یہ راز بھی تاشقند کا راز نہ بنائیں
الیکشن ہو بھی گئے تو کون آئے گا، یہی لوگ پھر سے موجود ہوں گے، میرے اور آپ کے مفادات کی خریدوفروخت کے لیے۔
ایک تھا تاشقند کا راز جو اس راز کے بانی اپنے سینے میں لے کر چلے گئے، اب ان کی پارٹی کا دوسرا راز ان کے ایک وزیر کی زبانی پتہ چلا کہ یہ راز جناب زرداری کے پاس محفوظ ہے اور صرف وہی جانتے ہیں کہ الیکشن کب ہوں گے، اب دیکھتے ہیں اس راز کے ساتھ کیا ہوتا ہے، ویسے پاکستان کے آئین نے ہمیں یہی بتایا ہے کہ جب کسی اسمبلی کی میعاد ختم ہو گئی ہو تو اس کی جگہ نئی اسمبلی منتخب کی جائے گی۔
موجودہ اسمبلی کی جائز میعاد کا دم لبوں پر ہے اور کسی بھی وقت نئے الیکشن کا اعلان ہو سکتا ہے۔ اس اعلان میں کسی کا کوئی اختیار نہیں ہے یہ ایک آئینی مقدر ہے لیکن معلوم ہوا کہ آئین ہو یا کچھ اور اصل مقدر وہ ہے جو صدر پاکستان جناب آصف زرداری لکھیں گے۔ اور اس کی اطلاع ہمیں ان کے ایک وزیر چوہدری احمد مختار نے دی ہے۔ گجرات میں ان سے پوچھا گیا کہ الیکشن کب ہوں گے تو انھوں نے حتمی مختصر جواب دیا کہ جب صدر زرداری چاہیں گے۔
چوہدری احمد مختار پیپلز پارٹی کے پہلے وزیر ہیں جنہوں نے سچ بولا ہے اور تمام اختیارات ان کو دینے کا اعلان کیا ہے جن کے پاس یہ پہلے سے موجود ہیں بلکہ یوں کہیں کہ انھوں نے قوم کا سب سے بڑا مسئلہ یوں حل کر دیا ہے کہ اس کو یہ اطلاع دی ہے کہ الیکشن کب ہوں گے، کون ان کے انعقاد کی اجازت دے گا اور دے گا بھی یا نہیں۔ یہ سب معاملات فی الوقت صیغہ راز میں ہیں اور یہ راز جناب زرداری کے سینے میں محفوظ ہے، لاتعداد دوسرے رازوں کی طرح۔ میں جو ایک سیاسی کالم نگار ہوں اور خبروں کی تلاش میں رہتا ہوں کیونکہ میری روزی انھی خبروں پر منحصر ہے اس لیے میں نے ایک صاحب کشف سے رجوع کیا اور ادھر ادھر کی باتوں کے بعد برسر مطلب آتے ہوئے ان سے دریافت کیا کہ آپ ذرا زرداری صاحب کے سینہ میں جھانک کر بتائیں کہ الیکشن کب ہوں گے لیکن انھوں نے بھی بات ٹال دی اور کہا کہ نہ آپ انتخابی امیدوار نہ میں، چھوڑیں ان باتوں کو۔
الیکشن ہو بھی گئے تو کون آئے گا، یہی لوگ پھر سے موجود ہوں گے، میرے اور آپ کے مفادات کی خریدوفروخت کے لیے۔ الیکشن سے آپ کیا توقع رکھتے ہیں۔ میں جب اپنے سینے میں سر جھکا کر دیکھتا ہوں تو مجھے وہاں اپنے سیاستدانوں کا ایک ہجوم دکھائی دیتا ہے جو ایک دستر خوان پر جمع ہوتے ہیں۔ یقین جانیں ان میں کوئی بھی اپوزیشن میں نہیں ہے۔ اس بزرگ نے پھر تکلف برطرف کے انداز میں غیر سیاسی گفتگو شروع کر دی اور کہنے لگے میں ایک عام پاکستانی کی طرح عرض کرتا ہوں کہ اگر ملک میں کوئی اپوزیشن ہوتی تو کیا یہ حکومت اپنی مدت اس طرح طمطراق کے ساتھ پوری کرتی۔
کون سا دکھ ہے جو قوم کو نہیں دیا گیا لیکن جب کوئی لیڈر نہ ہو تو قوم بس ایک ہجوم ہے روتا پیٹتا ہوا۔ میں نے عرض کیا کہ گستاخی معاف میرا بالکل ان پڑھ باورچی کہہ رہا تھا کہ یہ حکومت ہمیں تڑپا تڑپا کر مار دے گی۔ یہ صاف ستھری بات انسانی دانش کا کمال ہے جس میں کوئی ملاوٹ نہیں ہے ،کوئی سیاست نہیں بس حالات کا ایک کھردرا سا تجزیہ ہے۔
