’’دوسری شادی کرلو‘‘ قبر سے شوہر کی بیوی کو ہدایت
بعض بیوائوں کا اصرار تھا کہ میں اپنے لیے نیا جیون ساتھی تلاش کرلوں تاکہ مایوس اور اداس دنیا سے باہر نکل سکوں۔
میں بیوہ ہوچکی تھی، یہ بات میرا دل اور میرا دماغ قبول کرنے کو تیار نہیں تھا۔ فوٹو: فائل
RATODERO:
میں اپنی تین سالہ بیٹی ایوی کو دیکھ رہی تھی جو اس وقت میرے پارٹنر کی گود میں تھی اور وہ اسے جھلا اور کھلا رہا تھا۔میرا دل اس خیال سے ڈوب رہا تھا کہ میری یہ بیٹی اپنے باپ سے محروم ہوچکی ہے۔ یہ افسوس ناک واقعہ 25فروری 2012کو پیش آیا تھا جب ایوی کا باپ اور میرا شوہر کولن جنوبی لندن کی ایک سڑک پر چلتے چلتے یکایک گرا اور مرگیا۔ اس کی عمر صرف 38سال تھی۔
بلاشبہہ یہ ایک نہایت شدید دکھ تھا جس سے شاید میں زندگی بھر پیچھا نہ چھڑا سکوں۔ ہماری تو زندگیاں ہی تباہ ہوکر رہ گئی تھیں۔ کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ آگے کیا ہوگا، زندگی کیسے گزرے گی؟ کہتے ہیں کہ گزرتا وقت سب سے بڑا مرہم ہوتا ہے، وہی میرے ساتھ بھی ہوا۔ خدا کا شکر ہے کہ میری دو بیٹیوں نے مجھے اس اذیت اور کرب سے باہر نکال لیا، میں نے ان کی خوشیوں میں اپنا خوشیاں تلاش کرلیں اور خود کو کسی حد تک مطمئن کرلیا۔
کولن کی موت کے وقت میری بیٹی ایوی 22ماہ کی تھی اور ایسلا کی عمر اس وقت صرف 9ہفتے تھی۔ جس روز کولن کی موت واقع ہوئی، میں اپنے گھر واقع جنوب مغربی لندن، ارلز فیلڈ میں تھی اور سورہی تھی کہ فون کی تیز گھنٹی سے میری آنکھ کھل گئی۔ میں نے اپنا موبائل فون چیک کیا تو اس پر کولن کی ممی کی کئی مس کالز دکھائی دیں۔ کولن کے ڈیڈی کافی بیمار تھے، میں سمجھی کی ان کو کچھ ہوگیا ہے۔ لیکن ایسا کچھ نہیں تھا۔ مجھے پتا چلا کہ میرا شوہر ٹینس کھیل رہا تھا کہ وہ یکایک گر پڑا۔ کولن کی ماں نے اس سے زیادہ کچھ نہیں بتایا، میرا خیال تھا کہ گرنے سے کولن کی ہڈی ٹوٹ گئی ہوگی۔ نہ تو اس وقت میرے ذہن میں موت کی کوئی بات تھی اور نہ ہی کسی سنگین بیماری کی۔ میں نے اسپتال فون کرکے معلومات کرنے کی کوشش کی تو پتا چلا کہ کولن کو د ل کے اسپتال لے جایا گیا ہے۔ ابھی میں سوچ ہی رہی تھی کہ کیا کروں، اتنے میں ایک پولیس مین میرے گھر پہنچا اور اس نے وہ خبر سنائی جس کا نہ مجھے اندازہ تھا اور نہ امید۔ وہ روح فرسا خبر سن کر میری دنیا اجڑگئی۔ اچانک ہی میرا شوہر کولن Arrhythmic Death Syndrome کا شکار ہوا اور زمین پر گرکر مرگیا۔
اس سینڈروم کو بعض اوقات ایڈلٹ ڈیتھ سینڈروم بھی کہا جا تا ہے، جو ہر سال لگ بھگ 500افراد کو متاثر کرتا ہے۔ میرا کولن بھی اس کا شکار ہوکر ہم سے ہمیشہ کے لیے بہت دور چلا گیا تھا۔
میں سوچ رہی تھی کہ ایسا کیوں ہوگیا، میری ٹھیک ٹھاک زندگی کیوں تتر بتر ہوگئی۔
میری پرورش ایڈنبرگ میں ہوئی تھی۔ اسی جگہ میں نے اپنے لیے حسین سپنے بھی بُنے تھے۔ پھر 2001میں ترکی میں میری ملاقات کولن سے ہوئی اور وہ میرے دل میں اتر گیا۔ وہ پیشے کے حساب سے ایک وکیل تھا، ہماری دوستی سات سال تک رہی، اس کے بعد ہم نے شادی کا فیصلہ کیا۔ اس طرح ہماری شادی ہوگئی اور 2010میں ہمارے ہاں ایوی بھی پیدا ہوگئی۔ اس کے ڈیڑھ سال بعد ایسلا بھی ہماری فیملی میں شامل ہوگئی اور ہمارا چھوٹا موٹا خاندان مکمل ہوگیا۔ لیکن اب میں بیوہ ہوچکی تھی، یہ بات میرا دل اور میرا دماغ قبول کرنے کو تیار نہیں تھا۔ مگر حقیقت اپنی جگہ موجود تھی۔ اب میرے ساتھ کولن تو نہیں تھا، مگر اس کی دو نشانیاں اس کی بیٹیاں ضرور میرے پاس تھیں اور انہی کی وجہ سے مجھ میں زندہ رہنے کا حوصلہ بھی پیدا ہوا ورنہ میں تو اس تنہائی کے ہاتھوں شاید مرجاتی۔
شروع میں کچھ نہ کرسکی، مگر پھر زندگی میں واپس آنے کے لیے میں نے کام کاج شروع کیا، سپرمارکیٹ کے چکر لگانے شروع کیے اور خود کو مصروف کیا، اس کے باوجود میں اکثر چھپ چھپ کر روتی رہتی تھی۔ خاص طور سے میں ان تمام مقامات پر جاکر بہت روتی تھی جہاں ہم نے کبھی اکٹھے وقت گزارا تھا۔
رات میں جب میں بستر پر لیٹتی تو میرا دکھ اور بھی بڑھ جاتا، کیوں کہ اب اس دکھ کو شیئر کرنے والا کوئی نہیں تھا اور نہ کوئی تسلی دینے والا تھا۔
آخر کار میں نے واپس ایڈنبرگ جانے کا فیصلہ کیا تاکہ اپنی فیملی کے قریب رہ سکوں۔ میں نے اسی دوران ایک بلاگ بھی لکھنا شروع کردیا تاکہ میرے اندر کا غصہ، مایوسی اور چڑچڑاہٹ کم ہوسکے، اس کے جواب میں دوسری بیوائیں بھی میرے فیور میں کمنٹس کرتی تھیں جس سے مجھے تسلی ہوتی تھی۔
بعض بیوائوں کا اصرار تھا کہ میں اپنے لیے نیا جیون ساتھی تلاش کرلوں تاکہ مایوس اور اداس دنیا سے باہر نکل سکوں۔ چناں چہ میں نے بھی یہ بات مان لی اور ایک آن لائن ڈیٹنگ سائٹ جوائن کرلی۔ لیکن یہ میری زندگی کی بہت بڑی غلطی تھی۔ میرے پاس عام سی ای میلز کا تانتا بندھ گیا جن میں ایسے سوال ہوتے تھے:
آپ کیسی ہیں؟ ایڈنبرگ کیوں آئیں؟ آج کل کیا کررہی ہیں؟ وغیرہ
میں نے ایک ای میل کے جواب میں لکھا:
''اپنے شوہر کی موت کے باعث میں اسکاٹ لینڈ آگئی۔ وہ اچانک گرکر مرگیا تھا۔ آج کل میں اپنی بیٹی کی نیپیز بدلتی رہتی ہوں۔''
اس جواب کے بعد میرے پاس آنے والی ای میلز کم ہوگئیں۔ میں نے کچھ ماہ خاموشی اختیار کرنے کے بعد ایک دوسری ڈیٹنگ سائٹ جوائن کرلی۔ اس سائٹ پر میرا رابطہ ایک دو لوگوں سے ہوا۔ وہ اچھے اور نفیس لوگ تھے، مگر مسئلہ یہ تھا کہ میں تو آج بھی کولن کی محبت کی اسیر تھی، اس لیے کسی اور کو دل نہ دے سکی۔ چھ ماہ کے بعد آن لائن دوستوں کے اصرار پر میں میرا رابطہ کیمرون سے ہوا جو 47سالہ سیلز منیجر تھا۔ اس کی ای میلز اور فون کالز سے اندازہ ہوا کہ وہ منفرد انسان ہے۔ بعد میں اس سے ملاقات بھی ہوئی۔ اس سے مل کر میں کافی عرصے بعد ہنسی اور مجھے زندگی کا پھر سے احساس ہوا۔ اس کے دو بیٹے تھے، ایک تین سال کا اور دوسرا آٹھ سال کا۔ اس کی طلاق ہونے والی تھی۔ وہ بہت سمجھ دار اور خیال کرنے والا لگا۔ میں نے اس سے کئی ملاقاتیں کی اور اپنی بیٹیوں ایوی اور ایسلا کو بھی اس کے بارے میں بتادیا۔
اب مجھے فیصلہ کرنا تھا، مگر اس سے پہلے میں چاہتی تھی کہ لوگ کیمرون کے بارے میں جان لیں۔ مجھے اس بات کی زیادہ فکر تھی کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ لوگ یہ سوچنے لگیں کہ مجھے اب کولن کی کوئی فکر نہیں ہے اور یہ کہ میں اسے بالکل بھول چکی ہوں۔
لیکن میں اس حقیقت سے بھی واقف تھی کہ میں کولن کو زندگی بھر کبھی فراموش نہیں کرسکوں گی۔ وہ میری محبت تھا اور ہے اور یہ کہ میرے لیے اس سے جدائی بہت بڑا نقصان تھا۔ میں کسی کو بھی اس کی جگہ نہیں دے سکتی تھی، اسی لیے کسی بہت خاص قسم کے انسان کی تلاش میں تھی، مگر میرے دماغ میں ہمیشہ یہی ہلچل مچی رہتی تھی کہ کیا میں اس کی جگہ کسی دوسرے کو دے سکوں گی۔
کیمرون کو اپنی فیملی سے ملوانا میرے لیے خاصا مشکل اور کٹھن کام تھا۔ کولن کی موت کے بعد مجھے اس کا خلا بہت واضح طور پر محسوس ہوتا تھا۔ وہ کیسے بھرے گا؟ یہ سوال مجھے پریشان کرتا تھا؟ کیا کیمرون اس کی جگہ لے سکے گا؟ مگر مجھے یہ بھی امید تھی کہ کیمرون اپنی شگفتہ مزاجی کے باعث سب کے دلوں میں جلد ہی جگہ بنانے میں کام یاب ہوجائے گا۔ یہاں تک کہ کولن کی ممی نے بھی اسے پسند کرلیا تھا اور جلد ہی اس سے ملاقات کی منتظر تھیں۔ بلکہ انہوں نے کئی بار مجھے کیمرون کا نام لے کر چھیڑا بھی کہ مجھے اپنی سہیلی بناکر اپنا ہم راز بناسکتی ہو۔
لیکن میں یہ بھی جانتی تھی کہ وہ اندر سے کتنی غمگین اور اداس ہیں۔ اگر میں اپنے لیے کیمرون کا انتخاب کرلیتی ہوں تو اس کے بعد کولن کی ممی کا دکھ اور بھی بڑھ جائے گا، مگر انہوں نے اپنا سارا دکھ اور غم اپنے اندر چھپانے کی کوشش کی تھی جس میں وہ ابھی تک کام یاب تھیں۔
مگر مجھے معلوم نہیں تھا کہ کولن موت کے بعد بھی مجھ سے بے خبر نہیں ہے اور اسے میری تمام سرگرمیوں کا علم ہے۔ مجھے کولن کے ایک بہت ہی قریبی اور گہرے دوست ایڈ کی ای میل موصول ہوئی جس نے ہماری شادی میں بنیادی کردار ادا کیا تھا۔
جب ایڈ نے میرے بلاگ پر کیمرون کے بارے میں میرے کمنٹس پڑھے تو اس نے مجھے جو کچھ لکھا، اس نے میرے ہاتھ پیر پھلادیے۔
اس نے لکھا تھا کہ ان دونوں نے چند سال پہلے مردہ خانے میں کوئی بات چیت کی تھی۔ اس وقت ایوی پیدا ہوئی تھی۔ ان دونوں نے اس موقع پر یہ کہا تھا کہ اگر وہ مرگئے تو اپنی بیویوں سے کیا خواہش کریں گے۔
ایڈ نے لکھا تھا:
کولن نے مجھے بتایا تھا کہ وہ اپنی موت کے بعد تم سے یہ خواہش ظاہر کرے گا کہ تم فوراً اپنے لیے کسی نئے جیون ساتھی کا انتخاب کرلو۔ مگر میں نے اس کی بات مذاق میں ٹال دی تھی، مگر اس نے وہ بات کئی بار دہرائی اور کہا کہ یہ اس کی خواہش ہے، اگر وہ مرجائے تو میں تمہیں اس کی خواہش سے آگاہ کردوں۔
اس نے مزید لکھا تھا کہ کولن کی خواہش تھی کہ اس کی موت کے بعد تم اور تمہاری بیٹی خوش رہیں۔ اس نے یہ بات بڑے جذباتی انداز سے کی تھی اور مجھے اس پیغام کا امین بنایا تھا کہ اس کی موت کی صورت میں، میں یہ پیغام تم تک پہنچادوں۔ میں نے اپنا فرض ادا کردیا ہے اور آنجہانی کولن کا پیغام تم تک پہنچادیا ہے۔ میرا خیال ہے کہ تم جلد ہی دوسری شادی کرلو تاکہ کولن کی روح کو سکون مل سکے۔ مجھے اس کی ای میل پڑھنے کے بعد نہ جانے کیوں ایسا محسوس ہوا کہ یہ پیغام کولن نے دوسرے جہان سے براہ راست بھجوایا ہے جہاں اس کی روح آج بھی میری تنہائی پر بے چین اور مضطرب ہے۔ کئی بار مجھے ایسا بھی محسوس ہوا جیسے اس کی روح میرے آس پاس موجود ہے اور مجھ سے کچھ کہہ رہی ہے، مگر میں اس کی بات کو ٹھیک طرح سے سمجھ نہیں پاتی تھی، البتہ ایڈ کے پیغام کے بعد میں نے کولن کی روح کی سرگوشی سن بھی لی اور سمجھ بھی لی۔
ایسلا اب 22ماہ کی ہوچکی ہے، لیکن وہ جان چکی ہے کہ یہ شخص (کیمرون) اس کا ڈیڈی نہیں ہے۔ اس کا ڈیڈی وہ شخص ہے جس کی تصویر مینٹل پیس پر رکھی ہے۔ اس فیملی کا آپس میں مکس ہونا آسان نہیں ہے۔ لیکن کیمرون اپنی پوری کوشش کررہا ہے۔ وہ ہم سب کی دل جوئی کی پوری کوشش کررہا ہے۔ ہمارے ساتھ پیار و محبت کا سلوک کرتا ہے، ہمارے لیے تحفے تحائف بھی خریدتا ہے اور دکھ اور افسوس کے موقع پر ہم سے ہمدردی کرتا ہے۔
ہمیں ایک ساتھ رہتے ہوئے پانچ ماہ گزر چکے ہیں۔ میں ایوی اور ایسلا کو دیکھ کر خوش ہوتی ہیں جو اب قدرے مطمئن نظر آرہی ہیں۔ مگر اپنے باپ کی حیثیت سے آج بھی وہ کولن کی تصویروں کو محبت پاش نظروں سے دیکھتی ہیں۔ وہ کیمرون کو ڈیڈی نہیں کہتیں بلکہ صرف اس کے نام سے پکارتی ہیں۔ جہاں تک میرے دل کا تعلق ہے تو اس میں صرف کولن بستا ہے، مگر ایک مددگار، ہمدرد اور جاں نثار ساتھی کے طور پر کیمرون میرے ساتھ ہے اور اس رشتے کو پوری ایمان داری اور صداقت کے ساتھ نبھارہا ہے۔
کیمرون کو اپنی فیملی سے ملوانا میرے لیے خاصا مشکل اور کٹھن کام تھا۔ کولن کی موت کے بعد مجھے اس کا خلا بہت واضح طور پر محسوس ہوتا تھا۔ وہ کیسے بھرے گا؟ یہ سوال مجھے پریشان کرتا تھا؟ کیا کیمرون اس کی جگہ لے سکے گا؟ مگر مجھے یہ بھی امید تھی کہ کیمرون اپنی شگفتہ مزاجی کے باعث سب کے دلوں میں جلد ہی جگہ بنانے میں کام یاب ہوجائے گا۔ یہاں تک کہ کولن کی ممی نے بھی اسے پسند کرلیا تھا اور جلد ہی اس سے ملاقات کی منتظر تھیں۔