بہاولپور بنام بہاولپور

احسان اور اچھے سلوک کی بہت سی جہتیں ہیں۔ یہ شخصی اعتبار سے بھی اتنا ہی محترم ہے جتنا غیر شخصی درجہ پر۔


راؤ منظر حیات November 10, 2013
[email protected]

احسان اور اچھے سلوک کی بہت سی جہتیں ہیں۔ یہ شخصی اعتبار سے بھی اتنا ہی محترم ہے جتنا غیر شخصی درجہ پر۔ افراد، قومیں اور ریاستیں جب کسی بھی جگہ انفرادی یا اجتماعی سطح پر حُسنِ سلوک کرتی ہیں تو اس کے اثرات صدیوں تک قائم رہتے ہیں۔ تاریخی اعتبار سے میں خلافت تحریک سے متاثر نہیں ہوں کیونکہ مجموعی طور پر مسلمانوں کو اس میں از حد مالی، جانی اور سماجی نقصان پہنچا۔ جذباتیت نے اُس وقت کے مسلمانوں کو کچل کر رکھ دیا۔ دلیل سے بات کی اور سنی جائے تو ہندوستان کے مسلمان اِس تحریک کی بدولت کئی دہائیاں مزید پسماندگی کی طرف چلے گئے۔ مگر، اس تمام واقعہ کا ایک اور پہلو بھی بہت قابل ذکر ہے۔ مسلمان خواتین نے اپنے زیورات بھی خلافت کو بچانے کے لیے ترکی بھجوائے تھے تا کہ اگر کہیں پیسوں کی ضرورت پڑے تو ان زیورات کو فروخت کر کے پوری کی جا سکے۔ تُرک قوم کے دل میں آج بھی پاکستانی مسلمانوں کی بے حد عزت اور احترام ہے۔ مسلمان خواتین کے بھجوائے ہوئے زیورات آج بھی انقرہ اور دیگر عجائب گھروں میں موجود ہیں اور تُرک بڑی عزت سے بتاتے ہیں کہ یہ سب کچھ ان کے دور ابتلاء میں اُس وقت کیا گیا جب پوری دنیا ان کا ساتھ چھوڑ چکی تھی۔

مگر تاریخ بہت سفاک ہے۔ احسان کا بدلہ ہمیشہ احسان نہیں ہوتا بلکہ کبھی کبھی اس میں بڑی مشکلات آ جاتی ہیں۔ ہمارا قومی رویہ بہت عجیب ہے؟ شاید ہم اپنے دشمنوں کو ساتھی اور دوستوں کو دشمن بنانے کی وہ صلاحیت رکھتے ہیں جس میں دنیا کا کوئی ملک بھی ہمارا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ لیکن یہ صلاحیت ہمارے لیے زہر قاتل بن چکی ہے۔ بات صرف اور صرف ادراک اور فہم کی ہے۔

لاہور کی ایک مقامی یونیورسٹی کے تین طالب علم چند ہفتے پہلے میرے پاس آئے۔ ان بچوں کا تعلق بہاولپور شہر سے تھا۔ وہ کافی دیر بحث کرتے رہے کہ بہاولپور میں ایک مقامی سوچ تقریباً راسخ ہو چکی ہے کہ اس خطے کے ساتھ عرصہ دراز سے مسلسل زیادتی ہو رہی ہے اور اُس کو جائز حق سے محروم رکھا جا رہا ہے۔ ان کے جذباتی رویہ کے ساتھ ساتھ کچھ حقائق بھی تھے جن کو دلیل کی کسوٹی پر پَرکھا جانا صائب ہے۔ ان طالب علموں کے شکوے اپنی جگہ مگر ان کے جانے کے بعد میں کافی دیر سوچتا رہا کہ غیر جذباتی فکر سے دیکھا جائے تو اصل مسئلہ کیا ہے اور اس کا حل کیا ہے۔

میں بہاولپور میں تین سال کے قریب رہا ہوں اور ہمیشہ سے اس علاقے کی روایتوں، سماجی رویوں، ثقافت اور مہمان نوازی جیسی اعلیٰ اقدار کا قائل ہوں۔ طالب علم کے طور پر میں نے اس علاقے، اس میں رہنے والے لوگ، تاریخ اور وہاں کے فکری رجحان کو سمجھنے کی کافی کوشش کی ہے۔ کبھی کبھی مجھے ایسے لگتا ہے کہ مجموعی طور پر ہم محسن کُش لوگ ہیں۔ جو بھی ہمارے ساتھ بھلا کرتا ہے، اس کے جواب میں اکثر ہم اس کو تکلیف اور دکھ پہنچانے کی بھر پور کوشش کرتے ہیں۔

بہاولپور مسلمانوں کی ایک عظیم ریاست تھی۔یہ 1802 میں نواب بہاول خان عباسی نے قائم کی۔ عباسی قبیلہ بنیادی طور پر سندھ میں قیام پذیر تھا مگر درانی عہد کے زوال پذیر ہونے پر یہ قبیلہ بہاولپور آیا اور اس طرح ایک نئی ریاست کی بنیاد رکھی گئی۔ مختلف حالات سے گزرتے ہوئے یہ ریاست مضبوط سے مضبوط تر ہوتی گئی۔ برطانوی حکومت سے بہاولپور کے نوابین نے کئی معاہدے کیے لیکن اس ریاست کے انتظامی معاملات کبھی برطانوی عملداری میں نہ گئے۔ حکومت ہمیشہ عباسی خاندان کے پاس بلا شرکت غیرے ہی رہی۔

1947 میں ریاست کے امیر، صادق محمد خان تھے۔ اس ریاست کی اتنی اہمیت تھی کہ پنڈت نہرو نے پاکستان بننے سے پہلے نواب سے لندن میں ملاقات کی اور ان کو ہندوستان میں شامل ہونے کی دعوت دی۔ نہرو نے نواب سے بے پناہ مراعات کا وعدہ کیا بلکہ یہاں تک کہا کہ ان کی حیثیت برقرار رکھی جائے گی۔ یہ ترغیب پنڈت نہرو نے شائد ہی کسی بھی اور ریاست کے حکمران کو دی ہو۔ قائد اعظم اور صادق محمد خان کے درمیان انتہائی قریبی اور ذاتی مراسم تھے۔ نواب نے بہت سوچ سمجھ کر بہاولپور ریاست کا الحاق پاکستان سے کرنے کا اعلان کر دیا۔ پاکستان کے شروع میں مالی حالات بہت مخدوش تھے۔ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ پاکستان کے پاس سرکاری ملازمین کو تنخواہ دینے کے بھی وسائل نہیں تھے۔ پورے پاکستان کے سرکاری ملازمین کی مکمل تنخواہ بہاولپور کے نواب نے اپنے خزانے سے ادا کی اور یہ سلسلہ ہر ضرورت کے وقت قائم رکھا۔ 1947ء میں ستر لاکھ روپے کی کیا حیثیت ہو گی؟ نواب نے پاکستان کو ستر لاکھ روپے کی مالی امداد بھی دی جو آج کے زمانے کے مطابق اربوں روپے بنتے ہیں۔ یہ خلوص اور پاکستان سے محبت کی ایک عظیم مثال تھی۔

قائد اعظم جب کراچی منتقل ہوئے تو مختلف اہم سرکاری تقریبات میں وہ جس ''رولز رائس'' کو استعمال کرتے تھے وہ گاڑی بھی نواب صاحب نے تحفے کے طور پر قائد کے استعمال کے لیے مختص کر رکھی تھی۔ رولز رائس اُس وقت اور آج بھی، دنیا کی مہنگی ترین گاڑی ہے۔ نواب صادق محمد خان کے پاس اس طرح کی نایاب گاڑیوں کا پورا ایک بیڑہ تھا۔ یہ گاڑیاں آج سے کچھ سال پہلے تک صادق گڑھ پیلس، ڈیرہ نواب میں موجود تھیں۔ آپ گاڑیوں کا ذکر چھوڑئیے۔ نواب صاحب نے پنجاب یونیورسٹی اور کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج کو بیش بہا عطیات دیے جو کبھی زمین کے تحفہ کی صورت میں اور کبھی عمارتیں بنانے کے لیے سرمایہ کی فراہمی کی صورت میں تھے۔ نواب صادق 1966 میں لندن میں انتقال کر گئے۔ موجودہ حالات میں یہ عہدہ جو اَب مکمل نمائشی ہے نواب صلاح الدین عباسی کے پاس ہے اور ان کو غالباً کچھ وظیفہ بھی ملتا ہے۔

1955 میں ریاست بہاولپور کو مغربی پاکستان کے صوبہ میں ضم کر دیا گیا اور جب ون یونٹ ختم ہوا تو ریاست بہاولپور کو اس کے سابقہ رتبہ سے مکمل محروم کر دیا گیا۔ یہ صورت حال آج بھی جوں کی توں ہے اور بہاولپور ایک ریاست کے بجائے ایک ڈویژن بن چکا ہے۔ نواب صادق محمد خان کی وفات کے بعد خاندانی تنازعات شروع ہو گئے۔ جائیداد کی تقسیم پر پورے خاندان کے مختلف تحفظات تھے۔ معاملہ عدالتوں سے ہوتا ہوا سپریم کورٹ تک جا پہنچا۔ بہاولپور میں موجود تین خوبصورت ترین محلات پر، جو فن تعمیر کا عظیم نمونہ تھے، قبضہ کر لیا گیا۔ صادق گڑھ پیلس جو احمد پور شرقیہ میں واقع تھا، بحکم عدالت بند کر دیا گیا۔ یعنی اس پورے خاندان کو اس کی اپنی جائیداد سے بے دخل کر دیا گیا۔ حکومت نے جائیداد کی تقسیم کے لیے ایک کمیشن بنایا جو کئی دہائیوں تک چیونٹی کی رفتار سے کام کرتا رہا۔ ان دہائیوں میں اس خاندان پر قیامت گزر گئی۔ صرف چند سال پہلے ایک فیصلہ ہوا اور جائیداد تقسیم کی گئی۔ لیکن اس وقت تک ہر قیمتی شے لٹ چکی تھی۔

صادق گڑھ پیلس میں دنیا کی قیمتی ترین اشیا موجود تھیں۔ یہ محیرالعقول چیزیں شاید آج عجائب گھروں کی زینت ہوں۔ اس محل میں ''کرسٹل شیشے'' کی کرسیاں موجود تھیں۔ محل کے شروع کے حصہ میں ایک فانوس تھا جو اتنا بڑا تھا کہ اس کی صفائی کے لیے لندن کی ایک کمپنی کی خدمات حاصل کی گئی تھیں۔ دنیا کا بیش قیمت نایاب اسلحہ جیسے ''ہالینڈ اینڈ ہالینڈ'' کی شکار کرنے والی بندوقیں تھیں۔ یہ ایک بندوق آج ساٹھ لاکھ روپے سے لے کر ایک کروڑ روپے کی مالیت تک ہے۔ اس طرح کی سیکڑوں بندوقیں، اس محل سے چرا لیں گئیں اور باہر فروخت کر دی گئیں۔ بیش قیمت قالین، چوری کر کے کوڑیوں کے مول بیچے گئے۔ آپ یقین کیجیے کہ اربوں روپے کی نایاب چیزیں، اس محل سے انتہائی منظم طریقے سے چرا کر پاکستان اور پاکستان سے باہر فروخت کر دی گئیں۔ میں ذاتی طور پر، اس محل میں موجود ایک نایاب تصویر "Charge of the Light Brigade" کو گھنٹوں دیکھتا رہا۔ دنیا میں، اس طرح کی صرف دو تصاویر ہیں۔ ایک لندن میں بکنگھم پیلس میں موجود ہے اور ایک صادق گڑھ پیلس میں تھی۔ صرف اس ایک تصویر کی قیمت کئی لاکھ برطانوی پائونڈ تھی۔ سننے میں آیا ہے کہ شاید وہ نایاب تصویر بھی وہاں موجود نہیں ہے۔

اس خاندان کی چیزیں لٹتی رہیں اور عدالتوں میں دھکے کھا کھا کر ان میں سے اکثریت غربت اور مایوسی کی دلدل میں برباد ہوتے چلے گئے۔ اس نواب خاندان نے جو مملکت پاکستان کو امداد دیتا تھا، کے لوگ اس درجہ غربت کا شکار ہو گئے کہ اس کے کئی افراد روح اور جسم کا رشتہ برقرار رکھنے کے لیے مزدوری کرنے لگ گئے۔ سائیکل رکشہ جو ریاست میں عام تھا، کئی نوجوان اس کو چلا کر روزی روٹی کمانے لگے۔ وہ خاندان جس کے پاس رولز رائس اور دیگر بیش قیمت گاڑیوں کی قطاریں تھیں، افلاس کے ہاتھوں، مزدوروں کی قطار میں لگ کر کام کرنے پر مجبور ہو گئے۔ لٹی پُٹی جائیداد کے تقسیم ہونے سے خاندان کے کچھ اکابرین کو کچھ معاوضہ ضرور ملا ہے، مگر اتنے عرصے بعد اور اتنا کم، کہ بیان نہیں کیا جا سکتا۔

سنجیدگی سے غور کریں تو ہم نے، ان لوگوں کے احسان کا بدلہ بہت ظلم سے دیا۔ ہم نے انھیں بادشاہ سے بھکاری بنا دیا۔ ہم ان کو کئی دہائیوں سے جبر اور تکلیف کے تیر سے شکار کرتے رہے۔ اس ریاست کو دوبارہ صوبہ بنانا ایک سیاسی فیصلہ ہے اور یہ سیاست کی بساط پر موجود ہے۔ مگر ہم نے اپنی محسن کشی کی روایت کو بغیر کسی تعطل کے برقرار رکھا؟ ہم اپنے محسنوں سے ایسا سلوک کیوں کرتے ہیں؟ ہم ان کو کیوں نیست و نابود کرتے ہیں؟ میں اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی ناکام کوشش کر رہا ہوں؟ مگر جواب نہیں ملتا؟ یا شاید، اس کا کوئی بھی آسان جواب نہیں؟ اور ہم مشکل سوالات کا جواب دینا نہیں چاہتے؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں