قول جاں آفریں مگر عمل

قومی اسمبلی میں چوہدری نثار کا بیان اور پھر عمران خان نے جس طرح سے ’’امریکی جرات رندانہ‘‘ ...


احمد خان November 10, 2013

قومی اسمبلی میں چوہدری نثار کا بیان اور پھر عمران خان نے جس طرح سے ''امریکی جرات رندانہ'' پر کھرے انداز سے اظہار خیال کیا، بجا! چاروں اسمبلیوں میں ڈرون حملے کے بعد قراردادیں حرکت میں آگئیں۔ لیکن اس کے بعد پھر کہانی الجھتی یا دانستہ الجھائی جارہی ہے۔ سیاسی اور صحافتی اوطاقوں میں کوئی عمران کا ہم خیال تو کوئی عمران کے خلاف توپوں کے گولے داغ رہا ہے۔ طالبان سے مذاکرات؟ اس پر دو نہیں بلکہ کئی آراء قائم کیجیے لیکن امریکی ڈرون حملوں پر ''دال جوتوں میں بٹے'' کمال کی حیرت کے سوا کیا کہا جائے؟ کیا ہمارے اندرونی معاملات حل کرنے کے لیے ایک تیسرے ملک کا میدان عمل میں آنا جائز ہے؟ حکومتی، سیاسی اور عوامی سطح پر اس ''فسوں گری'' کو جائز قرار دینے کے بعد کیا ہم خود مختار اور آزاد ملک کے دعوے دار رہ سکتے ہیں؟ کیا غیر فریق کو ''ناخن کی جا'' دی جائے تو وہ ''مکے'' کی جگہ بنانے کی کوشش نہیں کرے گا؟ ہماری سیاست کا المیہ ہمیشہ سے یہ رہا ہے کہ ہم ہر مسئلے کو ''ملغوبہ'' بنالیتے ہیں، طالبان سے مذاکرات ایک الگ معاملہ ہے اور امریکا کے پاکستان پر ڈرون حملے بالکل ہی الگ المیہ کہانی۔

کبھی سوچنے اور سمجھنے کی زحمت حکومتی اور سیاسی شاہسواروں نے کی ہے کہ جغرافیائی اور سیاسی حالات کے لحاظ سے ہم کن ''بھیڑیوں'' کے درمیاں جاگزیں ہیں؟ ملکی سلامتی پر سمجھوتہ کرکے آج اگر امریکا کو کھلے بندوں اپنی سرحدوں کے اندر مداخلت کی اجازت دی جائے تو کیا آپ کے ارد گرد کے ''خیر خواہ'' ممالک آپ کی اس کمزوری سے فائدہ نہیں اٹھائیں گے؟ طالبان اور امن و امان کے ''قضیے'' ذرا سی آنکھیں کھولیے۔ افغانستان میں طالبان حکومت کے خاتمے اور امریکی آمد کے بعد کس کس ملک نے افغانستان میں ڈیرے جما کر اپنی سرگرمیاں تیز تر کر رکھی ہیں۔ کون کون سے بین الاقوامی ادارے اس ''چومکھی'' صورت حال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنا اپنا الو سیدھا کرنے کی کوششوں میں مگن ہیں؟ تمام تر جغرافیائی اور اندرونی ''سربستہ'' صورت حال کے بعد کیا عمران کا اسٹینڈ لینا وقت اور ملکی حالات کے مطابق نہیں۔ معاف کیجیے! سمجھوتے، اختلافات اور پالیسیوں پر کیے جاسکتے ہیں، مگر جب معاملہ وطن کی سلامتی اور قوم کی بقا کا آجائے وہاں پر صرف ''مرو یا مارو'' کی پالیسی ہی حرف آخر ہوا کرتی ہے۔

طالبان کے معاملے میں مذاکرات کا ڈھول گلے میں نہیں ڈالنا چاہتے، نہ ڈالیں۔ طالبان سے جس انداز میں نمٹنا ہے نمٹ لیجیے، لیکن ملکی اور قومی سلامتی کو ہر صورت مقدم رکھیے۔ ملکی سلامتی پر سمجھوتے کا مقصد، غلامی کی دہلیز پر پہلا قدم رکھنے کے مترادف تصور ہوتا ہے۔ کل تک طالبان سے نمٹنے میں حکومتی زعما اور سیاسی رفقاء گروہوں میں بٹے ہوئے تھے اور آج امریکی جارحیت کے سنگین تر معاملے پر قوم کو تقسیم کرنے کی کوشش ہورہی ہے۔ وفاق میں براجمان حکمران بھی قومی سلامتی پر اسٹینڈ لینے کے بیانات داغ رہے ہیں، یہی الفاظ و جملے عمران خان کی زبان پر بھی ہیں۔ دوسری جانب قوم بھی ملکی سلامتی کے حوالے سے ''آخری گیند'' تک کھیلنے کی آرزومند ہے۔ اس تمام لب لباب کے بعد پھر بے معنی سی بحث اور حالات کو الجھانے کا مقصد؟ قومی سطح پر بہترین اور متفقہ ''نکتہ'' یہ ثابت ہوسکتا ہے کہ طالبان کو ''دیوار'' سے لگادیا جائے اور جب معاملہ پھر بھی نہ سلجھے، اس کے بعد حکومت ہر وہ آپشن استعمال کرے جو ریاست کی فلاح اور امن کی بقا کے لیے ضروری ہے اور اس وقت قوم کا ہر طبقہ حکومت وقت کے شانہ بشانہ کھڑا ہوگا۔ لیکن امریکا نے تو چہروں سے نقاب اتارنے کی باری سے قبل ہی تمام معاملہ تلپٹ کردیا۔ امریکی شامت اعمال سے نتیجہ یہ نکلا کہ آج گناہ گار بھی معصوموں کی صف میں کھڑے ہوگئے۔ دوسری جانب امن کا علم بلند کرنے والے بغیر کسی جستجو کے ''غازی'' بننے کا اعلان کررہے ہیں۔

تاریخ کے کس صفحے پر یہ نسخہ تحریر ہے کہ آپ کے اندرونی مسائل کا بہترین حل کسی تیسرے فریق کی زنبیل میں ہوا کرتا ہے؟ کیا پاکستان وسائل اور جذبوں کے حوالے سے بانجھ ملک ہے؟ ایسا نہیں! پاکستان اپنے مسائل سے بھی خوب آگاہ ہے، پاکستان کو درپیش داخلی دشواریوں کا بھی بھرپور انداز میں ادراک ہے۔ پاکستانی قوم اور حکومت کے پاس اتنے وسائل بھی موجود ہیں جن کے بل پر وہ باآسانی اپنے دشمنوں کے دانت ہمیشہ کے لیے کھٹے کرسکتے ہیں۔ اس تمام تر مکالمے کے بعد آخر امریکا کیوں پاکستان کے معاملے میں ''ماما'' بن کر ٹانگ اڑاتا ہے؟ عیاں تر احوال یہ ہے کہ امریکا کسی صورت پاکستان میں امن کی بحالی اور سیاسی استحکام کا خواہاں نہیں۔ حکیم اﷲ محسود کے واقعے کے بعد جس طرح سے حکومتی سیاسی جماعتوں نے ''قول'' کے دریا بہائے ہیں، اب ان پر عمل ملکی حالات کا تقاضا ہے۔

آج نیٹو سپلائی کی بندش پر زوروں کی بحث کا سلسلہ چل پڑا ہے۔ زرخیز ذہنوں سے صرف اتنا سا سوال ہے، کیا ہمیں اپنی ملکی سلامتی پر نیٹو سپلائی کی بحالی کو مقدم رکھنا چاہیے؟ اگر جواب نفی میں ہے، تو لایعنی قسم کے بیانات اور نقطہ ہائے نظر سے قوم کو حقیقی مسائل کی راہ سے نہ بھٹکائیں اور ڈرون حملوں کی بندش پر دلیرانہ فیصلہ کیا جائے۔ ایسا فیصلہ جو قوم کے دل کی آواز بھی ہو اور جس سے ہمارے مسائل کے حل کی رمق بھی نظر آئے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں