آرمی ایکٹ پر تقسیم کے بعد اپوزیشن کا متحد ہونا مشکل

اپوزیشن جماعتیں ایک مرتبہ پھر واپس اپنی،اپنی جگہ پر جاکھڑی ہوئی ہیں۔

اپوزیشن جماعتیں ایک مرتبہ پھر واپس اپنی،اپنی جگہ پر جاکھڑی ہوئی ہیں۔

آرمی ایکٹ کے معاملے پر پارلیمنٹ میں اپوزیشن جماعتوں کے مابین جو واضح تقسیم پیدا ہوئی اس کے بعد اپوزیشن جماعتوں کا رہبر کمیٹی یا کسی بھی دوسرے فورم پر اکٹھے چلنا ناممکن ہوگیا ہے کیونکہ اپوزیشن جماعتوں کی جو نئی صف بندی ہوئی ہے اس میں کچھ جماعتیں وہاں جا کر کھڑی ہوگئی ہیں کہ جہاں اس وقت حکومت کھڑی ہے جبکہ کچھ جماعتیں اپوزیشن کا فریضہ نبھانے پر تلی ہوئی ہیں، ان حالات میں مولانا فضل الرحمٰن کے آزادی مارچ اور اس کے نتیجے میں قائم ہونے والی رہبر کمیٹی بے معنی ہوکر رہ گئی ہے۔

بس رسمی طور پر اس کے خاتمے کا اعلان باقی ہے اور یہ اعلان بھی مولانا فضل الرحمٰن نے خود ہی میڈیا سے بات چیت میں یہ کہہ کر کردیا ہے کہ حکمرانوں کا سفینہ ڈبونے کی بجائے اپوزیشن نے اپنا سفینہ ڈبودیا، ان کی اس بات کے بعد یہ واضح ہوگیا ہے کہ اپوزیشن جماعتیں اب مل کر ساتھ نہیں چل سکتیں، رہی بات جے یوآئی کے احتجاج کے پلان سی کی تو یہ پلان سی ویسے بھی خانہ پری کے طور پر جاری ہے جس میں شامل تمام جماعتوں کی ضلعی قیادت اپنا بھرم قائم رکھنے کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ کھڑی ہے جن کے دور ہونے سے ویسے بھی کوئی خبر نہیں بننی اس لیے وہ کسی بھی وقت ایک دوسرے سے الگ ہو جائیں گی ۔

اپوزیشن جماعتوں نے عام انتخابات میں حصہ بھی اپنے ،اپنے طورپر لیا تھاحالانکہ انتخابات سے قبل اور انتخابات کے دوران بھی صورت حال واضح طور پر نظر آرہی تھی کہ پاکستان تحریک انصاف دیگر جماعتوں پر چڑھائی کرنے کے لیے تیار ہے اوراس کی اس چڑھائی کے نتیجے میں بہت کچھ روندھا جائے گا لیکن اس کے باوجود اپوزیشن جماعتیں ایک دوسرے کے ساتھ کھڑی نہ ہوئیں اور انہوں نے الگ ،الگ اپنے طور پر ہی انتخابات میں حصہ لینے کو ترجیح دی جس کا نتیجہ بڑا واضح طور پر نکلا کہ پاکستان تحریک انصاف نے ان جماعتوں سے بہت کچھ چھین لیا۔

مولانا فضل الرحمٰن اور اسفندیارولی خان نے عام انتخابات کے نتائج کو دیکھتے ہوئے ہی پارلیمان کا حصہ نہ بننے کی تجویز دی تھی تاہم ان کی بات کو مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی نے درخوء اعتنانہ سمجھا کیونکہ ان کے اپنے مفادات اورسیاست تھی تاہم اس کے باوجود جب مولانا فضل الرحمٰن آزادی مارچ کے لیے نکلے تو انہوں نے اپوزیشن جماعتوں کو اپنے ساتھ ملاتے ہوئے اپوزیشن کا اکٹھ کر لیا تاہم یہ اکٹھ بھی مصنوعی نظر آرہا تھا جس کا شیرازہ پارلیمان میں آکر بکھر گیا۔

اپوزیشن جماعتیں ایک مرتبہ پھر واپس اپنی،اپنی جگہ پر جاکھڑی ہوئی ہیں یہی وجہ ہے کہ مولانا فضل الرحمٰن جو آزادی مارچ سے قبل اپنے اور اپنی پارٹی کے بل بوتے پر پاکستان کے مختلف شہروں میں ملین مارچ منعقد کر رہے تھے ، انہوں نے فروری کے آغاز ہی میں پشاورمیں مدارس کانفرنس کا انعقاد کرنے کا فیصلہ کیا ہے جو ان کی جانب سے دوبارہ اپنی پرانی پوزیشن پر جانے اور وہاں پر رہتے ہوئے اپنے طور پر جدوجہد کرنے کا واضح اعلان ہے۔

مولانا فضل الرحمٰن کی پارٹی کے بعض ساتھی حقائق سے نظریں چراتے ہوئے اب بھی کچھ ہونے کے منتظر ہیں لیکن انھیں یہ حقیقت بخوبی جان لینی چاہیے کہ شاید ہی اب فوری طور پر کچھ ہو کیونکہ اگر کچھ ہونا ہوتا تو ہوچکا ہوتا لیکن اگر کچھ نہیں ہوا تو اس کا مطلب ہے کہ فی الحال کچھ ہونے کا امکان نہیں، اس لیے سیاسی جماعتوں کو اب پورا فوکس آنے والے بلدیاتی انتخابات اور اگلے مالی سال کے بجٹ پر ہی کرنا پڑے گا جو اس لیے بھی اہمیت کا حامل ہے کہ آئندہ مالی سال کے لیے بھی بجٹ ساتویں قومی مالیاتی ایوارڈ کے تحت ہی وسائل کی تقسیم کی بنیاد پر تیار کیا جائے گا۔


گوکہ اس حوالے سے خیبرپختونخوا کی جانب سے یہ تجویز ضرور موجود ہے کہ اگر نیا قومی مالیاتی ایوارڈ جاری کرنا ممکن نہیں تو2017ء میں ہونے والے مردم شماری کے اعدادوشمار کی بنیاد پر مرکز، صوبوں کا حصہ بڑھائے تاہم خیبرپختونخوا کی جانب سے دی جانے والی یہ تجویز بھی مرکز کے لیے قابل قبول نہیں ہوگی کیونکہ مرکز پہلے ہی اٹھارویں آئینی ترمیم کے نتیجے میں صوبوں کے وسائل میں اضافہ کو لیے بیٹھا ہے اور اس تاک میں ہے کہ کسی نہ کسی بہانے صوبوں سے یہ وسائل واپس لیتے ہوئے مرکز کا حصہ زیادہ کرے، تاہم یہ بات مرکزی حکومت بھی بخوبی جانتی ہے کہ صوبے کسی بھی طور اس بات پر تیار نہیں ہوں گے کہ وہ ساتویں قومی مالیاتی ایوارڈ کے تحت حاصل مالی وسائل میں اپنا حصہ کم کرتے ہوئے اسے واپس مرکز کی جھولی میں ڈال دیں اس لیے مرکز اس موقع پر جبکہ اب اگلے مالی سال کے بجٹ کے پیش ہونے میں چار ماہ ہی رہ گئے ہیں ،کیونکہ امکان ہے کہ مالی سال 2020-21ء کا بجٹ جون کی بجائے مئی کے مہینہ میں پیش ہوگا۔

کوئی نیا پنڈورا بکس نہیں کھولے گا۔اگر مرکز نے نئے قومی مالیاتی ایوارڈ کے اجراء کا معاملہ چھیڑا اوراس میں صوبوں سے مالی وسائل کی کٹوتی کی بات آئی تو سب سے پہلے سندھ چیخے گا جس کے بعد بلوچستان سے آواز اٹھے گی اور جب یہ دونوں صوبے اپنے حق کے لیے آواز اٹھائیں گے تو پھر پنجاب اور خیبرپختونخوا جہاں تحریک انصاف کی اپنی حکومتیں اور اپنے وزرائے اعلیٰ ہیں، وہ بھی اس میں پیچھے نہیں رہیں گے اور کمزور ہی سہی لیکن ان کی جانب سے بھی آواز ضرور اٹھائی جائے گی اس لیے قرائن یہی بتا رہے ہیں کہ صوبوں کو اگلے مالی سال کے دوران بھی ساتویں قومی مالیاتی ایوارڈ کے ساتھ ہی نبھا کرنا پڑے گا جس کے بعد ہی کوئی صورت نظر آئی تو آئی۔

مالی معاملات کے حوالے سے اس ایکٹویٹی کے ساتھ نئے بلدیاتی انتخابات کا بھی ڈول اس سال ڈالا جانا ہے، تاہم خیبرپختونخوا میں یہ انتخابات اس سال کے وسط سے قبل نظر نہیں آرہے کیونکہ صوبائی حکومت کی جانب سے قبائلی اضلاع میں بلدیاتی انتخابات کا ماحول بنانے کے لیے حال ہی میں بلدیاتی سفیروں کا تقرر کیا گیا ہے اور ان بلدیاتی سفیروں کو اس کام کے لیے چھ ماہ کا عرصہ دیاگیا ہے ۔

چونکہ خیبرپختونخوا حکومت کی خواہش ہے کہ صوبہ کے بندوبستی اور قبائلی اضلاع میں اکٹھے ہی بلدیاتی انتخابات کا انعقاد ہو اورساتھ ہی قبائلی اضلاع میں بلدیاتی انتخابات کے لیے ماحول بنانے کے لیے چھ ماہ کے لیے بلدیاتی سفیروں کا تقرر کیا گیا ہے اس لیے بظاہر تو یہی نظر آرہا ہے کہ سال کے وسط ہی میں بلدیاتی انتخابات کا انعقاد ہو پائے گا جو چار سال کے لیے ہوگا اور آئندہ عام انتخابات کے انعقاد کے وقت یہ بلدیاتی نظام تیسرے سال میں سانس لے رہا ہوگا جس کا حکمران پاکستان تحریک انصاف فائدہ اٹھانے کی کوشش کرے گی تاہم اس دوڑ میں اپوزیشن جماعتیں بھی کسی طور پیچھے نہیں رہیں گی اور وہ بھی میدان مارنے کی کوشش کریں گی، تاہم یہ بات بھی ایک حقیقت کے طور پر موجود ہے کہ اپوزیشن جماعتوں کو زیادہ سے زیادہ تحصیلوں کا کنٹرول اپنے ہاتھوں میں لینے کے لیے اتحاد بنانا ہی پڑے گا۔

اگر جمعیت علما اسلام ف، اے این پی، پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن اس حوالے سے ایک ہی صفحے پر آجاتی ہیں تو اس کا انھیں ضرور فائدہ ہوگا لیکن ان چاروں جماعتوں کو اس کے لیے اپنا دل بڑا کرنا پڑے گا۔اگر یہ جماعتیں کچھ لو،کچھ دوکے فارمولے پر متفق ہوگئیں تو اس کا فائدہ لیتے ہوئے وہ پی ٹی آئی کے لیے مشکلات پیدا کرسکتی ہیں بصورت دیگر تحریک انصاف جو مرکز میں بھی اقتدار میں ہے اور ساتھ ہی خیبرپختونخوا میں بھی، وہ ان اپوزیشن جماعتوں کو روندتی چلی جائے گی اور یہ جماعتیں ایک مرتبہ پھر خالی ہاتھ رہتے ہوئے نہ صرف ایک دوسرے کو کوسنے دیتی رہیں گی بلکہ ایک مرتبہ پھر پاکستان تحریک انصاف انھیں دشمن سیاسی جماعت کے روپ میں نظر آئے گی جس سے بچنے کے لیے اب سے اپوزیشن جماعتوں کو زمینی حقائق کو مد نظررکھتے ہوئے آپس میں گٹھ جوڑ کرنا ہوگا۔

اے این پی باچاخان اور ولی خان کی برسیوں کے سلسلے میں 20 سے26جنوری تک جلسوں کا انعقاد کرنے جا رہی ہے، اگر موسم نے اے این پی کو ان اجتماعات کے انعقاد کا موقع فراہم کردیا تو اس صورت میں اے این پی کے ہاتھ ایک سنہری موقع آرہا ہے کہ وہ آنے والے بلدیاتی انتخابات سے قبل پارٹی ورکروں کو پوری طرح متحرک کر لے ۔
Load Next Story