مذاکرات ناکام ٹرانسپورٹرز کی ہڑتال سے برآمدات کو 28 ارب روپے کا نقصان
درآمدی مال کی ترسیل فیکٹریوں تک بند ہونے کی وجہ سے صنعتوں میں پیداواری سرگرمیاں معطل ہوگئی ہیں
گڈز ٹرانسپورٹرز اور انتظامیہ کے مذاکرات ناکام ہوگئے، ہڑتال پانچویں روز میں داخل ہوگئی، چار روز کے دوران صرف برآمدی شعبے کو 28ارب روپے کا نقصان پہنچ چکا ہے۔
درآمدی مال کی ترسیل فیکٹریوں تک بند ہونے کی وجہ سے صنعتوں میں پیداواری سرگرمیاں معطل ہوگئی ہیں، بندرگاہوں پر کام بند ہوگیا، پورٹ کے احاطے میں کنٹینرز رکھنے کی جگہ ختم ہوگئی بیشتر برتھوں پر کنٹینرز کی بھرمار20سے زائد مال بردار بحری جہازوں کی آمدورفت کا شیڈول بری طرح متاثر ہوگیا جس کا تمام بوجھ پاکستان کی معیشت کو برداشت کرنا پڑے گا۔ کراچی چیمبر کے صدر عبداللہ ذکی،سائٹ ایسوسی ایشن کے چیئرمین یونس بشیر ، فروٹ ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن کے سابق چیئرمین وحید احمد اور دیگر نے ہڑتال کے خاتمے کے لیے حکومتی کوششوں کو مایوس کن قرار دیتے ہوئے ٹرانسپورٹرز سے ہڑتال ختم کرنے کی اپیل کی ہے۔ گڈر ٹرانسپورٹرز کی ہڑتال چوتھے روز بھی جاری رہی جبکہ درآمدی اور برآمدی کنٹینرز کی ترسیل رکے ہوئے چار روز گذر جانے کے باعث تجارتی نظام درہم برہم ہو گیا ہے جس میں مزید اضافے کا خدشہ ہے۔
ہفتے کو کمشنر کراچی اور الائنس کے درمیان ہونے والے مذاکرات کی ناکامی کے بعد سابق وفاقی وزیر برائے پورٹس اینڈ شپنگ بابر خان غوری نے گڈز ٹرانسپورٹرز سے رابطہ کیا ہے اور ان کے مسائل کے حل میں کردار ادا کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔ یونائیٹڈ گڈز ٹرانسپورٹرز کے خالد خان کے مطابق بابر خان غوری نے آگاہ کیا کہ ان کی وفاقی وزیر مملکت برائے تجارت خرم دستگیر خان سے گڈز ٹرانسپورٹرز کے مطالبات کے حوالے سے بات چیت ہوئی ہے اور وفاقی وزیر مملکت نے انہیں ہڑتالی ٹرانسپورٹرز کے مسائل کے جلد حل کی یقین دہانی کرائی ہے۔خالد خان کا کہنا ہے کہ وفاقی حکومت کی ٹھوس یقین دہانی اور مطالبات کی منظوری تک ہڑتال ہرگز ختم نہیں کی جائے گی کیونکہ گزشتہ برس بھی ان کے مسائل کے حل کی یقین دہانی کرائی تھی ،تاہم آج ایک سال گذر جانے کے بعد بھی گڈز ٹرانسپورٹرزکے مسائل جوں کے توں ہیں۔
خالد خان کا کہنا تھا کہ بھتہ مافیا سے نجات،پرچی سسٹم کے خاتمے،پولیس کی جانب سے بیگار کیلیے گاڑیاں اور کنٹینرز پکڑے جانے کے عمل کے خاتمے،جلی ہوئی گاڑیو ں کے معاوضے،نیشنل ہائی وے پر وزن کرنے والے کانٹوں کی زیادتیاں ختم کرنے،ٹریفک پولیس کے جرمانے اور دیگر مطالبات پورے ہونے تک ہڑتال جاری رہے گی اور اس کی تمام تر ذمے داری وفاقی حکومت پر عائد ہوتی ہے۔دوسری جانب گڈز ٹرانسپورٹرز کی ہڑتال کے باعث کراچی کی بندرگاہوں سے ملک بھر میں درآمدی و برآمدی کنٹینرز کی ترسیل مکمل طور پر رک گئی ہے اور معیشت کو اب تک 28ارب روپے کا نقصان پہنچنے کا احتمال ہے۔
کنٹینرز کی ترسیل رک جانے کے باعث فیکٹریوں میں خام مال کی بھی قلت پیدا ہوگئی ہے اور صنعتی سرگرمیوں میں کمی واقع ہورہی ہے،بندرگاہوں پر کنٹینرز جمع ہونے کے باعث درآمدی و برآمدی شپمنٹس لے کر آنے اور جانیو الے جہازوں کی آمد ورفت بھی شدید متاثر ہورہی ہے اور شپنگ کمپنیوں کو روزانہ ڈیمرج کی مد میں بھی بھاری نقصان اٹھانا پڑرہا ہے۔پورٹ ذرائع کا کہنا ہے کہ ہڑتال کے باعث 20سے زائد جہازوں کا شیڈول متاثر ہوا ہے جبکہ بعض کمپنیوںنے ہڑتال کے باعث شپمنٹس کو بیرون ملک ہی روک دیا ہے۔ دونوں بندرگاہوں پر یومیہ اجرت پر کام کرنیوالے 10ہزار سے زائد مزدور بھی چار روز سے بے روزگاری کا شکار ہیں جبکہ ٹرانسپورٹ سے جڑے دیگر کاروبار ورکشاپ، پنکچر، ایندھن اور آئل کے کاروبار بھی ٹھپ پڑے ہیں۔
درآمدی مال کی ترسیل فیکٹریوں تک بند ہونے کی وجہ سے صنعتوں میں پیداواری سرگرمیاں معطل ہوگئی ہیں، بندرگاہوں پر کام بند ہوگیا، پورٹ کے احاطے میں کنٹینرز رکھنے کی جگہ ختم ہوگئی بیشتر برتھوں پر کنٹینرز کی بھرمار20سے زائد مال بردار بحری جہازوں کی آمدورفت کا شیڈول بری طرح متاثر ہوگیا جس کا تمام بوجھ پاکستان کی معیشت کو برداشت کرنا پڑے گا۔ کراچی چیمبر کے صدر عبداللہ ذکی،سائٹ ایسوسی ایشن کے چیئرمین یونس بشیر ، فروٹ ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن کے سابق چیئرمین وحید احمد اور دیگر نے ہڑتال کے خاتمے کے لیے حکومتی کوششوں کو مایوس کن قرار دیتے ہوئے ٹرانسپورٹرز سے ہڑتال ختم کرنے کی اپیل کی ہے۔ گڈر ٹرانسپورٹرز کی ہڑتال چوتھے روز بھی جاری رہی جبکہ درآمدی اور برآمدی کنٹینرز کی ترسیل رکے ہوئے چار روز گذر جانے کے باعث تجارتی نظام درہم برہم ہو گیا ہے جس میں مزید اضافے کا خدشہ ہے۔
ہفتے کو کمشنر کراچی اور الائنس کے درمیان ہونے والے مذاکرات کی ناکامی کے بعد سابق وفاقی وزیر برائے پورٹس اینڈ شپنگ بابر خان غوری نے گڈز ٹرانسپورٹرز سے رابطہ کیا ہے اور ان کے مسائل کے حل میں کردار ادا کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔ یونائیٹڈ گڈز ٹرانسپورٹرز کے خالد خان کے مطابق بابر خان غوری نے آگاہ کیا کہ ان کی وفاقی وزیر مملکت برائے تجارت خرم دستگیر خان سے گڈز ٹرانسپورٹرز کے مطالبات کے حوالے سے بات چیت ہوئی ہے اور وفاقی وزیر مملکت نے انہیں ہڑتالی ٹرانسپورٹرز کے مسائل کے جلد حل کی یقین دہانی کرائی ہے۔خالد خان کا کہنا ہے کہ وفاقی حکومت کی ٹھوس یقین دہانی اور مطالبات کی منظوری تک ہڑتال ہرگز ختم نہیں کی جائے گی کیونکہ گزشتہ برس بھی ان کے مسائل کے حل کی یقین دہانی کرائی تھی ،تاہم آج ایک سال گذر جانے کے بعد بھی گڈز ٹرانسپورٹرزکے مسائل جوں کے توں ہیں۔
خالد خان کا کہنا تھا کہ بھتہ مافیا سے نجات،پرچی سسٹم کے خاتمے،پولیس کی جانب سے بیگار کیلیے گاڑیاں اور کنٹینرز پکڑے جانے کے عمل کے خاتمے،جلی ہوئی گاڑیو ں کے معاوضے،نیشنل ہائی وے پر وزن کرنے والے کانٹوں کی زیادتیاں ختم کرنے،ٹریفک پولیس کے جرمانے اور دیگر مطالبات پورے ہونے تک ہڑتال جاری رہے گی اور اس کی تمام تر ذمے داری وفاقی حکومت پر عائد ہوتی ہے۔دوسری جانب گڈز ٹرانسپورٹرز کی ہڑتال کے باعث کراچی کی بندرگاہوں سے ملک بھر میں درآمدی و برآمدی کنٹینرز کی ترسیل مکمل طور پر رک گئی ہے اور معیشت کو اب تک 28ارب روپے کا نقصان پہنچنے کا احتمال ہے۔
کنٹینرز کی ترسیل رک جانے کے باعث فیکٹریوں میں خام مال کی بھی قلت پیدا ہوگئی ہے اور صنعتی سرگرمیوں میں کمی واقع ہورہی ہے،بندرگاہوں پر کنٹینرز جمع ہونے کے باعث درآمدی و برآمدی شپمنٹس لے کر آنے اور جانیو الے جہازوں کی آمد ورفت بھی شدید متاثر ہورہی ہے اور شپنگ کمپنیوں کو روزانہ ڈیمرج کی مد میں بھی بھاری نقصان اٹھانا پڑرہا ہے۔پورٹ ذرائع کا کہنا ہے کہ ہڑتال کے باعث 20سے زائد جہازوں کا شیڈول متاثر ہوا ہے جبکہ بعض کمپنیوںنے ہڑتال کے باعث شپمنٹس کو بیرون ملک ہی روک دیا ہے۔ دونوں بندرگاہوں پر یومیہ اجرت پر کام کرنیوالے 10ہزار سے زائد مزدور بھی چار روز سے بے روزگاری کا شکار ہیں جبکہ ٹرانسپورٹ سے جڑے دیگر کاروبار ورکشاپ، پنکچر، ایندھن اور آئل کے کاروبار بھی ٹھپ پڑے ہیں۔