گلے میں اٹکی ہڈی
کہنے کو بہت کچھ ہے مگر خوفِ فسادِ خلق کہنے سے روکتا ہے۔ منافقتوں اور موقع پرستیوں کی طویل ...
کہنے کو بہت کچھ ہے مگر خوفِ فسادِ خلق کہنے سے روکتا ہے۔ منافقتوں اور موقع پرستیوں کی طویل داستانیں، نااہلیوں اور نالائقیوں کے سیکڑوں قصے، کوتاہ بینیوں اور کم مائیگیوں کے نا ختم ہونے والے سلسلے، ہر قسم کی عصبیتوں کے ان گنت فسانے۔ لیکن کبھی فتوئوں کا خوف سوچ کی لہروں کو منجمد کرتا ہے، تو کبھی گردن زدنی کا خدشہ دل کی بات زباں تک لانے نہیں دیتا۔ یوں جو کچھ دیکھتے اور محسوس کرتے ہیں، اسے بیان کرتے ہوئے زبان لڑکھڑاتی اور قلم لرزتا ہے۔ سمجھ میں نہیں آتاکہ ایک ایسے بے حس معاشرہ کو کیا نام دیا جائے، جو یکے بعد دیگر المیو ں سے گزرتا ہو، مگر ان سے کچھ سیکھنے کے بجائے انھیں مسلسل دہرانے پر مصر رہتا ہو۔ غلطیاں ایک نہیں کئی صد ہیں، جن کی بار بار نشاندہی بھی ہوتی رہتی ہے، مگر صدائے جرس پر کون توجہ دیتا ہے۔ نقارخانے میں طوطی کی آواز کون سنتا ہے۔
بابائے قوم نے 11 اگست کو دستور ساز اسمبلی سے اپنے پہلے خطاب میں مملکت اور آئین کے خدوخال واضح کردیے تھے، مگر اندرون خانہ کچھ اور منصوبے تھے۔ قائد کی آنکھ بند ہوتے ہی قرارداد مقاصد کے ذریعے جمہوریت اور جمہوری اقدار کا گلا گھونٹ کر ملک کو تھیوکریسی کی راہ پر لگانے کا بندوبست کردیا گیا۔ وہ ملک جسے قراردادِ لاہور کے مطابق ایک وفاقی جمہوریہ بننا تھا، آمریتوں کے زیر سایہ ایک ایسی وحدانی ریاست میں تبدیل ہوگیا جہاں قوموں، قومیتوں اور لسانی اکائیوں کی اہمیت ہی ختم ہوکر رہ گئی۔ صدیوں سے اس خطے کے نقشے پر موجود اکائیوں کا وجود ختم کرنے اور ان کی سیاسی، سماجی، ثقافتی اور تاریخی شناخت مٹانے کے لیے ون یونٹ کے نام پر مذموم کوششوں کا آغاز کردیا گیا۔
یہی سبب ہے کہ آج پاکستان جس تشویشناک مقام تک جا پہنچا ہے، اس کا سبب ماضی کے ان گنت غلط فیصلوں کا تسلسل ہے، جن سے سبق سیکھنے کے بجائے ان پر مسلسل اصرار کیا جاتا ہے۔ لہٰذا جب تک حکمران اشرافیہ، سیاسی قیادتیں اور اہل دانش سنجیدگی کے ساتھ ماضی میں کیے گئے غلط فیصلوں کا تفصیلی جائزہ نہیں لیتے، کسی صائب نتیجے تک پہنچنا ممکن نہیں ہوتا۔ تقسیم ہند کے بعد کیے گئے غلط فیصلوں سے صرفِ نظر کرتے ہوئے صرف سقوط ڈھاکا کے بعد کیے جانے والے فیصلوں کا جائزہ لیا جائے تو بھی آج کی دگرگوں صورتحال کو سمجھنے میں خاصی مدد مل سکتی ہے۔ سقوط ڈھاکا کے بعد دسمبر 1971 میں جب ذوالفقار علی بھٹو کو اقتدار ملا، تو تین تاریخ ساز کارنامے سرانجام دینے کے ساتھ ان سے تین ایسی فاش غلطیاں بھی سرزد ہوئیں، جنھیں آج پوری قوم بھگت رہی ہے، جہاں تک ان کے تاریخی فیصلوں کا تعلق ہے، تو اول، انھوں نے منتشر ہوتی جغرافیائی تشکیل کو ایک متفقہ آئین دے کر مزید بکھرنے سے بچایا۔ دوم، 93 ہزار کے قریب جنگی قیدیوں کو رہائی دلائی اور مغربی حصے کے ان علاقوں کو واپس لیا جن پر دورانِ جنگ بھارت نے قبضہ کرلیا تھا۔
