ایران امریکا تنازعہ پاکستان غیرجانبدار رہے

پاکستان غیروں کی جنگ میں شامل ہوکر پہلے ہی ناقابل تلافی نقصان اٹھا چکا ہے

حکومت کا ایران امریکا جنگ میں غیرجانبداری کا فیصلہ مستحسن ہے۔ (فوٹو: فائل)

گزشتہ چند روز سے ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کے قتل کے بعد مشرق وسطیٰ میں حالات نہایت کشیدہ ہیں۔ خطے میں ہر وقت جنگ کے بادل منڈلا رہے ہیں۔ عوام میں خوف و ہراس پایا جاتا ہے کہ کسی وقت کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ جنرل سلیمانی کی ہلاکت کے بعد ایرانی عوام میں انتقام کا جذبہ شدت اختیار کرگیا۔ جس کو ٹھنڈا کرنے کےلیے ضروری تھا کہ ایرانی قیادت ایسے اقدامات کرے جن سے عوام کے غصے کو کچھ کم کیا جاسکے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایرانی قیادت بلکہ پوری دنیا کو معلوم ہے کہ اس وقت ایران امریکا سے ٹکر لینے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ ''لڑاؤ اور حکومت کرو'' کی پالیسی کی کامیابی کی یہ بھی ایک بہت بڑی مثال ہے کہ امریکا نے ایران اور دیگر اسلامی ممالک کے درمیان دراڑیں ڈال دیں، جنہوں نے ان ممالک کو ایک دوسرے سے متنفر کردیا۔ ایسے ہی بھارت کی قربت اور بلوچستان میں سرحدوں پر دہشتگردوں کی نقل و حرکت کے علاوہ سرحد پار سے حملوں اور شیعہ سنی اختلافات کی وجہ سے پاکستان میں بھی ایران کے بارے میں شدید تحفظات پائے جاتے ہیں۔ ان تمام حالات نے ایران کو اسلامی دنیا میں تنہا کردیا۔ ایسے میں ایرانی حکومت کسی بڑی مہم جوئی سے گریز کررہی ہے۔

اب ایرانی حکومت نے عراق میں امریکا کے فوجی اڈوں پر میزائل حملے کیے اور ان حملوں میں یہ بات بطور خاص مدنظر رکھی گئی کہ اس میں امریکا کا نقصان کم سے کم ہو۔ تاکہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔ یعنی امریکا اشتعال میں آکر ایران پر حملہ بھی نہ کرے اور اپنے عوام کو بھی مطمئن کیا جاسکے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ ایرانی قیادت کا ایک اچھا فیصلہ تھا۔ اس لیے کہ جب انہیں معلوم ہے کہ امریکا کے ساتھ ٹکر لینا ان کے بس میں نہیں ہے تو پھر کیوں ایسا غیر ذمے دارانہ قدم اٹھایا جائے جس کی وجہ سے ان کا ملک کھنڈر بن جائے۔ امریکا کے مادی وسائل کے مقابلے میں ایران کے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔ اس کے علاوہ امریکا کو نیٹو ممالک کے علاوہ چند مسلم ممالک کی حمایت بھی حاصل ہے۔ جبکہ ایران کو اسلامی ممالک کی بھی پوری طرح حمایت حاصل نہیں ہے۔ اس لیے انہوں نے تحمل کا مظاہرہ کیا اور خطے کو جنگ سے اور اپنے ملک کو تباہی سے بچالیا۔

پہلے امریکا نے ایرانی جنرل کی ہلاکت پر یہ الزام عائد کیا کہ وہ امریکا کے خلاف خطرہ تھا۔ اب یوکرائن کے طیارے کی تباہی پر ایران پر یہ الزام عائد کردیا گیا ہے کہ یہ طیارہ ایرانی میزائل سے تباہ ہوا ہے۔ اس الزام سے ایک نئی بحث کا آغاز ہوچکا ہے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ جنگ کے خواہشمند ہیں اور کسی ادارے سے مشورہ کیے بغیر ایران پر جنگ مسلط کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن امریکا کے سنجیدہ حلقوں میں ٹرمپ کے خلاف غصہ پایا جاتا ہے۔ ان میں سے چند ایک نے ٹرمپ کی پالیسیوں کے خلاف احتجاج بھی کیا۔ امریکی ایوان نمائندگان میں ٹرمپ کے ایران کے خلاف جنگ کرنے کے اختیارات کو محدود کرنے کی قرارداد کو کثرت رائے سے منظور کرلیا گیا ہے۔ اس قرارداد کے مطابق ایران کے ساتھ کسی بھی تنازع کی صورت میں عسکری کارروائی کےلیے کانگریس کی منظوری ضروری ہوگی۔ اس سے صرف وہ صورت مستثنیٰ ہوگی جب امریکا کو کسی ناگزیر حملے کا سامنا ہو۔ لیکن سبھی کو معلوم ہے کہ ایران کی طرف سے امریکا کو ایسے کسی حملے کا خطرہ نہیں ہے۔ صدر ٹرمپ نے جب حالات کو اپنے مخالف ہوتا دیکھا تو ان کا لہجہ کچھ تبدیل ہوگیا ہے۔ اب وہ ایران سے مذاکرات پر بھی آمادگی ظاہر کررہے ہیں اور طیارے پر میزائل داغنے کے الزام کی بھی نرم لہجے میں وضاحت کررہے ہیں کہ ایران سے ایسا غلطی سے ہوا ہے۔ اس کی بڑی وجہ رواں سال نومبر میں امریکا کے صدارتی انتخابات ہیں۔ صدر ٹرمپ نے انتخابی مہم میں یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ امریکا کو طویل جنگوں سے نکالیں گے۔ اس لیے اگر وہ ایران پر جنگ مسلط کرتے ہیں تو عوام ان کے مزید خلاف ہوجائیں گے کہ افغانستان سے فوجی انخلا میں ناکامی کے ساتھ ایران پر حملے کی صورت میں امریکا کو ایک نئی جنگ میں دھکیل دیا۔ اس خدشے کے پیش نظر ڈونلڈ ٹرمپ ایران پر حملے سے گریزاں ہیں۔


اس تمام تر صورت حال میں پاکستانی قیادت کو یہ بیانات دینے کی ضرورت پیش آرہی ہے کہ پاکستان کسی نئی جنگ کا حصہ نہیں بنے گا یا ہم اپنی سرزمین کسی کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے۔ ان بیانات کی ضرورت کیوں محسوس ہورہی ہے، اس کی وجہ ظاہر ہے کہ اگر امریکا کو ایران پر حملہ کرنا پڑتا ہے جس کے امکانات اب نہایت محدود ہوچکے ہیں، تو وہ یقینی طور پر پاکستان سے بھی معاونت طلب کرے گا اور وہ معاونت اس کے سوا کچھ نہیں ہو گی کہ ہم انہیں ایران پر حملے میں آسانی کےلیے اپنی سرزمین استعمال کرنے کی اجازت دیں۔ پاکستان اپنی سرزمین دوسروں کو اونے پونے داموں دے کر بھاری نقصان اٹھانے کے حوالے سے کافی تجربہ بھی رکھتا ہے۔ لہٰذا ایک بار پھر پاکستان سے اس بات کا مطالبہ ہوسکتا ہے۔ اس لیے پاکستانی حکومت نے پہلے ہی اپنے بیانات کے ذریعے خبردار کرنا شروع کردیا ہے کہ اب ہم اپنی سرزمین پر یہ ظلم برداشت نہیں کریں گے۔ پاکستان پہلے ہی افغانستان کی اسلامی حکومت کو گرا کر بہت بڑا نقصان اٹھا چکا ہے۔ اس جنگ میں شرکت سے انکار کی صورت میں امریکا نے پاکستان کو کھنڈر بنانے کی دھمکی دی تھی، لیکن اس جنگ میں شرکت کرکے پاکستان اس سے بھی زیادہ تباہی سے دوچار ہوا۔ جانی نقصان الگ ہوا، شدید معاشی نقصان کا علیحدہ سامنا کرنا پڑا اور سب سے بڑھ کر جو ایمانی نقصان ہوا اس کی تلافی کبھی ممکن نہیں ہے۔ امریکا نے اس جنگ میں ہونے والے نقصان کی تلافی کےلیے پاکستان کو جو امداد دی، وہ آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ہے۔ اس کے بدلے پاکستان پر طرح طرح کے الزامات اور پابندیاں عائد کیں۔ یعنی امریکا کی اس جنگ میں پاکستان نے سراسر نقصان اٹھایا۔

اب پاکستانی قیادت کو اس غلطی کا احساس ہوگیا ہے۔ اس لیے حکومت نے امریکا کو پہلے ہی سے خبردار کردیا ہے کہ پاکستان سے ایسی کسی امداد کی توقع نہ کی جائے، جس سے پاکستان کو پہلے کی طرح نقصان اٹھانا پڑے۔ یہ پاکستانی قیادت کا نہایت مستحسن فیصلہ ہے جو انہوں نے ملکی مفاد کےلیے کیا ہے کہ اس جنگ میں غیر جانبداری کا مظاہرہ کرنا ہے۔ اگرچہ اس جنگ کے امکانات بہت کم ہیں لیکن مستقبل کےلیے ہمیشہ یہی پالیسی رہنی چاہیے۔ ہاں اگر تمام یا اکثر اسلامی ممالک اتحاد قائم کرکے کسی ظالم طاقت کے خلاف مشترکہ جہاد کا اعلان کریں تو اس صورت میں اسلامی ممالک کا ساتھ دینا ضروری ہے۔ لیکن موجودہ حالات میں جبکہ امت کا شیرازہ بکھرا ہوا ہے، بظاہر ایسا ہونا محال معلوم ہوتا ہے۔ لیکن اگر ایسا ہو بھی جاتا ہے تو امت کے وسیع تر مفاد کےلیے ایسی مہم جوئی میں حصہ لیا جاسکتا ہے لیکن کسی ایسے ملک کےلیے جس نے ہمیں پہلے بہت نقصان پہنچایا ہو، اس کے مفاد کی خاطر ہمیں ہرگز کسی جنگ میں حصہ نہیں لینا چاہیے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story