سرمایہ داری کا کھیل

سرمایہ دارانہ نظام اپنے آپ کو اتھل پتھل کیے بغیر برقرار رکھ سکتا ہے اور نہ اپنی حیات کو طول دے سکتا ہے۔


Zuber Rehman January 15, 2020
[email protected]

سرمایہ دارانہ نظام اپنے آپ کو اتھل پتھل کیے بغیر برقرار رکھ سکتا ہے اور نہ اپنی حیات کو طول دے سکتا ہے۔ اس کا کام صرف اندرون ملک اپنے محنت کشوں ، پیداواری قوتوں اور شہریوں کا خون نچوڑنا ہی نہیں بلکہ دنیا کی معدنیات، جنگلات، آبی وسائل اور زراعت کو بھی ہتھیانا ہے۔

یہ کام ریاست کے وجود میں آنے کے بعد ہی شروع ہوا۔ سرمایہ داروں نے اپنے ایجنٹوں کے ذریعے دنیا بھر میں اپنی دھونس، دھمکی، خوف اور قتل عام کرکے مقامی آبادیوں کے وسائل پر ہلہ بول کر قبضہ کیا۔ پرتگال ، اسپین ، برطانیہ ، فرانس، بیلجیم اور اسکینڈے نیوین ممالک نے جنوبی اور شمالی امریکا، افریقہ، کینیڈا، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ پر دھاوا بول کر ان کے وسائل پر قبضہ کیا۔ اب امریکی اور برطانوی سامراج دنیا بھر پہ قبضہ اور قتل وغارت گری جاری رکھے ہوئے ہیں۔ امریکی سامراج بلاواسطہ اور بالواسطہ طور پر نوے سے زائد ملکوں میں مداخلت کرچکا ہے جس کے نتیجے میں اب تک ڈھائی کروڑ انسانوں کا قتل ہوا۔

اس وقت دنیا بھر میں ایک جانب اندرون ملک سرمایہ اور محنت کا تضاد ہے تو دوسری جانب عالمی سامراج اور جدید نوآبادیات کا تضاد عروج پہ ہے۔ امریکا ، روس، چین، فرانس وغیرہ مشرق وسطیٰ میں تیل کے مفادات کی وجہ سے مسلسل شام ، ایران ، یمن ، عراق ، لبنان اور لیبیا وغیرہ میں بلاواسطہ اور بالواسطہ مداخلت کر رہے ہیں۔

ادھر سعودی عرب نے نام نہاد اسلامی اتحاد جب کہ یہ سعودی امریکی اتحاد ہے جس کی عسکری سربراہی پاکستان کے سابق فوجی سربراہ جنرل راحیل شریف کر رہے ہیں تو دوسری طرف حوثی عسکری دھڑا اور جنوبی یمن کو ایران، روس اور چین کی حمایت حاصل ہے۔ شام میں امریکا، روس، ترکی اور ایران یہ سب براہ راست مداخلت کر رہے ہیں بلکہ یہاں ان سب کی افواج ایک دوسرے سے نبرد آزما ہیں۔

پہلے افغانستان سے امریکی سامراج پاکستان کے اندر آکر ڈرون حملہ کرتا تھا، پاکستان کی حکومت صرف مذمت پر ہی گزارا کرتی رہی۔ اب امریکی ڈرون نے بغداد پر حملہ کرکے میجر جنرل قاسم سلیمانی سمیت متعدد فوجی افسروں کو ہلاک کیا۔ عراق کے وزیراعظم عادل المہدی نے کہا کہ میجر جنرل قاسم سلیمانی کا قتل سیاسی ہے۔ انھوں نے کہا کہ سلیمانی کے قتل کیے جانے والے روز وہ ایران کا سعودی عرب کے لیے پیغام لے کر بغداد پہنچے تھے۔ اس میں بغداد کے ذریعے ایران کو بھیجے گئے سعودی پیغام کا جواب تھا۔

عادل عبدالمہدی نے بتایا کہ سعودی پیغام میں خطے اور دونوں ملکوں کے درمیان تناؤ کی کمی کے لیے تجاویز تھیں اور اس سلسلے میں جنرل سلیمانی سے حملے والے روز ملاقات طے تھی۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ خطے کا تناؤ امریکی سامراج ختم کرنے کے حق میں نہیں، اس لیے بغداد پر حملہ کیا۔ سلیمانی کے قتل پر روس، چین، ترکی، پاکستان، قطر اور یورپی ممالک کی کچھ حکومتوں نے بھی تشویش کا اظہار کیا۔ یہ تو رہا عالمی سامراجی قوتوں اور جدید نو آبادیوں کے تضادات۔ اب ایک نظر اندرون ملک سرمایہ اور محنت کا تضاد دیکھیں۔ پٹرول کی قیمت میں پچاس فیصد کا اضافہ کرنے سے مہنگائی اور بے روزگاری آسمان سے باتیں کرنے لگی ہیں۔

لاکھوں عوام تنگ دستی سے اکتا کر سڑکوں پہ نکل آئے۔ حکومت کے کئی وزرا پٹرول کی بڑھی ہوئی قیمت واپس لینے کے حق میں اسمبلی کا اجلاس بلانے جا رہے تھے۔ اسی دوران خامنہ ای کا یہ بیان آیا کہ تینوں اداروں مقننہ، عدلیہ اور انتظامیہ نے فیصلہ کیا ہے تو اس پر عمل درآمد ہونا چاہیے۔ اس بیان کے بعد پارلیمنٹ کے اجلاس کے ایجنڈے سے اس تحریک کو خارج کردیا۔ اس احتجاج میں کئی شہری مارے گئے اور ہزاروں کی گرفتاریاں ہوئیں۔ عراق میں بھی مہنگائی، بے روزگاری اور کرپشن سے بے حال عوام کا سمندر میدان میں امنڈ آیا۔ ان مسائل کے علاوہ عراق میں ایرانی مداخلت کے خلاف عوام بپھر گئے۔

ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق عراق دنیا کے پہلے بارہ کرپٹ ترین ممالک میں شامل ہے۔ عوام نے مہنگائی اور بے روزگاری کے خلاف جب زوردار آواز بلند کی تو عراقی حکمرانوں نے چند دنوں میں متعدد محنت کشوں، نوجوانوں اور شہریوں کو گولیوں سے چھلنی کردیا۔

ایران اور عراق بلکہ لبنان کے عوام بھی مذہبی، فرقہ واریت اور نسل پرستی سے بالاتر ہوکر اپنے مسائل پر اٹھ کھڑے ہوئے۔ لبنان اور عراق کے وزرا اعظم کو مستعفی ہونا پڑا۔ وقتی طور پہ حکمرانوں نے مار دھاڑ کرکے عوام کے ابھار کو روک تو دیا لیکن یہ لاوا اندر ہی اندر ابل رہا ہے۔ آیندہ کسی بھی وقت یہ لاوا حکمرانوں اور اس کے سرمایہ دارانہ نظام کو لے ڈوبے گا۔ یہ خرابیاں ٹرمپ، مودی، خامنہ ای، حریری، بورس، مہدی یا عمران کی نہیں بلکہ یہ ساری پیداوار عالمی سرمایہ دارانہ نظام کا ناگزیر نتیجہ ہے۔

ہندوستان میں کشمیر کے بعد شہریت کا بل پاس ہونے پر بھارت میں جو ہندو مسلم فسادات اور عوام کو مذہبی بنیاد پر تقسیم کرنے کی سازشیں رچائی گئی تھیں وہ اب دم توڑتی جا رہی ہیں۔ اب یہ جنگ دائیں اور بائیں بازو کی جنگ میں بدل رہی ہے۔ خاص کرکے جواہر لعل نہرو یونیورسٹی دلی میں آر ایس ایس اور بی جے پی کے غنڈوں کا طلبا پر تشدد ڈھانے کے خلاف نہ صرف سارا ہندوستان بلکہ ساری دنیا سڑکوں پہ امنڈ آئی ہے۔ کولکتہ سے دلی اور دلی سے ممبئی اور پھر لندن اور نیویارک تک یہ احتجاج پھیل گیا ہے۔ جواہر لعل یونیورسٹی کی طلبا یونین کمیونسٹ پارٹی کا گڑھ کہلا تا ہے۔ کنہیہ کمار اور عائشہ گھوش کا بھی یہیں سے تعلق ہے۔ ادھر گیارہ صوبوں کے وزرا اعلیٰ جن میں کمیونسٹ پارٹی کی حکومتیں بھی شامل ہیں اس بل کی منظوری سے انکار کردیا ہے۔

یہ عمل پاکستان میں پہلے شروع ہوا تھا۔ انیس سو چھپن کے آئین میں یہ فیصلہ ہوا کہ پاکستان کا نام جمہوریہ پاکستان کی بجائے اسلامی جمہوریہ پاکستان ہوگا اور یہاں کا صدر مسلمان ہوگا۔ جب کہ نیپال کی ہندو بادشاہت کے خلاف کمیونسٹوں نے بغاوت کی اور یہ ملک اب ایک سیکولر ملک بن گیا ہے۔

اس وقت یہاں کمیونسٹ پارٹی کی حکومت ہے۔ صدر، اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر سمیت اسمبلی میں تقریباً آدھی خواتین ہیں۔ بنگلہ دیش بھی عوامی جمہوریہ ہے اور ایک سیکولر ملک ہے۔ سیکولر کا مطلب یقینی طور پہ لادینی ہے مگر لادین فرد کے معنوں میں نہیں بلکہ عمل کے معنوں میں۔ کوئی استاد، وکیل یا ڈاکٹر اگر کسی کو پڑھاتا، مقدمہ لڑتا یا علاج کرتا ہے تو اس کا یہ عمل بلاامتیاز ہے۔ وہ ڈاکٹر سب کا علاج کرے گا خواہ وہ ہندو ہو، مسلمان ہو، کافر ہو یا یہودی۔ اس کا تعلق صرف علاج سے ہے نہ کہ مذہب سے۔ ٹرمپ ہوں یا مودی ان کی نسل پرستی اور مذہبی جنونیت فرد کی حیثیت سے نہیں بلکہ سرمایہ دارانہ نظام کی انحطاط پذیری کا ایک بد نما پھوڑا ہے۔ جو آج نہیں تو کل ایک کمیونسٹ سماج میں بدل کر عوام کی خوشحالی اور نسل انسانی کی خوش خبری بنے گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں