کیا پدی اور کیا پدی کا شوربا
ہم اُس فیصلے پر چاہے کتنی ہی تنقید کر لیں لیکن دیکھا جائے تو ہمارے پاس اِس کے سوا کوئی چارہ بھی نہ تھا۔
پچھلے دنوں ملک کے اندر اور بیرونِ ملک چند ایسے اہم واقعات ہوئے جن پر تبصرہ کیے بنا چین نہیں آ رہا تھا۔ اِن میں سب سے اہم ایران اور امریکا کے مابین کشیدہ صورتحال جو ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کی اچانک اور ناگہانی ہلاکت کے بعد سامنے آئی۔
امریکا کی جانب سے اُس کی ذمے داری قبول کرنا اور بعد ازاں ایرانی حکومت اور اُس کے عوام کی جانب سے شدید رد عمل کا آنا ایک ایسا واقعہ اور سانحہ ہے جس کے اثرات یقینا ہماری زمین پر پڑنے تھے اور ہم اُس سے بچ بھی نہیں سکتے تھے۔
لہذا ہمارے لوگوں کی طرف سے خدشات کا اظہار ایک یقینی اور فطری عمل تھا۔ ملک بھر کے دانشور اور تبصرہ نگار مسلسل کئی روز تک ٹی وی ٹاک شوز میں اِس واقعہ پر اظہار خیال کرتے رہے اور اِس معاملے میں ملک کو در پیش خطرات سے بھی متنبہ کرتے رہے، مگر حیرت انگیز طور پر ہمارے ملک کے جواں سال دکھائی دینے والے وزیر اعظم کئی روز تک خاموش رہے۔ ایک ہفتہ گذر جانے کے بعد اُن کا پہلا بیان جو آیا وہ یہ تھا کہ ہم اب کسی کی جنگ میں حصہ نہیں بنیں گے ۔
جی ہونا تو یہی چاہیے ۔ جنرل پرویز مشرف سے 2001ء میں نائن الیون کے بعد امریکی صدر نے فون کر کے دوستی اور ساتھ نبھانے کا حکم صادر کیا تو کیا جنرل مشرف اُس سے انکار کر سکے۔ پتھروں کے دور میں بھیجے جانے کی دھمکی کے بعد ہمارے ملک کا کونسا حکمراں ، حکم برداری اور اُس پر عمل درآمد سے انکار کرنے کی جرأت کرسکتا تھا۔ مشرف کے بقول اُنہوں نے ملکی اور قومی مفاد میں اُس دہشت گردی کی عالمی جنگ میںنہ صرف حصہ لینے بلکہ اُس کا ہراول دستہ بننے کا فیصلہ کیا۔ اُنہوں نے اکیلے ہی رچرڈ آرمٹیج کی اِک فون کال پر یہ عظیم الشان تاریخی فیصلہ کر ڈالا۔
ہم اُس فیصلے پر چاہے کتنی ہی تنقید کر لیں لیکن دیکھا جائے تو ہمارے پاس اِس کے سوا کوئی چارہ بھی نہ تھا۔ امریکا کو افغانستان پر چڑھائی کرنے کے لیے زمینی اور فضائی راستہ درکار تھا۔ ہم اگر اُس وقت انکارکر دیتے تو وہ کوئی دوسرا بندوبست تو ضرور کر لیتا لیکن افغانستان کے ساتھ ساتھ ہمارا بھی ستیاناس کر دیتا۔کہنے والے کہتے ہیں کہ افغانستان کے پاس ایسا کچھ بھی نہیں تھا جسے بچانے کے لیے وہ کچھ تگ و دوکرتے لیکن ہمارے یہاں تو امریکی بمباری کا نشانہ بننے کے لیے بہت کچھ موجود تھا۔
خود ہماری قوم اُس تباہی کی متحمل نہیں ہو سکتی تھی۔ ہم اُس جنگ کے بالواسطہ طور پر پڑنے والے اثرات کا خمیازہ دس سالوں تک بھگتتے رہے ہیں تو اگر براہ راست امریکی دشمنی کا نشانہ بن جاتے تو کیا حال ہوتا۔ لہذا جنرل پرویز مشرف نے اپنی دانست میں اُس مشکل وقت میں جو فیصلہ کیا وہ شاید ہمارے ملک اور ہماری قوم کے لیے بہتر اور مناسب تھا۔
ہم آج بھی اِس پوزیشن میں نہیں ہیں کہ امریکا کے کسی حکم کی اطاعت اور تابعداری سے انکار کرسکیں۔ ہم میں تو اتنی بھی سکت اور جرأت نہیں ہے کہ ہم سعودی حکمرانوں کو اپنے کسی فیصلے سے خفا اور ناراض کرسکیں۔ سب کچھ جانتے ہوئے کہ بھارت اور کشمیر کے معاملے میں سعودی عرب اور یو اے ای کا مؤقف ہمیشہ کیا اور کیسا رہا ہے لیکن ہم پھر بھی اپنے اُن دوستوں سے تو منہ پھیر لیتے ہیں جنہوں نے کشمیر ایشو پر ہمارا کھل کر ساتھ دیا ہو لیکن سعودی عرب اور متحدہ عرب امارت سے شکوہ بھی نہیں کرسکتے۔ جب ہماری یہ حالت ہو تو وزیر اعظم کی جانب سے یہ دعویٰ عجیب و غریب معلوم ہوتا ہے کہ ہم آیندہ کسی دوسرے کی جنگ کا حصہ نہیں بنیں گے۔
قوم کو پورا یقین ہے کہ اگر ایسا کوئی مشکل مرحلہ ایک بار پھر ہمارے حکمرانوں کے سامنے آکھڑا ہوا تو ملکی اور قومی مفاد میں وہ اِس سے ضرور یو ٹرن لے لیں گے۔ ویسے بھی خان صاحب کی نظر میں یو ٹرن لینے والا شخص بہت بڑا لیڈر ہوا کرتا ہے۔ حالات و واقعات کی سنگینی کے پیش نظر یو ٹرن لینا ویسے بھی کوئی غیر مناسب بات سمجھی نہیں جائے گی اورقوم خان صاحب کو یقینا اُس کی اجازت بھی دے دیں گی۔ اِس لیے یہ دعویٰ کرنا کہ ہم آیندہ کسی دوسرے کی جنگ کا حصہ نہیں بنیں گے، ہمارے دل و دماغ کوکچھ وارے نہیںکھا رہا۔ ماضی قریب میں اُنہوں نے کیسے کیسے بڑے بڑے دعوے کیے تھے اور کتنی جلد ہی اُن سے منحرف بھی ہوگئے وہ سب ہماری قوم کے سامنے ہے۔ اب تو یہ حال ہے کہ حکمران جتنا زیادہ اعتماد سے کوئی بات کرتے ہیں قوم اُس پر اتنا ہی کم اعتبار کرتی ہے۔
حکمران قیادت نے جوش خطابت میں پچھلے دنوں یہ ارشاد بھی فرما دیا کہ میں نے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سے کہہ دیا ہے کہ جاؤ ایران اور امریکا کا دورہ کر کے دونوں کے درمیان دوستی اور مفاہمت کراؤ۔ ابھی اقتدار سنبھالے تھوڑا ہی سا عرصہ گذرا ہے اور وہ اِس قابل بھی ہوگئے کہ امریکا اور ایران کے بیچ صلح کروانے کا سوچنے لگے اور اِس کام کے لیے وہ حکم بھی دے رہے ہیں ۔
واہ کیا زمانہ آگیا ہے کہ ہماری آنکھوں کو یقین ہی نہیں ہو رہا۔ حکمران واقعی اتنے طاقتور اور با اختیار ہوچکے ہیں۔ اپوزیشن کو صبح و شام لتاڑنے اور این آر او نہ دینے کا کہنے والا شخص اپنی آنکھوں کے سامنے سب کو ریلیف ملتا دیکھ رہا ہو اورکچھ کربھی نہ سکتا ہو اُسے کم ازکم ابھی تو اپنی حیثیت کا صحیح اندازہ ہوجانا چاہیے اور ایسے بلند بانگ دعوؤں سے پرہیزکرنا چاہیے ۔ میاں نواز شریف کو اپنے ہاتھوں سے بیرون ملک جانے کی اجازت دے کر بعد ازاں میڈیکل رپورٹس پر شک وشبہات کا اظہارکر کے وہ دراصل اپنی کمزوری اور بے اختیاری کا رونا رو رہے ہوتے ہیں۔ اُن کی مجبوری یہ ہے کہ وہ اپنی اِس بے اختیاری کا کھل کر اظہار اور اعتراف بھی نہیں کرسکتے۔ یہی حال ملائیشیاء سمٹ میں اُن کے نہ جانے کا تھا کہ وہ اپنے دوستوں مہاتیر محمد اور طیب اردگان سے بھی اپنے اِس انکار کے پس پردہ وعوامل کا تذکرہ بھی نہ کرسکے۔
دو ماہ پہلے وہ ایران اور سعودی عرب کے درمیان خود ساختہ ثالث بن کر مفاہمت اور دوستی کرانے کے مشن پر نکل پڑے تھے۔ پھرنجانے کیا ہوا کہ واپس آ کر کسی کو اُس مشن کے نتائج سے بھی آگاہ نہ کرسکے۔ قوم اِس انتظار میں تھی کہ ہمارا وزیر اعظم بہت جلد یہ خوشخبری سنائے گا کہ اُس نے ایران اور سعودیہ کے بیچ صدیوں سے چلے آرہے جھگڑے کو اپنی ذہانت اور قابلیت سے منٹوں میں حل کر دیا اور شاید اُس کے اِس عمل سے ساری دنیا اُسے ایک زبردست لیڈر ماننے پر مجبور ہو جائے گی۔ مگر ہمیشہ کی طرح ہمارا یہ خواب بھی چکناچور ہوگیا۔ ہمیں اب خوف لاحق ہونے لگا ہے کہ اگر 2001ء کی طرح امریکا نے ہم سے ایک بار پھر ویسے ہی مطالبات کر ڈالے تو ہمارا یہ اولوالعزم وزیر اعظم کہاں کھڑا ہوگا۔ وہ کس طرح کوئی مزاحمت دکھا پائے گا ، خدا ہمیں اِس مشکل میں نہ ڈالے۔ (آمین)
امریکا کی جانب سے اُس کی ذمے داری قبول کرنا اور بعد ازاں ایرانی حکومت اور اُس کے عوام کی جانب سے شدید رد عمل کا آنا ایک ایسا واقعہ اور سانحہ ہے جس کے اثرات یقینا ہماری زمین پر پڑنے تھے اور ہم اُس سے بچ بھی نہیں سکتے تھے۔
لہذا ہمارے لوگوں کی طرف سے خدشات کا اظہار ایک یقینی اور فطری عمل تھا۔ ملک بھر کے دانشور اور تبصرہ نگار مسلسل کئی روز تک ٹی وی ٹاک شوز میں اِس واقعہ پر اظہار خیال کرتے رہے اور اِس معاملے میں ملک کو در پیش خطرات سے بھی متنبہ کرتے رہے، مگر حیرت انگیز طور پر ہمارے ملک کے جواں سال دکھائی دینے والے وزیر اعظم کئی روز تک خاموش رہے۔ ایک ہفتہ گذر جانے کے بعد اُن کا پہلا بیان جو آیا وہ یہ تھا کہ ہم اب کسی کی جنگ میں حصہ نہیں بنیں گے ۔
جی ہونا تو یہی چاہیے ۔ جنرل پرویز مشرف سے 2001ء میں نائن الیون کے بعد امریکی صدر نے فون کر کے دوستی اور ساتھ نبھانے کا حکم صادر کیا تو کیا جنرل مشرف اُس سے انکار کر سکے۔ پتھروں کے دور میں بھیجے جانے کی دھمکی کے بعد ہمارے ملک کا کونسا حکمراں ، حکم برداری اور اُس پر عمل درآمد سے انکار کرنے کی جرأت کرسکتا تھا۔ مشرف کے بقول اُنہوں نے ملکی اور قومی مفاد میں اُس دہشت گردی کی عالمی جنگ میںنہ صرف حصہ لینے بلکہ اُس کا ہراول دستہ بننے کا فیصلہ کیا۔ اُنہوں نے اکیلے ہی رچرڈ آرمٹیج کی اِک فون کال پر یہ عظیم الشان تاریخی فیصلہ کر ڈالا۔
ہم اُس فیصلے پر چاہے کتنی ہی تنقید کر لیں لیکن دیکھا جائے تو ہمارے پاس اِس کے سوا کوئی چارہ بھی نہ تھا۔ امریکا کو افغانستان پر چڑھائی کرنے کے لیے زمینی اور فضائی راستہ درکار تھا۔ ہم اگر اُس وقت انکارکر دیتے تو وہ کوئی دوسرا بندوبست تو ضرور کر لیتا لیکن افغانستان کے ساتھ ساتھ ہمارا بھی ستیاناس کر دیتا۔کہنے والے کہتے ہیں کہ افغانستان کے پاس ایسا کچھ بھی نہیں تھا جسے بچانے کے لیے وہ کچھ تگ و دوکرتے لیکن ہمارے یہاں تو امریکی بمباری کا نشانہ بننے کے لیے بہت کچھ موجود تھا۔
خود ہماری قوم اُس تباہی کی متحمل نہیں ہو سکتی تھی۔ ہم اُس جنگ کے بالواسطہ طور پر پڑنے والے اثرات کا خمیازہ دس سالوں تک بھگتتے رہے ہیں تو اگر براہ راست امریکی دشمنی کا نشانہ بن جاتے تو کیا حال ہوتا۔ لہذا جنرل پرویز مشرف نے اپنی دانست میں اُس مشکل وقت میں جو فیصلہ کیا وہ شاید ہمارے ملک اور ہماری قوم کے لیے بہتر اور مناسب تھا۔
ہم آج بھی اِس پوزیشن میں نہیں ہیں کہ امریکا کے کسی حکم کی اطاعت اور تابعداری سے انکار کرسکیں۔ ہم میں تو اتنی بھی سکت اور جرأت نہیں ہے کہ ہم سعودی حکمرانوں کو اپنے کسی فیصلے سے خفا اور ناراض کرسکیں۔ سب کچھ جانتے ہوئے کہ بھارت اور کشمیر کے معاملے میں سعودی عرب اور یو اے ای کا مؤقف ہمیشہ کیا اور کیسا رہا ہے لیکن ہم پھر بھی اپنے اُن دوستوں سے تو منہ پھیر لیتے ہیں جنہوں نے کشمیر ایشو پر ہمارا کھل کر ساتھ دیا ہو لیکن سعودی عرب اور متحدہ عرب امارت سے شکوہ بھی نہیں کرسکتے۔ جب ہماری یہ حالت ہو تو وزیر اعظم کی جانب سے یہ دعویٰ عجیب و غریب معلوم ہوتا ہے کہ ہم آیندہ کسی دوسرے کی جنگ کا حصہ نہیں بنیں گے۔
قوم کو پورا یقین ہے کہ اگر ایسا کوئی مشکل مرحلہ ایک بار پھر ہمارے حکمرانوں کے سامنے آکھڑا ہوا تو ملکی اور قومی مفاد میں وہ اِس سے ضرور یو ٹرن لے لیں گے۔ ویسے بھی خان صاحب کی نظر میں یو ٹرن لینے والا شخص بہت بڑا لیڈر ہوا کرتا ہے۔ حالات و واقعات کی سنگینی کے پیش نظر یو ٹرن لینا ویسے بھی کوئی غیر مناسب بات سمجھی نہیں جائے گی اورقوم خان صاحب کو یقینا اُس کی اجازت بھی دے دیں گی۔ اِس لیے یہ دعویٰ کرنا کہ ہم آیندہ کسی دوسرے کی جنگ کا حصہ نہیں بنیں گے، ہمارے دل و دماغ کوکچھ وارے نہیںکھا رہا۔ ماضی قریب میں اُنہوں نے کیسے کیسے بڑے بڑے دعوے کیے تھے اور کتنی جلد ہی اُن سے منحرف بھی ہوگئے وہ سب ہماری قوم کے سامنے ہے۔ اب تو یہ حال ہے کہ حکمران جتنا زیادہ اعتماد سے کوئی بات کرتے ہیں قوم اُس پر اتنا ہی کم اعتبار کرتی ہے۔
حکمران قیادت نے جوش خطابت میں پچھلے دنوں یہ ارشاد بھی فرما دیا کہ میں نے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سے کہہ دیا ہے کہ جاؤ ایران اور امریکا کا دورہ کر کے دونوں کے درمیان دوستی اور مفاہمت کراؤ۔ ابھی اقتدار سنبھالے تھوڑا ہی سا عرصہ گذرا ہے اور وہ اِس قابل بھی ہوگئے کہ امریکا اور ایران کے بیچ صلح کروانے کا سوچنے لگے اور اِس کام کے لیے وہ حکم بھی دے رہے ہیں ۔
واہ کیا زمانہ آگیا ہے کہ ہماری آنکھوں کو یقین ہی نہیں ہو رہا۔ حکمران واقعی اتنے طاقتور اور با اختیار ہوچکے ہیں۔ اپوزیشن کو صبح و شام لتاڑنے اور این آر او نہ دینے کا کہنے والا شخص اپنی آنکھوں کے سامنے سب کو ریلیف ملتا دیکھ رہا ہو اورکچھ کربھی نہ سکتا ہو اُسے کم ازکم ابھی تو اپنی حیثیت کا صحیح اندازہ ہوجانا چاہیے اور ایسے بلند بانگ دعوؤں سے پرہیزکرنا چاہیے ۔ میاں نواز شریف کو اپنے ہاتھوں سے بیرون ملک جانے کی اجازت دے کر بعد ازاں میڈیکل رپورٹس پر شک وشبہات کا اظہارکر کے وہ دراصل اپنی کمزوری اور بے اختیاری کا رونا رو رہے ہوتے ہیں۔ اُن کی مجبوری یہ ہے کہ وہ اپنی اِس بے اختیاری کا کھل کر اظہار اور اعتراف بھی نہیں کرسکتے۔ یہی حال ملائیشیاء سمٹ میں اُن کے نہ جانے کا تھا کہ وہ اپنے دوستوں مہاتیر محمد اور طیب اردگان سے بھی اپنے اِس انکار کے پس پردہ وعوامل کا تذکرہ بھی نہ کرسکے۔
دو ماہ پہلے وہ ایران اور سعودی عرب کے درمیان خود ساختہ ثالث بن کر مفاہمت اور دوستی کرانے کے مشن پر نکل پڑے تھے۔ پھرنجانے کیا ہوا کہ واپس آ کر کسی کو اُس مشن کے نتائج سے بھی آگاہ نہ کرسکے۔ قوم اِس انتظار میں تھی کہ ہمارا وزیر اعظم بہت جلد یہ خوشخبری سنائے گا کہ اُس نے ایران اور سعودیہ کے بیچ صدیوں سے چلے آرہے جھگڑے کو اپنی ذہانت اور قابلیت سے منٹوں میں حل کر دیا اور شاید اُس کے اِس عمل سے ساری دنیا اُسے ایک زبردست لیڈر ماننے پر مجبور ہو جائے گی۔ مگر ہمیشہ کی طرح ہمارا یہ خواب بھی چکناچور ہوگیا۔ ہمیں اب خوف لاحق ہونے لگا ہے کہ اگر 2001ء کی طرح امریکا نے ہم سے ایک بار پھر ویسے ہی مطالبات کر ڈالے تو ہمارا یہ اولوالعزم وزیر اعظم کہاں کھڑا ہوگا۔ وہ کس طرح کوئی مزاحمت دکھا پائے گا ، خدا ہمیں اِس مشکل میں نہ ڈالے۔ (آمین)