اتحادیوں کا بیک وقت اظہار ناراضگی غیر معمولی اور پر خطر ہے
اتحادی جماعتوں کی جانب سے اچانک ناراضگیوں کا اظہار محض اتفاق نہیں ہے۔
پاکستان مسلم لیگ(ق) کے سینئر رہنما اور وفاقی وزیر طارق بشیر چیمہ کو تمام سیاسی حلقے ایک سنجیدہ اور معتبر سیاستدان سمجھتے ہیں جبکہ ان کے بارے میں یہ تاثر بھی موجود ہے کہ جو بات چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری پرویز الہی خود نہ کہنا چاہتے ہوں، وہ بات طارق بشیر چیمہ کے ذریعے کہہ دی جاتی ہے۔
دو روز قبل ایک ٹی وی ٹاک شو میں ایم کیو ایم سمیت اتحادی جماعتوں کے حکومت کے ساتھ غیر تسلی بخش تعلقات بارے گفتگو کرتے ہوئے طارق بشیر چیمہ نے کہا ہے کہ ''پاکستان میں حالات بدلتے دیر نہیں لگتی''۔ مولانا فضل الرحمن کے دھرنے کے ''پر اسرار'' خاتمہ کے بعد ملک کے تمام باخبر حلقوں میں یہ سرگوشیاں سنائی دینا شروع ہو گئی تھیں کہ 2020 میں ایک بڑی حکومتی و سیاسی تبدیلی متوقع ہے، جب حکومتی وزراء مولانا صاحب کے دھرنے کو ناکام قرار دے رہے تھے تب مولانا فضل الرحمن نے غیر معمولی اعتماد اور معنی خیز مسکراہٹ کے ساتھ کہا تھا کہ آنے والا وقت بتائے گا کہ میں اسلام آباد سے خالی ہاتھ واپس نہیں آیا ہوں۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ مولانا فضل الرحمن کا دھرنا ختم کروانے کیلئے وزیرا عظم عمران خان کی جانب سے بنائی گئی کمیٹی ناکام ہوگئی تھی اور پھر''بادشاہ گروں''کی جانب سے چوہدری برادران کو یہ ذمہ داری سونپی گئی تھی جسے انہوں نے ہمیشہ کی طرح کامیابی سے سر انجام دیا ہے۔گزشتہ تین ماہ سے اپوزیشن کی جانب سے مسلسل یہ بیانات آرہے ہیں کہ 2020 تبدیلی کا سال ہے اور اس حوالے سے ''ان ہاوس'' تبدیلی کو زیادہ اہمیت دی جا رہی ہے۔
ایم کیو ایم کی سیاسی تاریخ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ اپنے فرمائش اور شرائط منوانے کیلئے ایم کیو ایم حکومت سے علیحدگی کا ہتھکنڈہ استعمال کرتی ہے اور پھر ''مک مکا'' کے بعد دوبارہ کابینہ میں بیٹھ جاتی ہے ، اس مرتبہ بھی خالد مقبول کی علیحدگی کو سیاسی اور صحافتی حلقے ماضی کے پس منظر میں ہی دیکھ رہے ہیں لیکن ایم کیو ایم اور جی ڈی اے کے فوری بعد اختر مینگل کی ناراض باتیں اور مسلم لیگ(ق) کی جانب سے بھی عدم اطمینان کا اظہار ایک غیر معمولی اور قابل توجہ سیاسی پیش رفت ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
پاکستان تحریک انصاف کی حکومت اتحادی بیساکھیوں کے سہارے قائم ہے اور اگر ایک بھی اتحادی الگ ہوا تو بوری میں ہونے والا سوراخ آہستہ آہستہ ساری بوری خالی کر دے گا۔ حکومت کا پہلا ایک سال ''ہنی مون'' پیریڈ تھا۔ابتدائی چند مہینوں تک اسٹیبشلمنٹ سمیت عوام بھی حکومت کو رعایت دے رہے تھے کہ پہلی مرتبہ حکومت ملی ہے لہذا سمجھنے اور ٹیم بنانے میں کچھ وقت لگے گا لیکن جوں جوں وقت گزرنے لگا اور حکومت استحکام کی بجائے بوکھلاہٹ اور کنفیوژن کی جانب بڑھتی چلی گئی تو سٹیک ہولڈرز کی رائے بھی بدلتی چلی گئی۔ عمران خان کے بارے میں سب جانتے ہیں کہ وہ بعض معاملات میں بلا جواز ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہیں اور بعض معاملات میں وہ ''FANTASY ''کا شکار ہو جاتے ہیں۔
اس وقت بھی وہ اسی ''نرگسیت'' کا شکار ہیں اور سمجھ رہے ہیں کہ پورا ملک ان کے شانہ بشانہ کھڑا ہے اور تحریک انصاف اس وقت عوامی مقبولیت کی بلند ترین سطح پر ہے، کپتان سمجھ رہے ہیں کہ ان کے بیانیہ کو عوام نے بے حد پسند کیا ہے لہذا آج بھی ان کی ہر تقریر کا مرکزی حصہ ''احتساب'' ہوتا ہے۔کپتان کو نہ تو خود سمجھ آرہی ہے اور نہ ہی کوئی انہیں سمجھا پا رہا ہے کہ پاکستان کی 72 سالہ تاریخ میں کوئی بھی حکومت عوام میں اسقدر غیر مقبول اور متنازعہ نہیں ہوئی ہے جتنا کہ ان کی حکومت ہو چکی ہے۔
اڈے پر مزدوری ملنے کے منتظر دیہاڑی دار مزدور، ٹھیلے والے، دیہات میں ''ہٹی'' والے سے یا پھر شہر کے گلی محلے والے دکاندار سے لیکر بڑے سے بڑے صنعتکار تک کسی سے بھی پوچھ لیں وہ پریشان اور معاشی طور پر عدم تحفظ کا شکار دکھائی دے گا۔ عام فرد کیلئے گھر چلانا مشکل ہو گیا ہے، حقیقی مہنگائی کو مصنوعی مہنگائی کی شمولیت نے مزید خطرناک اور تکلیف دہ بنادیا ہے ۔احتساب کے نام پر پیدا کی جانے والی خوف وہراس کی فضا اور ٹیکس نیٹ کو بڑھانے کی خاطر ہونے والے اقدامات نے معیشت کو منجمد کر دیا ہے۔ پاکستان کی وہ ہول سیل مارکیٹس جہاں پہلے خریداروں کا رش بھی دکھائی دیتا تھا اور مال بردار گاڑیوں کی آمدورفت سے سڑکیں بند دکھائی دیتی تھیں آج انہی مارکیٹس میں دکاندار پریشان ہیں کہ خرچہ پورا کیسے کرنا ہے۔گودام خالی ہیں۔ ریٹیل مارکیٹ کی صورتحال کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ درجنوں کی تعداد میں برانڈز نے اپنے سینکڑوں آوٹ لٹس بند کر دی ہیں۔
لاہور کے بڑے بڑے شاپنگ مالز میں جائیں تو دکانیں گاہکو ں سے خالی ہیں اور تمام رش فوڈ کورٹ میں ہی دکھائی دیتا ہے۔ اب اس تمام صورتحال کو حکومتی وزراء اور ترجمان چاہے جن مرضی دلائل اور الفاظ سے ''حکومت کے خلاف سازش'' اور''میڈیا کی جانبداری سے پیدا شدہ معاشی تاثر'' قرار دیں لیکن عام پاکستانی جو اس کرب اور اذیت سے گزر رہا ہے اسے بخوبی معلوم ہے کہ یہ سب حقیقت ہے۔
عام پاکستانی حکومت کے اس اعدادوشمار کے گورکھ دھندے سے بیزار ہے کہ کون کون سا عالمی ادارہ پاکستانی معیشت میں کتنے درجہ بہتری کے سرٹیفکیٹ دے رہا ہے،کرنٹ خسارہ کم کرنے کے حکومتی دعووں کے پس منظر میں درحقیقت امپورٹ کم ہونے کا حصہ کتنا ہے اور اس جیسی دوسری معاشی بھول بھلیوں میں پڑنے کی بجائے عام پاکستانی نے معیشت کی بہتری کا معیار یہ مقرر کر رکھا ہے کہ آیا اس کی موجودہ ماہانہ آمدن اس کے اخراجات کا بوجھ برداشت کرنے کے قابل ہے یا نہیں اور کیا فیکٹریوں، دفاتر اور مارکیٹس میں ملازمین کی ڈاون سائزنگ رک گئی ہے یا نہیں۔ جب اسے معلوم ہوتا ہے کہ 16 ماہ بعد اس کی آمدن سکڑ چکی ہے اور اخراجات کا بوجھ ناقابل برداشت ہو چکا ہے اور روزگار کے مواقع نہایت کم ہو چکے ہیں تب وہ حکومت کے معاشی بہتری کے دعووں پر عدم اعتماد کرتے ہوئے اس حکومت سے مزید نالاں اور دور ہو جاتا ہے۔
اتحادی جماعتوں کی جانب سے اچانک ناراضگیوں کا اظہار محض اتفاق نہیں ہے، یہ تو ممکن ہے کہ فوری طور پر حکومت کو کوئی خطرہ نہ ہو لیکن عمران خان نے نوشتہ دیوار کو پڑھ کر اقدامات نہ کیئے تو معاملات خراب ہو سکتے ہیں ۔ سیاست میں تبدیلی کا آغاز طاقتور دکھائی دینے والے کو دھیرے دھیرے کمزور کرنے سے ہوتا ہے اور پھر مناسب وقت پر ایک زوردار جھٹکے سے تخت کھینچ لیا جاتا ہے،شاید اتحادیوں کی یہ ناراضگیاں بھی آخری جھٹکے کی جانب پیش قدمی ہیں۔
دو روز قبل ایک ٹی وی ٹاک شو میں ایم کیو ایم سمیت اتحادی جماعتوں کے حکومت کے ساتھ غیر تسلی بخش تعلقات بارے گفتگو کرتے ہوئے طارق بشیر چیمہ نے کہا ہے کہ ''پاکستان میں حالات بدلتے دیر نہیں لگتی''۔ مولانا فضل الرحمن کے دھرنے کے ''پر اسرار'' خاتمہ کے بعد ملک کے تمام باخبر حلقوں میں یہ سرگوشیاں سنائی دینا شروع ہو گئی تھیں کہ 2020 میں ایک بڑی حکومتی و سیاسی تبدیلی متوقع ہے، جب حکومتی وزراء مولانا صاحب کے دھرنے کو ناکام قرار دے رہے تھے تب مولانا فضل الرحمن نے غیر معمولی اعتماد اور معنی خیز مسکراہٹ کے ساتھ کہا تھا کہ آنے والا وقت بتائے گا کہ میں اسلام آباد سے خالی ہاتھ واپس نہیں آیا ہوں۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ مولانا فضل الرحمن کا دھرنا ختم کروانے کیلئے وزیرا عظم عمران خان کی جانب سے بنائی گئی کمیٹی ناکام ہوگئی تھی اور پھر''بادشاہ گروں''کی جانب سے چوہدری برادران کو یہ ذمہ داری سونپی گئی تھی جسے انہوں نے ہمیشہ کی طرح کامیابی سے سر انجام دیا ہے۔گزشتہ تین ماہ سے اپوزیشن کی جانب سے مسلسل یہ بیانات آرہے ہیں کہ 2020 تبدیلی کا سال ہے اور اس حوالے سے ''ان ہاوس'' تبدیلی کو زیادہ اہمیت دی جا رہی ہے۔
ایم کیو ایم کی سیاسی تاریخ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ اپنے فرمائش اور شرائط منوانے کیلئے ایم کیو ایم حکومت سے علیحدگی کا ہتھکنڈہ استعمال کرتی ہے اور پھر ''مک مکا'' کے بعد دوبارہ کابینہ میں بیٹھ جاتی ہے ، اس مرتبہ بھی خالد مقبول کی علیحدگی کو سیاسی اور صحافتی حلقے ماضی کے پس منظر میں ہی دیکھ رہے ہیں لیکن ایم کیو ایم اور جی ڈی اے کے فوری بعد اختر مینگل کی ناراض باتیں اور مسلم لیگ(ق) کی جانب سے بھی عدم اطمینان کا اظہار ایک غیر معمولی اور قابل توجہ سیاسی پیش رفت ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
پاکستان تحریک انصاف کی حکومت اتحادی بیساکھیوں کے سہارے قائم ہے اور اگر ایک بھی اتحادی الگ ہوا تو بوری میں ہونے والا سوراخ آہستہ آہستہ ساری بوری خالی کر دے گا۔ حکومت کا پہلا ایک سال ''ہنی مون'' پیریڈ تھا۔ابتدائی چند مہینوں تک اسٹیبشلمنٹ سمیت عوام بھی حکومت کو رعایت دے رہے تھے کہ پہلی مرتبہ حکومت ملی ہے لہذا سمجھنے اور ٹیم بنانے میں کچھ وقت لگے گا لیکن جوں جوں وقت گزرنے لگا اور حکومت استحکام کی بجائے بوکھلاہٹ اور کنفیوژن کی جانب بڑھتی چلی گئی تو سٹیک ہولڈرز کی رائے بھی بدلتی چلی گئی۔ عمران خان کے بارے میں سب جانتے ہیں کہ وہ بعض معاملات میں بلا جواز ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہیں اور بعض معاملات میں وہ ''FANTASY ''کا شکار ہو جاتے ہیں۔
