جب سانپ اور انسان متحد ہو جاتے ہیں
میری نظروں میں وہ تصویریں آج تک محفوظ ہیں جن میں سانپ اور انسان ایک ہی درخت کی ایک ہی شاخ پر ایک دوسرے...
میری نظروں میں وہ تصویریں آج تک محفوظ ہیں جن میں سانپ اور انسان ایک ہی درخت کی ایک ہی شاخ پر ایک دوسرے کے لیے قطعی بے ضرر بنے بیٹھے تھے۔ یہ تصاویر میڈیا میں اس وقت آئی تھیں جب سیلاب کی تباہ کاریوں نے انسانوں کے ساتھ ساتھ حیوانوں کو بھی اس قدر خوف زدہ کر دیا تھا کہ وہ اپنے فطری کردار کو بھول کر ایک ہی شاخ پر بیٹھے اپنی جانوں کی خیر منا رہے تھے۔ اس پس منظر میں فطری طور پر یہ سوچنے پر مجبور ہوں کہ کیا آج پاکستان کے 18 کروڑ عوام کو ویسے ہی خطرات کا سامنا نہیں ہے جس نے سانپوں اور انسانوں کو ایک ہی درخت کی ایک ہی شاخ پر لا بٹھایا تھا اور ان دونوں کے ذہنوں میں بس بقائے باہمی کا ایک ہی تصور موجود تھا۔ پاکستان جن خوفناک بلائوں میں گھرا ہوا ہے اگرچہ وہ آسمانی نہیں زمینی ہیں لیکن یہ بلائیں ان سیلابوں سے زیادہ خطرناک ہیں جنھوں نے انسانوں اور سانپوں کو ایک دوسرے کا ہمسایہ بنادیا تھا۔
ان بلائوں کی خوفناکی کا برملا یا بالواسطہ اعتراف تو سب کررہے ہیں لیکن ان میں کوئی ہم آہنگی نہیں جس کی وجہ سے یہ آوازیں ایک ایسے بے ہنگم شور میں بدل گئی ہیں۔اس خطرے کی شدت کا ادراک رکھتے ہوئے بھی سیاسی آوازیں ایک بے ہنگم شور میں بدل جاتی ہیں تو یہ نہ صرف اپنے لیے بلکہ ملک و ملت کے لیے بھی تباہی کا باعث بن جاتی ہیں۔ آج سیاسی منظر نامے میں جو بات نمایاں نظر آ رہی ہے اور جس میں ایک آہنگ بھی نظر آ رہا ہے وہ ہے ''مذاکرات''۔ اس نکتے کو استعمال تو ہر سیاست دان ہر مذہبی رہنما کر رہا ہے لیکن عوام یہ بات بہت واضح طور پر محسوس کر رہے ہیں کہ اس نکتے کا استعمال قوم و ملک کے اجتماعی مفادات کے بجائے ذاتی اور جماعتی مفادات کے لیے کیا جا رہا ہے۔ اور یہ رجحان اس قدر خطرناک ہے کہ یہ آخرکار اس ملک کے اٹھارہ کروڑ سادہ لوح غریب عوام کو ایک خوفناک خانہ جنگی کی طرف لے جا سکتا ہے اور یہ بات یقینی اور روایات کے عین مطابق ہو گی کہ اگر ملک خانہ جنگی کی طرف چلا گیا تو اس کا سب سے بڑا نقصان 18 کروڑ غریب عوام کو ہی ہو گا، جو نادانستہ طور پر ہمیشہ سیاسی شاطروں کے ہاتھوں میں کھیلتے آ رہے ہیں۔
دنیا کے کسی بھی تنازعے میں مذاکرات دو یا دو سے زیادہ فریقوں کے درمیان ہوتے ہیں۔ ہمارے سیاست دانوں نے مذاکرات کا جو اجتماعی فیصلہ کیا ہے اس کا دوسرا فریق کبھی کسی حوالے سے، کبھی کسی حوالے سے مذاکرات کی میز پر آنے سے انکار کر رہا ہے۔ مذاکرات کی تازہ کوششوں میں کھنڈت ڈرون حملے نے ڈالی ہے۔ سیاست دانوں، مذہبی رہنمائوں نے جس طرح مذاکرات کی حمایت میں یکجہتی دکھائی ہے، مذاکرات کی ناکامی کی ذمے داری بھی یکجہتی کے ساتھ ڈرون حملے پر ڈال رہے ہیں اور بدقسمتی یا خوش قسمتی سے ڈرون کی ذمے داری امریکا پر عائد ہوتی ہے۔ ٹی وی کے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ کسی وقت پاکستان کے کرتا دھرتائوں نے امریکا اور طالبان کے مذاکرات کو سبوتاژ کیا تھا جس کا جواب امریکا نے حکیم اﷲ پر ڈرون میزائل کے ذریعے دیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آج پاکستان افغانستان جس نظریاتی ڈرون کی زد میں ہیں یہ ڈرون بھی امریکا ہی کا ایجاد کردہ ہے، لیکن کہا جاتا ہے کہ سیاست میں دوستی اور دشمنی مستقل بنیادوں پر نہیں ہوتی، سو کل کے اپنے ایجاد کردہ ڈرون ''دہشت گردی'' کو آج امریکا ڈرونوں سے قابو کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
اصل سوال نہ ڈرون ہے نہ ایک فرد واحد، بلکہ اصل مسئلہ وہ نظریاتی ڈرون ہے جو کسی خفیہ نشان دہی پر کسی ٹارگٹ پر نہیں لگتا ہے بلکہ اپنے پرائے کی تمیز کے بغیر جو سامنے آتا ہے اس کو ہٹ کرتا ہے اور جس کی زد میں اب تک کم از کم 50 ہزار بے گناہ پاکستانی آ چکے ہیں۔ یہ 50 ہزار مقتول امریکی نہیں پاکستانی تھے، اس طرح یہ جنگ امریکا کی نہیں ہماری جنگ ہی ہو سکتی ہے لیکن ہم اب تک بضد ہیں کہ یہ جنگ امریکا کی ہے۔ ہوسکتا ہے عالمی سطح پر یہ جنگ امریکا کی جنگ ہو لیکن قومی اور علاقائی سطح پر تو یہ جنگ ہماری اور صرف ہماری جنگ ہی ہے۔ اس کا ثبوت وہ 50 ہزار پاکستانی ہیں جو بغیر کسی جرم یا گناہ کے اس ''امریکی جنگ'' میں شہید ہو گئے ہیں اور ہماری سیاسی بصیرت کا عالم یہ ہے کہ ہم شہید کی تشریح اور تعبیر میں لگے ہوئے ہیں۔
ہمارے سیاسی رہنما اور مذہبی عمائدین دہشت گردی کی ہر واردات کو غیر انسانی یعنی حیوانی فعل بھی کہہ رہے ہیں اور ان ہی غیر انسانی متبرک ہستیوں سے مذاکرات کے لیے اس قدر بے چین ہیں کہ انھیں اپنے سامنے پڑی ہوئی 50 ہزار بے گناہ انسانوں کی ٹکڑوں میں بٹی لاشیں بھی نظر نہیں آ رہی ہیں، جن میں بچے، بڑے، مرد، عورت، پولیس، رینجرز اور ایف سی کے جوان سب شامل ہیں، جو لوگ مذاکرات کی کامیابی اور ناکامی کے نتائج کا ادراک رکھتے ہیں ان پر بھی یہ الزام لگایا جا رہا ہے کہ وہ بھی ڈرون کی طرح مذاکرات کو ناکام بنانے کی کوشش کر رہے ہیں؟ تازہ مذاکرات کو بقول ہمارے سیاست دان امریکا نے سبوتاژ کیا ہے، اگر یہ درست ہے تو اس کا حساب امریکا سے لینا چاہیے لیکن یہ منطق کسی عقل میں نہیں آتی کہ جرم کرے امریکا، سزا ملے ان غریب بے گناہ پاکستانیوں کو جن کا اس جرم سے کوئی تعلق ہی نہیں۔
امریکا ایک سامراجی اور جارح ملک تھا، ہے اور رہے گا، اگر اس نے اپنی روایتی جارحیت کا مظاہرہ افغانستان پر حملہ اور قبضہ کر کے کیا ہے تو ہر افغانی کا فرض ہے کہ وہ ایک ایک امریکی سپاہی سے چن چن کر بدلہ لے اور افغانستان سے اسے باہر نکالے، لیکن ہو یہ رہا ہے کہ پاکستان کی سر زمین کو بے گناہ پاکستانیوں کے لہو سے سرخ کیا جا رہا ہے؟ کیا اس فعل کو امریکی جارحیت سے کم قرار دیا جا سکتا ہے؟ ہم نے کالم کا آغاز سیلابی ریلوں سے خوف زدہ انسانوں اور سانپوں کو ایک درخت کی ایک ہی شاخ پر پناہ لینے کے مناظر سے کیا تھا، پاکستان جس سیلاب کی زد میں ہے کیا اس کا تقاضا یہ نہیں کہ ہم اس سیلاب بلا سے بچنے کے لیے ایک شاخ پر آ جائیں اور آئیں بائیں شائیں بکنے سے باز آ جائیں۔ 18 کروڑ عوام کی پناہ گاہ وہ درخت ہے جس کا نام پاکستان ہے، یہ درخت ایسے سیلاب کی زد میں ہے جو اپنے پرائے کی تمیز نہیں کرتا۔ اگر سانپ اور انسان اپنی جانیں بچانے کے لیے ایک درخت کی ایک شاخ پر اکٹھے ہو سکتے ہیں تو کیا ہم پاکستان اور اس میں رہنے والے 18 کروڑ عوام کی مستقبل کو تباہ ہونے سے بچانے کے لیے نظریاتی کج روی اور سیاسی مفادات سے بالاتر ہو کر ایک درخت کی ایک شاخ پر اکٹھے نہیں ہو سکتے جو 66 سال سے18 کروڑ عوام اور خواص کا بوجھ سنبھال رہی ہے؟