دلی کا وزیراعلیٰ

جب دہلی کو مخلص قیادت ملی تو پانچ سال پہلے دنیا کے بدترین شہروں میں شمار ہونے والا شہر اب پہلے سے بہت بہتر ہے


خرم علی راؤ January 15, 2020
اروند کیجریوال نے وزیراعلیٰ بننے کے بعد دہلی اور عوام کی بہبود کےلیے نمایاں کام کیے۔ (فوٹو: فائل)

ISLAMABAD: ہندوستان کا دارالحکومت دہلی جسے دلی بھی کہتے ہیں، عظیم روایتوں کا امین شہر ہے، جو ہمیشہ سے ہی ہندوستان کے مرکزی شہروں میں سے ایک رہا۔ مسلمانوں اور خصوصاً مغلوں کے دور حکومت میں تو یہ تقریباً ہمیشہ ہی دارالحکومت کی حیثیت میں رہا ہے اور تقسیم کے بعد بھی اسی شہر کو دارالحکومت کا درجہ ملا۔

برسبیل تذکرہ اس شہر کے حوالے سے مشہور بہت سی تمدنی، علمی اور ادبی روایات میں سے ایک ادبی واقعہ اردو شاعری کے خدائے سخن میر تقی میر کے حوالے سے بہت مشہور ہے۔ جب میر کے دور میں دہلی میں غیر ملکی لشکر کشی کے نتیجے میں تباہی آئی تو میر نے بھی کچھ توقف کے بعد وہاں سے رختِ سفر باندھا اور لکھنو کی جانب روانہ ہوئے۔ اردو شاعری میں دبستانِ دہلی اور دبستانِ لکھنو کی چشمکیں اور ادبی معرکے بہت مشہور ہیں۔ میر جب وہاں پہنچے تو سفر کی خستہ حالی کی وجہ سے حلیہ بے ترتیب سا تھا اور وہ اکیلے بھی تھے۔ ان کے آنے کی خبر تو لکھنو میں گرم تھی، لیکن معدودے چند میر صاحب کی صورت سے کوئی آشنا نہ تھا۔ آپ سیدھے ایک مشاعرے میں جا پہنچے جہاں لکھنو شہر کے بڑے بڑے اساتذہ موجود تھے۔ وہاں پہنچ کر میر نے مشاعرے میں پڑھنے کی خواہش ظاہر کی تو اسٹیج سیکریٹری نے ازراہِ ترحم سب سے پہلے پڑھنے کو کہہ دیا۔ مشاعروں کی ترتیب یہ ہوتی ہے کہ کم درجے کے شاعر پہلے پڑھتے ہیں پھر درجہ بہ درجہ شاعر کلام پیش کرتے ہیں اور آخر میں سب سے بڑے شعرا کو دعوت کلام دی جاتی ہے۔

میر جب کلام پڑھنے کےلیے بیٹھے تو حاضرین اور شعرا کی طرف سے استہزائیہ انداز میں تعارف کی فرمائش آئی کہ میاں کون ہو؟ کہاں سے آئے ہو؟ تعارف تو کراؤ۔ جواباً میر نے تنک کر فی البدیہہ تعارفی شاعری پیش کی، جس کے بعد کہتے ہیں کہ اساتذۂ لکھنو نے جھک کر ان کا استقبال کیا کہ فن کی قدر صاحب فن ہی کو ہوتی ہے اور سب شعرائے کرام سمجھ گئے کہ یہی میر تقی میر ہیں۔ شاعری یہ تھی

کیا بود و باش پوچھو ہو پورب کے ساکنو
ہم کو غریب جان کے ہنس ہنس پکار کے
دلی جو ایک شہر تھا عالم میں انتخاب
رہتے تھے منتخب ہی جہاں روزگار کے
اس کو فلک نے لوٹ کے برباد کردیا
ہم رہنے والے ہیں اسی اجڑے دیار کے

