سرد خانوں کی خنکی اور تاریکی میں ڈوبی دنیا سے وابستہ افراد اپنے تجربات بیان کرتے ہیں

لاش چاہے سلامت ہو یا کٹی پھٹی، مجھے غسل دیتے وقت کسی بھی قسم کا خوف محسوس نہیں ہوتا، نجمہ خاتون

1987میں ایدھی فاؤنڈیشن کے پہلے سرد خانے کا قیام عمل میں لایا گیا۔ فوٹو: فائل

وسیع نیم تاریک کمرے میں برف کی سی خنکی ہی خون نہیں جمارہی خوف کی لہر بھی رگ وپے میں لہو کو منجمد کیے دے رہی ہے۔اندھیرے کی چادر میں ہر طرف کفن میں ملبوس جسم، کافور کی مہک، ہر طرف سکوت،ایک ایسا قبرستان جہاں قبریں نہیں، مردے آنکھوں کے سامنے ہیں اور اس پورے منظر میں کوئی تنہا سانس لیتا شخص اپنے فرائض نبھا رہا ہے۔ یہ ہے ایک سرد خانے کا منظر۔

بہتر ملازمت کا حصول ہر انسان کی ازل سے خواہش رہی ہے، لیکن اگر ہر شخص ہی پرسکون اور وائٹ کالر نوکری کی تگ و دو میں لگ جائے تو نظام ِزندگی درہم برہم ہو جائے گا۔ ہمارے معاشرے میں کچھ شعبے ایسے بھی ہیں جنہیں اختیار کرنا بہت ہی ہمت اور بہادری کا کام ہے۔ ان میں سے ایک شعبہ سرد خانوں کا بھی ہے، جہاں کام کرنے والوں کے شب و روز لاشوں، اور بعض اوقات گلی سڑی اور ٹکڑوں میں ملنے والی لاشوں کے ساتھ گزرتے ہیں۔ زیرنظر فیچر میں ہم کراچی میں موجود سردخانوں اور ان میں کام کرنے والے افراد خصوصاً مردے کو غسل دینے والے مردوخواتین کے تجربات بیان کررہے ہیں، کیوں کہ اس نفسانفسی کے دور میں یقیناً جلی ہوئی، گلی سڑی لاشوں کو خدمت خلق کے جذبے کے تحت غسل دے کر سفر آخرت کے لیے تیار کرنے والے یہ لوگ خراج تحسین پیش کرنے کے قابل ہیں۔



کراچی میں سرد خانے کے حوالے سے ایدھی فائونڈیشن کے ترجمان انور کاظمی کا کہنا ہے کہ 1987میں ایدھی کے پہلے سرد خانے کا قیام عمل میں لایا گیا۔ اس سے قبل لاوارث لاشوں کو غسل کے بعد میوہ شاہ قبرستان میں دفن کر دیا جاتا تھا۔ تاہم ایدھی صاحب نے اس بات کی ضرورت محسوس کی کہ لا وارث لاشوں کی فوراً تدفین کے بجائے دو، تین دن ان کے ورثا کو تلاش کیا جانا چاہیے اور اس مقصد کے لیے ایسا سرد خانہ بنانے کی ضرورت تھی جہاں لاوارث لاشوں ورثا کے انتظار میں محفوظ رکھا جاسکے۔ اسی سوچ کو عملی جامہ پہناتے ہوئے 1987میں سہراب گوٹھ کے نزدیک ایدھی سرد خانے کا قیام عمل میں لایا گیا۔ ابتدا میں اس سرد خانے میں بیک وقت 60لاشیں رکھنے کی گنجائش تھی۔ بعدازاں اس سرد خانے میں ایسی میتیں بھی لائی جانے لگیں جن کی تدفین میں قریبی رشتے داروں کی شرکت یقینی بنانے کے لیے دو سے تین دن کے لیے رکھا جاتا تھا۔ سرد خانے میں آنے والی لاشوں کی تعداد میں اضافے کو مدنظر رکھتے ہوئے ایدھی کے اس سرد خانے میں میتیں رکھنے کی گنجائش 60سے بڑھاکر 150اور بعد ازاں 300کردی گئی۔

گذشتہ چار دہائیوں سے عبدالستار ایدھی کے اس نیک مشن میں ساتھ دینے والے انور کاظمی کا کہنا ہے کہ ایدھی سرد خانے سے قبل صرف ایک نجی اسپتال ''ہولی فیملی'' میں یہ سہولت میسر تھی۔ تاہم وہاں مُردوں کو رکھنے کی گنجائش بہت کم تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ ایدھی صاحب خود اپنے ہاتھوں سے 62 ہزار مُردوں کو غسل دے چکے ہیں، جن میں گلی سڑی، کٹی پھٹی، جلی ہوئی اور ٹکڑوں میں ملنے والی لاشیں بھی شامل ہیں۔ تاہم کچھ عرصے سے انھوں طبیعت کی ناسازی کی بنا پر یہ سلسلہ موقوف کردیا ہے۔



انورکاظمی کا کہنا ہے کہ ہم لاوارث لاشوں کو تین دن تک سرد خانے میں رکھ کر ورثا کا انتظار کرتے ہیں۔ بعدازاں انہیں مواچھ گوٹھ میں واقع ایدھی قبرستان میں امانتاً دفن کر دیتے ہیں، اور قبر کا نمبر لاش کے ریکارڈ کے ساتھ محفوظ کردیا جاتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایک مردے کے کفن دفن اور تابوت پر تقریباً ساڑھے سات ہزار روپے کا خرچ آتا ہے۔ تاہم اگر بعد میں مردے کے وارث مل جائیں تو پھر ان سے صرف 800 روپے وصول کیے جاتے ہیں اور اگر وہ چاہیں تو امانتاً دفن کی گئی لاش کو ضروری کارروائی کے بعد لے جاکر کہیں اور بھی دفن کر سکتے ہیں، لیکن ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ امانتاً دفن کی گئی میت کو نکال کر کہیں اور دفن کیا جائے۔

انور کاظمی کا کہنا ہے کہ سرد خانے میں لاوارث لاشیں بلا معاوضہ رکھی جاتی ہیں۔ تاہم اگر ورثا مل جائیں تو ان سے تین دن کے لیے 1000روپے وصول کیے جاتے ہیں اور یہ ان کی صوابدید پر ہوتا ہے کہ وہ اپنے عزیز کی میت کو تین دن رکھیں یا ایک دن۔ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ ورثا کے پاس یہ رقم بھی موجود نہیں ہوتی تو ہم بلامعاوضہ ان کی میت سرد خانے میں رکھ لیتے ہیں۔



انور کاظمی نے بتایا کہ ایدھی فائونڈیشن کو نہ صرف پاکستان بلکہ جنوب ایشیا کی تاریخ کا پہلا موبائل سرد خانہ بنانے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ اس حوالے سے انور کاظمی کا کہنا ہے کہ موبائل سرد خانہ بنانے کا خیال ایدھی صاحب کے بیٹے فیصل ایدھی کا تھا، کیوں کہ دہشت گردی کے کسی بڑے سانحے کی صورت میں زیادہ میتوں کو ملک کے دوردراز علاقوں میں بھیجنا ایک بہت بڑا مسئلہ تھا، کیوں کہ خصوصاً گرم موسم میں طویل سفر کے دوران لاش کے خراب ہونے کا امکانات بہت زیادہ تھے۔ انھوں نے بتایا کہ یہ ''موبائل سرد خانہ'' بنانے کے لیے ہم نے 65لاکھ روپے مالیت کا ہینوٹرک خریدا جب کہ اس کی فیبریکیشن، ایئرکنڈیشنگ اور دیگر اندرونی حصوں کی ڈیزائننگ اور اسے سرد خانے میں تبدیل کرنے کے اخراجات ایک مخیر شخصیت نے برداشت کیے۔ انور کاظمی کا کہنا ہے کہ ''موبائل سرد خانے'' میں 24لاشیں رکھنے کی گنجائش ہے۔

سہراب گوٹھ کے نزدیک واقع ایدھی سرد خانے کے انچارج پیر امان اﷲ پرتابی کا کہنا ہے کہ سرد خانے میں ہر وقت 30سے 40 لاوارث لاشیں موجود ہوتی ہیں جب کہ ورثا کی جانب سے رکھوائی گئی15سے 20 لاشیں بھی موجود رہتی ہیں، جنہیں مرنے والے کے لواحقین تدفین میں قریبی عزیز و اقارب کی شرکت یقینی بنانے کے لیے ہمارے پاس رکھوا دیتے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ جمعے اور جمرات کے دن ہمارے پاس رش بہت زیادہ ہوتا ہے، کیوں کہ زیادہ تر لوگ ان دو دنوں میں میت کی تدفین کے خواہش مند ہوتے ہیں۔ سرد خانے کے درجۂ حرارت کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ درجہ حرارت کو موسم کے لحاظ سے رکھا جاتا ہے اور آج کل یہ ''زیرو'' سے '''-1'' پر سیٹ ہے۔



امان اﷲ کا کہنا ہے کہ پورے پاکستان میں جہاں جہاں ایدھی سینٹرز ہیں وہاں غسل اور کفن کی سہولت فراہم کی جاتی ہے اور ہم پورے پاکستان میں سالانہ ساڑھے آٹھ ہزار لاوارث لاشوں کی تدفین کرتے ہیں۔ ہمارے سرد خانے میں 24گھنٹے مرد اور خاتون غسال موجود رہتی ہیں۔

امان اﷲ کا کہنا ہے کہ لاش کو ورثا کے حوالے کرنے کا ہمارا بہت سادہ طریقۂ کار ہے۔ ہم سرد خانے کی جانب سے جاری کی گئی رسید ہی پر میت کو وارث کے حوالے کرتے ہیں۔ تاہم قتل، دہشت گردی اور حادثات کا نشانہ بننے والے افراد کی لاشوں کو ورثا کی تحویل میں دینے کے لیے متعلقہ پولیس اسٹیشن ایک لیٹر جاری کرتا ہے، جسے دیکھ کر ہم لاش ورثا کی تحویل میں دیتے ہیں، لیکن بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ فائرنگ کے نتیجے میں ہلاک ہونے والے فرد کی لاش کو مسلح گروہ اسلحے کے زور پر بغیر کسی پولیس کارروائی کے لے جاتے ہیں اور ہم بھی بنا مزاحمت لاش ان کے حوالے کردیتے ہیں، کیوں کہ ہمارے ملازمین کی جان کی اہمیت زیادہ ہے۔ انھوں نے بتایا کہ کسی بڑے سانحے کے بعد اگر حکومت معاوضے کا اعلان کردے تو پیسوں کے لالچ میں ایک لاش کی وراثت کا دعویٰ رکھنے والے دس دعوے دار سامنے آجاتے ہیں، اس صورت میں ہم لاش کو تھانے سے لیٹر لانے والے کے حوالے کردیتے ہیں۔



کسی بھی سردخانے میں سب سے اہم کردار وہاں کام کرنے والے افراد کا ہوتا ہے، کیوں کہ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جن کے شب و روز زندوں کے ساتھ نہیں مُردوں کے ساتھ گزرتے ہیں۔ یہ پیشہ اپنانا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ یہاں کام کرنے والے زیادہ ترافراد نے اس پیشے کو خدمت خلق کے جذبے سے مغلوب ہو کر چنا ہے، عمر رسیدہ لطافت حسین کا شمار بھی ان ہی لوگوں میں ہوتا ہے ۔

گذشتہ 8سال میں ہزاروں لاشوں کو غسل دینے والے لطافت حسین کا کہنا ہے کہ ہمارے معاشرے میں بے حسی دن بہ دن بڑھتی جا رہی ہے اور اب لوگ گلی سڑی، کٹی پھٹی، جلی ہوئی یا کسی حادثے میں مسخ ہوجانے والی لاش تو دور کی بات طبعی موت مرنے والے اپنے باپ، بھائی، بیٹے کی درست حالت میں موجود لاش کو بھی اپنے ہاتھوں سے غسل دینا گوارا نہیں کرتے اور ایسے افراد کی تعداد بہ مشکل 20سے 25 فی صد ہوگی جو ہمارے ساتھ اپنے عزیز کی لاش کو غسل دیتے ہیں۔ لطافت حسین کا کہنا ہے کہ شروع شروع میں ڈر لگتا تھا لیکن اب میںہر قسم کی لاش کو بنا کسی خوف غسل دے دیتاہوں۔

