
یہ مادّہ پچھلے کئی ارب سال سے ایک خلائی پتھر میں بند تھا جو شاید کسی دوسرے اور دور دراز ستارے سے وجود میں آیا تھا اور کسی طرح وہاں سے فرار ہوگیا تھا۔
غالباً مزید چند ارب سال تک خلاء میں آوارہ گردی کرنے کے بعد بالآخر یہ زمین کی کششِ ثقل کی گرفت میں آگیا اور 1969ء میں آسٹریلیا کے ایک غیر آباد علاقے میں شہابِ ثاقب کی شکل میں آن گرا۔
ویسے تو یہ کئی ٹن وزنی تھا لیکن زمینی فضا کے ساتھ زبردست رگڑ اور اپنی انتہائی تیز رفتار کے باعث یہ انگارے کی طرح دہکتا ہوا سطح زمین کی طرف بڑھا۔ فضا سے زمین تک کے سفر میں اس شہابِ ثاقب کا بیشتر حصہ گرم راکھ بن کر ہوا میں اُڑ گیا لیکن پھر بھی اس کا 100 کلوگرام جتنا ٹکڑا، ایک بڑے پتھر کی شکل میں، زمین سے ٹکرانے میں کامیاب ہوگیا؛ جسے آسٹریلوی اداروں نے اپنی تحویل میں لے لیا۔
شکاگو میں فیلڈ میوزیم آف نیچرل ہسٹری نے اس شہابِ ثاقب کا 52 کلوگرام وزنی حصہ تحقیق کی غرض سے امریکا منگوالیا۔ وہ معلوم کرنا چاہتے تھے کہ اس میں پوشیدہ مادّے کتنے قدیم ہیں۔
ماہرینِ فلکیات کئی شہابِ ثاقب کے اندر چھپے ہوئے انتہائی قدیم مادّوں کا سراغ لگا چکے ہیں جن میں سے بعض ہمارے سورج سے بھی زیادہ قدیم ثابت ہوئے ہیں۔ یہ مادّے بہت معمولی مقدار میں، اور خردبینی ذرّات کی شکل میں، ہوتے ہیں جنہیں ''پری سولرز گرینز'' (سورج سے بھی قدیم ذرّے) کہا جاتا ہے۔
تاہم، مذکورہ شہابِ ثاقب میں سے ملنے والا یہ مادہ نہ صرف ہمارے اپنے نظامِ شمسی سے، بلکہ اب تک کسی بھی دوسرے شہابِ ثاقب میں سے ملنے والے مادّے سے بھی زیادہ قدیم ہے۔ تاریخ نگاری (ڈیٹنگ) کے جدید اور حساس ترین طریقے استعمال کرتے ہوئے ماہرین نے معلوم کیا ہے کہ یہ مادّہ کم سے کم 5 ارب سال، اور زیادہ سے زیادہ 7 ارب سال تک قدیم ہے۔
ایسی دریافتیں اس لیے بھی اہم قرار دی جاتی ہیں کیونکہ ان کے ذریعے ہمیں نہ صرف ستاروں اور نظامِ شمسی بلکہ مجموعی طور پر کائناتی ارتقاء کو بہتر طور پر سمجھنے میں خاصی مدد ملتی ہے۔
اس تحقیق اور دریافت کی تفصیلات ''پروسیڈنگز آف دی نیشنل اکیڈمی آف سائنسز'' (PNAS) کے تازہ شمارے میں آن لائن شائع ہوئی ہیں۔
تبصرے
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