خیر درج بالا قصہ تو ضمناً آگیا۔ بات اصل میں دلی کے موجودہ وزیراعلیٰ اروند کیجریوال کی کرنا ہے، جن کا ایک انٹرویو چند روز قبل دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ جس میں وہ ایک پینل کے سامنے سوالات کا جواب دے رہے تھے، کیونکہ وہاں پانچ مہینے بعد انتخابات ہونے والے ہیں۔ یہ ان کی کارگردگی اور ان پر اعتراضات کے حوالے سے ایک انٹرویو تھا جو کہ ایک بڑے مجمعے کے سامنے کھلے اسٹیج پر منعقد ہوا تھا۔ کیجریوال بطور لیڈر اور ان کی عام آدمی پارٹی انڈیا کی وہ واحد سیاسی شخصیت اور سیاسی پارٹی ہے جو کہ باقی ماندہ سیاسی لاٹ میں سب سے بہتر، کم از کم مجھے تو لگتے ہیں کہ وہ باتوں سے زیادہ کام کرنے پر یقین رکھتے ہیں اور ان کی پچھلے پانچ برسوں کی کارکردگی سن کر میں دنگ رہ گیا کہ بجلی دو سو یونٹ تک ہر شہری کےلیے مفت، ہیلتھ، تعلیم اور ٹرانسپورٹ کے شعبوں میں عوام کی بہبود کےلیے زبردست اقدامات، ٹرانسپورٹ کے شعبے میں حیرت انگیز ترقی اور سرکاری دفاتر سے بدعنوانی کے مختلف حربوں کے انسداد میں نوے فیصد سے زیادہ کامیابی۔ جس کے نتیجے میں دلی کا ترقیاتی بجٹ تیس ہزار کروڑ سے بڑھ کر ساٹھ ہزار کروڑ ہوجانا اور حیرت انگیز طور پر یہ معرکہ یہ کارنامہ بغیر کوئی نئے ٹیکس عائد کئے انجام دینا۔

یہ وہ چند باتیں ہیں جو اس پروگرام کے خلاصے کے طور پر بیان کی گئی ہیں اور بعد میں انٹرنیٹ کی مدد سے میں نے ریکارڈ چیک کرکے ان باتوں کی تصدیق کی کوشش کی تو کم و بیش تقریباً ساری باتیں ہی اروند صاحب کی درست تھیں۔

وائے حسرت کہ اب کیا کہا جائے کہ نجانے ہم اور ہمارے صوبے حقیقی عوامی بہبود سے دلچسپی رکھنے والی اس قسم کی شخصیات کی شدید قلت کا کیوں ماضی میں بھی شکار رہے، اب بھی ہیں اور آئندہ کی ویسے تو خدا جانے لیکن بظاہر امید کوئی نہیں ہے۔ کیوں یہ سارے کام سندھ، پنجاب، بلوچستان اور کے پی کے میں پچھلے برسوں میں نہیں ہوسکے بلکہ ہندوستان کے بھی بہت سے صوبوں اور ریاستوں میں نہیں ہوسکے؟ اس کی وجہ صرف ایک ہے اور وہ ہے قیادت۔

جب دہلی شہر کو مخلص قیادت ملی تو پانچ سال پہلے دنیا کے بدترین شہروں میں شمار ہونے والا شہر اب پہلے سے بہت بہتر ہے اور عام لوگ اور غریب عوام خوش ہیں کہ ان کی سرکار انہیں ممکنہ حد تک ہر سطح پر بہترین ریلیف دے رہی ہے۔ لیکن کیا پاکستان کے عوام بھی ایسا ہی محسوس کررہے ہیں؟ تو جواب ہے بالکل نہیں! عوام کو برسوں سے صرف نت نئے قصے کہانیاں سنائی جارہی ہیں۔ مستقبل کے سنہری خواب دکھا کر حال خراب کرنے کی مشق ستم دہائیوں سے جاری و ساری ہے۔ اور بات اب بے حالی و بدحالی سے بڑھ کر عوامی عدم اعتماد تک آتی جارہی ہے۔ یعنی اب تسلیاں و تشفیاں اور دلاسے بالکل بے اثر ہوتے جارہے ہیں۔

ہماری سیاسی لاٹ جو اپنی تقاریراور بیانات میں جن بڑی اور عظیم شخصیات کے حوالے دیتے نہیں تھکتی تو ان تک پہنچنا یا ان کی تقلید کرنا یا ان کی طرح کام کرنا تو بہت ہی اونچی اور عالی بات ہے، لیکن کم از کم کے درجے میں ہمارے حاضر سروس اور منتظر سیاسی افراد اور قائدین اگر اروند کیجریوال اور ان کی عام آدمی پارٹی کی ہی طرح سے عوامی فلاح و بہبود کےلیے ہوائی قلعے بنانے کے بجائے کچھ عملی کام کرکے دکھادیں تو اس غریب، پسے ہوئے، کچلے ہوئے، مجبور، مقہور اور مظلوم عوام پر ہمارے سیاسی ذمے داران کا بڑا احسان ہوگا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں