آیندہ الیکشن یا مشق رائیگاں
ہماری ہمیشہ سے یہ بدنصیبی رہی ہے کہ انتخابات کے نتائج متنازعہ ہی رہے ہیں جن میں ضمنی انتخابات بھی شامل ہیں
جسٹس (ریٹائرڈ) فخر الدین جی ابراہیم کی بہ حیثیت چیف الیکشن کمشنر تقرری ملک و قوم کے مستقبل کے لیے یقیناً ایک نیک شگون ہے۔ موصوف کی ذات با صفات کسی بھی قسم کے شکوک وشبہات سے قطعی بالاتر ہے۔ چناں چہ اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں ہے کہ حزب اقتدار اور حزب اختلاف دونوں ہی ان پر یکساں بھرپور اور غیر متزلزل اعتماد کا اظہار کیا ہے۔
بہ قول شاعر:
ایسا بھی کوئی ہو کہ سب اچھا کہیں جسے
ان کا شمار عدلیہ کے ان تابناک ستاروں میں ہوتا ہے جن کی اصول پسندی اور دیانت داری کا پاکستان کا بچہ بچہ گواہ اور معترف ہے۔ پاکستانی قوم کو سو فیصد یقین ہے کہ وہ اس آخری اور سب سے کڑے امتحان میں پوری طرح سرخ رو ہوں گے کیوں کہ بزبان اقبال ان کا طرہ امتیاز ہی یہ ہے کہ :
میں زہر ہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکا قند
وہ ایسی شخصیت ہیں کہ جو نہ جھک سکتی ہے اور نہ بک سکتی ہے ۔ ایمان داری اور غیر جانب داری ان کے خون میں رچی بسی ہوئی ہے۔ حب الوطنی اور جمہوریت پسندی ان کے خمیر میں شامل ہے۔ ان کا ماضی بالکل بے داغ اور آئینے کی طرح سے صاف و شفاف ہے۔ پیرانہ سالی کے آخری مرحلے میں محض ملک و قوم کی خاطر چیف الیکشن کمشنر کا منصب سنبھال کر گویا انھوں نے عزت سادات کو دائو پر لگادیا ہے۔
قطعی غیر جانب داری اور مکمل دیانت داری کے ساتھ عام انتخابات کا اہتمام اور انتظام جان جوکھوں کا کام ہے۔ اس عظیم قومی فریضے کی ادائیگی تلوار کی دھار اور تنی ہوئی رسی پر ثابت قدمی کے ساتھ چلنے کے عین مترادف ہے۔ اس انتہائی نازک ذمے داری ہے ۔ کامیابی کے ساتھ عہدہ براہ ہونے کے لیے انھیں اپنا ہر قدم پھونک پھونک کر رکھنا ہوگا۔
پاکستان جیسے ملک میں جہاں بات بات پر پگڑی اچھالنے کا چلن عام ہو اس قسم کی ذمے داری قبول کرنا ''آ بیل مجھے مار'' کی کہاوت کے مترادف ہے مگر اب جب کہ فخر قوم نے یہ خطرناک ذمے داری ملک و قوم کے وسیع تر مفاد اور جمہوری نظام کے تسلسل کو برقرار رکھنے کی خاطر سنبھال ہی لی ہے تو سب کی یہ دعا اور خواہش ہونی ضروری ہے کہ موصوف اﷲ تعالیٰ کے فضل و کرم سے کامیابی و کامرانی کی ایک روشن مثال قائم کریں۔
اسی کے ساتھ ساتھ فخرو بھائی سے ہماری بہ دست بستہ گزارش بھی ہے کہ وہ ''پہلے تولیں اور اس کے بعد بولیں۔'' والی بزرگوں کی نصیحت کا ہمیشہ خیال رکھیں۔ اس پس منظر میں ہمیں ان کے دو حالیہ ارشادات کا حوالہ دینا ضروری محسوس ہوتا ہے۔ مثلاً سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے زیر اہتمام عید ملن کے فنکشن کے اختتام پر اخبار نویسوں سے گفتگو کے دوران انھوں نے فرمایا کہ ''آیندہ انتخابات ملک میں تبدیلی لانے کا آخری موقع ہے۔'' انھوں نے مزید بھی فرمایا کہ ''لوگ اب بھی غلط باتوں پر نہ بولے تو غلط کام جاری رہیں گے۔'' ان کلمات کی نزاکت اور صداقت بجا لیکن مناسب یہی تھا کہ فخرو بھائی اس قسم کی گفتگو سے اجتناب کرتے کیوں کہ نصیحت یا تلقین ان کی نیک نیتی اور حب الوطنی سے قطع نظر کسی پوشیدہ اشارے یا کنائے کے زمرے میں آسکتی ہے یا اسے ''جو نقش کہن تم کو نظر آئے مٹادو'' سے تعبیر کیا جاسکتا ہے جو کہ ان کے بے لاگ منصب کے شایان شان نہیں ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ساڑھے چار سال کے دوران جمہوری دور حکمرانی نے ماضی کی آمریت کو بھی شرمسار کردیا ہے اور غریب عوام کو کپڑا اور مکان تو کجا روزی روٹی کے بھی لالے پڑے ہوئے ہیں مگر چیف الیکشن کمشنر کے یہ شعورانہ الفاظ ان کی غیر جانب داری کو خواہ مخواہ مجروح یا مشکوک کرسکتے ہیں سچی اور کھری بات یہ ہے کہ چیف الیکشن کمشنر کو یہ اختیار ہرگز حاصل نہیں ہے کہ وہ حکومت وقت یا کسی اور سیاسی قوت کے خلاف عوام کو انقلاب یا تبدیلی لانے کی ترغیب دیں۔ انھیں ہرحال میں انھی غیر جانب داری کا تحفظ و دفاع کرنا ہوگا اور سب کو یہ باور کرانا ہوگا کہ وہ ہر ایک کو ایک ہی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
ہماری ہمیشہ سے یہ بدنصیبی رہی ہے کہ انتخابات کے نتائج متنازعہ ہی رہے ہیں جن میں ضمنی انتخابات بھی شامل ہیں جب کہ ہمارے انتہائی قریبی پڑوسی ملک بھارت کا معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے۔ ہمارے ملک کی کل آبادی 18کروڑ ہے جب کہ بھارت میں رائے دہندگان کی کل تعداد 80کروڑ کے لگ بھگ ہے مگر وہاں کا سہ رکنی الیکشن کمیشن انتخابات کا انعقاد اس عمدگی سے کراتا ہے کہ کس نگراں سیٹ اپ کے بغیر بھی پورا انتخابی عمل قطعی طور پر غیر متنازعہ ہی رہتا ہے۔ اس سے بھی بڑی بات یہ ہے کہ وہاں کسی جج کو چیف الیکشن کمیشن کا سربراہ نہیں بنایا گیا یہ مشکل ترین کام محض ایک بیورو کریٹ اتنی غیر جانب داری اور وسیع تجربے کی بنیاد پر نہایت خوش اسلوبی کے ساتھ انجام دیتا چلا آرہا ہے۔
چیف الیکشن کمشنر کا یہ کہنا بالکل بجا ہے کہ جہاں بیلٹ نہیں ہوگا وہاں بلیٹ ہوگی۔ یہ حقیقت دنیا کے درجنوں ممالک کی مثالوں سے آشکارہ ہے۔ اس کے علاوہ چیف الیکشن کمشنر کا یہ عزم صمیم بھی نہایت لائق تحسین ہے کہ وہ آیندہ عام انتخابات کو یقینی طور پر جانب داری سے پاک اور انتہائی شفاف بنائیں گے۔ بلاشبہ پاکستان کی بقا سلامتی اور ترقی کا انحصار اسی پر ہے کہ عام انتخابات قطعی غیر جانب دارانہ اور انتہائی صاف شفاف ہوں۔ معاشروں کو بدامنی اور انارکی سے بچانے کا بہترین طریقہ یہی ہے۔ عوام بالکل آزادی اور قطعی غیر جانب داری کے ساتھ کسی قسم کے خوف اور لالچ کے بغیر اپنا حق رائے دہی ملک و قوم کی فلاح کی خاطر استعمال کریں اور ایسی قیادت کو منتخب کریں جو ملک و قوم کی ڈوبتی ہوئی نیا کو حالات کے بھنور سے نکال کر کامیابی و ترقی کی شاہراہ پر گامزن کردے۔
اس تلخ حقیقت سے بھی کسی کو انکار نہیں کہ وطن عزیز اپنی 65سالہ تاریخ کے نازک ترین دور سے گزر رہا ہے۔ انتشار و خلفشار اپنے نقطہ عروج پر ہے۔ نہ کسی کی جان محفوظ ہے آور مال و عزت و آبرو ۔ عوام دشمن اشرافیہ نے پوری قوم کو صوبائی، لسانی اور فرقہ وارانہ بنیادوں پر تقسیم در تقسیم کرکے رکھ دیا ہے۔ پرانے شکاری نئے جال لے کر آرہے ہیں اور نئے شکاری اپنی ڈفلیوں پر اپنے اپنے راگ الاپ رہے ہیں۔
گزشتہ ساڑھے چار سالہ ناقص پالیسیوں نے ملکی معیشت کو اس حد تک تباہ و برباد کردیا ہے کہ بیرونی اداروں کے علاوہ بینک دولت پاکستان ، وزیر خزانہ حتیٰ کہ وزیر اعظم تک کو یہ اعتراف کرنا پڑا ہے کہ ملک کی اقتصادی صورت حال نہایت خراب اور دگرگوں ہے۔
ادھر وطن عزیز اس وقت سنگین ترین اندرونی اور بیرونی خطرات سے دوچار ہے۔ لاقانونیت، کرپشن، لوٹ مار، دہشت گردی، مہنگائی، بے روزگاری، لوڈشیڈنگ اور ٹارگٹ کلنگ کا بازار گرم ہے۔ اخلاقیات سے عاری سیاسی رہنما ذاتیات پر اتر کرایک دوسرے کی پگڑیاں اچھالنے اور ٹانگیں کھینچنے میں مصروف ہیں اور شرافت منہ چھپائے ہوئے پھررہی ہے۔ ہر ایک کو اپنے ذاتی اور گروہی مفادات کی فکر لاحق ہے اور سب کے سب اپنی اپنی بندوقیں عوام کے کندھوں پر رکھ رکھ کر چلانے میں مصروف ہیں۔ حکمران پارٹی کے جیالے تمام اخلاقی حدود کو پھلانگ چکے ہیں اور ان کی توپوں کا رخ عدلیہ کی جانب ہے۔ دوسری جانب پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا پر ایسے لوگوں نے تسلط حاصل کرلیا ہے جن کا صحافت سے دور پرے کا بھی کوئی واسطہ نہیں ہے اور موقع پرستی اور مفاد پرستی جن کا مقصد اور شعار ہے قصہ مختصر پاکستان کے تمام بحرانوں کا حل آزادانہ، غیر جانب دارانہ، منصفانہ اور شفاف عام انتخابات میں مضمر نظرآتا ہے جو کہ ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔
ہمیں امید ہے کہ آیندہ انتخابات جلد یا بہ دیر ضرور ہوں گے۔ ہمیں یہ بھی توقع ہے کہ موجودہ چیف الیکشن کمشنر ان انتخابات کے آزادانہ غیر جانب دارانہ اور منصفانہ انعقاد کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگادیں گے مگر قرائن یہ بتا رہے ہیں کہ ان انتخابات کے بعد بھی ہمارے سیاسی ڈھانچے میں کوئی انقلابی تبدیلی نہیں آئے گی بلکہ ایک لٹکی ہوئی (hung) پارلیمانی پارٹی معرض وجود میں آئے گی جس کے نتیجے میں خدانخواستہ عام انتخابات کی حیثیت ایک مشق رائیگاں جیسی ہوگی مگر ہم درج ذیل شعر کے حوالے سے الیکشن کے حق میں ہیں:
آواز دے کے دیکھ لو شاید وہ مل ہی جائے
ورنہ یہ زندگی سفر رائیگاں تو ہے
آئیے! ملک و قوم کے مفاد کی خاطر اجتماعی طور پر یہ دعا کریں کہ یہ انتخابات بار آور اور turning point ثابت ہو (آمین!)
