آواز دے کہاں ہے
ایک اڑتی سی خبر زبانی طہور کی آئی تھی کہ انھوں نے کہیں دور دیس میں جا کر آباد کاری کی کچھ سبیل کی ہے۔
نہ تو ہم گبر سنگھ ہیں اور نہ ہی ''کالیا'' ہمارا چاچے مامے کا بیٹا لگتا ہے کہ ہمیں اس کی فکر ہو کہ تیرا کیا بنے گا کالیا۔ بلکہ ساتھ ہی ''کھالیے'' کو بھی شامل کر لیجیے جس کی ''کھال'' بڑی بے مثال، مثل ٹیکسال آل ان آل کمال کی ہوتی ہے اور جس سے سکے، سقے، سکھے، لکھے سب بنتے ہیں، مطلب یہ ہے کہ نہ ہمیں ''کالیا'' کی کوئی فکر ہے نہ ''کھالیا'' کی لیکن پھر بھی اس کالیے کی فکر کبھی کبھی ستاتی تھی جس کے رہنے والے کھالیے اور کھال والے ہیں۔
خیر کسی حد تک تو جو کچھ بننا تھا وہ اس کا بن بھی چکا ہے لیکن پھر بھی کچھ ایسا ہے جس کی ہمیں فکر رہتی ہے۔ ان ہی ''چیزوں'' میں وہ بابا جی بھی ہیں یا تھے۔ جو ڈیموں سے لے کر ڈیم فولوں اور سوئی سے لے سوئی گیس تک کی فکر میں بری طرح مبتلا ہو گئے اور ساتھ ہی پورے ملک کو بھی مبتلا کر گئے کہ ہر طرف ابتلا ہی ابتلا دکھائی دے رہی تھی اور وہ ان کی مسیحائی کے مرتبے پر ''از خود'' فائز ہو گئے تھے بلکہ ہم جیسے خوش فہموں کو تو یہ غلط فہمی ہو گئی تھی کہ شاید وہ دن آنے والا ہے جس کا وعدہ ہے اور جو لوح ازل پہ لکھا ہے اور اسے لانے کے لیے وہ مسیحا آسمان سے اتر آیا ہے۔
لیکن پھر اچانک کیا ہو گیا، کیسے ہوا ،کب ہوا جو یہ غضب ہوا کہ وہ جیسے چمکے تھے ویسے غائب ہو گئے، نہ جانے جا کر کس افق میں ڈوب گئے کہ نہ خیر نہ خبر اور وہی خاموشی قبر، حالت صبر اور جبر ہی جبر بلکہ گبر ہی گبر۔ اس فنڈ کی بھی ہمیں کوئی چنتا نہیں کہ ایسے فنڈ کے فنڈے ہوتے رہتے ہیں اور فنڈوں کے انڈے ڈنڈے لے کر جھنڈوں کے سائے انھیں ''کیفرکردار'' تک پہنچا دیتے ہیں۔
ملانصیرالدین کے گھر خوانچہ کہیں سے بھی آئے کہیں بھی جائے ہمیں کیا؟ تمہیں کیا؟ اور اسے کیا؟۔ اگرکوئی فکر ہے تو یہی ہے کہ انھوں نے کہا بلکہ فرمایا تھا کہ ریٹائر ہونے کے بعد وہ ڈیموں کی چوکیداری کریں گے اور بہت ضروری اس لیے تھا کہ گزشتہ ستر سال سے ہم دھڑا دھڑ ڈیم بنا رہے ہیں اور ساتھ ہی فول بھی۔ لیکن پھر اچانک ''کون'' ان ڈیموں کو نیفے میں دبا کر چرا لے جاتا ہے، اب تک کالے پیلے نیلے اور رنگ رنگیلے تقریباً نو سو نناوے ڈیم تو ہم بنا چکے ہوں گے لیکن حاضر اسٹاک میں ایک دو کے سوا کوئی بھی موجود نہیں ہے۔ غالبؔ گمان جو یقین سے کم نہیں یہ ہے کہ وہ مشہور بیرونی ہاتھ ہی ان ڈیموں کو لے گیا ہو گا اور کہیں اونے پونے بیچ کھا گیا ہو گا۔
اس لیے باباجی نے جن ڈیموں کا منصوبہ لانچ کیا تھا اور اس اپنے حق حلال کی آدھی تنخواہ بھی مرحمت فرما دی تھی وہ یقیناً اب تک بن چکے ہوں گے اور ان کی چوکیداری کا مسئلہ سر پر کھڑا ہو گا لیکن چوکیدار؟ کچھ پتہ نہیں لگتا ہے کہ زمین کھا گئی یا آسمان نگل گیا۔ بلکہ اب تو ہمیں کچھ کچھ شبہ یہ ہونے لگا ہے کہ ڈیم چوروں نے ان کو کہیں غائب غلہ نہ کر دیا ہو۔ اللہ کرے دشمنوں کے منہ میں اور بیرونی ہاتھ کی مٹھی میں خاک ۔اگر ایسا ہو گیا ہو تو ہمارے ڈیموں کی چوکیداری کون کرے گا۔ کہ ایسا ''دیدہ ور'' کہیں ہزاروں سال میں پیدا ہوتا ہے جب نرگس رو رو کر تقریباً اندھی ہو چکی ہوتی ہے اور اس معیار پر صرف بابا جی ہی صحیح اترتے تھے کیونکہ تھوڑے ہی عرصے میں انھوں نے اپنی سرگرمیوں بلکہ منہ گرمیوں زبان گرمیوں سے ثابت کر دیا تھا کہ ہر کہیں پر ان کی نظر ہے، صرف ان مقامات پر ان کی نظر نہ تھی جو ان کے اپنے تھے باقی دوسرے تمام کونوں کھدروں میں وہ نظر بھی رکھتے تھے اور انگلی بھی کرتے تھے۔
ایک اڑتی سی خبر زبانی طہور کی آئی تھی کہ انھوں نے کہیں دور دیس میں جا کر آباد کاری کی کچھ سبیل کی ہے لیکن اس کی تصدیق کسی مصدقہ ذریعے سے نہیں ہو سکی تھی اس لیے فی الحال اسے غیر مصدقہ کے زمرے میں رکھا گیا ہے۔ خدا کرے وہ جہاں کہیں بھی ہوں خیریت سے ہوں کیونکہ ایسے دیدہ ور کسی کسی خوش نصیب قوم کو نصیب ہوتے ہیں جو اتنے ''مختصر'' عرصے میں اتنا ''بڑا'' کام سرانجام دے دیتے ہیں غالباً یہ ''ریاست مدینہ'' اور صادقوں امینیوں کی اصطلاح بھی ان ہی کی ایجاد ہے۔ وہ جو کہتے ہیں کہ۔ عجیب شخص تھا۔ مجھے تو حیراں کر گیا وہ۔ یہ الگ بات ہے کہ ایسی اچانک ''حیرانی'' کے بعد ''پریشانی'' کا پیدا ہونا لازمی ہے اور یہی پریشانی ہمیں پریشان و حیران کیے ہوئے ہے کہ آخر اتنا اچانک۔ پھر اچانک اور پھر اچانک؟
لائی حیات آئے قضا لے چلی چلے
اپنی خوشی سے آئے نہ اپنی خوشی چلے
ہم نے دو چار واقفان حال اور دانائے راز لوگوں سے پوچھا بھی کہ اس ''دشت'' میں جو اک شیر تھا وہ کیا ہوا۔ لیکن کسی نے کوئی تسلی بخش جواب نہیں دیا۔ بلکہ کوئی جواب دیتا ہی نہیں شاید،
تمام شہر ہی اس کی تلاش میں گم تھا
میں اس کے گھر کا پتہ کس سے پوچھتا یارو
اور اب ہمیں یہی ڈر ہے کہ کالیے اور کھالیے کو تو گولی ماریے، ڈیموں کا کیا بنے گا۔ ہمارے گاؤں میں ایک قصہ مشہور ہے کہ ایک شخص جو شادی کے ارمان لیے ہوئے کنوارا مر گیا تھا تو اس کا بڑا بھائی اس کے سرہانے رو رو کرکہتا تھا، ہائے میرے بھائی، میں تیری بیواؤں کا کیا کروں گا، کچھ تو بتا کر جاتے۔ سمجھ میں نہیں آیا؟ ہماری بھی نہیں آیا ہے، ایسی ہی کچھ باتیں ہوتی ہیں جو سجھ میں نہیں آتیں لیکن پھر بھی رلاتی یا ہنساتی ہیں۔ وہ ایک مشاعرے کے بعد ایک شاعر سے ایک شخص نے کہا، بہت اچھا بہت اچھا کہا ہے یہ تو پتہ نہیں کہ کیا کہا ہے؟ لیکن اچھا کہا ہے اور ساری بات یہی ہے کہ ہم صاحب ذوق اور سخن فہم لوگ ہیں۔ سمجھیں یا نہ سمجھیں اچھا کہنے پر ''داد'' بلکہ اکثر ''تخت وتاج'' بھی دے دیتے ہیں۔
مثال سامنے آن ایئر اور آن چئیر ہے۔ اس لیے اب اچھا کہنے والے بابا جی کو ''بھلا'' نہیں پا رہے ہیں جو شاید ہمیں بھول گئے ہیں۔ اپنے کہنے کو اور ا پنے سننے والوں کو بھی۔ مجبور ہو کر عوام سے رجوع کر رہے ہیں جنھیں سب کچھ پتہ ہوتا ہے یعنی پبلک سب جانتی ہے، ان چیزوں کا جو ہوتی ہیں اور ان چیزوں کا بھی جو نہیں ہوتیں بلکہ ان چیزوں کا سب سے زیادہ پتہ ہوتا ہے جو نہیں ہوتیں۔ اس لیے
اے تازہ واردان بساط ہوائے دل
اے ساکنان کوچہ دلدار دیکھنا
تم کو کہیں جو غالبؔ آشفتہ سر ملے
خیر کسی حد تک تو جو کچھ بننا تھا وہ اس کا بن بھی چکا ہے لیکن پھر بھی کچھ ایسا ہے جس کی ہمیں فکر رہتی ہے۔ ان ہی ''چیزوں'' میں وہ بابا جی بھی ہیں یا تھے۔ جو ڈیموں سے لے کر ڈیم فولوں اور سوئی سے لے سوئی گیس تک کی فکر میں بری طرح مبتلا ہو گئے اور ساتھ ہی پورے ملک کو بھی مبتلا کر گئے کہ ہر طرف ابتلا ہی ابتلا دکھائی دے رہی تھی اور وہ ان کی مسیحائی کے مرتبے پر ''از خود'' فائز ہو گئے تھے بلکہ ہم جیسے خوش فہموں کو تو یہ غلط فہمی ہو گئی تھی کہ شاید وہ دن آنے والا ہے جس کا وعدہ ہے اور جو لوح ازل پہ لکھا ہے اور اسے لانے کے لیے وہ مسیحا آسمان سے اتر آیا ہے۔
لیکن پھر اچانک کیا ہو گیا، کیسے ہوا ،کب ہوا جو یہ غضب ہوا کہ وہ جیسے چمکے تھے ویسے غائب ہو گئے، نہ جانے جا کر کس افق میں ڈوب گئے کہ نہ خیر نہ خبر اور وہی خاموشی قبر، حالت صبر اور جبر ہی جبر بلکہ گبر ہی گبر۔ اس فنڈ کی بھی ہمیں کوئی چنتا نہیں کہ ایسے فنڈ کے فنڈے ہوتے رہتے ہیں اور فنڈوں کے انڈے ڈنڈے لے کر جھنڈوں کے سائے انھیں ''کیفرکردار'' تک پہنچا دیتے ہیں۔
ملانصیرالدین کے گھر خوانچہ کہیں سے بھی آئے کہیں بھی جائے ہمیں کیا؟ تمہیں کیا؟ اور اسے کیا؟۔ اگرکوئی فکر ہے تو یہی ہے کہ انھوں نے کہا بلکہ فرمایا تھا کہ ریٹائر ہونے کے بعد وہ ڈیموں کی چوکیداری کریں گے اور بہت ضروری اس لیے تھا کہ گزشتہ ستر سال سے ہم دھڑا دھڑ ڈیم بنا رہے ہیں اور ساتھ ہی فول بھی۔ لیکن پھر اچانک ''کون'' ان ڈیموں کو نیفے میں دبا کر چرا لے جاتا ہے، اب تک کالے پیلے نیلے اور رنگ رنگیلے تقریباً نو سو نناوے ڈیم تو ہم بنا چکے ہوں گے لیکن حاضر اسٹاک میں ایک دو کے سوا کوئی بھی موجود نہیں ہے۔ غالبؔ گمان جو یقین سے کم نہیں یہ ہے کہ وہ مشہور بیرونی ہاتھ ہی ان ڈیموں کو لے گیا ہو گا اور کہیں اونے پونے بیچ کھا گیا ہو گا۔
اس لیے باباجی نے جن ڈیموں کا منصوبہ لانچ کیا تھا اور اس اپنے حق حلال کی آدھی تنخواہ بھی مرحمت فرما دی تھی وہ یقیناً اب تک بن چکے ہوں گے اور ان کی چوکیداری کا مسئلہ سر پر کھڑا ہو گا لیکن چوکیدار؟ کچھ پتہ نہیں لگتا ہے کہ زمین کھا گئی یا آسمان نگل گیا۔ بلکہ اب تو ہمیں کچھ کچھ شبہ یہ ہونے لگا ہے کہ ڈیم چوروں نے ان کو کہیں غائب غلہ نہ کر دیا ہو۔ اللہ کرے دشمنوں کے منہ میں اور بیرونی ہاتھ کی مٹھی میں خاک ۔اگر ایسا ہو گیا ہو تو ہمارے ڈیموں کی چوکیداری کون کرے گا۔ کہ ایسا ''دیدہ ور'' کہیں ہزاروں سال میں پیدا ہوتا ہے جب نرگس رو رو کر تقریباً اندھی ہو چکی ہوتی ہے اور اس معیار پر صرف بابا جی ہی صحیح اترتے تھے کیونکہ تھوڑے ہی عرصے میں انھوں نے اپنی سرگرمیوں بلکہ منہ گرمیوں زبان گرمیوں سے ثابت کر دیا تھا کہ ہر کہیں پر ان کی نظر ہے، صرف ان مقامات پر ان کی نظر نہ تھی جو ان کے اپنے تھے باقی دوسرے تمام کونوں کھدروں میں وہ نظر بھی رکھتے تھے اور انگلی بھی کرتے تھے۔
ایک اڑتی سی خبر زبانی طہور کی آئی تھی کہ انھوں نے کہیں دور دیس میں جا کر آباد کاری کی کچھ سبیل کی ہے لیکن اس کی تصدیق کسی مصدقہ ذریعے سے نہیں ہو سکی تھی اس لیے فی الحال اسے غیر مصدقہ کے زمرے میں رکھا گیا ہے۔ خدا کرے وہ جہاں کہیں بھی ہوں خیریت سے ہوں کیونکہ ایسے دیدہ ور کسی کسی خوش نصیب قوم کو نصیب ہوتے ہیں جو اتنے ''مختصر'' عرصے میں اتنا ''بڑا'' کام سرانجام دے دیتے ہیں غالباً یہ ''ریاست مدینہ'' اور صادقوں امینیوں کی اصطلاح بھی ان ہی کی ایجاد ہے۔ وہ جو کہتے ہیں کہ۔ عجیب شخص تھا۔ مجھے تو حیراں کر گیا وہ۔ یہ الگ بات ہے کہ ایسی اچانک ''حیرانی'' کے بعد ''پریشانی'' کا پیدا ہونا لازمی ہے اور یہی پریشانی ہمیں پریشان و حیران کیے ہوئے ہے کہ آخر اتنا اچانک۔ پھر اچانک اور پھر اچانک؟
لائی حیات آئے قضا لے چلی چلے
اپنی خوشی سے آئے نہ اپنی خوشی چلے
ہم نے دو چار واقفان حال اور دانائے راز لوگوں سے پوچھا بھی کہ اس ''دشت'' میں جو اک شیر تھا وہ کیا ہوا۔ لیکن کسی نے کوئی تسلی بخش جواب نہیں دیا۔ بلکہ کوئی جواب دیتا ہی نہیں شاید،
تمام شہر ہی اس کی تلاش میں گم تھا
میں اس کے گھر کا پتہ کس سے پوچھتا یارو
اور اب ہمیں یہی ڈر ہے کہ کالیے اور کھالیے کو تو گولی ماریے، ڈیموں کا کیا بنے گا۔ ہمارے گاؤں میں ایک قصہ مشہور ہے کہ ایک شخص جو شادی کے ارمان لیے ہوئے کنوارا مر گیا تھا تو اس کا بڑا بھائی اس کے سرہانے رو رو کرکہتا تھا، ہائے میرے بھائی، میں تیری بیواؤں کا کیا کروں گا، کچھ تو بتا کر جاتے۔ سمجھ میں نہیں آیا؟ ہماری بھی نہیں آیا ہے، ایسی ہی کچھ باتیں ہوتی ہیں جو سجھ میں نہیں آتیں لیکن پھر بھی رلاتی یا ہنساتی ہیں۔ وہ ایک مشاعرے کے بعد ایک شاعر سے ایک شخص نے کہا، بہت اچھا بہت اچھا کہا ہے یہ تو پتہ نہیں کہ کیا کہا ہے؟ لیکن اچھا کہا ہے اور ساری بات یہی ہے کہ ہم صاحب ذوق اور سخن فہم لوگ ہیں۔ سمجھیں یا نہ سمجھیں اچھا کہنے پر ''داد'' بلکہ اکثر ''تخت وتاج'' بھی دے دیتے ہیں۔
مثال سامنے آن ایئر اور آن چئیر ہے۔ اس لیے اب اچھا کہنے والے بابا جی کو ''بھلا'' نہیں پا رہے ہیں جو شاید ہمیں بھول گئے ہیں۔ اپنے کہنے کو اور ا پنے سننے والوں کو بھی۔ مجبور ہو کر عوام سے رجوع کر رہے ہیں جنھیں سب کچھ پتہ ہوتا ہے یعنی پبلک سب جانتی ہے، ان چیزوں کا جو ہوتی ہیں اور ان چیزوں کا بھی جو نہیں ہوتیں بلکہ ان چیزوں کا سب سے زیادہ پتہ ہوتا ہے جو نہیں ہوتیں۔ اس لیے
اے تازہ واردان بساط ہوائے دل
اے ساکنان کوچہ دلدار دیکھنا
تم کو کہیں جو غالبؔ آشفتہ سر ملے