سوم، زبوں حالی سے دوچار معیشت کی بحالی کے لیے موثر اقدامات کیے۔ لیکن وہیں ان سے تین ایسی فاش غلطیاں بھی سرزد ہوئیں، جو آج گلے کا ہار بن چکی ہیں۔ اول، 16 دسمبر 1971 کو سقوط ڈھاکا کے بعد باقی ماندہ یا نئے پاکستان کی ازسر نو تعمیر کے لیے ایک نئے عمرانی معاہدے کی ضرورت تھی۔ مگر انھوں نے اس جانب کوئی توجہ نہیں دی۔ اگر ایک نیا عمرانی معاہدہ تشکیل پاجاتا تو موجودہ پاکستان مذہبی شدت پسندی کی آماجگاہ بننے کے بجائے ایک ترقی دوست قومی ریاست بن چکا ہوتا۔ دوم، ملک کی بقا حقیقی وفاقی نظام میں مضمر ہے، جس میں مرکزی حکومت کے بجائے وفاقی یونٹوں میں قائم حکومتوں کا مضبوط ہونا ضروری ہوتا ہے۔ بھٹو صاحب نے آئین میں صوبائی خود کے لیے شق ضرور شامل کی لیکن مشترک فہرست (Concurrent List) کے خاتمے کے لیے 10 برس کی مدت کا تعین کردیا۔ اس فیصلے کا فائدہ فوجی آمروں نے اٹھایا اور صوبائی خودمختاری کے حصول میں تقریباً 40 برس لگ گئے۔ سوم، ان جیسے دیدہ ور سیاستدان سے یہ توقع نہیں تھی کہ وہ عوام کے عقائد اور نظریات کو پارلیمان میں زیرِ بحث لائیں گے۔ مگر انھوں نے پارلیمان کو ان معاملات میں الجھا کر شدت پسندی کے فروغ اور ایک دوسرے کی تکفیر کا راستہ کھول دیا۔
اس کے علاوہ 1976 میں جب جنرل دائود نے اپنے کزن ظاہر شاہ کا تختہ الٹ کر افغانستان پر قبضہ کیا، تو بھٹو مرحوم نے پروفیسر برہان الدین ربانی اور گلبدین حکمت یار سمیت کئی افغان مذہبی شخصیات کی میزبانی کرکے انھیں افغانستان میں مذہبی انقلاب پر آمادہ کیا۔ بھٹو جیسی شخصیت سے جو عالمی منظرنامہ پر گہری نظر رکھتی ہو، اس خام خیالی کی توقع نہیں کی جاسکتی تھی کہ افغانستان میں مذہبی شدت پسندی کے ابھار کے پاکستان پر اثرات مرتب نہیں ہوں گے، جب کہ خود پاکستان مذہب کے نام پر قائم ہونے والی ریاست ہو۔ نتیجتاً دسمبر 1979 میں افغانستان میں جب روسی افواج افغانستان میں داخل ہوئیں، تو مذہبی عناصر اور War Lords کے درمیان بھٹو دور میں بننے والے اتحاد نے عسکری شکل اختیار کرلی۔ جسے جنرل ضیاء الحق اور امریکا نے اپنے مذموم مقاصد کے لیے حسب ضرورت استعمال کیا۔ اس کے ساتھ ہی پاکستان کے قبائلی علاقوں میں غیر ملکی جنگجو جتھوں کو ٹھہرانے کا بندوبست اور خیبر پختونخوا کے دینی مدارس کو عسکری تربیت کے لیے استعمال کیا گیا۔
اب اس حقیقت کو کھلے دل سے تسلیم کرلینا چاہیے کہ آج پاکستان ایک زد پذیر (Fragile) ملک اس لیے بن چکا ہے کہ یہاں معاملات کو سمجھنے اور انھیں واضح سمت دینے کی صلاحیت کا فقدان ہے۔ جنرل ضیاالحق سے جنرل پرویز مشرف تک جو غلط فیصلے کیے گئے، انھیں رد کرنے کی جرأت حکمرانوں سمیت کسی سیاسی جماعت اور اس کی قیادت میں نہیں ہے۔ اگر سیاسی جماعتیں 1988 سے 1999 کے دوران افغان پالیسی کی مخالفت کرکے بیشک اسٹیبلشمنٹ کی مخالفت مول نہ لیتیں، مگر وہ اس پالیسی سے عدم دلچسپی کا مظاہرہ تو کرسکتی تھیں، جس سے اس کی اہمیت کم ہوجاتی، مگر ''شاہ سے بڑھ کر شاہ پسند'' کے مصداق سیاسی جماعتوں نے جرنیلوں سے بڑھ کر افغان معاملات میں دلچسپی لی، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ شدت پسندی کا جن بوتل سے باہر آگیا اورپاکستان کے لیے ایک چیلنج بنا ہوا ہے۔ مگر حکومت کوئی واضح پالیسی تشکیل دینے کے بجائے کنفیوژن میں مبتلا ہے، جس کے باعث ایک طرف مناسب اقدامات نہیں ہوپا رہے اور دوسری طرف رائے عامہ منقسم ہوگئی ہے۔
مختلف سیاسی و سفارتی اصطلاحات کے استعمال میں بھی ہمارے حکمران اور سیاستدان غیر محتاط رہتے ہیں۔ انھیں اس بات کا بھی ادراک نہیں ہے کہ دنیا بھر میں جنگجو باغیوں کو کبھی Stakeholder کا درجہ نہیں دیا جاتا۔ دوسرے ایسے عناصر کے ساتھ جو ریاست کی رٹ کو چیلنج کررہے ہوں مذاکرات یعنی Dialogue نہیں کیے جاتے بلکہ انھیں Engage کرنے کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ برطانیہ اور سری لنکا کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں، جنہوں نے بالترتیب آئرش اور تامل جنگجو باغیوں کو کچلنے کے لیے دو طرفہ حکمت عملی اختیار کی۔ ایک طرف ان ریاستوں کی فوجیں جنگجو عناصر کے خلاف فوجی آپریشن کرتی رہیں تو دوسری طرف حکومت اپنی شرائط پر ان کے سیاسی ونگ کے ساتھ گفت و شنید بھی کرتی رہی۔ مگر ان کارروائیوں کے لیے نیت کا صاف اور ارادے کا پختہ ہونا بنیادی شرط ہے۔ لیکن ایک ایسے ملک میں جہاں حکومت مختلف مصلحتوں کا شکار ہو اور سیاسی جماعتوں میں فکری کنفیوژن اپنے عروج پر ہو، کسی صائب فیصلے کی توقع عبث ہے۔
یہ سوچ غلط مفروضوں پر مبنی ہے کہ ڈرون حملوں کی بندش کے نتیجے میں خودکش حملے بند ہوجائیں گے اور 2014 میں نیٹو افواج کے انخلا کے بعد خطے میں امن و استحکام آجائے گا۔ عالمی سیاست پر نظر رکھنے والے بخوبی سمجھتے ہیں کہ ڈرون حملوں سے شدت پسندی کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ دوسرے دسمبر 2014 کے بعد خطے کے حالات میں بہتری کے بجائے مزید دگرگوں ہونے کے خدشات موجود ہیں۔ اس لیے پاکستان کے حکمران اور سیاسی قیادتیں اگر اس ملک کے جغرافیے کو بچانا چاہتی ہیں تو انھیں شدت پسندی کے خلاف واضح موقف اور حکمت عملی اختیار کرنا ہوگا، اس کے سواکوئی اور راستہ نہیں ہے۔ گلے میں اٹکی شدت پسندی کی ہڈی کو جس قدر جلد ممکن ہو نکال پھینکا جائے تو بہتر ہے، وگرنہ پورے جسم میں Septic کا خطرہ ہے۔
بابائے قوم نے 11 اگست کو دستور ساز اسمبلی سے اپنے پہلے خطاب میں مملکت اور آئین کے خدوخال واضح کردیے تھے، مگر اندرون خانہ کچھ اور منصوبے تھے۔ قائد کی آنکھ بند ہوتے ہی قرارداد مقاصد کے ذریعے جمہوریت اور جمہوری اقدار کا گلا گھونٹ کر ملک کو تھیوکریسی کی راہ پر لگانے کا بندوبست کردیا گیا۔ وہ ملک جسے قراردادِ لاہور کے مطابق ایک وفاقی جمہوریہ بننا تھا، آمریتوں کے زیر سایہ ایک ایسی وحدانی ریاست میں تبدیل ہوگیا جہاں قوموں، قومیتوں اور لسانی اکائیوں کی اہمیت ہی ختم ہوکر رہ گئی۔ صدیوں سے اس خطے کے نقشے پر موجود اکائیوں کا وجود ختم کرنے اور ان کی سیاسی، سماجی، ثقافتی اور تاریخی شناخت مٹانے کے لیے ون یونٹ کے نام پر مذموم کوششوں کا آغاز کردیا گیا۔
یہی سبب ہے کہ آج پاکستان جس تشویشناک مقام تک جا پہنچا ہے، اس کا سبب ماضی کے ان گنت غلط فیصلوں کا تسلسل ہے، جن سے سبق سیکھنے کے بجائے ان پر مسلسل اصرار کیا جاتا ہے۔ لہٰذا جب تک حکمران اشرافیہ، سیاسی قیادتیں اور اہل دانش سنجیدگی کے ساتھ ماضی میں کیے گئے غلط فیصلوں کا تفصیلی جائزہ نہیں لیتے، کسی صائب نتیجے تک پہنچنا ممکن نہیں ہوتا۔ تقسیم ہند کے بعد کیے گئے غلط فیصلوں سے صرفِ نظر کرتے ہوئے صرف سقوط ڈھاکا کے بعد کیے جانے والے فیصلوں کا جائزہ لیا جائے تو بھی آج کی دگرگوں صورتحال کو سمجھنے میں خاصی مدد مل سکتی ہے۔ سقوط ڈھاکا کے بعد دسمبر 1971 میں جب ذوالفقار علی بھٹو کو اقتدار ملا، تو تین تاریخ ساز کارنامے سرانجام دینے کے ساتھ ان سے تین ایسی فاش غلطیاں بھی سرزد ہوئیں، جنھیں آج پوری قوم بھگت رہی ہے، جہاں تک ان کے تاریخی فیصلوں کا تعلق ہے، تو اول، انھوں نے منتشر ہوتی جغرافیائی تشکیل کو ایک متفقہ آئین دے کر مزید بکھرنے سے بچایا۔ دوم، 93 ہزار کے قریب جنگی قیدیوں کو رہائی دلائی اور مغربی حصے کے ان علاقوں کو واپس لیا جن پر دورانِ جنگ بھارت نے قبضہ کرلیا تھا۔
سوم، زبوں حالی سے دوچار معیشت کی بحالی کے لیے موثر اقدامات کیے۔ لیکن وہیں ان سے تین ایسی فاش غلطیاں بھی سرزد ہوئیں، جو آج گلے کا ہار بن چکی ہیں۔ اول، 16 دسمبر 1971 کو سقوط ڈھاکا کے بعد باقی ماندہ یا نئے پاکستان کی ازسر نو تعمیر کے لیے ایک نئے عمرانی معاہدے کی ضرورت تھی۔ مگر انھوں نے اس جانب کوئی توجہ نہیں دی۔ اگر ایک نیا عمرانی معاہدہ تشکیل پاجاتا تو موجودہ پاکستان مذہبی شدت پسندی کی آماجگاہ بننے کے بجائے ایک ترقی دوست قومی ریاست بن چکا ہوتا۔ دوم، ملک کی بقا حقیقی وفاقی نظام میں مضمر ہے، جس میں مرکزی حکومت کے بجائے وفاقی یونٹوں میں قائم حکومتوں کا مضبوط ہونا ضروری ہوتا ہے۔ بھٹو صاحب نے آئین میں صوبائی خود کے لیے شق ضرور شامل کی لیکن مشترک فہرست (Concurrent List) کے خاتمے کے لیے 10 برس کی مدت کا تعین کردیا۔ اس فیصلے کا فائدہ فوجی آمروں نے اٹھایا اور صوبائی خودمختاری کے حصول میں تقریباً 40 برس لگ گئے۔ سوم، ان جیسے دیدہ ور سیاستدان سے یہ توقع نہیں تھی کہ وہ عوام کے عقائد اور نظریات کو پارلیمان میں زیرِ بحث لائیں گے۔ مگر انھوں نے پارلیمان کو ان معاملات میں الجھا کر شدت پسندی کے فروغ اور ایک دوسرے کی تکفیر کا راستہ کھول دیا۔
اس کے علاوہ 1976 میں جب جنرل دائود نے اپنے کزن ظاہر شاہ کا تختہ الٹ کر افغانستان پر قبضہ کیا، تو بھٹو مرحوم نے پروفیسر برہان الدین ربانی اور گلبدین حکمت یار سمیت کئی افغان مذہبی شخصیات کی میزبانی کرکے انھیں افغانستان میں مذہبی انقلاب پر آمادہ کیا۔ بھٹو جیسی شخصیت سے جو عالمی منظرنامہ پر گہری نظر رکھتی ہو، اس خام خیالی کی توقع نہیں کی جاسکتی تھی کہ افغانستان میں مذہبی شدت پسندی کے ابھار کے پاکستان پر اثرات مرتب نہیں ہوں گے، جب کہ خود پاکستان مذہب کے نام پر قائم ہونے والی ریاست ہو۔ نتیجتاً دسمبر 1979 میں افغانستان میں جب روسی افواج افغانستان میں داخل ہوئیں، تو مذہبی عناصر اور War Lords کے درمیان بھٹو دور میں بننے والے اتحاد نے عسکری شکل اختیار کرلی۔ جسے جنرل ضیاء الحق اور امریکا نے اپنے مذموم مقاصد کے لیے حسب ضرورت استعمال کیا۔ اس کے ساتھ ہی پاکستان کے قبائلی علاقوں میں غیر ملکی جنگجو جتھوں کو ٹھہرانے کا بندوبست اور خیبر پختونخوا کے دینی مدارس کو عسکری تربیت کے لیے استعمال کیا گیا۔
اب اس حقیقت کو کھلے دل سے تسلیم کرلینا چاہیے کہ آج پاکستان ایک زد پذیر (Fragile) ملک اس لیے بن چکا ہے کہ یہاں معاملات کو سمجھنے اور انھیں واضح سمت دینے کی صلاحیت کا فقدان ہے۔ جنرل ضیاالحق سے جنرل پرویز مشرف تک جو غلط فیصلے کیے گئے، انھیں رد کرنے کی جرأت حکمرانوں سمیت کسی سیاسی جماعت اور اس کی قیادت میں نہیں ہے۔ اگر سیاسی جماعتیں 1988 سے 1999 کے دوران افغان پالیسی کی مخالفت کرکے بیشک اسٹیبلشمنٹ کی مخالفت مول نہ لیتیں، مگر وہ اس پالیسی سے عدم دلچسپی کا مظاہرہ تو کرسکتی تھیں، جس سے اس کی اہمیت کم ہوجاتی، مگر ''شاہ سے بڑھ کر شاہ پسند'' کے مصداق سیاسی جماعتوں نے جرنیلوں سے بڑھ کر افغان معاملات میں دلچسپی لی، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ شدت پسندی کا جن بوتل سے باہر آگیا اورپاکستان کے لیے ایک چیلنج بنا ہوا ہے۔ مگر حکومت کوئی واضح پالیسی تشکیل دینے کے بجائے کنفیوژن میں مبتلا ہے، جس کے باعث ایک طرف مناسب اقدامات نہیں ہوپا رہے اور دوسری طرف رائے عامہ منقسم ہوگئی ہے۔
مختلف سیاسی و سفارتی اصطلاحات کے استعمال میں بھی ہمارے حکمران اور سیاستدان غیر محتاط رہتے ہیں۔ انھیں اس بات کا بھی ادراک نہیں ہے کہ دنیا بھر میں جنگجو باغیوں کو کبھی Stakeholder کا درجہ نہیں دیا جاتا۔ دوسرے ایسے عناصر کے ساتھ جو ریاست کی رٹ کو چیلنج کررہے ہوں مذاکرات یعنی Dialogue نہیں کیے جاتے بلکہ انھیں Engage کرنے کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ برطانیہ اور سری لنکا کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں، جنہوں نے بالترتیب آئرش اور تامل جنگجو باغیوں کو کچلنے کے لیے دو طرفہ حکمت عملی اختیار کی۔ ایک طرف ان ریاستوں کی فوجیں جنگجو عناصر کے خلاف فوجی آپریشن کرتی رہیں تو دوسری طرف حکومت اپنی شرائط پر ان کے سیاسی ونگ کے ساتھ گفت و شنید بھی کرتی رہی۔ مگر ان کارروائیوں کے لیے نیت کا صاف اور ارادے کا پختہ ہونا بنیادی شرط ہے۔ لیکن ایک ایسے ملک میں جہاں حکومت مختلف مصلحتوں کا شکار ہو اور سیاسی جماعتوں میں فکری کنفیوژن اپنے عروج پر ہو، کسی صائب فیصلے کی توقع عبث ہے۔
یہ سوچ غلط مفروضوں پر مبنی ہے کہ ڈرون حملوں کی بندش کے نتیجے میں خودکش حملے بند ہوجائیں گے اور 2014 میں نیٹو افواج کے انخلا کے بعد خطے میں امن و استحکام آجائے گا۔ عالمی سیاست پر نظر رکھنے والے بخوبی سمجھتے ہیں کہ ڈرون حملوں سے شدت پسندی کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ دوسرے دسمبر 2014 کے بعد خطے کے حالات میں بہتری کے بجائے مزید دگرگوں ہونے کے خدشات موجود ہیں۔ اس لیے پاکستان کے حکمران اور سیاسی قیادتیں اگر اس ملک کے جغرافیے کو بچانا چاہتی ہیں تو انھیں شدت پسندی کے خلاف واضح موقف اور حکمت عملی اختیار کرنا ہوگا، اس کے سواکوئی اور راستہ نہیں ہے۔ گلے میں اٹکی شدت پسندی کی ہڈی کو جس قدر جلد ممکن ہو نکال پھینکا جائے تو بہتر ہے، وگرنہ پورے جسم میں Septic کا خطرہ ہے۔