عوام کا مجرم
اگر آپ دنیا پر نظر ڈالیں تو آپ کو ٹرمپ کے ڈسے ہوئے کئی ملک نظر آئیں گے۔
جنرل قاسم سلیمانی اور ان کے ساتھیوں کے قتل کے بعد یقینا ٹرمپ کا سیروں خون بڑھا ہوگا۔ ہو سکتا ہے اس بہادری پر ٹرمپ حکومت پھولی نہ سمائی ہو لیکن ٹرمپ کا ضمیر اگر زندہ ہو تو وہ تلملا رہا ہوگا اور شرم سے سرنگوں ہوگا کہ دنیا کی سب سے بڑی سپرپاور نے ایک چھوٹے سے کمزور ملک کے جنرل کو 7 ساتھیوں کے ساتھ قتل کرکے نہ کوئی کارنامہ انجام دیا نہ بہادری کا مظاہرہ کیا۔
بلاشبہ اس امریکی حرکت کا جواب دینے کی ایران میں سکت نہیں ہے، اگر ایران نے اپنے سربراہ کے مطابق امریکا کی فوجی تنصیبات پر حملے کیے بھی تو امریکا اس کے جواب میں اور سخت کارروائی کرسکتا ہے جس کا کوئی پرسان حال نہ ہوگا۔
ایرانی صدر روحانی نے کسی جوابی فوجی کارروائی کے اعلان کے بجائے یہ کہا ہے کہ اس قضیہ کا منطقی اور حتمی حل یہ ہے کہ امریکا مشرق وسطیٰ سے نکل جائے۔ بلاشبہ اس مثبت اور بامعنی حل کے سوا دوسرے حل اشک شوئی کی حیثیت رکھتے ہیں جب تک خطے میں امریکا رہے گا لازماً شیطانی ہوتی رہے گی۔ اس حقیقت کے پیش نظر اس خطے کا منطقی حل یہی ہو سکتا ہے کہ امریکا اپنی بہادر افواج کے ساتھ اس خطے سے نکل جائے، جب خطے میں امریکا نہیں ہوگا تو ظاہر ہے کہ شیطانیت بھی نہیں ہوگی عوام سکھ کا سانس لیں گے۔
امریکا نے ازراہ کرم کویت سے اپنی تمام مسلح افواج واپس بلانے کا اعلان کیا ہے اور کویتی حکومت نے اس ممکنہ واپسی کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ آیندہ تین دنوں کے اندر امریکی فوج کویت سے نکل جائے گی جو ایک بامعنی اور مثبت قدم ہوگا۔ لیکن اس حوالے سے المیہ یہ ہے کہ چونکہ عرب ملکوں میں شخصی اور خاندانی حکمرانیاں ہیں اور شخصی اور خاندانی حکمرانیاں عوامی حمایت سے محروم ہوتی ہیں اور امریکا نے چونکہ ان شخصی اور خاندانی حکمرانوں کے تحفظ کا ذمے لے رکھا ہے لہٰذا وہ اس بہانے خطے میں رہنے کی کوشش کرے گا۔
یہ عربوں کی اجتماعی بدقسمتی ہے کہ ان کے ملکوں میں وہ نام نہاد اشرافیائی جمہوریت بھی نہیں جو پچھلے دس سال تک پاکستان کا مقدر بنی رہی تھی۔ اس المیے کی وجہ امریکا عرب شیوخ اور بادشاہوں کے تحفظ کے نام پر خطے میں رہ سکتا ہے۔ بلاشبہ پسماندہ ملکوں کو سامراج سے نجات حاصل کرنا چاہیے لیکن جب تک دیسی سامراج عرب عوام کے سروں پر مسلط رہے گا، پردیسی سامراج کو قدم جمائے رکھنے کا جواز اور بہانہ ملا رہے گا۔ اس بدنما حقیقت کا تقاضا ہے کہ عرب عوام پہلے شخصی اور خاندانی حکمرانیوں سے نجات حاصل کرنے کی کوشش کریں اگرچہ یہ ایک انتہائی مشکل کام ہے۔
اسرائیل اور اس کا مائی باپ امریکا ایران کے سخت دشمن ہیں اور یہ دشمنی عشروں پر پھیلی ہوئی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس خطے میں ایران ہی ایک ایسا ملک ہے جس کو اسرائیل بھی اپنے لیے خطرہ سمجھتا ہے اور امریکا کو بھی ایران ہی سے تشویش لاحق رہتی ہے۔ رہے عرب ممالک سو وہ امریکا کے پینل پر ہیں، ان سے نہ اسرائیل کو کوئی خطرہ لاحق ہے نہ امریکا کو کسی قسم کی کوئی تشویش لاحق ہے۔ اس پورے خطے میں ایران وہ واحد ملک ہے جو اسرائیل اور سامراجی ملکوں کے نشانے پر ہے۔
ایران یقینا امریکا کے مقابلے میں ایک چھوٹا ملک ہے اور عملاً اس کے لیے امریکا سے مقابلہ کرنا یا جنگ کرنا ممکن نہیں لیکن ایران نے عراق میں موجود ان اڈوں پر کئی حملے کیے جہاں امریکی فوجی تعینات ہیں ۔
اخباری اطلاعات کے مطابق ایران کے میزائل حملوں میں امریکی فوج کا کوئی جانی نقصان بھی ہو، لیکن امریکا کا صدر ان حملوں اور نقصان کو جھٹلاتا ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ ٹرمپ ایرانی حکومت کو یہ آفر بھی کر رہا ہے کہ وہ ایران کے ساتھ مل کر خطے میں امن کی بحالی کے لیے تیار ہے۔ واہ! کیا فراخدلی ہے کہ ایک طرف وہ ایران کے نامور جنرلوں کو قتل کروا رہا ہے اور دوسری طرف ایرانی حکومت کو آفر کر رہا ہے کہ وہ ایران کے ساتھ مل کر خطے میں امن کی بحالی کے لیے کام کرنے کے لیے تیار ہے۔ کیا اس قسم کی آفر سے ایران کا اعتماد بحال ہو جائے گا؟
مسئلہ یہ ہے کہ ٹرمپ فطرتاً انسانی خون کا پیاسا حکمران ہے اگر آپ دنیا پر نظر ڈالیں تو آپ کو ٹرمپ کے ڈسے ہوئے کئی ملک نظر آئیں گے۔ شمالی کوریا ان میں سے ایک ہے جو ٹرمپ کے نشانے پر ہے۔ ٹرمپ ایران اور شمالی کوریا سے کہتا ہے کہ وہ ایٹمی ہتھیار بنانے سے باز رہیں، دوسری طرف وہ شمالی کوریا کا تحفظ کرتا ہے جو ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ہے، اسی طرح وہ ایک طرف ایران کو تڑی دیتا ہے کہ وہ کسی قیمت پر ایران کو ایٹمی ملک نہیں بننے دے گا تو دوسری طرف ایران کے دشمن اسرائیل کا معہ اس کے ایٹمی ہتھیاروں کے تحفظ کرتا ہے۔اس دوغلی پالیسی کی وجہ ٹرمپ دنیا کے عوام میں جس قدر ناپسندیدہ حکمران ہے اس قدر بدنام حکمران امریکی تاریخ میں نہیں گزرے ہیں۔
افغانستان کو امریکا کی طرف سے جتنا نقصان پہنچا ہے، شاید کسی ملک کو اتنا نقصان نہیں پہنچا یہاں بھی وہ ایک طرف افغانستان سے امن مذاکرات کرتا دکھائی دیتا ہے تو دوسری طرف طالبان کے نام پر افغانیوں کا قتل عام کرتا دکھائی دیتا ہے۔ آج یعنی 10 جنوری 2020 کی ایک خبر کے مطابق افغانستان کے مشہور شہر ہرات میں امریکی ڈرون حملوں سے 40 شہری اور 35 طالبان جاں بحق ہوئے ہیں۔ طالبان امریکا کی نظر میں دہشت گرد ہیں، لیکن طالبان کے ساتھ جو 40 افغانی عوام مارے گئے ان کا کیا قصور تھا؟ ٹرمپ کے دور میں اس قسم کے جرائم عام رہے ہیں۔ کیا 40 افغانی عوام کے خون ناحق کا ذمے دار ٹرمپ نہیں ہے؟ دنیا کب تک آنکھیں بند کیے بیٹھی رہے گی؟
بلاشبہ اس امریکی حرکت کا جواب دینے کی ایران میں سکت نہیں ہے، اگر ایران نے اپنے سربراہ کے مطابق امریکا کی فوجی تنصیبات پر حملے کیے بھی تو امریکا اس کے جواب میں اور سخت کارروائی کرسکتا ہے جس کا کوئی پرسان حال نہ ہوگا۔
ایرانی صدر روحانی نے کسی جوابی فوجی کارروائی کے اعلان کے بجائے یہ کہا ہے کہ اس قضیہ کا منطقی اور حتمی حل یہ ہے کہ امریکا مشرق وسطیٰ سے نکل جائے۔ بلاشبہ اس مثبت اور بامعنی حل کے سوا دوسرے حل اشک شوئی کی حیثیت رکھتے ہیں جب تک خطے میں امریکا رہے گا لازماً شیطانی ہوتی رہے گی۔ اس حقیقت کے پیش نظر اس خطے کا منطقی حل یہی ہو سکتا ہے کہ امریکا اپنی بہادر افواج کے ساتھ اس خطے سے نکل جائے، جب خطے میں امریکا نہیں ہوگا تو ظاہر ہے کہ شیطانیت بھی نہیں ہوگی عوام سکھ کا سانس لیں گے۔
امریکا نے ازراہ کرم کویت سے اپنی تمام مسلح افواج واپس بلانے کا اعلان کیا ہے اور کویتی حکومت نے اس ممکنہ واپسی کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ آیندہ تین دنوں کے اندر امریکی فوج کویت سے نکل جائے گی جو ایک بامعنی اور مثبت قدم ہوگا۔ لیکن اس حوالے سے المیہ یہ ہے کہ چونکہ عرب ملکوں میں شخصی اور خاندانی حکمرانیاں ہیں اور شخصی اور خاندانی حکمرانیاں عوامی حمایت سے محروم ہوتی ہیں اور امریکا نے چونکہ ان شخصی اور خاندانی حکمرانوں کے تحفظ کا ذمے لے رکھا ہے لہٰذا وہ اس بہانے خطے میں رہنے کی کوشش کرے گا۔
یہ عربوں کی اجتماعی بدقسمتی ہے کہ ان کے ملکوں میں وہ نام نہاد اشرافیائی جمہوریت بھی نہیں جو پچھلے دس سال تک پاکستان کا مقدر بنی رہی تھی۔ اس المیے کی وجہ امریکا عرب شیوخ اور بادشاہوں کے تحفظ کے نام پر خطے میں رہ سکتا ہے۔ بلاشبہ پسماندہ ملکوں کو سامراج سے نجات حاصل کرنا چاہیے لیکن جب تک دیسی سامراج عرب عوام کے سروں پر مسلط رہے گا، پردیسی سامراج کو قدم جمائے رکھنے کا جواز اور بہانہ ملا رہے گا۔ اس بدنما حقیقت کا تقاضا ہے کہ عرب عوام پہلے شخصی اور خاندانی حکمرانیوں سے نجات حاصل کرنے کی کوشش کریں اگرچہ یہ ایک انتہائی مشکل کام ہے۔
اسرائیل اور اس کا مائی باپ امریکا ایران کے سخت دشمن ہیں اور یہ دشمنی عشروں پر پھیلی ہوئی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس خطے میں ایران ہی ایک ایسا ملک ہے جس کو اسرائیل بھی اپنے لیے خطرہ سمجھتا ہے اور امریکا کو بھی ایران ہی سے تشویش لاحق رہتی ہے۔ رہے عرب ممالک سو وہ امریکا کے پینل پر ہیں، ان سے نہ اسرائیل کو کوئی خطرہ لاحق ہے نہ امریکا کو کسی قسم کی کوئی تشویش لاحق ہے۔ اس پورے خطے میں ایران وہ واحد ملک ہے جو اسرائیل اور سامراجی ملکوں کے نشانے پر ہے۔
ایران یقینا امریکا کے مقابلے میں ایک چھوٹا ملک ہے اور عملاً اس کے لیے امریکا سے مقابلہ کرنا یا جنگ کرنا ممکن نہیں لیکن ایران نے عراق میں موجود ان اڈوں پر کئی حملے کیے جہاں امریکی فوجی تعینات ہیں ۔
اخباری اطلاعات کے مطابق ایران کے میزائل حملوں میں امریکی فوج کا کوئی جانی نقصان بھی ہو، لیکن امریکا کا صدر ان حملوں اور نقصان کو جھٹلاتا ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ ٹرمپ ایرانی حکومت کو یہ آفر بھی کر رہا ہے کہ وہ ایران کے ساتھ مل کر خطے میں امن کی بحالی کے لیے تیار ہے۔ واہ! کیا فراخدلی ہے کہ ایک طرف وہ ایران کے نامور جنرلوں کو قتل کروا رہا ہے اور دوسری طرف ایرانی حکومت کو آفر کر رہا ہے کہ وہ ایران کے ساتھ مل کر خطے میں امن کی بحالی کے لیے کام کرنے کے لیے تیار ہے۔ کیا اس قسم کی آفر سے ایران کا اعتماد بحال ہو جائے گا؟
مسئلہ یہ ہے کہ ٹرمپ فطرتاً انسانی خون کا پیاسا حکمران ہے اگر آپ دنیا پر نظر ڈالیں تو آپ کو ٹرمپ کے ڈسے ہوئے کئی ملک نظر آئیں گے۔ شمالی کوریا ان میں سے ایک ہے جو ٹرمپ کے نشانے پر ہے۔ ٹرمپ ایران اور شمالی کوریا سے کہتا ہے کہ وہ ایٹمی ہتھیار بنانے سے باز رہیں، دوسری طرف وہ شمالی کوریا کا تحفظ کرتا ہے جو ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ہے، اسی طرح وہ ایک طرف ایران کو تڑی دیتا ہے کہ وہ کسی قیمت پر ایران کو ایٹمی ملک نہیں بننے دے گا تو دوسری طرف ایران کے دشمن اسرائیل کا معہ اس کے ایٹمی ہتھیاروں کے تحفظ کرتا ہے۔اس دوغلی پالیسی کی وجہ ٹرمپ دنیا کے عوام میں جس قدر ناپسندیدہ حکمران ہے اس قدر بدنام حکمران امریکی تاریخ میں نہیں گزرے ہیں۔
افغانستان کو امریکا کی طرف سے جتنا نقصان پہنچا ہے، شاید کسی ملک کو اتنا نقصان نہیں پہنچا یہاں بھی وہ ایک طرف افغانستان سے امن مذاکرات کرتا دکھائی دیتا ہے تو دوسری طرف طالبان کے نام پر افغانیوں کا قتل عام کرتا دکھائی دیتا ہے۔ آج یعنی 10 جنوری 2020 کی ایک خبر کے مطابق افغانستان کے مشہور شہر ہرات میں امریکی ڈرون حملوں سے 40 شہری اور 35 طالبان جاں بحق ہوئے ہیں۔ طالبان امریکا کی نظر میں دہشت گرد ہیں، لیکن طالبان کے ساتھ جو 40 افغانی عوام مارے گئے ان کا کیا قصور تھا؟ ٹرمپ کے دور میں اس قسم کے جرائم عام رہے ہیں۔ کیا 40 افغانی عوام کے خون ناحق کا ذمے دار ٹرمپ نہیں ہے؟ دنیا کب تک آنکھیں بند کیے بیٹھی رہے گی؟