سرد خانے کے بارے اپنے تجربات بیان کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ چار سال قبل گلشن اقبال سے ایک پچاس سالہ شخص کی لاش کو غسل کے لیے لایا گیا، لیکن میں نے جیسے ہی اس کے جسم پر پانی ڈالا تو وہ اٹھ کر کھڑا ہوگیا یہ ماجرا دیکھ اس کے بیٹے خوف سے چلاتے ہوئے باہر بھاگ گئے۔ بعد میں پتا چلا کہ درحقیقت وہ شخص مرا نہیں تھا، بلکہ کومے میں چلا گیا تھا اور گھر والے اسے مردہ سمجھ کر تدفین کی تیاری کر رہے تھے، حقیقت کا پتا چلنے پر اس کے بیٹوں کی خوشی کی کوئی انتہا نہیں رہی۔ لطافت حسین کا کہنا ہے کہ مردوں کو غسل دیتے وقت کچھ عجیب و غریب واقعات بھی رونما ہوتے ہیں جنہیں ہم بتا تے نہیں ہیں ۔کچھ مردوں کا چہرہ غسل کے وقت بہت نورانی ہو جا تا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ چند سال قبل کیماڑی سے لائی گئی ایک ملنگ کی لاش کا چہرہ غسل کے بعد بہت پُررعب اور نورانی ہو گیا تھا اور اس کے بدن سے پھوٹنے والی خوش بو باہر تک پھیل گئی تھی۔ کچھ لاشوں کا چہرہ اس قدر خوف ناک اور کریہہ ہوجاتا ہے کہ انھیں دیکھ کر ہمارے جسم میں بھی خوف کی لہر ڈور جاتی ہے، کچھ لاشوں کا چہرہ غسل دیتے وقت بھی تبدیل ہوجاتا ہے۔




لطافت حسین نے بتایا کہ چھوٹے بچوں اور نوجوانوں کی لاش کو غسل دیتے وقت بہت دکھ ہوتا ہے، جب کہ زیادہ دن پرانی لاش کو غسل دینا قدرے مشکل کام ہوتا ہے، کیوں کہ لاش میں تعفن بہت زیادہ ہوتا ہے اس میں کیڑے پڑچکے ہوتے ہیں اور پانی ڈالنے پر جسم کے مختلف حصوں سے بلبلاتے ہوئے باہر نکلنے لگتے ہیں۔ میری ممکنہ حد تک کوشش ہوتی ہے کہ لاش کے جسم کو کیڑوں سے پاک کردیا جائے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ کچلی اور مسخ شدہ لاش کو غسل دینے کے بعد چہرے کو اس حد تک ٹھیک کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ تدفین کے وقت میت کا چہرہ دوسروں کو دکھایا جاسکے۔ غسل کے دوران لاش سے بہنے والے خون اور دیگر رطوبتوں کو بغیر کسی حفاظتی اقدامات اپنے ہاتھوں سے صاف کرتے ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ ٹکڑوں میں آنے والی لاش کے تمام اعضا کو پہلے نہلانے والی جگہ پر رکھ کر مکمل کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد غسل دیتے ہیں۔ بعض اوقات کسی لاش کا سر، ہاتھ یا پیر نہیں ہوتے۔ اس صورت حال میں ہم نامکمل لاش کو ہی غسل دے دیتے ہیں اور اگر بعد میں جسم کا کوئی حصہ مل جائے تو اسے بھی غسل دے کر ڈی این اے (DNA) میچ کرتے ہیں۔ اگر کسی لاش سے ڈی این اے میچ ہوجائے تو پھر اسی قبر میں، ورنہ نئی جگہ پر دفن کر دیا جاتا ہے۔

انہوںنے بتایاکہ وہ روزانہ 20 سے 25 لاشوں کو غسل دیتے ہیں، جن میں سے تقریباً نصف تعداد حادثات، ٹارگٹ کلنگ یا تشدد کے بعد قتل کیے گئے افراد کی ہوتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم ہر مردے کو اس کے مذہبی عقائد کے مطابق غسل دیتے ہیں۔ جلی ہوئی اور پانی میں ڈوبی ہوئی لاش کو غسل کے بجائے تیمم دیا جاتا ہے کیوں کہ جلنے یا پانی میں ڈوبنے کی وجہ سے لاش کا گوشت بہت نرم ہوجاتا ہے۔

ایدھی سرد خانے میں20 سال سے مردہ خواتین کو غسل دینے کا فریضہ سر انجام دینے والی نجمہ خاتون کا کہنا ہے کہ میں روزانہ 8سے 10خواتین کی لاشوں کو غسل دیتی ہوں، جن میں ہر طرح کی لاشیں ہوتی ہیں۔ الطافت حسین کے برعکس نجمہ خاتون مردے کو غسل دیتے وقت دستانے پہنتی ہیں، لاشوں سے ڈرنے کے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ شروع شروع میں مجھے ڈر لگتا تھا، لیکن اب تو عادت ہوگئی ہے اور لاش چاہے سلامت ہو یا کٹی پھٹی، مجھے غسل دیتے وقت کسی بھی قسم کا خوف محسوس نہیں ہوتا۔



ملک کے دوردراز علاقوں میں بھیجی جانے والی میتوں کو خراب ہونے سے بچانے کے لیے لاش کے جسم میں ایک مخصوص ''پریزرویٹو کیمیکل'' انجیکٹ کیا جاتا ہے، جو مردے کے پٹھوں اور عضلات کو 36 سے 48گھنٹے تک سڑنے سے تحفظ فراہم کرتا ہے۔ اس حوالے سے اسلام آباد جانے والی ایک لاش کے پیٹ میں یہ انجیکشن لگانے والے محمد نواز کا کہنا ہے کہ اگر لاش صحیح حالت میں ہو تو اس کیمیکل کا اثر دو دن تک رہتا ہے۔ ہم روزانہ تقریباً 7سے8 لاشوں کے یہ انجکشن لگاتے ہیں۔ لاش کے انجکشن لگانے کے بعد اسے تابوت میں بند کرنا بھی محمد نواز کی ذمہ داریوں میں شامل ہے اور ایدھی سرد خانے کے اس آخری مرحلے پر بھی ہر میت کو اس کے مذہب کے لحاظ سے تابوت میں بند کیا جاتا ہے اور اس کام کے لیے مسیحی برادری سے تعلق رکھنے والی میتوں کے لیے تابوت پر سیاہ کپڑا چڑھایا جاتا ہے جس کے اوپر سنہرے رنگ کی ربن سے صلیب کا نشان بنا ہوتا ہے۔

کراچی کی بڑھتی ہوئی آبادی کے پیش نظر علاقائی سطح پر سرد خانوں کے قیام کا بیڑا متحدہ قومی موومنٹ کی فلاحی تنظیم ''خدمت خلق فائونڈیشن'' نے اٹھایا اور اس سلسلے میں 20 اپریل2009 میں نیو کراچی میں50مردے رکھنے کی گنجائش والے پہلے سرد خانے کا افتتاح کیا گیا۔ اس حوالے سے خدمت خلق فائونڈیشن کے انتظامی امور کے انچارج طارق نصیر کا کہنا ہے کہ نیو کراچی کے بعد ملیر میں بھی ایک سردخانہ قائم کیا گیا ہے تاہم وہاں فی الوقت12 مردے رکھنے کی گنجائش ہے۔ انھوں نے بتایا کہ اس وقت لانڈھی، رنچھوڑ لائن اور جہانگیر روڈ پر بھی سرد خانوں کا تعمیراتی کام جاری ہے، جس میں سے جہانگیر روڈ والا سرد خانہ تقریباً مکمل ہو چکا ہے اور جلد ہی اس کا افتتاح کردیا جائے گا۔ جہانگیر روڈ پر بننے والا سرد خانہ جدید سہولیات سے آراستہ ہے اور وہاں 20 لاشیں رکھنے کی گنجائش ہے۔ طارق نصیر کا کہنا ہے کہ نیو کراچی کے سرد خانے پر ہر وقت ایک ایمبولینس موجود رہتی ہے، جب کہ ملیر والے سرد خانے پر ہر وقت ایمبولینس کے ساتھ میت بس بھی موجود رہتی ہے۔ میت کو سردخانے میں رکھنے اور غسل کفن کے چارجز کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ ہم میت کو سرد خانے میں رکھنے کے 500روپے فی دن اور غسل، کفن کے 800روپے لیے جاتے ہیں، لیکن مستحقین سے اس مد میں ایک پیسا بھی نہیں لیا جاتا اور انہیں بلاامتیازو رنگ نسل یہ تمام خدمات مفت میں فراہم کی جاتی ہیں۔ تاہم سیاسی وابستگی کی بنا پر اکثروبیشتر ہمارے سردخانوں اور ایمبولینسوں پر فائرنگ اور عملے کے افراد کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔



خدمت خلق فائونڈیشن کے نیو کراچی میں واقع سرد خانے کے جوائنٹ انچارج محمد عشرت حسین کا کہنا ہے کہ ہمارے سرد خانے میں روزانہ اوسطاً 20 لاشیں لائی جاتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ سرد خانے میں دن کے اوقات میں دو مرد غسال اور دو غسالہ ہر وقت موجود رہتی ہیں۔

اس سردخانے میں موجود 54 سالہ غسال جاوید کا کہنا ہے کہ اس پیشے میں آنے کا واحد مقصد انسانیت کی خدمت کرنا تھااور اﷲ کا شکر ہے کہ گذشتہ تین سال میں کبھی بھی مردے کو غسل دیتے وقت خوف محسوس نہیں ہوا بعض اوقات مردے اور اپنے علاوہ کسی ''اور'' کی آہٹ بھی محسوس ہوتی ہے لیکن میں کلمۂ طیبہ کا ورد جاری رکھتے ہوئے مردے کو مکمل غسل دیتا ہوں۔ انھوں نے بتایا کہ زیادہ تر ایسا ہوتا ہے کہ جب نہلانے کے لیے مردے کے جسم پر پانی ڈالا جاتا ہے تو وہ آنکھیں کھول دیتا ہے جنہیں ہم بند کردیتے ہیں۔ کچھ مُردوں کی آنکھیں بار بار کھل جاتی ہیں، لیکن اس سے مجھے کسی قسم کا خوف محسوس نہیں ہوتا جاوید نے سردخانے میں پیش آنے والے ایک واقعے کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ ایک سال قبل دو بیٹے اپنے باپ کی لاش سرد خانے میں لے کر لائے، لیکن جب ایمبولینس سے اسٹریچر کو باہر نکالا گیا تو وہ (مردہ) اٹھ گئے اور ارد گرد کا ماحول دیکھ کر اپنے بیٹوں کو مغلظات بکنا شروع کردیں، لیکن یہ سب سننے سے قبل ہی وہ ڈر کر سرد خانے سے باہر بھاگ چکے تھے۔ انہیں بلاکر والد صاحب کے زندہ ہونے کا یقین دلایا گیا۔ جس پر انھوں نے اپنے والد صاحب کو ایمبولینس میں قریب ہی واقع نجی اسپتال بھیج دیا اور خود دونوں بھائی رکشے میں بیٹھ کر اسپتال گئے، لیکن دو گھنٹے بعد ان صاحب کی لاش دوبارہ لائی گئی۔ اس بار وہ حقیقتاً دار فانی سے کوچ کرچکے تھے۔ جاوید کا کہنا ہے کہ ''مہدی حسن''،''لہری صاحب'' اور متحدہ قومی موومنٹ کے رکن صوبائی اسمبلی ''منظر امام'' کو بھی میں ہی غسل دیا تھا، جب کہ چند ماہ قبل بفرزون کے علاقے میں بارش کے دوران نالے میں ڈوب کر جاں بحق ہونے والے معصوم بچے کی لاش کو غسل دیتے وقت دل خون کے آنسو رو رہا تھا اس کی لاش پھول کر سات سال کے بچے کی لگ رہی تھی۔



غیر مسلموںکو غسل دینے کے بارے میں جاوید کا کہنا ہے کہ عیسائی اپنے مردے کی شیو بناتے اور غیر ضروری بال صاف کرتے ہیں اور اگر مرنے والا کنوارا ہے تو اس کی ایک انگلی پر منہدی کے ساتھ ساتھ سہرا بھی پہناتے ہیں، جب کہ کیتھولک فرقے سے تعلق رکھنے والے عیسائی اپنے مردے کو نیا سوٹ (کوٹ پینٹ) اور پروٹیسٹنٹ عیسائی مردے کو نئی قمیض شلوار پہناتے ہیں، لیکن یہ سب کام مرنے والے کے لواحقین اپنے ہاتھوں سے کرتے ہیں ٹکڑوں میں، گلی ہوئی، جلی ہوئی یا پانی میں ڈوبی ہوئی لاشوں کے حوالے سے جاوید کا کہنا ہے کہ ٹکڑوں میں آنے والی لاش کے ٹکڑوں کو الگ الگ غسل دیتے ہیں اور پھر مکمل کرکے کفن پہنا دیتے ہیں، جب کہ جلی ہوئی لاش کو ہم پانی میں بھیگی ہوئی روئی کی مدد سے غسل دیتے ہیں۔

جاوید کے شاگرد 38 سالہ غسال اکرم علی کے اس پیشے میں آنے کی وجہ کچھ منفرد ہے۔ اس بارے میں اکرم علی کا کہنا ہے کہ یہ کام کرنے سے پہلے میں ایک گارمنٹ فیکٹری میں کام کرتا تھا، لیکن سسر کی موت نے مجھے اس کام کو بطور پیشہ اپنانے کی جانب راغب کیا۔ اکرم علی کا کہنا ہے کہ جاوید بھائی (غسال) کے ساتھ سسر کو غسل دیتے وقت مجھ پر زندگی کی حقیقت ظاہر ہوئی اور اس بات کے کچھ عرصے بعد ہی میں نے جاوید بھائی کی شاگردی اختیار کرلی۔ ابتدا میں خوف محسوس ہوتا تھا لیکن اب تو ہر قسم کی لاش کو بلاخوف اکیلا غسل دے دیتا ہوں، لیکن لوگوں میں بڑھتی ہوئی بے حسی دیکھ کر بہت افسوس ہوتا ہے۔ بہت کم لوگ ہی اپنے عزیزوں کی لاش کو اپنے ہاتھوں سے غسل دینا پسند کرتے ہیں۔



خواتین کو غسل دینے والی غسالہ پروین سلیم اور شیر بانو کا کہنا ہے کہ شروع میں ہمیں بھی بہت ڈر لگتا تھا، لیکن اب عادت ہوگئی ہے۔ اب تک ہر طرح کی لاش کو غسل دے چکے ہیں۔ غیرمسلم خواتین کو غسل دینے کے بارے میں پروین سلیم کا کہنا ہے کہ اگر مرنے والی عیسائی لڑکی کنواری ہے تو اس کے ساتھ آنے والی خواتین اس لاش کو منہدی لگاتی ہیں، جب کہ کچھ باقاعدہ میک اپ یا سرخی پاؤڈر لگاتی ہیں۔

سرکاری اسپتالوں میں قائم سردخانوں کے حوالے سے ایڈیشنل پولیس سرجن ڈاکٹر جلیل قادر کا کہنا ہے کہ سول، جناح اور عباسی اسپتال میں سردخانے موجود تو ہیں لیکن وہ عملے کو لاحق سیکیوریٹی خدشات کی بنا پر گذشتہ کئی سالوں سے فعال نہیں ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ عموماً سرکاری اسپتالوں کے ساتھ موجود سردخانے تعلیمی مقاصد میں استعمال کے لیے ہوتے ہیں اور یہ ہیڈ آف فارنسک ڈیپارٹمنٹ کے ماتحت ہوتے ہیں اور ان کی دیکھ بھال اور مینٹی نینس بھی انہی کی ذمے داری ہوتی ہے۔ لاش کو محفوظ کرنے کے لیے استعمال کیے جانے والے کیمیکل کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ اکثر آپ مختلف اسپتالوں میں شیشے کے جار میں ایک محلول میں ڈوبے انسانی اعضا کو دیکھتے ہیں۔ دراصل یہ وہ ہی کیمیکل ہے جو دور دراز علاقوں میں لے جائے جانے والی لاش کے جسم میں انجیکٹ کیا جاتا ہے یہ کیمیکل (ٹشو پریزرویٹو) ہوتا ہے جو انسانی جسم کے نسیجوں اور بافتوں کو گلنے سے تحفظ فراہم کرتا ہے) تدفین کے بعد دوبارہ کیے گئے پوسٹ مارٹم کی رپورٹ پر اس کیمیکل کے اثرات کے بارے میں ڈاکٹر قادر جلیل کا کہنا ہے کہ اگر مقتول کو زہر دے کر قتل کیا گیا ہے تو پھر پوسٹ مارٹم کی رپورٹ اس کیمیکل کی وجہ سے متاثر ہو سکتی ہے۔ تاہم پوسٹ مارٹم میں قتل کی دیگر وجوہات پر اس کیمیکل کے کوئی اثرات مرتب نہیں ہوتے۔

عوام کو سہولیات کی فراہمی ریاست کی ذمے داری ہے لیکن ''ایدھی فائونڈیشن'' اور ''خدمت خلق فائونڈیشن'' جیسے رفاہی اداروں کی بدولت عوام کو سرد خانوں کی سہولت میسر ہے، جن کی وجہ سے لاوارث قرار پانے والی لاشیں ورثا کی رسائی کے لیے محفوظ رہ جاتی ہیں اور جن میتوں کی تدفین میں کسی وجہ سے تاخیر کرنا ضروری ہو، انھیں بھی تحفظ حاصل ہوجاتا ہے۔
Load Next Story