عزم جواں ہو تو معذوری روزگار میں رکاوٹ نہیں بن سکتی

ضلع دادو میں واقع چھوٹے سے چائے خانے کا مالک اور بیرے اس کی زندہ مثال ہیں

قوت گویائی و سماعت سے محروم یہ افراد بھیگ مانگ کر معاشرے پر بوجھ نہیں بنے ۔ فوٹو : ایکسپریس

عزم جواں ہو تو معذوری روزگار میں رکاوٹ نہیں بن سکتی، ضلع دادو میں واقع چھوٹے سے چائے خانے کا مالک اور بیرے اس کی زندہ مثال ہیں قوت گویائی و سماعت سے محروم یہ افراد بھیگ مانگ کر معاشرے پر بوجھ نہیں بنے۔

جہاں آئے دن مہنگائی، غربت اور بے روزگاری کی خبریں پاکستانی میڈیا کی زینت بنتی رہتی ہیں وہیں سندھ کے ضلع دادو میں واقع ایک چھوٹی سی چائے کی دکان نے یہ ثابت کردیاکہ اب بھی ایسے لوگ ہیں جو اپنے عمل کے ذریعے معاشرے میں مثبت تبدیلی لانا چاہتے ہیں اور اس کے لیے کوشاں بھی ہیں۔

ضلع دادو کی مہر تحصیل میں واقع یہ چائے خانہ جو گونگن جو اسٹاپ (یعنی گونگوں اور بہروں کا اسٹاپ) کے نام سے معروف ہے اس نے معذوری کا شکار افراد کو روزگار دے کر انوکھی مثال قائم کی ہے، جب آپ اس چائے خانہ میں داخل ہوتے ہیں تو آپ کو وہاں درجنوں ایسے افراد نظر آئیں گے جنہوں نے آلہ سماعت لگا رکھا ہوگا اور چائے کی چسکیاں لینے کے ساتھ ساتھ آپس میں اشاروں کی زبان میں گفتگو کررہے ہوں گے۔

حیران کن بات یہ کہ چائے خانہ کا مالک خود بھی قوت گویائی اور سماعت سے محروم ہے اور یہاں کام کرنے والے تمام افراد بھی نہ تو بول سکتے ہیں نہ ہی سن سکتے ہیں اسی لیے یہاں آنے والے زیادہ گر گاہک بھی ایسے افراد ہیں جو ان نعمتوں سے محروم ہیں۔

53 سالہ لال بخش بوگیو جو یہاں ویٹر ہے اور وہ اپنے بہن بھائیوں میں صرف اسی کی سماعت میں خرابی ہے، وہ 5 بچوں کا باپ ہے جو جسمانی طور پر نارمل اور اسکول جاتے ہیں۔

بوگیو نے معذوری کو بوجھ نہیں بننے دیا اور سڑکوں پر بھیک مانگنے کے بجائے پوری لگن کے ساتھ ٹی شاپ پر کام کرتا ہے، وہ اپنے کنبے کا واحد کفیل ہے۔


لال بخش بوگیو نے ایک ساتھی جو ترجمان کے فرائض انجام دے رہا تھا اسے غیر رسمی اشارے کی زبان میں بتایا کہ میری 2 بیٹیاں اور 3 بیٹے ہیں جو سب صحت مند ہیں اور وہ چائے کی دکان پر صبح 6 سے شام 3 بجے تک کام کرتے ہیں۔

اسی طرح میرل نامی ایک اور ویٹر جو 3 صحتمند بچوں کا باپ ہے انہوں نے بتایا اگرچہ وہ سننے سے قاصر ہے، لیکن وہ "ہونٹ پڑھنے" میں ماہر ہے، ہونٹوں ، چہرے اور زبان کی حرکات سے مدعا سمجھ لیتے ہیں۔

ایکسپریس ٹریبیون کو انٹرویو دیتے ہوئے میرل نے بغیر کسی مدد کے تمام سوالوں کے فوری اور درست جوابات دیے جب ان سے پوچھا گیا کہ چائے کی دکان سے وہ کتنا کماتا ہے تو اس نے 4انگلیاں دکھائیں، خدا کا شکر ادا کیا اور کہا، میں روزانہ 400 روپے کماتا ہوں۔

علاقے کے ایک زمیندار گدا حسین نے بتایا جمعہ کے روز قریب 100 بہرے اور گونگے لوگ اس چائے خانے پر آتے ہیں، ان لوگوں نے واٹس ایپ جیسی موبائل ایپلی کیشنز کے ذریعے بھی بات چیت کرنا شروع کردی ہے، چائے خانے کا مالک ذوالفقار اشاروں کی زبان کی مدد سے آرڈر دیتے ہوئے اپنی دکان کے استقبالیہ پر بیٹھا دن گزارتا ہے۔

مقامی لوگوں کے مطابق ذوالفقار نے اپنے کیریئر کا آغاز بطور ویٹر کسی اور ڈھابے میں کیا تھا لیکن بعد میں اس نے اپنا کاروبار شروع کیا، دکان میں نہ صرف بہرے اور گونگے بلکہ آس پاس کے دیہات سے دیگر لوگ بھی اکثر آتے ہیں۔ ذوالفقار نے اپنے کاروبار کے شیڈول کو اشاروں کی زبان میں بتایا کہ میں دوپہر 3 بجے دکان بند کردیتا ہوں۔

اس معاملے پر روشنی ڈالتے ہوئے معذور افراد کے لیے کام کرنے والی ایک تنظیم (این ڈی ایف) کے بانی عابد حسین لاشاری نے کہا کہ ابتدائی علاج معالجے سے معذور بچوں کو سننے میں مدد مل سکتی ہے۔

انہوں نے کہا اگر 10 سال سے کم عمر بچوں کی تھراپی کی جائے تو وہ قوت سماعت کو بہتر بنا سکتی ہے، علاج مہنگا ہے لیکن حکومت مخیر حضرات کے تعاون سے یہ کام کر سکتی ہے، سوائے کراچی کے صوبے میں کہیں بھی اسپیچ تھراپی کی سہولت موجود نہیں، مزید یہ کہ دیہی سندھ میں لوگوں کو اشاروں کی زبان سکھانے کے لیے کوئی اسکول بھی موجود نہیں، میری حکومت سے درخواست ہے کہ وہ اس پر غور کرے تاکہ مختلف صلاحیت رکھنے والے افراد معاشرے کے مفید شہری بن سکیں۔
Load Next Story