بہ قول شاعر:
ایسا بھی کوئی ہو کہ سب اچھا کہیں جسے
ان کا شمار عدلیہ کے ان تابناک ستاروں میں ہوتا ہے جن کی اصول پسندی اور دیانت داری کا پاکستان کا بچہ بچہ گواہ اور معترف ہے۔ پاکستانی قوم کو سو فیصد یقین ہے کہ وہ اس آخری اور سب سے کڑے امتحان میں پوری طرح سرخ رو ہوں گے کیوں کہ بزبان اقبال ان کا طرہ امتیاز ہی یہ ہے کہ :
میں زہر ہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکا قند
وہ ایسی شخصیت ہیں کہ جو نہ جھک سکتی ہے اور نہ بک سکتی ہے ۔ ایمان داری اور غیر جانب داری ان کے خون میں رچی بسی ہوئی ہے۔ حب الوطنی اور جمہوریت پسندی ان کے خمیر میں شامل ہے۔ ان کا ماضی بالکل بے داغ اور آئینے کی طرح سے صاف و شفاف ہے۔ پیرانہ سالی کے آخری مرحلے میں محض ملک و قوم کی خاطر چیف الیکشن کمشنر کا منصب سنبھال کر گویا انھوں نے عزت سادات کو دائو پر لگادیا ہے۔
قطعی غیر جانب داری اور مکمل دیانت داری کے ساتھ عام انتخابات کا اہتمام اور انتظام جان جوکھوں کا کام ہے۔ اس عظیم قومی فریضے کی ادائیگی تلوار کی دھار اور تنی ہوئی رسی پر ثابت قدمی کے ساتھ چلنے کے عین مترادف ہے۔ اس انتہائی نازک ذمے داری ہے ۔ کامیابی کے ساتھ عہدہ براہ ہونے کے لیے انھیں اپنا ہر قدم پھونک پھونک کر رکھنا ہوگا۔
پاکستان جیسے ملک میں جہاں بات بات پر پگڑی اچھالنے کا چلن عام ہو اس قسم کی ذمے داری قبول کرنا ''آ بیل مجھے مار'' کی کہاوت کے مترادف ہے مگر اب جب کہ فخر قوم نے یہ خطرناک ذمے داری ملک و قوم کے وسیع تر مفاد اور جمہوری نظام کے تسلسل کو برقرار رکھنے کی خاطر سنبھال ہی لی ہے تو سب کی یہ دعا اور خواہش ہونی ضروری ہے کہ موصوف اﷲ تعالیٰ کے فضل و کرم سے کامیابی و کامرانی کی ایک روشن مثال قائم کریں۔
اسی کے ساتھ ساتھ فخرو بھائی سے ہماری بہ دست بستہ گزارش بھی ہے کہ وہ ''پہلے تولیں اور اس کے بعد بولیں۔'' والی بزرگوں کی نصیحت کا ہمیشہ خیال رکھیں۔ اس پس منظر میں ہمیں ان کے دو حالیہ ارشادات کا حوالہ دینا ضروری محسوس ہوتا ہے۔ مثلاً سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے زیر اہتمام عید ملن کے فنکشن کے اختتام پر اخبار نویسوں سے گفتگو کے دوران انھوں نے فرمایا کہ ''آیندہ انتخابات ملک میں تبدیلی لانے کا آخری موقع ہے۔'' انھوں نے مزید بھی فرمایا کہ ''لوگ اب بھی غلط باتوں پر نہ بولے تو غلط کام جاری رہیں گے۔'' ان کلمات کی نزاکت اور صداقت بجا لیکن مناسب یہی تھا کہ فخرو بھائی اس قسم کی گفتگو سے اجتناب کرتے کیوں کہ نصیحت یا تلقین ان کی نیک نیتی اور حب الوطنی سے قطع نظر کسی پوشیدہ اشارے یا کنائے کے زمرے میں آسکتی ہے یا اسے ''جو