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ لگانے والے مجھے روزگار نہیں دے سکتے تھے؟ کیا پاکستان کے عالیشان وزیراعظم ہاﺅس، قومی و صوبائی اسمبلیو ں میں بیٹھے امیر ترین لوگ مجھ جیسوں کےلیے آواز نہیں اٹھا سکتے؟ کیا اس ڈھونگی اور بوگس ریاست پر میری کوئی ذمے داری نہیں؟ میں نے تو سنا ہے کہ پاکستان زرخیز خطہ ہے، لیکن کیا میرے ملک میں اتنے وسائل بھی نہیں کہ وہ مجھ تک پہنچ سکتے؟ کیا ریاست آج اتنی تنگ دست ہوچکی ہے کہ اس کے پاس میرے جیسے لوگوں کےلیے خزانے میں کچھ نہیں بچا؟ کیا آج اسمبلی میں بیٹھے ڈھونگی حکمرانوں کے خزانے خالی ہوچکے ہیں؟ کیا میرے بچوں کی ایک ادنیٰ سی خواہش بھی کبھی پوری ہوگی؟ کیا میری شہزادی کبھی گرم کپڑے پہن پائے گی، جسے سردی بہت لگتی ہے؟ کیا میرے آنگن کے یہ ننھے پھول کبھی تناور درخت بن پائیں گے؟ کیا کبھی اس ملک میں انہیں ایک بہتر زندگی میسر ہوگی؟ اس طرح کے انگنت سوالات، جس کا جواب دینا یقیناً ریاست کی ذمے داری ہے۔ لیکن افسوس کہ وفاق کے ساتھ ساتھ صوبائی ڈرامے باز حکومتیں بھی اس معاملے پر خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں۔
گل سبھی کے آنگن میں کھلتے ہیں، مگر پروان نصیبوں کے چڑھتے ہیں۔ عمران خان کی نگرانی میں قائم اس ریاست میں بھی یہی رواج قائم ہے کہ گل سبھی کے آنگن میں کھلیں گے مگر پروان صرف وہ گل ہوں گے جسے ریاست چاہے گی۔ ریاست اپنی منافقت سے بھری کفر کی حکومت قائم کرکے اسے ریاست مدینہ کا نام دے کر سمجھ رہی ہے کہ عوام بے وقوف ہیں۔ انہیں کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔ لیکن یہ بات ان کی سمجھ میں نہیں آرہی جو اپنی عیاشی میں خود کو خدا بنائے خدا کو ہی بھول بیٹھے ہیں۔
میر حسن کی خودکشی نہ پہلی تھی اور نہ ہی آخری ہوگی۔ یہ سلسلہ رکنے والا نہیں۔ اب بے کس و مجبوروں کو ایک آسرا مل چکا ہے کہ وہ ان تمام پریشانیوں سے چھٹکارے کےلیے خودکشی کا راستہ اپنائیں۔ لیکن یہ خودکشیاں کب تک ہوں گی؟ اس کا جواب کسی کے پاس نہیں۔
شاید وطن عزیز میں ابھی انقلاب کا آغاز نہیں ہوا۔ لیکن جب بھی ایسے عیاش پرست حکمرانوں کے خلاف کوئی تحریک شروع ہوئی وہ دن اس ملک میں انقلاب کی نوید لائے گا۔ اور اگر کوئی حکمران یہ سمجھ رہا ہے کہ میر حسن اور ان جیسوں کی خودکشی ایک معمولی واقعہ ہے تو وہ بھول رہے ہیں، جلد یا دیر ان کا وقت قریب آنے والا ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق 5 سال کے دوران کراچی میں 1300 سے زائد خودکشی کے واقعات رونما ہوچکے ہیں۔ یہ وہ ریکارڈ ہے جو سرکاری اسپتالوں اور تھانوں میں درج ہے۔ لیکن ایسے کئی واقعات ہیں جن کا کہیں اندراج نہیں، اور یہ ایک بہت بڑی تعداد ہے۔ عوام بہتر زندگی اور سہولیات کی فراہمی کےلیے ان کو اپنا مسیحا سمجھ کر ووٹ کے ذریعے انتخاب کرتے ہیں اور انہیں اپنے سر آنکھوں پر بٹھا کر اسمبلیوں تک پہنچاتے ہیں۔ لیکن یہ لوگ وہاں پہنچ کر اپنی اوقات بھول جاتے ہیں۔ اسمبلی تک آنے کےلیے جو اخراجات یہ لوگ ادا کرتے ہیں وہ سود سمیت واپس لیتے ہیں اور چلتے بنتے ہیں۔ اسمبلیوں میں اپنی مرضی کے قوانین بنانے اور عوام کو اپنی جوتی کی نوک پر بٹھانے کے سوا آج تک اس ملک میں کوئی کام ایمانداری سے نہیں کیا گیا۔
ہمارے حکمران سمجھتے ہیں آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع پوری قوم کا مسئلہ ہے، جسے حل کرکے وہ یہ سمجھتے ہیں کہ خیبر کا قلعہ فتح کرلیا ہے۔ لیکن درحقیقت یہ ان کا ذاتی مسئلہ ہے۔ آرمی چیف کی مدت ملازمت سے عوام کو کوئی لینا دینا نہیں۔ جب کوئی آمر حکومت کرتا ہے تو یہی لوگ کہتے ہیں فوج کا حکومت میں کیا کام؟ تو پھر ان کے ریٹائر ہونے اور نہ ہونے سے عوام کو کیا فرق پڑتا ہے۔ آرمی چیف نہ تو عوام کو بجٹ بناکر دیتا ہے اور نہ ہی عوام کو روزگار فراہم کرتا ہے۔ اس کا کام آئین نے متعین کیا ہوا ہے۔ یہ ڈرامے بازیاں صرف عوام کےلیے رکھی جاتی ہیں، جنہیں ان مسائل میں زبردستی جھونک کر اپنا الو سیدھا کیا جاتا ہے۔ یہ سب عوام کو ڈرانے اور نیچے دبانے کےلیے کیا جاتا ہے، تاکہ وہ سر نہ اٹھا سکیں۔
ریاست مدینہ کی بات کرنے اور اپنے ہر بیان میں کسی نہ کسی حدیث اور یورپ کا حوالہ دینے والے عمران خان نے بیان دیا ہے کہ ہماری سب سے بڑی کوشش ایران اور امریکا کے درمیان دوستی کرانا ہے۔ وزیراعظم کے اس بیان پر عوام جاننا چاہتے ہیں کہ اس سے پاکستان کے غریب عوام کو کیا فائدہ ہونے جارہا ہے؟ کیا اس سے مہنگائی کم ہوجائے گی؟ کیا ان کی دوستی سے بے روزگاروں کو روزگار ملنا شروع ہوجائے گا؟ کیا ان کی دوستی کے بعد عمران خان اس بات کی گارنٹی دیتے ہیں کہ ملک میں ہر طرف امن اور خوشحالی آجائے گی؟
ایسا ہرگز نہیں ہوگا۔ یہ سب اپنے اپنے مفادات کی جنگیں ہیں۔ کیا ان حکمرانوں کو یہ معلوم نہیں کہ امریکا اور ایران کسی وقت ایک دوسرے کے بہت بڑے اتحادی رہے ہیں۔ کیا یہ لوگ بھول گئے کہ ایران اور امریکا نے کن کن مراحل پر پاکستان کو دھوکا دیا؟ کیا انہیں یہ بات معلوم نہیں کہ کلبھوشن کہاں سے پکڑا گیا اور کس نے اس کی مدد کی؟ کیا ہمارے وزیراعظم کو یہ معلوم نہیں کہ ایران بھارت کا سب سے بڑا سپورٹر ہے؟
میر حسن کی موت کی ذمے دار ریاست ہے اور اس کے خلاف مقدمہ درج ہونا چاہیے۔ لیکن افسوس اسی بات کا ہے جس شخص کو ان ڈھونگیوں سے کچھ مل جاتا ہے وہ ان کے گن گانا شروع ہوجاتا ہے۔ ہر کوئی اپنے اپنے مفادات کی خاطر جی رہا ہے اور لڑ رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ہماری اس مفادات کی لڑائی کا فائدہ اٹھا کر ہم پر من پسند حکمرانی کررہے ہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