کراچی میں رینجرز ہیڈ کوارٹرز پر حملے کے ملزمان کا ایک سال بعد بھی سراغ نہ ملا

حملہ خود کش تھا لیکن جب گاڑی کا ریکارڈ چیک کیا گیا تو کوئی معلومات حاصل نہیں ہوسکی ، پولیس

نارتھ ناظم آباد بلاکB میں رینجرز ہیڈکواٹرز پر 8 نومبر 2012 کو خودکش حملے میں3 اہلکار جاں بحق21 زخمی ہوگئے تھے۔ فوٹو: فائل

نارتھ ناظم آباد میں رینجرز ہیڈ کوارٹرز پرحملے کو ایک برس بیت گیا ، تفتیشی اداروں نے حملے میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ملوث ہونے کا کہہ کر جان چھڑالی۔

ملوث ملزمان اور ماسٹر مائنڈ گرفتار نہیں کیے جاسکے، تفصیلات کے مطابق8 نومبر 2012 کو نارتھ ناظم آباد بلاکB میں سچل رینجرز کے ہیڈکوارٹرز پر صبح 6 بج کر 55 منٹ پر منی ٹرک کے ذریعے خود کش حملہ کیا گیا ، حملے کے نتیجے میں3 رینجرز اہلکار جاں بحق جبکہ21 زخمی ہو گئے تھے ، رینجرز کے 3اہلکاروں میں عبدالرزاق اور عمران ولی عباسی شہید اسپتال جبکہ خالد محمود پی این ایس شفا میں جاں بحق ہوگئے تھے ، لانس نائک خالد محمود کا تعلق ٹوبہ ٹیک سنگھ ، سپاہی عبدالرزاق کا تعلق عمر کوٹ اور سپاہی عبدالرزاق کا تعلق گلگت بلتستان سے تھا ، بم دھماکا اتنا شدید تھا کہ ہیڈکوارٹرز کے قریب عمارتوں ، فیکٹریوں اور گھروں کی کھڑکیاں ٹوٹ گئیں جبکہ عمارت میں آگ بھی بھڑک اٹھی تھی، ہیڈ کوارٹرز کے ساتھ بنی ہوئی چوکیاں مکمل طور پر تباہ جبکہ عمارت کا کچھ حصہ منہدم ہوگیا تھا۔

واقعے کے بعد حسب روایت مقدمہ درج کرکے اعلیٰ سطح کی تحقیقاتی کمیٹیاں تشکیل دے دی گئیں لیکن واقعے کو ایک برس بیت جانے کے باوجود اب تک واقعے میں ملوث ملزمان اور ماسٹر مائنڈ گرفتار نہیں کیا جاسکا ، تفتیشی اداروں نے حملے کو خود کش قرار دیا اور کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ملوث ہونے کا کہہ کر جان چھڑا لی ، حملے میں استعمال کیے جانے والے ٹرک کے انجن نمبر اور چیسز نمبر مل گئے تھے جسکے بعد پولیس اور دیگر تفتیشی اداروں نے تحقیقات کا دائرہ مزید وسیع کیا تو حیرت انگیز انکشافات ہوئے ، تفتیش کے دوران معلوم ہوا کہ پولیس کو جائے وقوعہ پر ملنے والے ٹرک سے جو انجن نمبر اور چیسز نمبر حاصل ہوئے تھے اس نمبر کا حامل اصل ٹرک حب میں اس کے مالک کے پاس موجود ہے ، اس کا ٹرک کبھی چوری ہوا اور نہ ہی کسی تخریبی کارروائی میں استعمال ہوا تھا۔




اس سلسلے میں ایکسپریس کے رابطہ کرنے پر سی آئی ڈی افسر مظہر مشوانی نے بتایا کہ حملہ چونکہ خود کش تھا لہٰذا ملزم تو گرفتار نہیں کیا جاسکتا ، انھوں نے واقعے میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ملوث ہونے کی تصدیق کی اور کہا کہ تحریک طالبان سیکیورٹی فورسز کو نشانہ بنانے کی روایت پر عمل کیا ، سی آئی ڈی نے حملے کی انتھک تفتیش کی لیکن کوئی اہم ملزم گرفتار نہیں کیا جاسکا ، انھوں نے مزید بتایا کہ ٹرک کے مالک اور ٹرک کے اصل حالت میں اس کے پاس موجودگی کے حوالے سے بھی اس سے تفتیش کی گئی لیکن کوئی ٹھوس معلومات سامنے نہیں آسکی۔

اس کا مطلب یہ تھا کہ ملزمان نے ٹرک پر جعلی نمبرز پنچ کیے تھے ، مظہر مشوانی کا کہنا تھا کہ چونکہ حملہ خود کش تھا لہٰذا خود کش حملہ آور تو مرگیا لیکن اس کا جب ریکارڈ چیک کیا گیا تو کوئی معلومات حاصل نہیں ہوسکی ، ایک سوال کے جواب میں مظہر مشوانی نے بتایا کہ واقعے میں ملوث تحریک طالبان کے گروپ کی نشاندہی نہیں ہوسکی ، یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ جس وقت رینجرز ہیڈکوارٹرز پرحملہ کیا گیا اس دوران سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں بدامنی سمیت کراچی سے متعلق مختلف مقدمات کی سماعت بھی جاری تھی ، ان مقدمات کی سماعت کے دوران قانون نافذکرنے والے ادارے شہر میں امن قائم کرنے اور جرائم پیشہ افراد کی گرفتاری کے حوالے سے اپنی کارکردگی کی رپورٹس پیش کرتے رہے لیکن یہ تمام کارکردگیاں محض کاغذی ہی رہیں۔
Load Next Story