متضاد بلدیاتی قوانین الیکشن کمیشن حکام سر پکڑ کر بیٹھ گئے
پہلی مرتبہ الیکشن کمیشن کوبلدیاتی انتخابات کے انعقادمیں اپنی ذمے داریوں کوپوراکرنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔
صوبوں کے بلدیاتی قوانین الیکشن کمیشن کی جانب سے یکساں قانون سازی کی درخواستوں کے باوجود یکسرمختلف ثابت ہوئے جبکہ 3 صوبوں میں بلدیاتی الیکشن کاشیڈول جاری کرنے کے بعد بھی الیکشن کمیشن کمیشن کے حکام ان قوانین کوسمجھ نہ سکے۔
سندھ نے میئر،ڈپٹی مئیر، پنجاب نے چیئرمین وائس چیئرمین اوربلوچستان نے یونین کونسل چیئرمین اور ضلع چیئرمین کے نظام لانے کیلیے جنرل مشرف اور1979 کے بلدیاتی قوانین کوملا کر قوانین بنائے ہیں جسکے باعث الیکشن کمیشن کے حکام کی سمجھ میں نہیں آرہا کہ بیلٹ پیپرز کی چھپائی کس طرح شروع کی جائے،اس وقت 3صوبوں کی جانب سے 3متضاد بلدیاتی نظام وضع کیے گئے ہیں جبکہ خیبر پختونخوا کی حکومت کی جانب سے پہلے ہی واضح کیا جاچکاہے کہ تحریک انصاف کی حکومت ایک نیا بلدیاتی قانون دے گی،18 ویں ترمیم کی روشنی میں بلدیاتی قوانین بنانے کااختیار صوبوں اور انتخابات کا انعقاد الیکشن کمیشن کودیے جانے کے بعد ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ الیکشن کمیشن کوبلدیاتی انتخابات کے انعقادمیں اپنی ذمے داریوں کوپوراکرنے میں مشکلات سامنے آناشروع ہوگئے ہیں۔
الیکشن کمیشن نے 18ویں ترمیم کے بعدمتعدد بار صوبائی حکومتوں کولکھا تھا کہ صوبے بلدیاتی قوانین بنانے میں ایک دوسرے اور الیکشن کمیشن کے صوبائی حکام کیساتھ مشاورت کاعمل جاری رکھیں اورحتمی مسودے تک اس بات کاخیال رکھا جائے کہ قوانین میں اگر100فیصد یکسانیت ممکن نہ بھی ہو تو بنیادی چیزوں میں یکسانیت کاخیال رکھا جائے بالخصوص یونین کونسل میں کونسلزکی تعداد اور یہ کہ چیئرمین وائس چیئرمین یا میئر،ڈپٹی میئرہوں گے لیکن الیکشن کمیشن کو سندھ اور پنجاب کی جانب سے دیے گئے بلدیاتی لوکل گورنمنٹ ایکٹمیں یکسانیت کا فقدان واضح طور پر سامنے آیاہے جس کے باعث الیکشن کمیشن حکام پریشان بھی ہیں اوران کی سمجھ میں نہیں آ رہاکہ اس صورتحال سے سپریم کورٹ کے احکامات کی روشنی میں کس طرح نمٹاجائے۔
سندھ نے میئر،ڈپٹی مئیر، پنجاب نے چیئرمین وائس چیئرمین اوربلوچستان نے یونین کونسل چیئرمین اور ضلع چیئرمین کے نظام لانے کیلیے جنرل مشرف اور1979 کے بلدیاتی قوانین کوملا کر قوانین بنائے ہیں جسکے باعث الیکشن کمیشن کے حکام کی سمجھ میں نہیں آرہا کہ بیلٹ پیپرز کی چھپائی کس طرح شروع کی جائے،اس وقت 3صوبوں کی جانب سے 3متضاد بلدیاتی نظام وضع کیے گئے ہیں جبکہ خیبر پختونخوا کی حکومت کی جانب سے پہلے ہی واضح کیا جاچکاہے کہ تحریک انصاف کی حکومت ایک نیا بلدیاتی قانون دے گی،18 ویں ترمیم کی روشنی میں بلدیاتی قوانین بنانے کااختیار صوبوں اور انتخابات کا انعقاد الیکشن کمیشن کودیے جانے کے بعد ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ الیکشن کمیشن کوبلدیاتی انتخابات کے انعقادمیں اپنی ذمے داریوں کوپوراکرنے میں مشکلات سامنے آناشروع ہوگئے ہیں۔
الیکشن کمیشن نے 18ویں ترمیم کے بعدمتعدد بار صوبائی حکومتوں کولکھا تھا کہ صوبے بلدیاتی قوانین بنانے میں ایک دوسرے اور الیکشن کمیشن کے صوبائی حکام کیساتھ مشاورت کاعمل جاری رکھیں اورحتمی مسودے تک اس بات کاخیال رکھا جائے کہ قوانین میں اگر100فیصد یکسانیت ممکن نہ بھی ہو تو بنیادی چیزوں میں یکسانیت کاخیال رکھا جائے بالخصوص یونین کونسل میں کونسلزکی تعداد اور یہ کہ چیئرمین وائس چیئرمین یا میئر،ڈپٹی میئرہوں گے لیکن الیکشن کمیشن کو سندھ اور پنجاب کی جانب سے دیے گئے بلدیاتی لوکل گورنمنٹ ایکٹمیں یکسانیت کا فقدان واضح طور پر سامنے آیاہے جس کے باعث الیکشن کمیشن حکام پریشان بھی ہیں اوران کی سمجھ میں نہیں آ رہاکہ اس صورتحال سے سپریم کورٹ کے احکامات کی روشنی میں کس طرح نمٹاجائے۔