اس وقت بھی وہ اسی ''نرگسیت'' کا شکار ہیں اور سمجھ رہے ہیں کہ پورا ملک ان کے شانہ بشانہ کھڑا ہے اور تحریک انصاف اس وقت عوامی مقبولیت کی بلند ترین سطح پر ہے، کپتان سمجھ رہے ہیں کہ ان کے بیانیہ کو عوام نے بے حد پسند کیا ہے لہذا آج بھی ان کی ہر تقریر کا مرکزی حصہ ''احتساب'' ہوتا ہے۔کپتان کو نہ تو خود سمجھ آرہی ہے اور نہ ہی کوئی انہیں سمجھا پا رہا ہے کہ پاکستان کی 72 سالہ تاریخ میں کوئی بھی حکومت عوام میں اسقدر غیر مقبول اور متنازعہ نہیں ہوئی ہے جتنا کہ ان کی حکومت ہو چکی ہے۔
اڈے پر مزدوری ملنے کے منتظر دیہاڑی دار مزدور، ٹھیلے والے، دیہات میں ''ہٹی'' والے سے یا پھر شہر کے گلی محلے والے دکاندار سے لیکر بڑے سے بڑے صنعتکار تک کسی سے بھی پوچھ لیں وہ پریشان اور معاشی طور پر عدم تحفظ کا شکار دکھائی دے گا۔ عام فرد کیلئے گھر چلانا مشکل ہو گیا ہے، حقیقی مہنگائی کو مصنوعی مہنگائی کی شمولیت نے مزید خطرناک اور تکلیف دہ بنادیا ہے ۔احتساب کے نام پر پیدا کی جانے والی خوف وہراس کی فضا اور ٹیکس نیٹ کو بڑھانے کی خاطر ہونے والے اقدامات نے معیشت کو منجمد کر دیا ہے۔ پاکستان کی وہ ہول سیل مارکیٹس جہاں پہلے خریداروں کا رش بھی دکھائی دیتا تھا اور مال بردار گاڑیوں کی آمدورفت سے سڑکیں بند دکھائی دیتی تھیں آج انہی مارکیٹس میں دکاندار پریشان ہیں کہ خرچہ پورا کیسے کرنا ہے۔گودام خالی ہیں۔ ریٹیل مارکیٹ کی صورتحال کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ درجنوں کی تعداد میں برانڈز نے اپنے سینکڑوں آوٹ لٹس بند کر دی ہیں۔
لاہور کے بڑے بڑے شاپنگ مالز میں جائیں تو دکانیں گاہکو ں سے خالی ہیں اور تمام رش فوڈ کورٹ میں ہی دکھائی دیتا ہے۔ اب اس تمام صورتحال کو حکومتی وزراء اور ترجمان چاہے جن مرضی دلائل اور الفاظ سے ''حکومت کے خلاف سازش'' اور''میڈیا کی جانبداری سے پیدا شدہ معاشی تاثر'' قرار دیں لیکن عام پاکستانی جو اس کرب اور اذیت سے گزر رہا ہے اسے بخوبی معلوم ہے کہ یہ سب حقیقت ہے۔
عام پاکستانی حکومت کے اس اعدادوشمار کے گورکھ دھندے سے بیزار ہے کہ کون کون سا عالمی ادارہ پاکستانی معیشت میں کتنے درجہ بہتری کے سرٹیفکیٹ دے رہا ہے،کرنٹ خسارہ کم کرنے کے حکومتی دعووں کے پس منظر میں درحقیقت امپورٹ کم ہونے کا حصہ کتنا ہے اور اس جیسی دوسری معاشی بھول بھلیوں میں پڑنے کی بجائے عام پاکستانی نے معیشت کی بہتری کا معیار یہ مقرر کر رکھا ہے کہ آیا اس کی موجودہ ماہانہ آمدن اس کے اخراجات کا بوجھ برداشت کرنے کے قابل ہے یا نہیں اور کیا فیکٹریوں، دفاتر اور مارکیٹس میں ملازمین کی ڈاون سائزنگ رک گئی ہے یا نہیں۔ جب اسے معلوم ہوتا ہے کہ 16 ماہ بعد اس کی آمدن سکڑ چکی ہے اور اخراجات کا بوجھ ناقابل برداشت ہو چکا ہے اور روزگار کے مواقع نہایت کم ہو چکے ہیں تب وہ حکومت کے معاشی بہتری کے دعووں پر عدم اعتماد کرتے ہوئے اس حکومت سے مزید نالاں اور دور ہو جاتا ہے۔
اتحادی جماعتوں کی جانب سے اچانک ناراضگیوں کا اظہار محض اتفاق نہیں ہے، یہ تو ممکن ہے کہ فوری طور پر حکومت کو کوئی خطرہ نہ ہو لیکن عمران خان نے نوشتہ دیوار کو پڑھ کر اقدامات نہ کیئے تو معاملات خراب ہو سکتے ہیں ۔ سیاست میں تبدیلی کا آغاز طاقتور دکھائی دینے والے کو دھیرے دھیرے کمزور کرنے سے ہوتا ہے اور پھر مناسب وقت پر ایک زوردار جھٹکے سے تخت کھینچ لیا جاتا ہے،شاید اتحادیوں کی یہ ناراضگیاں بھی آخری جھٹکے کی جانب پیش قدمی ہیں۔