اور اب آرہا ہے ’’ہیومن اسکرینوم پروجیکٹ‘‘
ڈیجیٹل میڈیا استعمال کرنے کی عادات کے مدنظر، کسی بھی انسان کی شخصیت جان لینے کا دوسرا نام ’’اسکرینوم‘‘ ہے
روزمرہ زندگی میں اسمارٹ فون اور ٹیبلٹ کا استعمال بڑھتا جارہا ہے جنہیں ہم کم و بیش ہر چیز کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ لیکن جس طرح ہر انسان کا جینوم، دنیا میں تمام انسانوں سے مختلف ہوتا ہے، کیا اسی طرح اسمارٹ فون/ ٹیبلٹ کا استعمال بھی اتنا ہی منفرد ہوتا ہے کہ جسے بنیاد بناتے ہوئے اربوں انسانوں میں کسی ایک انسان کی شناخت کی جاسکے؟
اسٹینفرڈ یونیورسٹی اور پنسلوانیا اسٹیٹ یونیورسٹی سے وابستہ کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس سوال کا جواب ''ہاں'' میں ہے۔ جیسے کسی انسان کا جینوم بالکل منفرد ہوتا ہے، ٹھیک ویسے ہی ہر انسان کی شخصیت بھی دنیا کے باقی تمام انسانوں سے مختلف اور منفرد ہوتی ہے... جسے اس فرد کے ''اسکرینوم'' (Screenome) سے شناخت کیا جاسکتا ہے۔
یہ ''اسکرینوم'' کس بلا کا نام ہے؟ اس سے پہلے ٹیکنالوجی کے استعمال سے متعلق ایک سماجی اور نفسیاتی تجربے کا احوال جانتے چلیے۔
اسٹینفرڈ یونیورسٹی کے بائرن ریوز اور تھامس رابنسن، اور پنسلوانیا اسٹیٹ یونیورسٹی کی نیلم رام کی قیادت میں ماہرین اب تک 600 رضاکاروں کی مدد سے 30 ملین (تین کروڑ) ڈیٹا پوائنٹس جمع کرچکے ہیں جن کا تجزیہ کرنے کے بعد معلوم ہوا ہے کہ اسمارٹ فون/ ٹیبلٹ استعمال کرنے والے لوگ عموماً کسی ایک چیز پر بہت کم وقت، یعنی صرف 10 سے 20 سیکنڈ کےلیے ہی ٹھہرتے ہیں؛ جس کے بعد وہ کسی اور مواد کی طرف متوجہ ہوجاتے ہیں۔
انہوں نے یہ بھی دریافت کیا کہ اگر ایک طرف ڈیجیٹل میڈیا پر (سوشل میڈیا سمیت) انتہائی مختلف اور متنوع فیہ معلومات بکھری ہوئی ہیں تو دوسری طرف ان معلومات تک رسائی رکھنے والے افراد بھی اپنے مزاج میں بے حد عجیب و غریب واقع ہوئے ہیں۔
ماہرین کی اس ٹیم کو واضح طور پر اندازہ ہوا کہ اسمارٹ فون/ ٹیبلٹ کے استعمال کے حوالے سے ہر گھنٹے، ہر دن اور ہر ہفتے کے اعتبار سے ہر انسان کی شخصیت، دوسروں سے اس قدر مختلف اور منفرد ہوتی ہے کہ وہ صحیح معنوں میں ''اپنے جیسا خود'' ہوتا ہے۔
ایک ڈیجیٹل میڈیا صارف اپنے اسمارٹ فون یا ٹیبلٹ کے ذریعے اس قدر مختلف مواد دیکھتا ہے کہ پہلی نظر میں اس پورے ڈیٹا کا (جو اس نے دیکھا، سنا، اور پڑھا ہے) آپس میں کوئی ربط محسوس ہی نہیں ہوتا۔ البتہ، اگر ہم اس فرد کی شخصیت سے اور اس کی سوچ میں موجود تضادات سے واقف ہوں، تو ہم نہ صرف اس ڈیجیٹل میڈیا صارف کی طرح خود بھی اس بے ربط ڈیٹا کا آپس میں تعلق محسوس کرسکتے ہیں، بلکہ اسے استعمال کرتے ہوئے اس شخص کو لاکھوں کروڑوں لوگوں میں درست طور پر شناخت بھی کرسکتے ہیں۔
https://www.youtube.com/watch?v=GeJAkkXYIV8
لیکن سوال یہ ہے کہ آخر ہم کس طرح سے، انفرادی سطح پر، ایک شخص کو اتنی گہرائی سے جان سکتے ہیں اور اسے اتنی تفصیل سے سمجھ سکتے ہیں؟
