دل ساتھ دھڑکتے ہیں

6 نومبر 2013 کے ایکسپریس اخبار میں صفحہ اول کے ماتھے پر ایک بڑی رنگین تصویر شایع ہوئی ہے اور...

6 نومبر 2013 کے ایکسپریس اخبار میں صفحہ اول کے ماتھے پر ایک بڑی رنگین تصویر شایع ہوئی ہے اور تصویر کے نیچے خبر چھپی ہے، دو کالمی سرخی ہے کہ ''حیدرآباد میں بزنس ایکسپریس ٹرین اڑانے کی کوشش ناکام'' تفصیلی خبر ہے کہ دھماکے کے نتیجے میں ریلوے ٹریک کا دو فٹ حصہ تباہ ہوگیا۔ ریلوے ٹریک کے لوہے کے ٹکڑے اور پتھر اچھل کر کئی فٹ دور جاگرے، پولیس نے جائے وقوع سے ایک تنظیم کا پمفلٹ تحویل میں لے لیا ہے۔ تاہم پولیس حکام اس بارے میں کچھ بتانے سے گریز کررہے ہیں۔ دھماکے والے دن آئی جی سندھ پولیس حیدرآباد ہی میں موجود تھے۔ قاسم آباد کے علاقے اولڈ وحدت کالونی کے عقب میں ریلوے برج کے انتہائی قریب ''اپ ٹریک'' پر شام 6 بج کر 56 منٹ پر ایک خوفناک دھماکا ہوا اور ہر طرف دھواں پھیل گیا۔ دھماکے کی آواز دور دور تک سنائی دی۔ دھماکے کے وقت ٹرین کراچی سے آرہی تھی اور جائے وقوع سے کچھ فاصلے پر تھی اور قارئین اب قابل غور بات بھی پڑھیے ''لوگوں نے آگے جاکر ٹریک پر کھڑے ہوکر ٹرین ڈرائیور کو اشارے کیے، جس پر ٹرین ڈرائیور نے ایمرجنسی بریکس لگائے اور ٹرین جائے حادثے سے محض 300 میٹر کے فاصلے پر رک گئی''۔

خبر کا آخری حصہ ہی آج کے کالم کا موضوع ہے کہ ''لوگوں نے آتی ٹرین کی طرف ٹریک پر بھاگتے ہوئے ہاتھوں کے اشاروں سے ٹرین ڈرائیور کو متوجہ کیا اور ڈرائیور نے ایمرجنسی بریک لگاکر ٹرین کو جائے حادثہ سے پہلے مگر بہت قریب روک لیا، یوں ٹرین ایک بڑے سانحے سے محفوظ رہی۔ یہ حادثہ تقریباً شام سات بجے ہوا۔ آج کل مغرب کی اذان شام 6 بجے ہوتی ہے اور ایک گھنٹے بعد یعنی شام 7 بجے مکمل اندھیرا چھا جاتا ہے۔ ایسے وقت میں حیدرآباد کے علاقے ''قاسم آباد'' کے لوگوں کا ریلوے ٹرین پر بھاگتے ہوئے اور اپنی جانوں کو خطرے میں ڈالتے ہوئے ریل گاڑی کو رکوانا اور یوں جانی اور مالی نقصان سے مسافروں کو بچانا انتہائی بڑا اور ''موجودہ حالات'' میں نہایت حوصلہ افزا فعل ہے۔ جب کہ یہ خبر بھی آچکی ہے کہ جائے حادثہ سے ''سندھو لبریشن آرمی'' نامی تنظیم کے پمفلٹ بھی ملے ہیں۔

پاکستان سنگین ترین صورت حال سے گزر رہا ہے۔ ہمارے صوبہ سندھ میں بھی حالات دگرگوں ہیں، اندرون سندھ بھی عوام میں بے چینی و اضطراب ہے، سندھ کا دارالخلافہ اور پاکستان کا سب سے بڑا شہر کراچی بیس پچیس سال سے تباہ و برباد ہورہا ہے اور گزرے کل بھی شہر میں 17 ہلاکتیں ہوئی ہیں۔ ان حالات میں حیدرآباد سندھ کے عوام کا دوڑ کر ٹرین روکنا بتاتا ہے کہ دہشت گرد مٹھی بھر ہیں اور سندھ کے کروڑوں عوام پاکستان کے اندر رہ کر اپنے حقوق کی جنگ لڑرہے ہیں اور لڑتے رہیںگے۔ پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں زلزلے آئے ہوں یا سیلاب نے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لیا ہو، قوم ایسے ہر سانحے پر یکجا نظر آتی ہے۔ نہ کوئی مسلمان، نہ ہندو، نہ سکھ، نہ عیسائی، نہ سندھی، نہ مہاجر، نہ پنجابی، نہ بلوچی، نہ پٹھان، نہ سرائیکی، نہ ہزارے وال، نہ کشمیری، نہ گلگتی۔ قدرتی آفات کے مقابل صرف انسان ہونے کے ناتے سب کے دل ایک ہوکر دھڑکتے ہیں۔


کراچی کے پولیس چیف شاہد حیات کہہ رہے تھے کہ ''4 نومبر کو دہشت گردوں نے ایک مسلک کے لوگوں کو ہلاک کیا۔ یہ سب اس لیے کیا گیا کہ شہر میں مسلکی بنیادوں پر فساد کرایا جائے، آگ بھڑکائی جائے اور خصوصاً محرم کی حرمت کو پامال کیا جائے''۔ اس طرح کی کوششیں پہلے بھی کئی بار کی گئیں۔ علماء کو شہید کیا گیا، مذہبی جلسوں اور جلوسوں کو نشانہ بنایا گیا۔ مگر دشمن مسلکی بنیادوں پر فساد کرانے میں ناکام ہی رہے۔ کیونکہ دونوں طرف سب یہ بات خوب جانتے ہیں کہ یہ سب سازش کے تحت کروایا جاتا رہا ہے اور یہ کوشش آج بھی کی جارہی ہے۔ ہمارے ملک کو کمزور کرنے کا کوئی بھی موقع دشمن چھوڑنا نہیں چاہتا مگر عوام ان اوچھے ہتھکنڈوں کو خوب سمجھتے ہیں۔ حالانکہ بڑے ہی صاحب کردار اور ہر دل عزیز علما مار دیے گئے، مگر ان کے لاکھوں چاہنے والوں نے صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔ بڑے حوصلے کے ساتھ صدمات برداشت کرتے رہے اور اپنے علما کو قبروں میں اتارتے رہے۔

حیدرآباد جیسا ہی ایک واقعہ گمبٹ میں بھی پیش آیا ہے۔ وہاں بھی ریل کی پٹڑی کو بم سے نقصان پہنچایا گیا مگر وہاں بھی ریل گاڑی کو بچالیا گیا اور یوں کوئی جانی یا مالی نقصان نہیں ہوا۔ محرم کی ابتدا ہوچکی ہے، جوں جوں دن گزریںگے محرم کے جلوس اور مجالس کے اجتماعات بڑھتے جائیں گے۔ ہمارے ملک کے چاروں صوبوں بشمول آزاد کشمیر و گلگت بلتستان، محرم ہر جگہ نہایت جوش و خروش اور عقیدت مندی سے منایا جاتا ہے، خصوصاً پشاور، کوہاٹ، جھنگ، سرگودھا، حیدرآباد، سکھر، کراچی اور کوئٹہ میں، قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ہائی الرٹ رہنا پڑتا ہے۔ اس وقت ویسے ہی ملک بحرانوں کا شکار ہے۔ حکیم اﷲ محسود کی ہلاکت سے ماحول میں خوف و ہراس اور سوگ کی فضا بنی ہوئی ہے اور غم حسین کے دن بھی شروع ہوچکے ہیں۔ قوی امید ہے کہ عوام کسی بھی سازش کو کامیاب نہیں ہونے دیںگے۔ ملک خطرات میں گھرا ہوا ہے اور ملک کی حفاظت مقدم ہے، عوام نے بڑے بڑے صدمے سہے ہیں اب بھی ہمیں تیار رہنا ہوگا۔

ہمارے شہر کراچی میں خون ریزی نے پھر سر اٹھا لیا ہے۔ لیاری میں انسانی خون بہایا جارہا ہے۔ موت سے لڑنے والے لیاری کے بہادر عوام سے کہا جارہا ہے کہ گھر چھوڑ کے چلے جائو۔ ہمیں خالی گھر چاہئیں۔ محنت کش، مزدور، دہاڑی دار، گھروں کو چھوڑ کر کہاں چلے جائیں۔ انسان تو انسان لیاری میں جانور بھی بھوک و پیاس سے گزر رہے ہیں۔

یہ اس بار کن حالات میں محرم آیا ہے۔ نہ جانے کتنی کرب و بلائیں ہمارے شہر کراچی میں اتر آئی ہیںاور اس شہر میں ایسے ایسے ظلم ہورہے ہیں کہ جنھیں دیکھ کر تاریخ بھی شرما رہی ہے۔ یہ چند مٹھی بھر بکائو دہشت گرد کچھ بھی کرلیں مگر کروڑوں عوام کے دل ایک ہوکر دھڑکتے ہیں اور دھڑکتے رہیںگے۔ پاکستان ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ثات اور ایمرجنسی ڈیپارٹمنٹ بھرے پڑے ہیں۔ یاد رکھیے! عجلت + بے احتیاطی = حادثہ۔ عجلت میں خرابی اور بے احتیاطی میں خطرہ ہے۔ حادثے سے بچیے اور زندگی کو محفوظ بنائیے۔ آپ کی زندگی صرف آپ کے لیے نہیں دوسروں کے لیے بھی ضروری ہے۔
Load Next Story