سیاستدان ہیں یا نقب چی
ہماری پارلیمان میں سب ہی نقب چی ہیں، آرمی ایکٹ کی آڑ میں بھی انہیں نیا نقب لگانے کا سنہرا موقع ہاتھ لگا ہے
نیا سال شروع ہوتے ہی ٹریفک جرمانوں میں ہوشربا اضافہ کردیا گیا، سب سے زیادہ ہوش اڑانے والا جرمانہ یو ٹرن کا تھا، شاید اسی لیے اب کوئی بھولے سے اس کا نام بھی نہیں لے رہا۔ حالاںکہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں بہت بڑا یو ٹرن آرمی ترمیمی ایکٹ کےلیے پارلیمان میں لیا جاچکا ہے۔ لیکن اس کے باوجود ہر طرف ہُو کا عالم ہے۔
پیپلز پارٹی تو آصف علی زرداری کی قیادت میں اینٹ سے اینٹ بجانے کے بعد دھیمی چال چلنے کی عادی ہو گئی ہے، کوئی سخت بات کہنا مقصود ہو تو بلاول زرداری کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں، جنہوں نے سلیکٹڈ اور سلیکٹرز کی خوب گردان کیے رکھی۔ کبھی کبھی لگتا تھا کہ جیسے اس بت میں بھی جان پڑگئی ہے اور یہ خود سے بولنے لگا ہے، لوگ اس کو سننے لگے تھے۔ میں نے کئی دفعہ لوگوں کو چینل گھمانے کی مشق کے دوران بلاول زرداری پر رکتے دیکھا، جیسے وہ اس کے اندر کچھ ڈھونڈ رہے ہوں۔ رکتے تو بی بی شہید کی محبت میں تھے مگر بوریا زرداری کا اٹھایا دیکھتے تو آگے چل پڑتے۔ واضح رہے یہ صورتحال پنجاب کی ہے، جہاں تین دفعہ وزیراعظم بننے کا اعزاز پانے والے نواز شریف بھی یہی کام اپنی دختر سے لیتے رہے تاکہ کوئی بات زیادہ ناگوار گزرے تو بچوں کی نادانی پر ڈال کر رفع دفع کر دی جائے۔
کچھ عرصہ پاکستان کے سیاسی خانوادوں کے یہ ہونہار جانشین ایک ہی دھن پر راگ الاپتے رہے، ایک دوسرے پر وارے نیارے بھی جاتے رہے اور اپنے اپنے خانوادے پر پڑنے والی مصیبتوں کا غصہ عجیب ڈھنگ سے نکالتے رہے۔ نون لیگ سے توقع البتہ زیادہ باندھ لی گئی۔ کیوں کہ دختر نیک اختر کو والد محترم نے ایک بڑا ہی دل نشین بیانیہ تشہیر کےلیے تھما دیا تھا۔ بھولے عوام اس کے سحر میں مبتلا ہونے لگے، اس بیٹی میں کوئی مسیحا نظر آنے لگا جس کا مطمع نظر ہر دیسی بیٹی کی طرح اول تا آخر باپ کی پریشانیوں سے گلوخلاصی تھی۔ دیکھ لیجئے جب سے باپ نے لندن فلیٹس کے در و دیوار کی مہک پاکر ہر غم سے خلاصی پائی ہے، بیٹی بھی شانت ہے۔ اپنے سحر میں جکڑے بھولے عوام آزاد کرکے اب وہ انہی درودیوار کی مہک میں مزید اضافہ کرنے کےلیے بے تاب ہیں۔ کتنے ہی بھولے ہوتے ہیں وہ لوگ جو مارے شرم کے خودکشی تک کرلیتے ہیں۔
اینٹی اسٹیبلشمنٹ پیپلز پارٹی ہو یا سول بالادستی کے علم بردار نون لیگ، دونوں کا شرم سے لینا دینا اس لیے نہیں کہ انہوں نے ملکی مفاد میں اور اداروں کی ساکھ بحال رکھنے کی خاطر یہ کڑوا گھونٹ پیا۔ بالکل اسی طرح جب نون لیگ ہی کے دور میں 22 ویں آئینی ترمیم کے ذریعے پارلیمان نے فوجی عدالتوں کے قیام کی منظوری دی تھی، بھولے عوام پے در پے تجربات کے بعد ''ملکی مفاد'' کا مطلب خوب جان گئے ہیں۔ حقیقی ملکی مفاد اور ادارے کی ساکھ کا تو تقاضا یہ تھا کہ اپوزیشن کی بڑی دونوں جماعتیں اپنے باغیانہ موقف پر قائم رہیتں۔ اس موقف پر قائم رہنے کا انہیں چونکہ فوری طور پر کوئی فائدہ نہ ہوتا، اس لیے انہوں نے اپنے مفاد (عرف ملکی مفاد) کو ترجیح دی اور افواج پاکستان کے ترمیمی ایکٹ کو بغیر بحث کیے بڑی سرعت کے ساتھ پاس کردیا۔
اب ذرا چند لمحے توقف کرکے ٹھنڈے دماغ سے سوچیے، ادارے کی ساکھ سربراہ کی مدت ملازمت میں توسیع سے جڑی ہے یا اس روایت کے خاتمے سے۔ پاکستان کے مایہ ناز اور پیشہ ور فوجی ادارے میں اگر کوئی موہوم سے سقم پایا جاتا ہے تو وہ یہی توسیع ہے۔ پاک فوج اپنے اندر کسی بھی سقم کو حتی الوسع پیدا نہیں ہونے دیتی۔ لیکن انسانی اجتماع کا کوئی بھی ادارہ چونکہ سقم سے محفوظ نہیں رہ سکتا اس لیے اس کا پیدا ہونا فطری امر ہے۔ تاہم ہماری فوج اسے دور کرنے کےلیے سول اداروں کی مرہون منت نہیں۔ لہٰذا یہی وجہ ہے کہ ہم ہر بڑی پریشانی میں فوج ہی کی طرف دیکھتے ہیں۔ مگر مذکورہ موہوم سا واحد سقم ہے جو بہرحال سول ہاتھوں سے ہی دور ہونا تھا۔ مگر ہماری سول بالادستی کی علمبردار پیپلز پارٹی اور نون لیگ نے یہ موقع ملکی مفاد میں ضائع کردیا۔
مدت ملازمت میں توسیع ادارے کے ضعف کی چغلی کھاتی ہے۔ ایک خوف اور خدشے کا نتیجہ ہے کہ شاید نیا سربراہ مطلوبہ نتائج نہ دے پائے گا۔ جب کہ ہمارا ماننا ہے کہ ہماری فوج دنیا کی بہترین افواج میں سے ایک ہے اور اس کا ہر کمانڈر یکساں صلاحتیوں سے لیس ہے۔ پارلیمان میں توسیع کا معاملہ زیر بحث آنا پرانے لطیفے کے ان کرنل صاحب کی طرح تھا جو کنویں میں گرگئے۔ جب جوان رسے کے ذریعے انہیں کنارے تک لے آتے اور ان کا چہرہ دیکھتے تو رسہ چھوڑ کر سیلوٹ مار دیتے۔ کرنل صاحب پھر واپس کنویں میں گر جاتے۔ اس مشق لاحاصل کے بعد وہ کرنل صاحب چلانے لگے ''کسی سویلین کو بلاؤ، کسی سویلین کو بلاؤ''۔
لیکن افسوس ہماری پارلیمان میں کوئی بھی سویلین نہیں۔ سب ہی نقب چی ہیں۔ آرمی ایکٹ کی آڑ میں بھی انہیں نیا نقب لگانے کا سنہرا موقع ہاتھ لگا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب حکومت کے اتحادی بھی انگڑائیاں لینے لگے ہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
پیپلز پارٹی تو آصف علی زرداری کی قیادت میں اینٹ سے اینٹ بجانے کے بعد دھیمی چال چلنے کی عادی ہو گئی ہے، کوئی سخت بات کہنا مقصود ہو تو بلاول زرداری کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں، جنہوں نے سلیکٹڈ اور سلیکٹرز کی خوب گردان کیے رکھی۔ کبھی کبھی لگتا تھا کہ جیسے اس بت میں بھی جان پڑگئی ہے اور یہ خود سے بولنے لگا ہے، لوگ اس کو سننے لگے تھے۔ میں نے کئی دفعہ لوگوں کو چینل گھمانے کی مشق کے دوران بلاول زرداری پر رکتے دیکھا، جیسے وہ اس کے اندر کچھ ڈھونڈ رہے ہوں۔ رکتے تو بی بی شہید کی محبت میں تھے مگر بوریا زرداری کا اٹھایا دیکھتے تو آگے چل پڑتے۔ واضح رہے یہ صورتحال پنجاب کی ہے، جہاں تین دفعہ وزیراعظم بننے کا اعزاز پانے والے نواز شریف بھی یہی کام اپنی دختر سے لیتے رہے تاکہ کوئی بات زیادہ ناگوار گزرے تو بچوں کی نادانی پر ڈال کر رفع دفع کر دی جائے۔
کچھ عرصہ پاکستان کے سیاسی خانوادوں کے یہ ہونہار جانشین ایک ہی دھن پر راگ الاپتے رہے، ایک دوسرے پر وارے نیارے بھی جاتے رہے اور اپنے اپنے خانوادے پر پڑنے والی مصیبتوں کا غصہ عجیب ڈھنگ سے نکالتے رہے۔ نون لیگ سے توقع البتہ زیادہ باندھ لی گئی۔ کیوں کہ دختر نیک اختر کو والد محترم نے ایک بڑا ہی دل نشین بیانیہ تشہیر کےلیے تھما دیا تھا۔ بھولے عوام اس کے سحر میں مبتلا ہونے لگے، اس بیٹی میں کوئی مسیحا نظر آنے لگا جس کا مطمع نظر ہر دیسی بیٹی کی طرح اول تا آخر باپ کی پریشانیوں سے گلوخلاصی تھی۔ دیکھ لیجئے جب سے باپ نے لندن فلیٹس کے در و دیوار کی مہک پاکر ہر غم سے خلاصی پائی ہے، بیٹی بھی شانت ہے۔ اپنے سحر میں جکڑے بھولے عوام آزاد کرکے اب وہ انہی درودیوار کی مہک میں مزید اضافہ کرنے کےلیے بے تاب ہیں۔ کتنے ہی بھولے ہوتے ہیں وہ لوگ جو مارے شرم کے خودکشی تک کرلیتے ہیں۔
اینٹی اسٹیبلشمنٹ پیپلز پارٹی ہو یا سول بالادستی کے علم بردار نون لیگ، دونوں کا شرم سے لینا دینا اس لیے نہیں کہ انہوں نے ملکی مفاد میں اور اداروں کی ساکھ بحال رکھنے کی خاطر یہ کڑوا گھونٹ پیا۔ بالکل اسی طرح جب نون لیگ ہی کے دور میں 22 ویں آئینی ترمیم کے ذریعے پارلیمان نے فوجی عدالتوں کے قیام کی منظوری دی تھی، بھولے عوام پے در پے تجربات کے بعد ''ملکی مفاد'' کا مطلب خوب جان گئے ہیں۔ حقیقی ملکی مفاد اور ادارے کی ساکھ کا تو تقاضا یہ تھا کہ اپوزیشن کی بڑی دونوں جماعتیں اپنے باغیانہ موقف پر قائم رہیتں۔ اس موقف پر قائم رہنے کا انہیں چونکہ فوری طور پر کوئی فائدہ نہ ہوتا، اس لیے انہوں نے اپنے مفاد (عرف ملکی مفاد) کو ترجیح دی اور افواج پاکستان کے ترمیمی ایکٹ کو بغیر بحث کیے بڑی سرعت کے ساتھ پاس کردیا۔
اب ذرا چند لمحے توقف کرکے ٹھنڈے دماغ سے سوچیے، ادارے کی ساکھ سربراہ کی مدت ملازمت میں توسیع سے جڑی ہے یا اس روایت کے خاتمے سے۔ پاکستان کے مایہ ناز اور پیشہ ور فوجی ادارے میں اگر کوئی موہوم سے سقم پایا جاتا ہے تو وہ یہی توسیع ہے۔ پاک فوج اپنے اندر کسی بھی سقم کو حتی الوسع پیدا نہیں ہونے دیتی۔ لیکن انسانی اجتماع کا کوئی بھی ادارہ چونکہ سقم سے محفوظ نہیں رہ سکتا اس لیے اس کا پیدا ہونا فطری امر ہے۔ تاہم ہماری فوج اسے دور کرنے کےلیے سول اداروں کی مرہون منت نہیں۔ لہٰذا یہی وجہ ہے کہ ہم ہر بڑی پریشانی میں فوج ہی کی طرف دیکھتے ہیں۔ مگر مذکورہ موہوم سا واحد سقم ہے جو بہرحال سول ہاتھوں سے ہی دور ہونا تھا۔ مگر ہماری سول بالادستی کی علمبردار پیپلز پارٹی اور نون لیگ نے یہ موقع ملکی مفاد میں ضائع کردیا۔
مدت ملازمت میں توسیع ادارے کے ضعف کی چغلی کھاتی ہے۔ ایک خوف اور خدشے کا نتیجہ ہے کہ شاید نیا سربراہ مطلوبہ نتائج نہ دے پائے گا۔ جب کہ ہمارا ماننا ہے کہ ہماری فوج دنیا کی بہترین افواج میں سے ایک ہے اور اس کا ہر کمانڈر یکساں صلاحتیوں سے لیس ہے۔ پارلیمان میں توسیع کا معاملہ زیر بحث آنا پرانے لطیفے کے ان کرنل صاحب کی طرح تھا جو کنویں میں گرگئے۔ جب جوان رسے کے ذریعے انہیں کنارے تک لے آتے اور ان کا چہرہ دیکھتے تو رسہ چھوڑ کر سیلوٹ مار دیتے۔ کرنل صاحب پھر واپس کنویں میں گر جاتے۔ اس مشق لاحاصل کے بعد وہ کرنل صاحب چلانے لگے ''کسی سویلین کو بلاؤ، کسی سویلین کو بلاؤ''۔
لیکن افسوس ہماری پارلیمان میں کوئی بھی سویلین نہیں۔ سب ہی نقب چی ہیں۔ آرمی ایکٹ کی آڑ میں بھی انہیں نیا نقب لگانے کا سنہرا موقع ہاتھ لگا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب حکومت کے اتحادی بھی انگڑائیاں لینے لگے ہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