اس کا ایک طریقہ ہے؛ اور وہ یہ کہ ہمیں اس کے استعمال میں رہنے والے اسمارٹ فون/ ٹیبلٹ اسکرین کے ذریعے ہر وقت اور مسلسل یہ پتا چلتا رہے کہ وہ کیا دیکھ رہا ہے۔ نتیجتاً ہم اس کی سات پردوں میں چھپی شخصیت کو بے نقاب کرسکیں گے اور، بالآخر، اسے لاکھوں کروڑوں لوگوں میں شناخت بھی کرسکیں گے۔
یہی وہ چیز ہے جسے ان ماہرین نے ''اسکرینوم'' (Screenome) کا نام دیا ہے۔ اپنی آسانی کےلیے یوں سمجھ لیجیے کہ ''اسکرینوم'' دراصل کسی بھی انسان کی عادات و اطوار، مزاج قماش، پسند ناپسند، اور شخصی تضادات تک کا وہ مجموعہ جو باقاعدگی سے اس کے استعمال میں رہنے والے اسمارٹ فون/ ٹیبلٹ اسکرین کا مسلسل اور طویل مدتی مشاہدہ کرنے کے بعد ہمارے سامنے آتا ہے۔ علاوہ ازیں یہ پورا مجموعہ، یعنی کسی انسان کا ''اسکرینوم'' بالکل اس کے جینوم، پروٹیوم، مائیکروبایوم، انٹریکٹوم، اور ان جیسے دوسرے ''اومز'' کی طرح دوسرے انسانوں سے منفرد ہوتا ہے؛ جس کا تجزیہ کرکے ہم اس انسان کو پہچان سکتے ہیں، چاہے وہ کوئی بھیس کیوں نہ بھر رکھا ہو۔
ان تمام باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اسٹینفرڈ یونیوسٹی اور پنسلوانیا اسٹیٹ یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے مشترکہ طور پر ''ہیومن اسکرینوم پروجیکٹ'' شروع کرنے کا اعلان کیا ہے جسے ہم 1990ء میں شروع کیے گئے ''ہیومن جینوم پروجیکٹ'' کی ''ڈیجیٹل اولاد'' بھی کہہ سکتے ہیں۔
2003ء میں مکمل ہونے والے ہیومن جینوم پروجیکٹ کی وجہ سے جس طرح ہمیں انسانوں کے بارے میں عالمی، گروہی، نسلی اور جغرافیائی بنیادوں وغیرہ پر بہت کچھ نیا جاننے کو ملا، ٹھیک اسی طرح ہیومن اسکرینوم پروجیکٹ کی تکمیل پر بھی ہمیں نوعِ انسانی کو، سوشل میڈیا سمیت، ڈیجیٹل میڈیا کے تناظر میں اجتماعی اور انفرادی طور پر سمجھنے کا ایک ایسا موقع ملے گا جو انسانی تاریخ میں اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔
ہیومن اسکرینوم پروجیکٹ کے تحت ایک ایپ بنائی جائے گی جسے دنیا بھر میں پھیلے ہوئے کروڑوں رضاکار اپنے اپنے اسمارٹ فونز/ ٹیبلٹس پر ڈاؤن لوڈ کریں گے۔ جب بھی فون/ ٹیبلٹ آن ہوگا، اس دوران یہ ایپ ہر 5 سیکنڈ بعد اسکرین شاٹ لے گی اور اسے فوراً پروجیکٹ سرور پر بھیج دے گی۔ یعنی یہ ہر منٹ میں 12، ہر گھنٹے میں 720، اور ہر دن میں 17,280 تک اسکرین شاٹس لے کر ہیومن اسکرینوم پروجیکٹ کے سرور کو ارسال کردے گی۔
اس ڈیٹا کو کھنگال کر انسانوں کا ایک اجتماعی ''ڈیجیٹل نقشہ'' ترتیب دیا جائے گا، جس میں الگ الگ مزاج اور ذہنی و جسمانی کیفیات رکھنے والے افراد کی نشاندہی کی جائے گی۔
اس منصوبے سے وابستہ ماہرین کا کہنا ہے کہ ہیومن اسکرینوم پروجیکٹ والی ایپ کے ذریعے، رضاکارانہ طور پر، اپنے اسکرین شاٹس شیئر کرنے والے صارفین کی شناخت پوشیدہ رکھی جائے گی اور ان کی خلوت (پرائیویسی) متاثر نہیں کی جائے گی۔
اس کے برعکس، ان ماہرین کا دعوی ہے کہ ہیومن اسکرینوم پروجیکٹ کی بدولت ہم صرف چند گھنٹوں پر محیط اسکرین شاٹس کے ذریعے کسی شخص کی ذہنی یا جسمانی تکلیف کا صحیح اندازہ لگا سکیں گے؛ جبکہ اس کا ''ذاتی اسکرینوم'' استعمال کرتے ہوئے اسے کچھ ایسے طبّی و نفسیاتی مشورے دیئے جاسکیں گے جو خاص اسی کےلیے سب سے زیادہ مفید بھی ہوں گے۔
دلچسپی کی بات یہ ہے کہ ہیومن اسکرینوم پروجیکٹ کا اعلان ہفت روزہ تحقیقی جریدے ''نیچر'' کے تازہ شمارے میں، ایک تبصرہ جاتی قسم کے ریسرچ پیپر کی شکل میں کیا گیا ہے۔
اسٹینفرڈ یونیورسٹی اور پنسلوانیا اسٹیٹ یونیورسٹی سے وابستہ کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس سوال کا جواب ''ہاں'' میں ہے۔ جیسے کسی انسان کا جینوم بالکل منفرد ہوتا ہے، ٹھیک ویسے ہی ہر انسان کی شخصیت بھی دنیا کے باقی تمام انسانوں سے مختلف اور منفرد ہوتی ہے... جسے اس فرد کے ''اسکرینوم'' (Screenome) سے شناخت کیا جاسکتا ہے۔
یہ ''اسکرینوم'' کس بلا کا نام ہے؟ اس سے پہلے ٹیکنالوجی کے استعمال سے متعلق ایک سماجی اور نفسیاتی تجربے کا احوال جانتے چلیے۔
اسٹینفرڈ یونیورسٹی کے بائرن ریوز اور تھامس رابنسن، اور پنسلوانیا اسٹیٹ یونیورسٹی کی نیلم رام کی قیادت میں ماہرین اب تک 600 رضاکاروں کی مدد سے 30 ملین (تین کروڑ) ڈیٹا پوائنٹس جمع کرچکے ہیں جن کا تجزیہ کرنے کے بعد معلوم ہوا ہے کہ اسمارٹ فون/ ٹیبلٹ استعمال کرنے والے لوگ عموماً کسی ایک چیز پر بہت کم وقت، یعنی صرف 10 سے 20 سیکنڈ کےلیے ہی ٹھہرتے ہیں؛ جس کے بعد وہ کسی اور مواد کی طرف متوجہ ہوجاتے ہیں۔
انہوں نے یہ بھی دریافت کیا کہ اگر ایک طرف ڈیجیٹل میڈیا پر (سوشل میڈیا سمیت) انتہائی مختلف اور متنوع فیہ معلومات بکھری ہوئی ہیں تو دوسری طرف ان معلومات تک رسائی رکھنے والے افراد بھی اپنے مزاج میں بے حد عجیب و غریب واقع ہوئے ہیں۔
ماہرین کی اس ٹیم کو واضح طور پر اندازہ ہوا کہ اسمارٹ فون/ ٹیبلٹ کے استعمال کے حوالے سے ہر گھنٹے، ہر دن اور ہر ہفتے کے اعتبار سے ہر انسان کی شخصیت، دوسروں سے اس قدر مختلف اور منفرد ہوتی ہے کہ وہ صحیح معنوں میں ''اپنے جیسا خود'' ہوتا ہے۔
ایک ڈیجیٹل میڈیا صارف اپنے اسمارٹ فون یا ٹیبلٹ کے ذریعے اس قدر مختلف مواد دیکھتا ہے کہ پہلی نظر میں اس پورے ڈیٹا کا (جو اس نے دیکھا، سنا، اور پڑھا ہے) آپس میں کوئی ربط محسوس ہی نہیں ہوتا۔ البتہ، اگر ہم اس فرد کی شخصیت سے اور اس کی سوچ میں موجود تضادات سے واقف ہوں، تو ہم نہ صرف اس ڈیجیٹل میڈیا صارف کی طرح خود بھی اس بے ربط ڈیٹا کا آپس میں تعلق محسوس کرسکتے ہیں، بلکہ اسے استعمال کرتے ہوئے اس شخص کو لاکھوں کروڑوں لوگوں میں درست طور پر شناخت بھی کرسکتے ہیں۔
https://www.youtube.com/watch?v=GeJAkkXYIV8
لیکن سوال یہ ہے کہ آخر ہم کس طرح سے، انفرادی سطح پر، ایک شخص کو اتنی گہرائی سے جان سکتے ہیں اور اسے اتنی تفصیل سے سمجھ سکتے ہیں؟
اس کا ایک طریقہ ہے؛ اور وہ یہ کہ ہمیں اس کے استعمال میں رہنے والے اسمارٹ فون/ ٹیبلٹ اسکرین کے ذریعے ہر وقت اور مسلسل یہ پتا چلتا رہے کہ وہ کیا دیکھ رہا ہے۔ نتیجتاً ہم اس کی سات پردوں میں چھپی شخصیت کو بے نقاب کرسکیں گے اور، بالآخر، اسے لاکھوں کروڑوں لوگوں میں شناخت بھی کرسکیں گے۔
یہی وہ چیز ہے جسے ان ماہرین نے ''اسکرینوم'' (Screenome) کا نام دیا ہے۔ اپنی آسانی کےلیے یوں سمجھ لیجیے کہ ''اسکرینوم'' دراصل کسی بھی انسان کی عادات و اطوار، مزاج قماش، پسند ناپسند، اور شخصی تضادات تک کا وہ مجموعہ جو باقاعدگی سے اس کے استعمال میں رہنے والے اسمارٹ فون/ ٹیبلٹ اسکرین کا مسلسل اور طویل مدتی مشاہدہ کرنے کے بعد ہمارے سامنے آتا ہے۔ علاوہ ازیں یہ پورا مجموعہ، یعنی کسی انسان کا ''اسکرینوم'' بالکل اس کے جینوم، پروٹیوم، مائیکروبایوم، انٹریکٹوم، اور ان جیسے دوسرے ''اومز'' کی طرح دوسرے انسانوں سے منفرد ہوتا ہے؛ جس کا تجزیہ کرکے ہم اس انسان کو پہچان سکتے ہیں، چاہے وہ کوئی بھیس کیوں نہ بھر رکھا ہو۔
ان تمام باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اسٹینفرڈ یونیوسٹی اور پنسلوانیا اسٹیٹ یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے مشترکہ طور پر ''ہیومن اسکرینوم پروجیکٹ'' شروع کرنے کا اعلان کیا ہے جسے ہم 1990ء میں شروع کیے گئے ''ہیومن جینوم پروجیکٹ'' کی ''ڈیجیٹل اولاد'' بھی کہہ سکتے ہیں۔
2003ء میں مکمل ہونے والے ہیومن جینوم پروجیکٹ کی وجہ سے جس طرح ہمیں انسانوں کے بارے میں عالمی، گروہی، نسلی اور جغرافیائی بنیادوں وغیرہ پر بہت کچھ نیا جاننے کو ملا، ٹھیک اسی طرح ہیومن اسکرینوم پروجیکٹ کی تکمیل پر بھی ہمیں نوعِ انسانی کو، سوشل میڈیا سمیت، ڈیجیٹل میڈیا کے تناظر میں اجتماعی اور انفرادی طور پر سمجھنے کا ایک ایسا موقع ملے گا جو انسانی تاریخ میں اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔
ہیومن اسکرینوم پروجیکٹ کے تحت ایک ایپ بنائی جائے گی جسے دنیا بھر میں پھیلے ہوئے کروڑوں رضاکار اپنے اپنے اسمارٹ فونز/ ٹیبلٹس پر ڈاؤن لوڈ کریں گے۔ جب بھی فون/ ٹیبلٹ آن ہوگا، اس دوران یہ ایپ ہر 5 سیکنڈ بعد اسکرین شاٹ لے گی اور اسے فوراً پروجیکٹ سرور پر بھیج دے گی۔ یعنی یہ ہر منٹ میں 12، ہر گھنٹے میں 720، اور ہر دن میں 17,280 تک اسکرین شاٹس لے کر ہیومن اسکرینوم پروجیکٹ کے سرور کو ارسال کردے گی۔
اس ڈیٹا کو کھنگال کر انسانوں کا ایک اجتماعی ''ڈیجیٹل نقشہ'' ترتیب دیا جائے گا، جس میں الگ الگ مزاج اور ذہنی و جسمانی کیفیات رکھنے والے افراد کی نشاندہی کی جائے گی۔
اس منصوبے سے وابستہ ماہرین کا کہنا ہے کہ ہیومن اسکرینوم پروجیکٹ والی ایپ کے ذریعے، رضاکارانہ طور پر، اپنے اسکرین شاٹس شیئر کرنے والے صارفین کی شناخت پوشیدہ رکھی جائے گی اور ان کی خلوت (پرائیویسی) متاثر نہیں کی جائے گی۔
اس کے برعکس، ان ماہرین کا دعوی ہے کہ ہیومن اسکرینوم پروجیکٹ کی بدولت ہم صرف چند گھنٹوں پر محیط اسکرین شاٹس کے ذریعے کسی شخص کی ذہنی یا جسمانی تکلیف کا صحیح اندازہ لگا سکیں گے؛ جبکہ اس کا ''ذاتی اسکرینوم'' استعمال کرتے ہوئے اسے کچھ ایسے طبّی و نفسیاتی مشورے دیئے جاسکیں گے جو خاص اسی کےلیے سب سے زیادہ مفید بھی ہوں گے۔
دلچسپی کی بات یہ ہے کہ ہیومن اسکرینوم پروجیکٹ کا اعلان ہفت روزہ تحقیقی جریدے ''نیچر'' کے تازہ شمارے میں، ایک تبصرہ جاتی قسم کے ریسرچ پیپر کی شکل میں کیا گیا ہے۔