نقش کہن تم کو نظر آئے مٹادو'' سے تعبیر کیا جاسکتا ہے جو کہ ان کے بے لاگ منصب کے شایان شان نہیں ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ساڑھے چار سال کے دوران جمہوری دور حکمرانی نے ماضی کی آمریت کو بھی شرمسار کردیا ہے اور غریب عوام کو کپڑا اور مکان تو کجا روزی روٹی کے بھی لالے پڑے ہوئے ہیں مگر چیف الیکشن کمشنر کے یہ شعورانہ الفاظ ان کی غیر جانب داری کو خواہ مخواہ مجروح یا مشکوک کرسکتے ہیں سچی اور کھری بات یہ ہے کہ چیف الیکشن کمشنر کو یہ اختیار ہرگز حاصل نہیں ہے کہ وہ حکومت وقت یا کسی اور سیاسی قوت کے خلاف عوام کو انقلاب یا تبدیلی لانے کی ترغیب دیں۔ انھیں ہرحال میں انھی غیر جانب داری کا تحفظ و دفاع کرنا ہوگا اور سب کو یہ باور کرانا ہوگا کہ وہ ہر ایک کو ایک ہی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
ہماری ہمیشہ سے یہ بدنصیبی رہی ہے کہ انتخابات کے نتائج متنازعہ ہی رہے ہیں جن میں ضمنی انتخابات بھی شامل ہیں جب کہ ہمارے انتہائی قریبی پڑوسی ملک بھارت کا معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے۔ ہمارے ملک کی کل آبادی 18کروڑ ہے جب کہ بھارت میں رائے دہندگان کی کل تعداد 80کروڑ کے لگ بھگ ہے مگر وہاں کا سہ رکنی الیکشن کمیشن انتخابات کا انعقاد اس عمدگی سے کراتا ہے کہ کس نگراں سیٹ اپ کے بغیر بھی پورا انتخابی عمل قطعی طور پر غیر متنازعہ ہی رہتا ہے۔ اس سے بھی بڑی بات یہ ہے کہ وہاں کسی جج کو چیف الیکشن کمیشن کا سربراہ نہیں بنایا گیا یہ مشکل ترین کام محض ایک بیورو کریٹ اتنی غیر جانب داری اور وسیع تجربے کی بنیاد پر نہایت خوش اسلوبی کے ساتھ انجام دیتا چلا آرہا ہے۔
چیف الیکشن کمشنر کا یہ کہنا بالکل بجا ہے کہ جہاں بیلٹ نہیں ہوگا وہاں بلیٹ ہوگی۔ یہ حقیقت دنیا کے درجنوں ممالک کی مثالوں سے آشکارہ ہے۔ اس کے علاوہ چیف الیکشن کمشنر کا یہ عزم صمیم بھی نہایت لائق تحسین ہے کہ وہ آیندہ عام انتخابات کو یقینی طور پر جانب داری سے پاک اور انتہائی شفاف بنائیں گے۔ بلاشبہ پاکستان کی بقا سلامتی اور ترقی کا انحصار اسی پر ہے کہ عام انتخابات قطعی غیر جانب دارانہ اور انتہائی صاف شفاف ہوں۔ معاشروں کو بدامنی اور انارکی سے بچانے کا بہترین طریقہ یہی ہے۔ عوام بالکل آزادی اور قطعی غیر جانب داری کے ساتھ کسی قسم کے خوف اور لالچ کے بغیر اپنا حق رائے دہی ملک و قوم کی فلاح کی خاطر استعمال کریں اور ایسی قیادت کو منتخب کریں جو ملک و قوم کی ڈوبتی ہوئی نیا کو حالات کے بھنور سے نکال کر کامیابی و ترقی کی شاہراہ پر گامزن کردے۔
اس تلخ حقیقت سے بھی کسی کو انکار نہیں کہ وطن عزیز اپنی 65سالہ تاریخ کے نازک ترین دور سے گزر رہا ہے۔ انتشار و خلفشار اپنے نقطہ عروج پر ہے۔ نہ کسی کی جان محفوظ ہے آور مال و عزت و آبرو ۔ عوام دشمن اشرافیہ نے پوری قوم کو صوبائی، لسانی اور فرقہ وارانہ بنیادوں پر تقسیم در تقسیم کرکے رکھ دیا ہے۔ پرانے شکاری نئے جال لے کر آرہے ہیں اور نئے شکاری اپنی ڈفلیوں پر اپنے اپنے راگ الاپ رہے ہیں۔
گزشتہ ساڑھے چار سالہ ناقص پالیسیوں نے ملکی معیشت کو اس حد تک تباہ و برباد کردیا ہے کہ بیرونی اداروں کے علاوہ بینک دولت پاکستان ، وزیر خزانہ حتیٰ کہ وزیر اعظم تک کو یہ اعتراف کرنا پڑا ہے کہ ملک کی اقتصادی صورت حال نہایت خراب اور دگرگوں ہے۔
ادھر وطن عزیز اس وقت سنگین ترین اندرونی اور بیرونی خطرات سے دوچار ہے۔ لاقانونیت، کرپشن، لوٹ مار، دہشت گردی، مہنگائی، بے روزگاری، لوڈشیڈنگ اور ٹارگٹ کلنگ کا بازار گرم ہے۔ اخلاقیات سے عاری سیاسی رہنما ذاتیات پر اتر کرایک دوسرے کی پگڑیاں اچھالنے اور ٹانگیں کھینچنے میں مصروف ہیں اور شرافت منہ چھپائے ہوئے پھررہی ہے۔ ہر ایک کو اپنے ذاتی اور گروہی مفادات کی فکر لاحق ہے اور سب کے سب اپنی اپنی بندوقیں عوام کے کندھوں پر رکھ رکھ کر چلانے میں مصروف ہیں۔ حکمران پارٹی کے جیالے تمام اخلاقی حدود کو پھلانگ چکے ہیں اور ان کی توپوں کا رخ عدلیہ کی جانب ہے۔ دوسری جانب پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا پر ایسے لوگوں نے تسلط حاصل کرلیا ہے جن کا صحافت سے دور پرے کا بھی کوئی واسطہ نہیں ہے اور موقع پرستی اور مفاد پرستی جن کا مقصد اور شعار ہے قصہ مختصر پاکستان کے تمام بحرانوں کا حل آزادانہ، غیر جانب دارانہ، منصفانہ اور شفاف عام انتخابات میں مضمر نظرآتا ہے جو کہ ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔
ہمیں امید ہے کہ آیندہ انتخابات جلد یا بہ دیر ضرور ہوں گے۔ ہمیں یہ بھی توقع ہے کہ موجودہ چیف الیکشن کمشنر ان انتخابات کے آزادانہ غیر جانب دارانہ اور منصفانہ انعقاد کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگادیں گے مگر قرائن یہ بتا رہے ہیں کہ ان انتخابات کے بعد بھی ہمارے سیاسی ڈھانچے میں کوئی انقلابی تبدیلی نہیں آئے گی بلکہ ایک لٹکی ہوئی (hung) پارلیمانی پارٹی معرض وجود میں آئے گی جس کے نتیجے میں خدانخواستہ عام انتخابات کی حیثیت ایک مشق رائیگاں جیسی ہوگی مگر ہم درج ذیل شعر کے حوالے سے الیکشن کے حق میں ہیں:
آواز دے کے دیکھ لو شاید وہ مل ہی جائے
ورنہ یہ زندگی سفر رائیگاں تو ہے
آئیے! ملک و قوم کے مفاد کی خاطر اجتماعی طور پر یہ دعا کریں کہ یہ انتخابات بار آور اور turning point ثابت ہو (آمین!)