بے احتیاطی عجلت حادثہ

گاڑی چلتے چلتے اچانک رک گئی، کیا ہوا۔ سامنے سڑک کنارے مجمع تھا۔ ٹریفک جو جام ہوچکا تھا اسے...


سیما سراج November 10, 2013

گاڑی چلتے چلتے اچانک رک گئی، کیا ہوا۔ سامنے سڑک کنارے مجمع تھا۔ ٹریفک جو جام ہوچکا تھا اسے دوسرے کنارے سے نکالنے کی کوشش کی جارہی تھی۔ کوئی بھی حادثہ ہو سفر رکتا نہیں۔ زندگی یا دنیا ٹھہرتی نہیں، آگے بڑھ جاتی ہے۔ جائے وقوعہ پر مددگاروں اور ہمدردوں سے زیادہ تماش بین اکٹھا تھے۔ ایمبولینس چنگھاڑتی ہوئی آئی۔ معلوم نہیں زخمی بچا یا مرگیا، یا معذور ہوگیا۔ ہماری گاڑی آگے بڑھ گئی اور ذہن و دل حادثے پر رک گئے۔

سڑک اور حادثہ دونوں کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ تیز رفتاری حادثات کا سبب بنتی ہے تو کبھی کبھی پیدل چلنے والوں کی بے احتیاطی بھی۔ ایک زمانے میں زیبرا کراسنگ ہوتی تھی۔ پیدل چلنے والے مسافر سڑک پار کرنے کے لیے استعمال کرتے تھے۔ گاڑیاں رک جاتی تھیں۔ لال، ہری اور پیلی بتی کے اشارے ہمیں بچپن میں سکھائے جاتے تھے تاکہ ممکنہ حادثے سے خبردار رہیں۔ اب یا تو زیبرا کراسنگ مٹ گئی ہے یا پھر ڈرائیورز نے اہمیت دینا چھوڑدی ہے۔ بلکہ اسی طرح جیسے ہم نے ہری، لال اور پیلی بتیوں کو نظر انداز کردیا ہے بلکہ یوں کہیے تمام احتیاطی تدابیر کو نظر انداز کرتے چلے جاتے ہیں۔ کون سا سارجنٹ موجود ہے۔ بائیک (اسکوٹر) والے جلتی ہوئی سرخ بتی کو دیکھ نہیں پاتے اور تیزی سے نکل جاتے ہیں۔ ان کی دیکھا دیکھی سب شروع ہوجاتے ہیں۔ سرخ بتی والے ٹھہرتے نہیں، ہری بتی والے اشارہ پاکر اپنی گاڑی دوڑا دیتے ہیں۔ اب اگر ٹکرائو ہوا تو پھر کیا ہوگا۔ حادثہ۔

جی ہاں حادثہ معمولی بھی ہوسکتا ہے اور خطرناک بھی۔ دماغ کی چوٹ موت یا کومے اور جسم کی چوٹ معذوریت۔ اکثر اوقات زندگی موت سے بدتر ہوجاتی ہے۔ مہنگائی کے اس دور میں علاج کا خرچہ ایک اہم ترین مسئلہ، خاندان مقروض ہوکر مزید پریشانیوں میںمبتلا ہوجاتے ہیں۔ معذوریت ہمارے وجود کو نہ صرف عمر بھر کے لیے ایک بڑے المیے میں تبدیل کردیتی ہے بلکہ دوسروں پر بھی ہماری سانسیں بوجھ بن جاتی ہیں۔ موت ہو یا معذوریت دونوں صورتوں میں خاندان کے کفیل کفالت کے قابل نہیں رہتے۔ کچن سے لے کر بچوں کی تعلیم تک ہر جگہ صرف بربادی اور آنسوئوں کا بسیرا ہوتا ہے۔ ہماری تھوڑی سی عجلت اور بے احتیاطی لا قانونیت کی طرف لے جاتی ہے۔ جو دوسروں اور خود ہمارے لیے تباہ کن ثابت ہوتی ہے۔

حکومت نے ہماری سہولت اور ٹریفک کے مسائل سے نمٹنے کے لیے پل بنائے ہیں اور لوگوں نے پلوں کے نیچے عارضی خانہ بدوش گھر بنالیے۔ سڑک کے حادثات سے بچنے کے لیے برج آہنی بنائے گئے تو برج پر فقیروں نے بسیرا کرلیا۔ چند افراد ہی سیڑھیاں چڑھتے ہوئے نظر آتے ہیں، باقی مرد کم اور خواتین زیادہ گھٹنوں کی بیماری میں مبتلا ہیں۔ اسی لیے سڑک فرداً یا ٹولی کی شکل میں ہی پار کی جاتی ہے۔ کاش! قوم ترقی کرجائے اور ان برج پر زینہ کی جگہ خود کار زینہ ہو تو سڑک پار کرنے کا مسئلہ حل ہوسکتا ہے۔ مسکرائیں نہیں، ابھی خوابوں پر ہمارا اختیار باقی ہے۔ ورنہ تو بے اختیار اور مجبوری نے تو انسان کو مار دیا ہے۔ اب تو انسان بھی انسان نہ رہا۔ انسانیت بھی زندگی کے پے در پے حادثات کے ساتھ ختم ہوتی جارہی ہے۔

کبھی کبھی ہمارے شوق بھی زندگی کے چراغ کو گل کردیتے ہیں۔ اکثر اوقات خیال آتا ہے کہ زندگی بھی کتنی معمولی بے قیمت بے حقیقت شے ہے۔ بقول شاعر: '' سامان ہے سو برس کا پل کی خبر نہیں'' واقعی واقعی۔ ایک شخص خوشی خوشی اپنے بچے کو بائیک پر بٹھا کر کھلونے لے جارہا ہے۔ بچہ آگے بیٹھا معصوم گفتگو اور ننھی منی خواہشوں کے اظہار سے باپ کو خوشی دے رہا ہے لیکن یہ خوشی کتنی مختصر ثابت ہوتی ہے جب تیز رفتار بائیک ایک چیخ کے ساتھ رک جاتی ہے۔ چیخ خاموشی میں تبدیل ہوگئی۔ مسکراہٹ دم توڑ گئی اور خواہش ادھوری رہ گئی۔ تیز ڈور بچے کا گلا کاٹ دیتی ہے۔ پتنگ بازی کا شوق ہر زمانے میں رہا ہے لیکن جب شوق جان لیوا حادثوں کی شکل اختیار کرلے اور ہماری بے احتیاطی زندگی چھین لے تو شوق کا رنگ اور نام بدل جاتا ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے حادثوں کے مختلف نام ہوتے ہیں۔ ہوسکتاہے کہ پتنگ اڑانے والوں کو خبر بھی نہ ہو کہ ان کی ڈور کسی کی زندگی کی ڈور کو کاٹ گئی۔ نامعلوم قاتل جسے خود خبر نہیں کہ اس کے ہاتھوں قتل ہوچکا ہے۔

ابھی میں نامعلوم قاتل پر غور کر ہی رہی تھی کہ اماں کی تیز آواز میرے کانوں سے ٹکرائی۔ اماں کو تو میرے لکھنے پڑھنے سے چڑ ہے، شاید اسی لیے کہ خود انھوں نے کبھی یہ کام نہیں کیا۔ جب میں کتاب پڑھتی ہوں تو وہ سلائی مشین لے کر گدے لحاف درست کررہی ہوتی ہیں۔ اماں لحاف میں ڈورے ڈالتی ہیں اور میں یہ کہہ کر صاف بچ جاتی ہوں کہ اماں مجھے تو ڈورے ڈالنے آتے نہیں۔ معلوم نہیں اماں کیوں چشمہ سے گول گول دیدے گھما کر غصہ ہوتی ہیں ''بی بی تمہیں تو صرف کورے کاغذ سیاہ کرنے آتے ہیں'' ''ارے بی بی کون پڑھ کر اثر لیتا ہے، لوگ بے حس ہوچکے ہیں'' کبھی کبھی لگتا ہے کہ اماں سچ ہی کہتی ہیں۔ ہم لوگ بے حس ہوچکے ہیں۔ تیز رفتار گاڑی گزر گئی۔ ٹکرانے والے کی خبر بھی نہ لی، مرگیا یا بچ گیا۔ اﷲ بھلا کرے رفاہی اداروں کا جن کی ایمبولینس بروقت مدد کو پہنچ جاتی ہیں۔ ایمبولینس بے چاری بھی کہاں کہاں جائیں۔ حادثات کی نوعیت اور تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔ حادثہ پانی کا ہو یا آگ کا، بے احتیاطی پس پردہ ہوتی ہے۔ خبردار کرنے کے باوجود لوگ پانی میں دور تک چلے جاتے ہیں اور لہریں انھیں سمیٹ لیتی ہیں۔ بروقت احتیاطی تدابیر نہ ہونے کی وجہ سے آگ کا حادثہ بڑے نقصان کا سبب بنتا ہے۔ بجلی کے تار ہوں یا برسات، شارٹ سرکٹ ہو یا گیس کے ہیٹر، سلنڈر، ہر جگہ استعمال میں اگر احتیاط نہ برتی جاتی تو حادثہ جان لیوا ثابت ہوتا ہے۔ کھیل کے دوران چوٹ یا مجمع میں بھگدڑ، احتیاط کریں اور حادثات سے خود کو محفوظ رکھیں۔

اماں کہتی ہیں ''جلدی میں بڑے حادثے سے تھوڑی دیر بہتر ہے'' اماں کی باتیں دراصل ان کا تجربہ ہیں اور تجربہ اگر ہمارے ساتھ مشوروں کی صورت میں ہو تو ہم حتی الامکان اپنی زندگی کو محفوظ بناسکتے ہیں۔ ورنہ شعبہ حادثات اور ایمرجنسی ڈیپارٹمنٹ بھرے پڑے ہیں۔ یاد رکھیے! عجلت + بے احتیاطی = حادثہ۔ عجلت میں خرابی اور بے احتیاطی میں خطرہ ہے۔ حادثے سے بچیے اور زندگی کو محفوظ بنائیے۔ آپ کی زندگی صرف آپ کے لیے نہیں دوسروں کے لیے بھی ضروری ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں