ایک ’’ناسا‘‘۔ 57 آکسفورڈ
مشرق وسطیٰ کی عوامی تحریکوں کا جو ریلا آیا ہوا ہے وہ اب شام میں فیصلہ کن مراحل میں داخل ہوگیا ہے
پچھلے دنوں سعودی فرماں رواں شاہ عبداﷲ نے اوآئی سی کی ایک ہنگامی کانفرنس بلائی تھی،اس کانفرنس کا ایجنڈا کیا تھا،اس کے بارے میں ہمیں زیادہ علم نہیں لیکن اس کانفرنس سے پہلے میڈیا میں سعودی حکمرانوں کی طرف سے یہ خبریں بہرحال آتی رہیں کہ مشرق وسطیٰ میں عوامی تحریکوں کی جو لہر آئی ہے، اس پر غور کرنے کے لیے او آئی سی کا اجلاس بلانے کی ضرورت ہے۔
او آئی سی کی اس کانفرنس کے بعد جو اطلاعات باہر آئیں ان کے مطابق او آئی سی میں شام کی صورتِ حال پر غورکیا گیا اور او آئی سی میں شام کا بائیکاٹ کرنے پر اتفاق کیا گیا۔ مشرق وسطیٰ کی عوامی تحریکوں کا جو ریلا آیا ہوا ہے وہ اب شام میں فیصلہ کن مراحل میں داخل ہوگیا ہے۔ تازہ اطلاعات کے مطابق شام کے صدر بشار الاسد نے اقتدار چھوڑنے پر آمادگی ظاہر کی ہے۔
مشرق وسطیٰ کی تحریکوں کا اصل ہدف خاندانی حکمرانیوں کا خاتمہ رہا ہے۔ اس ہدف کے مثبت اور بامعنی ہونے پر کوئی شبہ نہیں ہے لیکن اصل مسئلہ یہ پیدا ہوگیا ہے کہ خاندانی حکمرانیوں کے خاتمے کے بعد جو خلا پیدا ہورہا ہے، اسے کس طرح پُر کیا جائے؟ اس کا جواب جمہوری کلچر کے فروغ کی شکل میں ہمارے سامنے موجود ہے۔ تیونس، لیبیا، مصر میں اگرچہ انتخابات کے ذریعے اس خلا کو پُر کرنے کی کوشش کی جارہی ہے لیکن چونکہ یہ خطہ اب تک جمہوری کلچر سے گزرا ہی نہیں، اس لیے یہاں ایک کشمکش نظر آتی ہے۔ اس خطے میں شخصی اور خاندانی حکمرانیوں نے سیاسی کلچر کو متعارف ہونے دیا ہی نہیں، اس لیے یہاں ایک انتشار کی سی کیفیت نظر آرہی ہے اور مختلف قوتیں اس خلا کو پُر کرنے کی کوشش کررہی ہیں۔
مشرق وسطیٰ کا یہ انقلاب کئی حوالوں سے ابھی نامکمل ہے۔ ایک بڑا حوالہ یہ ہے کہ ابھی اس خطے میں کئی ایسے ملک موجود ہیں جہاں صدیوں پر محیط بادشاہتیں اور شیوخ خاندانوں کی حکمرانیاں موجود ہیں، دوسرا حوالہ یہ ہے کہ جمہوری طریقوں سے جو تبدیلیاں آرہی ہیں ان کی کوئی واضح سمت اور اہداف نظر نہیں آرہے ہیں۔ بعض حلقوں کی طرف سے یہ تاثر دینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ خاندانی حکمرانیوں کے خاتمے سے پیدا ہونے والے خلا کو اسلامسٹ طاقتیں پورا کررہی ہیں۔
لیکن اس حوالے سے ایک بڑا تضاد یہ دِکھائی دے رہا ہے کہ جو جماعتیں انتخابات سے گزر کر اقتدار میں آرہی ہیں۔ وہ اس بات سے خائف ہیں کہ جمہوریت کی سخت مخالف قوتیں ان ملکوں میں تیزی سے نفوذ کرنے کی کوشش کررہی ہیں۔ مثال کے طور پر مصر میں اخوان المسلمین انتخابی پروسیس سے گزر کر اقتدار میں آئی ہے لیکن وہ سینائی میں انتہا پسندوں کی سرگرمیوں سے سخت پریشان ہے۔
میڈیا کی خبروں کے مطابق مصر کے سرحدی علاقے سینائی میں دہشت گردوں نے مصری سیکیورٹی فورسز کے خلاف اپنی کارروائیوں میں سیکیورٹی فورسز کو کافی نقصان پہنچایا اور حیرت کی بات یہ ہے کہ ان انتہا پسند طاقتوں کو آگے بڑھنے سے روکنے کے لیے مصر کی اخوانی حکومت اسرائیل اور امریکا کی مدد لے رہی ہے۔ ان خبروں سے اس خطے کے نظریاتی خلفشار کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
یہ کشمکش کیا صورت اختیار کرتی ہے، اس کے بارے میں کوئی حتمی بات کہنا مشکل ہے لیکن ایک بات طے ہے کہ مشرق وسطیٰ بیدار ہورہا ہے اور بیداری کی یہ لہر اس خطے کے باقی ماندہ آمرانہ حکومتوں کو اپنی لپیٹ میں لیتی ہے یا نہیں، ابھی اس حوالے سے کچھ کہنا مشکل ہے، لیکن یہ مایوس کن حقیقت ہمارے سامنے ہے کہ امریکا اس خطے میں اپنے اقتصادی اور سیاسی مفادات کے تحفظ کے لیے بھرپور طریقے سے ہاتھ پائوں مار رہا ہے۔ لیبیا میں ہوائی حملوں کے ذریعے امریکا کی باغیوں کو امداد ان ہی منصوبوں کا حصّہ ہے۔ اصل سوال یہ ہے کہ مشرق وسطیٰ کی نئی حکومتیں کیا امریکا سے برابری کی سطح پر تعلقات قائم کریں گی یا ماضی کی طرح امریکا کی اطاعت گزاری کا راستہ اختیار کریں گی؟
مشرقِ وسطیٰ میں سعودی عرب کو ایک انفرادی حیثیت حاصل ہے، کیونکہ سعودی عرب مسلم ملکوں کا نظریاتی مرکز ہے۔ بدقسمتی سے یہ خطہ صدیوں سے نظریاتی پس ماندگی کا شکار ہے، اس کی ساری ذمے داری اس خطے کے حکمرانوں پر عاید ہوتی ہے کہ انھوں نے دانستہ طور پر اس خطے کو دنیا کی ترقی یافتہ قوموں کی صف میں لانے کے بجائے روحانی ترقیوں کے حصار میں ہی قید کر رکھا۔ اب جب کہ ماضی کے حکمران ماضی کا حصّہ بنتے جارہے ہیں۔ کیا نئی قیادتیں دنیا کے تقاضوں کو سمجھنے اور ان خطوط پر کوئی مثبت اور بامعنی ایجنڈا ترتیب دینے کی کوشش کریں گی یا ماضی کے ایجنڈے ہی پر چلتی رہیں گی؟
جو اطلاعات اس خطے سے آرہی ہیں، ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ انتہا پسند طاقتیں بڑے منظم انداز میں اس خطے میں اپنی جگہ بنانے کی کوشش کررہی ہیں لیکن یہ مثبت خبریں بھی آرہی ہیں کہ اسلامسٹ طاقتیں انتہا پسندی کے خلاف کھڑی ہورہی ہیں اور اس حوالے سے اسرائیل اور امریکا کی امداد تک قبول کررہی ہیں۔
او آئی سی مسلم ملکوں کی نمایندہ تنظیم ہے۔ اس حوالے سے اس کی سب سے بڑی ذمے داری یہ ہے کہ وہ مسلم ملکوں کو ترقی یافتہ قوموں کی صف میں کھڑا کرنے کی کوشش کرے۔ لیکن افسوس کہ ایسا نہیں ہوا اور نہ آیندہ اس حوالے سے کسی پیش رفت کی کوئی توقع نظر آرہی ہے۔ سعودی عرب، یو اے ای، کویت، لیبیا، عراق وغیرہ تیل کی دولت سے مالا مال ہیں لیکن سامراجی ملکوں خصوصاً امریکا نے تیل کی اس دولت کو ہتھیانے کا ایک شاطرانہ طریقہ اسرائیل کے خوف کی شکل میں ڈھونڈ نکالا ہے۔
اسی خوف کے حوالے سے تیل کی دولت ہتھیاروں کی فروخت کے ذریعے ہتھیائی جارہی ہے۔اربوں کھربوں ڈالر کے ہتھیار امریکا اور اس کے اتحادی عرب ملکوں کو فروخت کررہے ہیں اور اس لوٹ مار کو جاری رکھنے کے لیے اسرائیل کو عربوں کے سروں پر مسلط رکھنا ضروری ہے۔ عربوں کی نئی قیادت کو ان سازشوں کا ادراک کرنا چاہیے اور کوئی ایسا راستہ نکالنا چاہیے کہ ان کی تیل کی بے بہا دولت اس خطے کو ترقی یافتہ بنانے میں استعمال کی جاسکے۔
سعودی عرب اس حوالے سے آگے آسکتا ہے۔ سعودی عرب نہ صرف تیل کی دولت سے مالا مال ہے بلکہ حج اور عمرے کی اربوں ڈالر کی ایک مستقل آمدنی بھی اسے حاصل ہے۔ اور اس پر پورے مسلم ملکوں کا حق بھی بنتا ہے۔ اگر اوآئی سی سعودی حکمرانوں کو اس بات پر راضی کرلے کہ وہ ابتدائی طور پر ہر مسلم ملک میں ایک آکسفورڈ لیول کی یونیورسٹی اور اس سے ملحقہ تحقیقی ادارے اور ایک ناسا جیسا مرکز قائم کرنے کا پروگرام ترتیب دے تو یہ اتنی بڑی پیش رفت ہوگی کہ مسلم ملکوں کے انقلابات بامعنی ہوجائیں گے۔ ہم حیران ہیں کہ یہ باتیں مذہبی رہنمائوں کے سوچنے کی ہیں لیکن سوچ وہ لوگ رہے ہیں جن پر کفر کے فتوے صادر ہوتے ہیں۔
ہمارے مذہبی اکابرین سائنس اور تحقیق کے میدانوں میں مسلمانوں کی کامیابیوں کے قصّے تو فخر سے سناتے ہیں لیکن ماضی کی ان کامیابیوں کو حال کا حصّہ بناتے ہوئے نظر نہیں آتے۔ اور روشن خیال طاقتیں چاہتی ہیں کہ مسلم ملک اپنے بے پناہ وسائل اور افرادی قوت کو مسلم ملکوں کی اجتماعی ترقی کے لیے کام میں لائے۔ یہی وہ فرق ہے جو رجعت پسندی اور ترقی پسندی کے درمیان دیکھا جاسکتا ہے۔ اگر او آئی سی ایک ناسا اور 57 آکسفورڈ سے اپنی عملی سرگرمیوں کا آغاز کرے تو مسلم ملکوں کی قسمت بدل جائے گی۔