اس سب کے باوجود قوم نے الیکشن سے امیدیں باندھ رکھی ہیں اور غلط نہیں ہیں، مجھے یہاں شیخ سعدی کا ایک شعر یاد آتا ہے کہ یہ گمان مت کرو کہ یہ جنگل خالی ہے، تمہیں کیا معلوم کہ ادھر سے اٹھنے والی گرد میں سے کوئی شہ سوار برآمد ہو۔ قوم کسی ایسے ہی شہ سوار کے انتظار میں ہے لیکن افسوس کہ ایک عربی محاورے کے مطابق انتظار موت سے زیادہ سخت ہوتا ہے لیکن موت جیسی اس زندگی میں انتظار کے نام سے ایک موت اور سہی۔ بے پناہ بلکہ ناقابل برداشت مسائل اور مصائب کے باوجود عوام کا عملاً پُرامن احتجاج قوم کی حب الوطنی ہے، اسے ڈر ہے کہ چاروں طرف سے دشمن اسے جھانک رہے ہیں۔
امریکا نے بھارت کو خوب شہ دے کر ہمارے سر پر بٹھا دیا ہے۔ میں گزشتہ دنوں 'نام' کانفرنس کے بعد بھارتی وزیر اعظم کی پاکستان کے بارے میں گفتگو سن رہا تھا، ان کے الفاظ اس قدر توہین آمیز تھے اور وہ کرخت انداز میں پاکستان سے وضاحتیں طلب کر رہے تھے کہ شکر ہے میں اس پریس کانفرنس میں موجود نہ تھا۔ پاکستان جیسا بھی ہے اب اس پر سمجھوتہ کرنے کی ہمت نہیں پڑتی ہے۔ میں نے آخری بڑی پریس کانفرنس سابق صدر پرویز مشرف کی دیکھی تھی۔ اس میں شامل تھا اور اس میں ان سے ڈاکٹر قدیر خان کے سوال پر تو تو میں میں بھی ہو گئی لیکن صدر مشرف کا حوصلہ کہ وہ سب پی گئے۔
صدر بھی پاکستانی تھے ڈاکٹر قدیر بھی پاکستانی لیکن پھر بھی بات بڑھ گئی۔ بہرحال عرض یہ تھی کہ آپ بھی پاکستان کے مفاد اور اس کی عزت پر سودا بازی نہ کیا کریں۔ ہمارے ہاں سے ہجوم در ہجوم پارلیمانی لیڈروں کے قافلے واہگہ پار بھاگے جا رہے ہیں اور مجھے معلوم ہے کہ وہ بھارت میں کیا کہتے ہیں اور بھارتی ان کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔ جب وہ امن کی باتیں کر کے سفر شروع کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ طبل جنگ بجا کر جائیں مگر سوال یہ ہے کہ ایسی کیا مصیبت ہے کہ وہ یہ سفر اختیار کریں سوائے امریکی خوشنودی کے جو بھارت کی شکل میں برصغیر پر چھائی چلی جا رہی ہے۔
بات الیکشن سے شروع ہوئی تھی زرداری صاحب کی خدمت میں عرض ہے کہ وہ مہربانی کر کے اپنے سینے میں دفن اس راز کو قوم کے حوالے کر دیں اور بتا دیں کہ الیکشن کب ہوں گے۔ یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ حالات جس سیاسی بلکہ اب تو فرقہ وارانہ انتشار سے گزر رہے ہیں، مجھے ان حالات کی موجودگی میں الیکشن دکھائی نہیں دیتے خصوصاً اس صورت میں کہ الیکشن ہمارے بچائو کا ذریعہ ہیں اور بھارت کو ہمارا بچائو منظور نہیں ہے اور جو بھارت کو منظور نہیں وہ ہمیں بھی منظور نہیں، ہم نے اقتدار سنبھالتے ہی کہا تھا کہ ہر پاکستانی کے دل کے کسی حصے میں ایک بھارتی موجود ہے،
ایسے ہی ہر بھارتی کے دل میں ایک پاکستانی بھی موجود ہے تو اس طرح جناب جب بھارتی اور پاکستانی دل ایک ہیں تو اختلاف کس بات کس لیے مگر بھارت کو گئے گزرے پاکستان سے بھی خطرہ ہے کہ یہ گہری نیند اور کمزوری کے باوجود کروٹ نہ بدل لے۔